• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سمندر مٹھاس بانٹے گا؟

پانی کبھی زندگی اور کبھی موت کا پیغام لاتا ہے۔ کوئی پیاس سے مرجاتا ہے تو کوئی آلودہ پانی پینے سے۔ لہٰذا جدید عہد میں حکومتوں کے لیے عوام کو پینے کا پانی فراہم کرنا ہی چیلنج نہیں ہے بلکہ صاف پانی فراہم کرنا اصل مسئلہ ہے۔ یہ مسئلہ مشرق سے مغرب تک پھیلا ہواہے۔ یہ الگ بات ہے کہ مشرق میں حکومتیں اس بارے میں زیادہ سنجیدگی سے کام نہیں کرتیں، لیکن مغرب میں ایسا نظام بن چکا ہے کہ اگر کسی مغربی ملک میں آلودہ پانی پینے سے اموات کی تصدیق ہوجائے تو وہاں بھونچال آجاتا ہے۔ دوسری جانب تیسری دنیا کے ممالک ہیں۔ 

پاکستان ہی کو لے لیں،عالمی ادارہ صحت اور یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق ترقی یافتہ ممالک (بہ شمول پاکستان) میں ہر سال تقریباً بیس لاکھ بچوں کی جانیں دست اور اسہال اور نمونیا کی بیماریوں پر قابو پاکر بچائی جاسکتی ہیں۔ ملینیم ڈیولپمنٹ گولز کے اہداف حاصل کرنے کے معاہدے پر دست خط کرنے کے بعد پاکستان سمیت دیگر ترقی پذیر ممالک کو زندہ پیدا ہونے والے ہر ہزار بچوں میں نمونیا کی وجہ سے شرح اموات تین سے کم اور دست اور اسہال کی وجہ سے شرح اموات ایک سے کم کرنی ہے اور یہ ہدف ہمیں 2025ء تک حاصل کرنا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق 2013ء تک ہماری صورت حال یہ تھی کہ زندہ پیدا ہونے والے ہر ہزار بچوں میں سے 89 پانچ سال سےکم عمر میں انتقال کرجاتے تھے۔ 

یہ شرح دنیا کی بلند ترین شرحوں میں سے ایک ہے اور مارچ 2014ء تک اس میں کوئی تبدیلی آتی دکھائی نہیں دی۔ رپورٹ کے مطابق وطن عزیز میں ہر برس تقریبا91 ہزار بچے نمونیا اور 53 ہزار بچے دست اور اسہال کی بیماری کی وجہ سے دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں۔ پانچ برس سے کم عمر کے بچوں کی اموات کی وجوہ میں ان دونوں بیماریوں کا حصہ تیس فی صد سے زیادہ بنتا ہے۔

پاکستان کے آئین میں پانی کے ضمن میں لوگوں کے حقوق کا مخصوص انداز میں کوئی ذکر نہیں ہے۔ البتہ سپریم کورٹ نے 1994ء میں ایک مقدمے میں آئین کے آرٹیکل نمبر 9 کی زندہ رہنے کے حق کے ضمن میں تشریح کرتے ہوئے قرار دیا تھا: ’’کوئی شخص خواہ کہیں بھی رہتا ہو غیر آلودہ پانی حاصل کرنے کا حق ریاست کے ہر شہری کا حق ہے۔‘‘۔ پینے کے پانی کے ضمن میں ہمارا قومی معیار اسے دو حصوں میں تقسیم کرتا ہے۔ شہری علاقوں کے لیے اس کی فی فرد یومیہ مقدار 120 لیٹرز اور دیہی علاقوں کے لیے 45 لیٹرز ہے۔

پانی اور پانی سے متعلق بیماریاں جدید دور میں بھی لاکھوں انسانوں کی اموات کا سبب بن سکتی ہیں، یہ سوچ کر ہی دل دہل جاتا ہے۔ لیکن یہ آج کے دور کا ہول ناک المیہ ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں کل اموات میں سے 80 فی صد پانی اور پانی سے متعلق بیماریوں کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ پاکستان میں پانچ برس سے کم عمر کے ہر ہزار بچوں میں سے 101 انتقال کر جاتے ہیں۔ ان اموات کی ایک بہت بڑی وجہ ڈائریا یا دست اور اسہال کی بیماری قرار دی جاتی ہے۔ ڈائریا کے پھیلنے کی وجوہ میں غیر محفوظ پینے کا پانی اور صحت اور صفائی کی نامناسب سہولتیں سرفہرست ہیں۔ 

