• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چین اور تائیوان کا تنازع

چین نے گزشتہ دنوں تائیوان کے سمندر اور خلیجِ تا ئیو ان میں بہت بڑی جنگی مشق کی جس میں اس نےاپنی بھر پور دفاعی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔پھر چند یوم قبل چین کے بم بار طیاروں اور ہیلی کاپٹرز نےنیچی پروازیں کرکے تا ئیوان کی زمین دہلادی جس پر تائیوان کی حکومت نے چین سے شدید احتجاج کیا۔ اس حوالے سے مشرق بعید کے سیاسی حلقوں میں یہ بات کہی جارہی ہے کہ چین چند ما ہ سے تائیوان پرسیاسی،اقتصادی اور عسکری دبائو بڑھارہا ہے۔

چین پہلے بھی جنگی مشقیں تائیوان کے سمندر اور قر ب و جوار میں کرتا رہا ہے، مگر حالیہ بڑی جنگی مشق میں اس کےطیا ر ہ بردار جہاز سمیت پچاس بحری جنگی جہازوں، ستّرسےزاید لڑاکاطیاروں اوردرجنوںہیلی کاپٹرزسمیت بیس ہزار سے زاید فوجیوں نے حصہ لیا۔ اس سے پہلے بحیرہ جنوبی چین میں ہونے والی بڑی جنگی مشق میں،جو جنوبی جزائر کے اطراف میں ہوئی،چین کے صدر نے وردی پہن کر مشقوں کا معائنہ کیا اور چین نے اپنی پوری عسکری قوت کی بھرپور نمائش کی تھی۔ مگر تائیوان کے ا طر ا ف حالیہ جنگی مشقوں کو ،جس میں طاقت، جوش اور ولولے کا مظاہرہ کیا گیا،دیگر جنگی مشقوں سے ایک قدم آگے کہا جاسکتا ہے۔ 

اس مشق کو چین کے صدر کی گزشتہ ماہ قانون سازی اسمبلی میں کی گئی تقریر کے پس منظر میں بھی دیکھا جارہا ہے جس میں انہوں نے واضح طور پر کہاتھا کہ چین، تائیوان اور ہانگ کانگ کو اپنی تحویل میںلینے پر سنجیدگی سے غور کررہا ہے۔بعض مبصرین کے خیال میں تائیوان کا معاملہ یورپی یوکرین کی صورت اختیار کرسکتا ہے۔

اس تناظر میں تائیوان کی صدر سائی مینگ وین نے اپنی کابینہ کے ہنگامی اجلاس میں کہا کہ ہم اپنی سرزمین کا د فاع کرنا خوب جانتے ہیں۔ ہمیں اپنی سرزمین اور جمہو ر یت کے دفاع کے لیے جو قربانی دینی پڑی وہ دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ چین کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ تائیوان کے لوگ شطر نج کے بھی بہت اچھے کھلاڑی ہیں۔

امریکا چین کی ایک چائنا پالیسی کو رسمی طور پر تسلیم تو کرتا ہے،مگر اس کے تائیوان کے ساتھ پرانے تعلقات ہیں۔تاہم صدر ٹرمپ نے اقتدار میں آنے کے بعد تا ئیو ا ن سے زیادہ گہرے تعلقات قائم کرنے کا عندیہ دے کرچین کو ناراض کیا۔چین نے تائیوان کو بار بار یہ باور کرایا ہے کہ وہ زیادہ پر پھیلانے کی کوشش نہ کرے کیوں کہ تائیوان چین کا اٹوٹ حصہ ہے اوروہ جب چاہے گا اس جزیرے کو چین میں ضم کرلے گا۔ 

تائیوان کی صدر نے چین کے اس رویّےپر احتجاج کرتے ہوئے خبردار کیا کہ چین کا اپنی طاقت میں اضافے کا جنون پورے خطے اور براعظم ایشیا کے امن اور استحکام کو خطرات سے دوچار کرسکتاہے۔دوسری جانب امریکی صدر کے دفاعی مشیر، جان بولٹن، نے جو چین اور تائیوان کے تنازعے سے بہت باخبر ہیں حال ہی میں صدر ٹرمپ کو مشورہ دیا ہے کہ وہ تائیوان سے تعلقات مزیدبڑھائیں۔یاد رہے کہ امریکانے گزشتہ سال تائیوان کو سوا ارب ڈالرز کا جدید اسلحہ فروخت کیاتھاجس پر چین نے شدید احتجاج کیا اور اس نےتائیوان پرلڑاکا طیاروں کی پروازوں کا سلسلہ دراز کردیا ہے۔

