عذرا خان
بڑا گھر، کھلی کشادہ چھت، اُس پار باورچی خانہ اورکئی کونے کھدرے... پس اس نے سوچا کہ یہاں کئی محفوظ پناہ گاہیں ہیں۔ سات گھر بچے لے جانا کہاوت نہیں حقیقت ہے۔پس وہ کالی بلی جو مجھے بہت ہی بری لگتی تھی ساتواں گھر میرا منتخب کر کے اپنے بچے لے آئی۔ دو بالکل سفید اپنے باپ کی طرح، ایک بالکل کالا اپنی ماں کی طرح۔ مجھے بلیوں سے کبھی انسیت نہ رہی بلکہ ایک چڑ سی تھی۔ ان کو ذرا ایک چھیچھڑا ڈالو تو سیاسی حواریوں کی طرح وفاداری پیش کرنے لگتی ہیں۔
پائوں سے لپٹیں، ادھر ادھر سونگھتی ہوئی، میاؤں میاؤں سے اعلان حمایت و وفاداری کرتی جاتی ہیں، پھر جان چھڑانا مشکل ہو جاتا ہے۔ مجھے کوئی سیاسی قدتوبڑھانا نہیںتھا، اس لئے میں انہیں کھانا نہیں ڈالتی تھی۔ تین ماہ یہ بچے چھت پر رہے۔
ماں جو خون جگر پلانے کی وجہ سے انتہائی لاغر دکھائی دیتی تھی، صبح سویرے نکل جاتی، دو ڈھائی گھنٹے میں جب پلٹتی تو صندوق کے قریب آ کر مخصوص آواز میں، مخصوص لے میں نہایت نرمی سے میاؤں میاؤں کے بجائے ’’ماؤں ماؤں‘‘ کہتی۔ بچے باہر نکل کر ماں کے اردگرد آ کھڑے ہوتے، کبھی کالے اور کبھی سفید کو چاٹنا شروع کر دیتی۔ اس کا یہ چاٹنا محبت کے تمام اسرار کا امین ہو جاتا، پھر شکم سیری کا فریضہ انجام دینے لگتی۔ گھنٹہ سوا گھنٹہ ماں بچوں میں خوب چہلیں رہتیں، پھر وہ روانہ ہو جاتی اور بچے تربیت یافتہ صندوق کے پیچھے ایسے غائب ہوتے کہ جیسے وہاں تھے ہی نہیں…
بچے بڑے ہو رہے تھے اب وہ میرے گھر کو اپنا گھر سمجھنے لگے تھے۔ میری چڑ اشتعال میں بدل رہی تھی۔ نہ کچن میں کام کر سکتی تھی نہ کمرے کا دروازہ کھول سکتی تھی۔ پوری فیملی بیڈ کے نیچے، کرسی کے اوپر لینڈ مافیا کی طرح براجمان ہو جاتی۔ میں بھگا بھگا کر ہلکان ہوئی جاتی تھی۔ کبھی ہڈی یا گوشت کا ٹکڑا، کبھی مرا ہوا چوہا منہ میں دابے اماں بی چلی آتیں اور ماوں ماوں کی صدا دعوت کا پیغام بن جاتی۔
میں میاں کے پیچھے پڑ گئی کہ ان کو نکالو، ان کی شرارتیں اور میرا غصہ بڑھتا جارہا تھا۔ ایک دن میں نے دروازہ کھول کر بڑا سا تختہ دروازے میں لگا دیا اور نماز پڑھنےکھڑی ہو گئی۔ تین ماہ کے ان بچوں نے ’ہرڈل ریس‘ میں وہ مشاقی دکھائی کہ اللہ کی پناہ، جمپ لگا کر ایک کرسی پر آ بیٹھا، دوسرا فریج کے قریب ’دریافتِ کولمبسی‘ کرنے لگا، تیسرا جائے نماز کے قریب کھڑا میاؤں میاؤں، جانے کیا پوچھ رہا تھا۔ دو رکعت نماز پڑھنا مشکل ہو گئی۔ سلام پھیرا ،ڈنڈا لے کر پیچھے دوڑی،لیکن وہ صندوق کے پیچھے جا چھپے۔ میں نے تھوڑا ڈرایا مگر بچے تو بچے ہیں۔ (یہ میں بعد میں سمجھی)۔کچھ عرصے بعد بقر عید کے موقعے پر انہیں ملازم کے ہاتھ اگلی گلی میں چھڑوا دیا، یہ سوچ کر کہ اب بڑے ہو گئے ہیں، کھانا بھی گلی کوچوں میں وافر ہے، ماں بھی انہیں ڈھونڈ لے گی۔