یہ اعداد و شمار اور وجوہات اس لیے زیادہ قابل اعتبار ہیں کہ ان کا اعلان پاکستان کے کسی سرکاری ادارے نے نہیں بلکہ عالمی ادارہ صحت، ایشیائی ترقیاتی بینک اور اقوام متحدہ کے پروگرام برائے ترقی نے 2004ء 2006ء اور 2007ء میں کیا تھا۔ چناں چہ پاکستان میں پانی سے پھیلنے والی بیماریوں کے شکار افراد کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ درجہ حرارت میں اضافے اور برسات کی وجہ سے اس تعداد میں بہت تیزی سے اضافہ ہونے لگتا ہے۔ صوبہ سندھ میں بھی صورت حال دیگر صوبوں سے زیادہ مختلف نہیں ہے۔ صوبے کے سب سے بڑے شہر اور دار ا لحکو مت،کراچی، میں پینے کے پانی کے معیار کا مسئلہ اس لیے زیادہ گمبھیر ہے کہ یہاں طرح طرح کے مسائل مو جو د ہیں، اس کی آبادی میں بہت تیزی سے اضافہ ہورہا ہے اور مسائل سے نمٹنے کے لیے طویل المیعاد اور ٹھوس منصوبہ بندی کا فقدان ہے۔ان حالات میں کراچی میں سمندر کے پانی کو میٹھا بنانے کے لیے وفاقی حکومت نے ڈی سیلی نیشن پلانٹ نصب کرنے کا اعلان کیا ہے۔ مگر ایسے اعلانات اور وعدے پہلے بھی ہوتے رہے ہیں۔دوتین دہائیوں سے ایسے غلغلے اٹھتے ہیں اور پھر پانی کے بلبلے کی طرح بیٹھ جاتے ہیں۔اس ضمن میں نمونے کے طور پردو تین برس میں سامنے آنے والی صرف دو خبریں پیشِ خدمت ہیں:

یہ جون 2015 کی بات ہے۔اس وقت سندھ کے وزیربلدیات شرجیل انعام میمن تھے۔انہوں نے کراچی آرکائیو میںایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ کراچی میں پینے کے پانی کی قلت کے بحران سے نمٹنے کے لیے دبئی کی نجی کمپنی سے جلد معاہدہ کیا جائے گا، جس کے تحت ڈی سیلی نیشن پلانٹس منگوائے جائیں گےاور ان کی مددسے سمندر کے کھارے پانی کو میٹھابناکر شہریوں کو فراہم کیا جائے گا جو پینے کے قابل ہوگا۔پھر دسمبر 2016آگیا۔صدرمملکت ممنون حسین کی زیرصدارت کراچی میں گرین لائن بس کے منصوبے سے متعلق ایک اجلاس ہوا۔اس منصوبے کے حوالے سے دی گئی پریزنٹیشن کے موقع پر بریفنگ میں انہوں نے کہاتھاکہ گرین لائن بس کے منصوبے کی تکمیل سے کراچی کے چار لاکھ شہری روزانہ کی بنیاد پر فائدہ اٹھا سکیں گے۔

اس موقعے پر وزیر اعلی سندھ، سندھ کے وزیر ٹرانسپورٹ ، گورنر سندھ کے پرنسپل سیکریٹری صالح فاروقی اور دیگر اعلی حکام بھی موجود تھے۔ صدر مملکت کا کہنا تھا کہ کراچی ملک کی اقتصادی سرگرمیوں کا مرکز ہے اور کراچی چلتا ہے تو پاکستان چلتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کراچی میں پانی کی فراہمی کے لیے ڈی سیلی نیشن پلانٹ لگانے پر بھی غور کیا جارہا ہے۔