چین کے ایک دفاعی مبصرلین پیاو نے ایک بیان میں کہاہے کہ چین کو امریکا اور تائیوان کے تعلقات پر بہت سے تحفظات ہیں۔چین اس مسئلے کو بہت حساس تصور کرتا ہے، اس لیے امریکا کو بھی اس کی اہمیت کو ملحوظِ نظر رکھنا چاہیے۔ادہرواشنگٹن میں چینی سفارت خانے کے د فا عی مشیر نے اعلیٰ امریکی فوجی افسران کو مطلع کیاہے کہ اگر تائیوان کے جنوبی ساحل پر امریکی لڑاکا طیارے نظر آ ئے تو چین انہیں نشانہ بنانے میں دیر نہیں کرے گا۔ 

چین کی جانب سے یہ اشارہ بہت اہم ہے۔ اس سے یہ واضح ہوگیا ہے کہ تائیوان کی چین کے لیے کیا اہمیت ہے۔مگر تا ئیوان کی صدر نے حال ہی میں کہا کہ ہم دوستانہ تعلقات اور مراسم کو بہت اہمیت دیتے ہیں،تاہم اپنی سلامتی اور د فا عی معاملات پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرسکتے۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہم نئی نسل کو نیا اور جدید تر تائیوان دے کر جائیں گے ۔

مشرقِ بعید اور بحرالکاہل کے خطے پر نظر ڈالی جائے تو چین کے مشرقی ساحل کے قریب تر جزیرہ تائیوان نظر آتا ہے جو ماضی میں فارموسا کے نام سے بھی پکاراجاتا تھا۔ چینی انقلاب کے دوران نظریاتی خلیج نے تائیوان یا فا ر مو سا کو چین سے الگ ہوکر ریاست بنانے پر مائل کیا۔ فا ر موسا کے اس حصے کو اس دور کے انقلابی رہنما چیانگ کائی شیک نے قوم پرست اور جمہوریت پسند ریاست بنانے کا اعلان کردیاتھاجسے فوری طور پر امریکا اور دیگر مغربی اقوام نے تسلیم کرلیا اور کمیونسٹ چین کو نظرانداز کردیاتھا۔ 

تب سے تائیوان مغربی ممالک کے زیرسایہ آگے بڑھااور دنیا کی پانچویں بڑی معیشت کہلایا۔ امریکانے چین کی جگہ تا ئیوان کو سلامتی کونسل کی مستقل نشست دے دی تھی جس پر چین کا حق تھا۔ تاہم 1971 کے بعد امریکا اور چین میں دوستی ہونے کے بعد یہ نشست چین کو مل گئی تھی۔

آج معیشت اور ترقی کے حوالے سے چین کی کام یابی کوکرشماتی کہا جاتا ہے۔ بالکل ایسا ہی 1960اور 1970کے عشرے میں تائیوان کے لیے کہا جاتا تھا۔ مگر 2001 میں تائیوان کے پچاس ہزار صنعتی اورتجارتی ا د ا ر و ں اور ایک لاکھ سے زاید امیر ترین شخصیات نے مستقل طورپرچین کو اپنامرکز بنالیاجس سے چین کی معیشت، صنعت اور سرمایہ کار کوبہت مہمیز ملی۔

تائیوان کو ایک شکا یت یہ بھی ہے کہ اس کی جدید ٹیکنالوجی اور تجارتی فن چین نے چرالیا اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ کہا جاتا ہےکہ ایک اہم سیاسی جماعت،جو تائیوان اورچین کا بھر پور اشتراک چاہتی ہے، اس کے اکثر بااثر اراکین جدید ٹیکنالوجی اور اہم معلومات چین کو فراہم کرتے رہتے ہیں ۔تاہم برسراقتدار جماعت، ڈیموکریٹک پروگریسو پارٹی، جس کی صدر سائی مینگ وین ہیں،چین سے دوستانہ تعلقا ت تو رکھنا چاہتی ہے، مگر وہ اپنے ملک میں جمہوریت اور جمہوری اقدار کو زیادہ اہمیت دیتی ہے۔

2016 کے عام انتخابات میں سائی مینگ وین بھا ر ی اکثریت سے صدر منتخب ہوئیں تو تائیوان میںچین کے حامی حلقے مایوس ہوگئے۔ڈیموکریٹک پارٹی کی حکومت نےاقتدار میں آتے ہی آزادانہ پالیسی پر عمل شروع کر د یا۔ان حالات میں چین نے تائیوان پر عسکری دبائو بڑھانا شروع کردیا اور یہ سلسلہ تھمنے کے بجائے بڑھ رہا ہے ۔

تازہ ترین