اللہ پاک مجھے معاف فرمائے، بڑی غلطی ہوئی، جانے والے پھر نہیں ملتے۔ ماں کی تڑپ، اف ناقابل بیان، وہ ہر روز یوں ہی دیوار سے کود کر آتی، کبھی گملوں کے پاس، کبھی صندوق کے پاس، کبھی زینہ پر ، ’ماؤں ماؤں… رقت سے پکارتی رہتی۔ پھر میرے سامنے، کبھی دروازے پر بیٹھ جاتی ،بس ماؤں ماؤں ماوں کا نغمہ مرثیہ بن کر گونجتا رہتا۔ اللہ پاک مجھے معاف فرمائے۔ دن گزرتے گئے اس کی ’ماؤں ماؤں‘ میں رقت اور آنکھوں میں نمی مجھے بڑھتی محسوس ہوتی تھی۔ میں نے بچوں کو دوبارہ تلاش کر کے لانا چاہا مگر بچے بھیڑ میں جانے کہاں کھو گئے تھے۔ بس تڑپتی ماں اور ’ماؤں ماؤں‘ کی صدا۔
میں اس بلی کو دیکھتی تومجھے وہ تڑپتی مائیں یاد آجاتیں، جن کے بچے1947ء میں گود سے چھینے گئے یا کرپانوں پر چڑھائے گئے۔ آج تک ماؤں ماؤں کی صدا اگست میں بڑھ جاتی ہے۔ مجھے برما، کشمیر، فلسطین، شام، افغانستان، عراق کی سرزمین سے ماؤں ماؤں کی پکار سنائی دے رہی ہے ،جن کے بچے بھیڑ میں کھو گئے مگر سننے والے کان بہرے ہیں۔
مجھے پاک دھرتی کے اسکولوں، یونیورسٹیوں، فیکٹریوں میں دہشت گردی کا شکار ہونے والے بچوں کی ماؤں ماؤں کی تڑپ سنائی دینے لگی ہے۔ ہائے وہ مائیں جن کے بچے درندوں کی ہوس کے ہاتھوں کچلے گئے…
سانحہ پشاورکی ’ماؤں ماؤں‘ کی صدا وآہ وبکاکب بھلائی جا سکتی ہے۔ سات، دس، چودہ سال کے سپوت۔ اسکول کی طرف رواں دواں بچے۔ ’ماؤں ماؤں‘ محبت کی صدا، حفاظت کی دعا، مستقبل کی امیدبننے کے بعد صرف آنسو بن گئے۔ لخت جگروں کی لاشیں بھی کہاں تھیں ،گوشت کے کچھ ٹکڑے تھے جو کفن میں یکجا ہوئے تھے۔ماں اور ماؤں ماؤں کی صدا کہیں کھو گئی۔ اللہ پاک سب کی مامتا ٹھنڈی رکھے۔ وحشی درندوں کو نیست و نابود کرے۔ انگنت تڑپتی بلکتی مائوں کے لئے16دسمبر استعارہ بن گیا ہے۔
اے میرے وطن کی ماؤں!آج ذمے داری بڑھ گئی ہے۔ ٹارگٹ کلر بھی اپنی گود کا پالا نکلا ہے… آج بچوں کے عمل، سوچ، قلب اور روح پرپہرا ضروری ہے۔ یونیورسٹی جانے والا پلٹے تو ’ماؤں ماؤں‘ کی صدا سے اس کی فکر، نظر کو کھنگال ضرور لینا۔ موت کی نیند سونے والے جگر گوشوں کا غم تو غم ہے ہی لیکن اگر لخت جگر سلانے والوں میں ہے تو ماؤں ماؤں میں وہ شعلے بھڑکیں گے کہ نسلیں راکھ ہو جائیں گی۔
انٹرنیٹ، ٹچ موبائل، کارٹون، گیم، دوستوں کی محفلیں، اسکول کے بستے باہر جانے اور آنے کے لمحات، ان پر کڑی گرفت رکھنی ہے۔ اگر کچھ ہو گیا زباں نہیں روح کہے گی’ ماؤں ماؤں‘ اور پھر اس زخم کاکوئی درماں نہیں۔
ہماری نسلیں، ہمارے معمار، ہمارا کل ڈوب رہا ہے۔ شیشہ، چرس، گانجا، ہیروئن میں، انٹرنیٹ کی فحاشی میں، خودکش جیکٹ میں۔ ہمیں پہرا دینا ہے دن ، رات ، صبح اور شام ، ہر ہر لمحے۔ دیس کی فضائیں جو ’ماؤں ماؤں‘ کے مرثیوں سے گونج رہی ہیں انہیں چہکار میں بدلنا ہے۔ اٹھو ماؤں اپنے لخت جگروں کو سنبھالو.....