• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ حقیقت تو آغاز اپریل کے ساتھ ہی واضح ہونے لگی تھی کہ ٹرمپ انتظامیہ پاکستان پر مزید دبائو بڑھانے کیلئے بیک ڈور ملاقاتوں اور خاموش ڈپلومیسی کے ساتھ ساتھ پبلک ڈپلومیسی کے اقدامات میں دو طرفہ یکساں سلوک کا جواز بنا کر جو نیا اقدام کرنے والی ہے وہ امریکہ میں پاکستانی سفارت کاروں کی نقل و حرکت پر پابندیاں عائد کرنا ہے۔ بلکہ پاکستان کا ردعمل جاننے، پاکستان کے عالمی امیج کو متاثر کرنے اور پاکستان پر دبائو میں مزید اضافہ کرنے کے مقاصد کے تحت امریکی حکومت کے سرکاری فیصلہ سے قبل ہی میڈیا کو خبریں ’لیک‘ بھی کی گئیں۔ لیکن قربان جائیں اسلام آباد کے فیصلہ سازوں اور ترجمانوں کی جوابی حکمت عملی کے کہ وہ صرف ان خبروں کی تردید کرتے رہے کہ امریکی حکومت کی جانب سے اس بارے میں کوئی سرکاری اطلاع امریکہ نے اسلام آباد کو نہیں بھیجیں، صرف چند روز میں اسلام آباد کے ان ترجمانوں کے اس مضحکہ خیز بیان کی اپنے عوام سے حقائق چھپانے کی کوشش کی اصلیت بھی سامنے آ گئی اور اب یکم مئی سے امریکہ میں تعینات سفارت کاروں کو 40کلومیٹر کے دائرے میں سفر کی اجازت ہو گی اگر اس دائرہ سے باہر جانا ہو تو امریکی حکومت کو اطلاع اور ان کی اجازت کی ضرورت ہو گی۔ پاکستان کے خلاف امریکی پابندیوں کی تاریخ اور تفصیل الگ ہے۔ اس کیلئے امریکہ سے شکوہ درست لیکن پاکستان کے ان حکمرانوں کی ذمہ داری کہاں گئی جنہوں نے اپنے اقتدار کے حصول اور طوالت،مالی مفادات کی خاطر پاکستان اور اسکے عوام کو ذاتی جاگیر سمجھتے ہوئے یہ تمام فیصلے کئے اور یہ حکمت عملی اپنائی۔
ملکی اور عالمی تعلقات کے بارے میں ہماری تاریخ گواہ ہے کہ جب کبھی پاکستان کو کسی بحرانی کیفیت یا مشکل حالات کا سامنا ہوا۔ ہمارے حکمرانوں اور ان کے ترجمانوں نے پاکستان کو ذائی جائیداد سمجھ کر ہمیشہ حقائق کو عوام سے چھپایا۔ ہمارے قومی نقصانات اور تلخ حقائق بارے غیر پاکستانی میڈیا اور ذرائع نے ہم پاکستانیوں کو حقائق سے مطلع کیا۔ ایوب خان کے دس سالہ دور حکمرانی سے لیکر آج تک کا ریکارڈ اور تفصیل خاصی طویل ہے۔ بطور مثال پشاور کے قریب خفیہ امریکی ائر بیس بڈا بیر سے امریکی جاسوس طیارہ کی پرواز اور جاسوسی کی اطلاع ہمیں روسی وزیر اعظم خرو شیف کی اس عالمی شہرت یافتہ دھمکی سے ملی کہ روس نے پشاور پر سرخ نشان لگا دیا ہے اور پشاور کو صفحہ ہستی سے مٹا دے گا۔ جواب میں پاکستانی حکمراں فیلڈ مارشل ایوب خان اور ان کے ترجمانوں کی خاموشی ریکارڈ پر ہے۔ پاکستانی عوام ہکا بکا اور انپے وطن کی سرزمین بارے بے خبری کا ماتم کر کے بیٹھ گئے۔
1962میں رن کچھ کے علاقے میں پاک۔ بھارت جنگ1965کی پاک،بھارت اور1971کی پاک بھارت جنگ ہو یا مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش میں تبدیل کرنے کی سازش، امریکہ سے خفیہ معاہدے جو وقت اور حالات کی زد میں آ کر سامنے آئے، پاکستانی سرزمین سے افغانستان میں داخلے کے لئے موجودہ امریکی وزیر دفاع جنرل جیمس میٹس کی سربراہی میں خفیہ داخلہ کی امریکی میرین دستوں کو پسنی کے ذریعے لینڈنگ اور افغانستان جانے کی مراعات، امریکی وزیر خارجہ جنرل کولن پائول کی فون کال پر تمام مذاکراتی، سفارتی عسکری اور عوامی مشوروں کے ’’ہتھیار‘‘ ڈال کر اپنے اقتدار کی خاطر امریکی آرڈرز کی مکمل تعمیل کا زبانی فیصلہ، جیکب آباد کے ائر بیس اور پاکستان کی فضائی سرحدوں کی حوالگی محض چند عملی مثالیں ہیں۔ پاکستان میں اگلے چند ماہ میں ہونے والے عوامی انتخابات کے حوالے سے مختلف سیاسی جماعتوں کے قائدین کہاں کہاں اور کن غیر ملکی عناصر کے در پہ آشیر باد مالی اور سیاسی تعاون کے حصول کیلئے ملک اور بیرون ملک کس طرح مصروف مہم ہیں پاکستانی ووٹرز سے یہ حقیقت بھی پوشیدہ رکھی جا رہی ہے۔ اسی تناظر میں امریکہ میں پاکستانی سفارت کاروں پر پابندیوں کا معاملہ پاک۔ امریکہ تعلقات اور پاکستان کےعالمی امیج کیلئے اہم موضوع اور مسئلہ ہو تو ہو لیکن پاکستانی فیصلہ سازوں اور اسلام آباد کے ترجمانوں کیلئے یہ مسئلہ معمول کے واقعات اور تعلقات کے اتار چڑھائو سے زیادہ نظر نہیں آتا۔ خدا کرے میرے یہ خدشات غلط ثابت ہوں۔یہ درست کہ خفیہ معاہدے مختلف ممالک کے درمیان ان کی حکومتیں ہی کرتی ہیں لیکن ملک و قوم کے مفاد اور نام پر کئے گئے ان خفیہ معاہدوں کی توثیق و منظوری ڈکٹیٹر حکمراں نہیں عوامی پارلمینٹ یا نمائندہ کرتے ہیں ،خوشامدی وزیر مشیر کی کابینہ بھی نہیں۔
امریکیوں کا کہنا ہے کہ پاکستان نے امریکی سفارت کاروں پر فاٹا کے علاقوں اور کراچی میں سفر کرنے پر ایسی ہی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں جس کے جواب میں دو طرفہ یکساں تعلقات کی بنیاد پر امریکہ پاکستانی سفارت کاروں پر یہ پابند عائد کر رہا ہے۔
کیا نیویارک ،شکاگو ،ہیوسٹن اور لاس اینجلس میں واقع پاکستانی قونصلیٹ جنرل بھی ان پابندیوں کے تحت ہوں گے؟ واضح نہیں ۔
پاکستانی ترجمانوں کا کہنا ہے کہ دراصل فاٹا اور کراچی کی سیکورٹی صورتحال کے باعث پاکستان نے ایساکیا تھا تاکہ امریکی سفارت کاروں کو سفر کے دوران ان علاقوں میں سیکورٹی فراہم کی جا سکے۔ امریکی ریاست ٹیکساس کے برابر رقبہ والے ملک پاکستان کے مقابلے میں50 ریاستوں پر مشتمل امریکہ میں واشنگٹن میں قائم پاکستانی سفارت خانہ اور چار قونصلیٹس کو وسیع و عریض امریکہ بھر میں پھیلے پاکستانیوں کے لئے خدمات انجام دینے کے علاوہ دو طرفہ تعلقات اور سفارت کاری کیلئے سفر کرنا پڑتا ہے۔ میری معلومات کے مطابق صرف نیویارک کے پاکستانی قونصلیٹ جنرل کو10سے زائد امریکی ریاستوں میں پاکستانی شہریوں کیلئے قونصلر سروسز فراہم کرنا پڑتی ہیں۔ جس میں پاسپورٹ، پاور آف اٹارنی، پاکستانی شہری کی گرفتاری اور سزا سمیت جیلوں میں ملاقات، کمرشل معاملات، زیر تعلیم طلبہ کے امور اور دیگر ذمہ داریاں ادا کرنا ہوتی ہیں ،اسی طرح ہیوسٹن لاس اینجلس اور شکاگو کے پاکستانی قونصل خانےبھی کئی کئی امریکی ریاستوں اور طویل فاصلوں تک دائرہ اختیار رکھتے ہیں۔ شکاگو میں پاکستانی قونصل جنرل فیصل ترمذی گزشتہ روز کنساس اور دیگر نواحی ریاستوں میں ملاقاتیں کرتے نظر آئے جو شکاگو سے40کلومیٹر سے کہیں زیادہ فاصلے پر ہے۔