ماضی کا ایک منصوبہ

ملک بھر کے عوام کو پینے کا صاف پانی فراہم کرنے کے لیے 2004ء میں ’’پینے کا صاف پانی سب کے لیے‘‘ کے نام سے ایک منصوبہ شروع کرنے کا اعلان کیا گیا تھا، لیکن یہ منصوبہ ابتداہی سے مختلف تنازعات کا شکار ہوگیا تھا۔ وزارت ما حو لیا ت اور پھر وزارت صنعت کے تحت اس منصوبے کے لیے طویل کاغذی کارروائیاں کی گئیں۔ پھر ملک کی ہر یونین کونسل میں ایک واٹر فلٹریشن پلانٹ لگانے کے لیے ٹھیکا دینے کا مرحلہ آیا۔ 

اس مرحلے میں ملکی اور غیر ملکی اداروں نے متعلقہ حکام پر امتیاز برتنے کا الزام عاید کیا۔ منصوبے کے سات میں سے چار حصوں کے لیے دی گئی بولی کو پہلے مرحلے میں منسوخ کردیا گیا تھا۔ سوئٹزرلینڈ سے تعلق رکھنے والے ایک ادارے نے الزام عاید کیا تھا کہ اگرچہ اس نے منصوبے کے لیے کم بولی دی تھی، لیکن اس سے زیادہ بولی دینے والے ادارے کو فائد ہ پہنچانے کے لیے امتیاز برتا گیا۔ منصوبے کے تحت ملک میں 6584 پلانٹس لگنے تھے اور15 ارب 84 کروڑ روپے کے خرچ سے لگنے والے پلانٹس کے لیے کام یاب بولی دینے والے ادارے کو تین سال تک انہیں چلانے اور ان کی دیکھ بھال کرنے کی ذمے داری بھی اٹھانی تھی۔

ابتدا میں اس پورے منصوبے کے لیے سات ارب آٹھ کروڑ روپے لاگت کا تخمینہ لگایا گیا تھا، لیکن اس میں ان پلانٹس کو چلانے اور ان کی دیکھ بھال پر آنے والے اخراجات شامل نہیں تھے۔ پھر جب 409 پلانٹس نصب ہوگئے تو حکام کو ہوش آیا اور پھر منصوبے پر نظر ثانی کی گئی۔ اس مرحلے پر منصوبے پر عمل درآمد کی ذمے داری وزارت ماحولیات سے وزارت صنعت کو منتقل کردی گئی۔ نظرثانی شدہ لاگت کا تخمینہ نیشنل انجینئرنگ سروسز نے لگایا اور اس میں ممبرین ٹیکنالوجی (پانی کو صاف کرنے کے لیے مخصوص جِھلّی کے استعمال کی ٹیکنالوجی) کو شامل کیا گیا۔ 

ان میں سے بعض پلانٹس کھارے پانی کو میٹھا بنانے اور صاف کرنے کے لیے لگنے تھے، جو ریورس او سمو سس ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے۔ اس منصوبے کا کنسلٹنٹ نیس پاک تھا۔ جس نے ابتدائی مرحلے میں 90میں سے 12 اداروںکا انتخاب کیا تھا۔ صوبہ سندھ میں 2000 اور 4000 لیٹر فی گھنٹہ صاف پانی فراہم کرنے والے کل 1108 پلانٹس نصب ہونے تھے، جس پر 16662 ملین روپے لاگت آنے کا تخمینہ لگایا گیا تھا۔ واضح رہے کہ اس منصوبے کے لیے فنڈ وفاقی حکومت فراہم کر رہی تھی۔ 

صوبہ سندھ میں جو پلانٹس نصب ہونے تھے، ان کے لیے یہ طے کیا گیا تھا کہ وہ پانی کا گدلا پن، اس میں موجود جراثیم، سنکھیا، فلورائیڈ، آرسینک نائٹریٹ اور بھاری پن کو دور کریں گے۔ اس طرح مختلف علاقوں میں دست یاب پانی کے معیار کو مدنظر رکھ کر فلٹریشن پلانٹس نصب کرنے کا منصوبہ تھا۔

کراچی سمیت سندھ کے مختلف مقامات پر کلین ڈرنکنگ واٹر فار آل (CDWA) منصوبے کے تحت کئی واٹر فلٹریشن پلانٹس نصب کیے گئےہیں، لیکن ان میں سے بہت سوں کی حالت کافی خراب ہے، اگرچہ سندھ کے محکمہ منصوبہ بندی اور ترقیات نے 5 جنوری 2008ء کو 971540 ملین روپے کی لاگت والے اس منصوبے کی منظوری دی تھی، لیکن اس پر پوری طرح عمل درآمد نہیں ہو سکا۔ اس منصوبے پر گہری نگاہ رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ اگرچہ یہ عوام کی فلاح کا اچھا منصوبہ تھا، لیکن سرکاری حکام کی بدعنوانیوں، لاپروائی اور عدم توجہ کے باعث یہ تباہ ہوگیا۔ ٹینڈر کی منظوری ہی کے مرحلے پر مختلف حلقوں نے اعتراضات کیے تھے، پھر ان پلانٹس کے ڈیزائن، معیار اور ان میں استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی پر اعتراضات کیے گئے۔ ایک الزام یہ بھی لگایا جاتا ہے کہ جس ادارے کو اس کام کا ٹھیکا دیا گیا ہے، اس نے اٹلی کے بنے ہوئے پلانٹس لگانے کا معاہدہ کیا تھا، لیکن اس نے اس پر عمل درآمد نہیں کیا۔ 

یہ پلانٹس دن کے9 بجےسے ایک بجے اور2 بجےسے شام5 بجے تک لوگوں کو پانی فراہم کرتے ہیں۔ جب یہ بند کرنے کے بعد دوبارہ چلائے جاتے ہیں تو بیک واش ٹیکنالوجی نہ ہونے کی وجہ سے آلودہ پانی فراہم کرتے ہیں۔ ان میں استعمال ہونے والے فلٹر اور ممبر ین طویل وقفوں تک تبدیل نہیں کی جاتیں، لہٰذا یہ پلانٹس لوگوں کو جو پانی فراہم کرتے ہیں، وہ انسانی صحت کے لیے نلکے کے پانی سے بھی زیادہ نقصان دہ ہے۔ اگرچہ عوام ان پلانٹس سے پانی حاصل کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، لیکن ان کی حالت دیکھ کر بعض خدشات درست محسوس ہوتے ہیں۔

پانی کو صاف کرنے والے پلانٹس لگانے اور واٹر انجینئرنگ سے متعلق دیگر سہولتیں فراہم کرنے والے ایک نجی ادارے کے منیجنگ ڈائریکٹر کے مطابق ان کے اد ا ر ے نے اس منصوبے کے لیے حکومت کو تجاویز دیں اور مشاورت فراہم کی تھی۔ ان کے ادارے کو مذکورہ کام کا پچیس سال کا تجربہ ہے۔ فلٹریشن پلانٹس کے لیے پاکستان میں ہر طرح کی سہولتیں موجود ہیں، لیکن بعض حلقوں کے مطابق بعض سرکاری اہل کار بیرونی ممالک کو فلٹریشن پلانٹس کا ٹھیکا دینے میں دل چسپی رکھتے تھے۔ اس منصوبے کے لیے پانچ چھ برس تک کاغذی کارروائیاں ہوتی رہیں۔پہلے یہ کام وزارتِ ماحولیات کے حوالے تھا، پھر وزارت صنعت کو اس کی ذمے داری سونپ دی گئی۔ ان پلانٹس کا ڈیزائن کسی اور نے بنایا اور انہیں نصب کوئی اور کررہا ہے۔لہٰذا ان میں پیدا ہونے والی خرابیاں ایک دوسرے پر ڈالی جارہی ہیں۔جو پلانٹس نصب کیے جاچکے ہیں، وہ پانی کو صحیح طرح سے صاف نہیں کررہے۔ 

وہ جو پانی فراہم کررہے ہیں اس کا معیار نلکے کے پانی سے بھی زیادہ خراب ہے، کیوں کہ فلٹرز کو بر وقت تبدیل نہیں کیا جاتا، لہٰذا اس میں کچرا اور جراثیم جمع ہوجاتے ہیں۔حکومت نے اس کام کے لیے جو رقم مختص کی تھی، اس رقم میں اسی طرح کے پلانٹس لگ سکتے تھے۔ پھر یہ کہ ان کی دیکھ بھال کے نظام پر نظر رکھنے کا کوئی مؤثر نظام نہیں ہے۔

ریورس اوسموسس واٹر فلٹریشن پلانٹس نصب کرنے والے ایک نجی ادارے کے سربراہ کے مطابق: ’’ اگر ان پلانٹس کی تنصیب کا ٹھیکا کسی پاکستانی ادارے کو دیا جاتا تو وہ زیادہ اچھے اور سستے پلانٹس لگا سکتا تھا۔ جو پلانٹس لگائے گئے ان میں صرف فلٹریشن کی صلاحیت ہے اور ان میں ریورس اوسموسس کی ٹیکنالوجی نصب نہیں ہے، جو بھاری پانی کو بھی صاف کردیتی ہے۔اگر فلٹریشن اور الٹر ا وائلٹ ٹیکنالوجیز کے ساتھ ایسے پلانٹس کوئی پاکستانی ادارہ لگاتا تو بغیر سِول ورکس کے پانچ تا چھ لاکھ روپے کا خرچ آتا اور وہ یومیہ دس ہزار گیلن پانی صاف کرتا۔ سول ورک میں ایک کمرے کی تعمیر ہوتی تو ایک لاکھ روپے خرچ آتا اور ایک پلانٹ کو چلانے پر 20 روپے فی ہزار گیلن کا خرچ آتا۔ 

لیکن اطلاع ہے کہ حکومت نے اٹلی کے ایک ادارے سے ایک پلانٹ 60 لاکھ روپے میں خریدا اور اس میں سول ورکس کا خرچ شامل نہیں تھا۔ اگر اس وقت پاکستان میں ریورس اوسموسس کی ٹیکنالوجی کا یومیہ 10 ہزار گیلن صاف پانی فراہم کرنے والا پلانٹ تیار کیا جاتا تو اس پر 8 تا 10 لاکھ روپے کی لاگت آتی اور اس کی دیکھ بھال پر 100 روپے فی ہزار گیلن کے حساب سے خرچ آتا۔ یہ پلانٹ نمکین پانی کو میٹھے پانی میں تبدیل کرنے کی بھی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ منصوبہ صحیح تھا، لیکن اس پر جس طرح عمل درآمد ہوا وہ صحیح نہیںتھا۔

واٹر انجینئرنگ اینڈ مینجمنٹ کے ایک نجی ادارے کی کراچی میں واقع شاخ کے انچارج کے مطابق: ’’ہمارے ادارے نے ابتدا ہی میں حکومت کو یہ بتادیا تھا کہ حکومت نے جس طرح اس منصوبے کو ڈیزائن کیا ہے، اس پر عمل درآمد ممکن نہیں ہے۔ اس کے لیے بنیادی ڈ ھا نچا تشکیل دینے اور لوگوں کویہ پلانٹس چلانے کی تر بیت دیے بغیر یہ منصوبہ ناکام ہوجائے گا۔اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہر جگہ کے پانی کا معیار اور آلودگی کی اقسام ایک جیسی نہیں ہوتی ہیں۔ لہٰذا اسے صاف کرنے کے لیے علیحدہ علیحدہ اقسام کی ٹیکنالوجیز استعمال کی جاتی ہیں۔ 

پاکستان کے لوگ ایسے فلٹریشن پلانٹس بنانے اور انہیں چلانے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔ حکومت ہر علاقے میں ایک ہی طرح کے پلانٹس لگا رہی تھی، لہٰذا شکایات سامنے آ رہی ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ان پلانٹس کو چلانے کے لیے متعلقہ لوگوں کو باقاعدہ تربیت نہیںدی گئی ہے۔ ان میں سے بہت سے پلانٹس کام نہیں کررہے ہیں۔ ان پلانٹس سے لوگ جو پانی حاصل کر رہے ہیں، اس کا معیار نلکے کے پانی سے بھی زیادہ خراب ہے۔

پورے صوبے میں ان پلانٹس کے حوالے سے جو خبریں آتی رہتی ہیں ان کا نوٹس سپریم کورٹ کے قائم کردہ واٹر کمیشن نے بھی لیا تب اور بھی کئی چشم کشا حقایق سامنے آئے۔اب کراچی میں سمندر کے کنارے ڈی سیلی نیشن پلانٹ لگانے کے منصوبے کا اعلان کیا گیا ہے۔ گورنر سندھ محمد زبیر کا کہنا ہے کہ پانی کے منصوبے کراچی کے شہریوں کی ضرورت ہیں، بجٹ میں ڈی سیلی نیشن پلانٹ کے لیے رقم مختص کردی گئی ہیں، ڈی سیلی نیشن پلانٹ کراچی والوں کی ضرورت ہے،چاہے کیسی ہی رکاوٹ ہو میں اس منصوبے کے آغاز کے لیے یکم جولائی کو کھڑا ہوجاؤں گا۔

تاہم واٹر انجینئرنگ اینڈ مینجمنٹ کےبعض ما ہرین نے وفاقی حکومت کی جا نب سے کراچی میں 50 ملین گیلن استعداد کاڈی سیلی نیشن پلانٹ لگانےکے منصو بے کومنہگا اور ناقابل عمل قراردیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ اتنی استعداد والے پلانٹ پر کم ازکم بیس ارب روپے لا گت آئے گی اوراس پرسالانہ اخراجات کا تخمینہ دس ا ر ب روپے تک پہنچے گاجس کی وجہ سے یہ منصوبہ قابل عمل قرارنہیں دیاجاسکتا۔اس پلانٹ سے حاصل کیاجانے وا لا پانی واٹربورڈ کو 860روپےفی ہزار گیلن پڑےگا ۔ اس ضمن میں واٹربورڈ کے ذرایع کا یہ موقب سامنے آیا ہے کہ وفاقی حکومت کی جانب سے بورڈ سے مشورہ کیاگیا تھا جس پراسے منصوبے کی ابتدائی تفصیلات سے آگاہ کردیا گیاتھا، لیکن اس کی سالانہ دیکھ بھال اور اخراجات پر با ت نہیں ہوسکی تھی۔

وفاقی حکومت کے ذمے داران سے ا بتدائی بات چیت کے بعد انہیں دیگر اخراجات کی تفصیلا ت سے بھی آگاہ کردیا گیا تھا۔ وفاقی حکومت کو اس کے سالانہ اخراجات کے حوالے سے کوئی پالیسی بنانا ہوگی،بہ صورتِ دیگر اربوں روپے خرچ کرکےلگایاجانے و ا لا یہ پلانٹ درد سربن جائے گا۔واٹربورڈکے ذرائع کے مطا بق ایک اوسط خاندان کو اس طرح حاصل کیے جانے وا لے پانی کے بِل کی مد میں ماہانہ کم از کم دوہزار روپے بورڈ کو اداکرنے پڑیں گے۔ماہرین کے مطابق 50ملین گیلن کے ڈی سیلی نیشن پلانٹ کی تنصیب سے قبل وفاقی حکومت کو ڈی ایچ اے، کراچی کی جانب سے چند برس قبل نصب کیے جانے والے تین ملین گیلن استعداد والے پلانٹ کا جائزہ لینا چاہیے کہ وہ کیوں بند پڑا ہے۔

سمندری پانی کو میٹھابنانےکے کام یاب منصو بے

تقریبا ایک دہائی میں سمندری پانی کو میٹھابنانے کے شعبے میں بہت ترقی ہوئی ہے۔اس شعبے میں سب سے آگے اسپین ہے،جہاں کئی عشروں سے سمندری پانی سے نمک کو الگ کیا جا رہا ہے یا پھر سنگاپور،جو میٹھے پانی کے ضمن میں ہم سایہ ملک، ملائیشیا پر انحصار کم کرنے کا خوا ہا ں ہے۔اسرائیل میں بھی ایسے کئی مراکز قائم کیے گئے ہیں۔ سالانہ 500 ملین کیوبک میٹر میٹھے پانی کا حصول اسرائیل کا ہدف ہے ۔2016ء تک دُنیا بھر میں پانی سے نمک کو الگ کرکے حاصل کیے گئے میٹھے پانی کی مجموعی سالانہ مقدار تقریبا 38 ارب کیوبک میٹر تک پہنچ چکی ہےجو 2008ء کے مقابلے میں دگنی بتائی جاتی ہے۔

بہ ظاہر یہ بڑے حوصلہ افزا اعداد و شمار ہیں ۔تاہم اس ضمن میں بڑا مسئلہ یہ ہے کہ سمندری پانی کو نمک سے پاک کرنے پر اُس سے کہیں زیادہ توانائی خرچ ہوتی ہے، جتنی دریاؤں یا جھیلوں کاپانی قابل استعمال بنانے میںصرف ہوتی ہے۔سمندری پانی سے نمک کو الگ کرنے کے تمام مراکز میں تقریبا ایک ہی طریقہ استعمال ہوتا ہے۔اس طریقے میں پانی کو بہت زیادہ دباؤ کے تحت ایک بہت باریک جالی سے گزارا جاتا ہے۔ یہ جالی اتنی باریک ہوتی ہے کہ اس میں سے پانی کے مالیکیولز تو گزر سکتے ہیں، لیکن نمک کے قدرے بڑے مالیکیولز نہیں گزر پاتے۔ لیکن اس طرح ایک کیوبک میٹر، یعنی ایک ہزار لیٹر میٹھے پانی حاصل کرنے کے لیے تین تا چار کلو واٹ فی گھنٹہ بجلی درکار ہوتی ہے۔

اس طرح دریائی یا زیرِ زمین موجودپانی کو پینے کے قابل بنانے پر خرچ ہونے والی بجلی کے مقابلے میں سمندری پانی کو نمک سے پاک کرنے کےپر تین گنا زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج ہوتی ہے۔ گویا نمکین سمندری پانی کو میٹھے پانی میں بدلنا ممکن تو ہے لیکن ابھی اس کے لیے استعمال کیے جانے والے طریقے پوری طرح ماحول دوست نہیں ہیں۔لیکن اچھی خبر یہ ہے کہ اب ایسے بعض پلانٹس شمسی اور ہوائی توانائی سے حاصل کی گئی بجلی سے چلانے کے کام یاب تجربات ہوچکے ہیں۔

سعودی عرب اس طریقے پر عمل کر کے میٹھا پانی حاصل کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔اس نے کچھ عرصہ قبل ہی ساحلی شہر الخفجی میں شمسی توانائی سے چلنے والا ڈی سیلی نیشن پلانٹ نصب کیا ہے۔ سعودی عرب 2019 تک اپنے تمام ڈی سیلی نیشن پلانٹس شمسی توانائی پر منتقل کرنے کے لیے پُرعزم ہے۔ اس کے بعد اسرائیل بھی پانی کی بچت کرنے والے مما لک میں سرفہرست ہے۔

صحرائی محل وقوع ہونے کے باوجود اسرائیل دو سر ے ممالک کو میٹھا پانی فروخت کرکے سالانہ دو ارب ڈالر ز کماتا ہے۔وہ 85 فی صد ویسٹ واٹر کو ری سائیکل کرتا ہے۔ وہاں تین سو سے زاید کمپنیز کھارے پانی کو میٹھا بنا رہی ہیں۔ امریکی ریاست کیلی فورنیا میںاس وقت سترہ ڈی سیلی نیشن پلانٹ فعال ہیں۔

سمندر کے پانی کو پینے کے قابل بنانے کے ضمن میں لزشتہ برس برطانیہ اور مصر سے دو اچھی خبریں آئی تھیں ۔ان خبروں میں کہا گیا تھا کہ وہاں اس کام کے لیے سائنس دانوں نے نسبتا آسان اور سستا طریقہ دریافت کر لیا ہے۔

تازہ ترین