نیویارک میں قونصل جنرل راجہ علی اعجاز ،میسا چوسٹسخ نیوہیمپاشار اور دیگر ریاستوں میں اپنی منصبی ذمہ داریوں کیلئے طویل سفر کرتے رہتے ہیں۔ لہٰذا ان پابندیوں سے امریکی اجازت اور تاخیر کا سامنا بھی ہو گا۔ ابھی تو یہ بھی واضح ہونا باقی ہے کہ کیا اقوام متحدہ نیویارک میں متعین پاکستانی سفارت کاروں کو بھی امریکی سرزمین پر نقل و حرکت کرتے وقت 40کلومیٹر کے دائرے کی پابندی کرنا ہوگی؟ یا پھر وہ اقوام نیویارک سے متعلق ہونے کے باعث میزبان ملک امریکہ اور اقوام متحدہ کے درمیان طے شدہ ضابطوں کے تحت سفر کے مجاز ہوں گے؟ مختصر یہ کہ امریکہ میں پاکستانی سفارت کاروں پر یہ پابندی خواہ علامتی، دو طرفہ حکومت اقدامات اور معمولی قرار دی جائے۔ اس سے تعلقات کا منفی امیج اور عالمی و سفارتی سطح پر ناخوشگوار تاثر ابھرتا ہے۔ حقیقت یہ کہ ملا فضل اللہ کی مشرقی افغانستان میں پناہ، ریمنڈ ڈیوس، کیس، خفیہ امریکی آپریشن ایبٹ آباد اور سلالہ چیک پوسٹ پر امریکہ حملہ کے واقعات سے پاک،امریکہ تعلقات میں کشیدگی کا جو ریلا آیا وہ ابھی تک نہیں رکا۔ بھارت سے بڑھتے ہوئے اسٹرٹیجک تعلقات سےعوامی اور عملی طور پر اس کشیدگی اور دوری میں مزید تیزی آ گئی۔5جنوری 2018کو دو ارب ڈالرز کی پاکستان کیلئے امریکہ کی سیکورٹی امداد کو معطل کرنے کے ساتھ ساتھ جو شرائط اور امریکی مطالبات سامنے آئے وہ دونوں ملکوں کے موقف میں مزید تلخی اور اختلافات کا باعث بنے۔ عالمی سپر پاور امریکہ کی خطے میں تبدیل شدہ ترجیحات کے مطابق پاک ،امریکہ تعلقات کا رنگ بھی تبدیل ہوتا چلا گیا۔ قیام پاکستان کے ٹھیک 66دن بعد امریکہ نے20اکتوبر 1947کو پاکستان کو تسلیم کر کے جن خوشگوار تعلقات کا آغاز کیا تھا اور 1950میں تین روزہ سرکاری دورہ امریکہ کرنے والے پاکستانی وزیر اعظم لیاقت علی مرحوم کو 8سے زائد امریکی شہروں کا دورہ کرنے کے بعد30مئی تک امریکہ قیام کے بعد رخصت کیا تھا۔1980کے عشرے میں ’’خفیہ‘‘ ’’آپریشن سائیکلون‘‘ کو پاکستان میں جہاد افعانستان کا عوامی نام دیکر جنوبی اور سینٹرل ایشیا میں سوویت یونین کی شکست کیلئے پاک ،امریکی تعاون سے قبل بھی کمیونزم کے خلاف معاہدہ سیٹو ،سینٹو میں ایک دوسرے کے ساتھ نتھی رہنے والے پاکستان اور امریکہ تعلقات کا سب سے بڑا مخالف بھارت آج امریکہ سے اتحادی تعلقات پر نازاں ہے۔ ری پبلکن امریکی صدر نکسن کے دورہ چین کا خفیہ گرائونڈ ورک اور چین سے امریکی تعلقات کی کھڑکی بھی پاکستان نے کھولی تھی ۔پھر سانحہ 11ستمبر 2001کے بعد دہشت گردی اور افغانسان کے حوالے سے مشرف دور میں جن خفیہ اور عوامی پاک ،امریکہ تعلقات کا آغاز کر کے پاکستان کو نیٹو ممالک سے باہر امریکہ کا سب سے اہم اتحادی کا درجہ دیا گیا۔ سینکڑوں پاکستانی شہریوں کو دہشت گرد ہونے کے الزام میں مطلوب ہونے پر کسی بھی عدالتی کارروائی کے بغیر امریکہ کے حوالے کر دیا گیا اور پاک امریکہ تعلقات کو مثالی اور دیرپا قرار دیا گیا۔ اب بدلتے حالات اور مفادات کے باعث تعلقات کشیدگی، الزامات و مطالبات اور سفارت کاروں کی نقل و حرکت پر پابندیوں کی تلخ سطح تک آ گئے ہیں۔
پاکستانی سفارت کاروں پر امریکہ میں پابندیوں کے اعلان کے ساتھ ہی یکم مئی سے اطلاق سے قبل امریکی اسسٹنٹ سیکرٹری برائے جنوبی ایشیا ایلس ویلز پھر پاکستان کا دورہ کر رہی ہیں۔ ڈپلو میسی اور ڈنڈا کارفرما ہے۔ فی الحال امریکی اصول ’’گاجر اور ڈنڈا‘‘ پاکستان کے لئے معطل ہے۔ اور ہمارے فیصلہ ساز خاموش اور ان کے ترجمان حقائق کو عوام سے چھپاتے ہوئے محض الفاظ کے ہیر پھیر میں مصروف ہیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین