• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پھر زندگی نے سانس لی

کنول بہزاد،لاہور

زینی نے جلدی جلدی چند نوالے لیے، چائے کے دو گھونٹ حلق میں انڈیلے اور کھڑے ہوتے ہوئے زہرہ خاتون سے مخاطب ہوئی، ’’سوری امّاں! آپ کو یہاں بلوا کر بھی وقت نہیں دے پارہی ہوں۔ ویک اینڈ پر کوئی اچھا سا پروگرام رکھتے ہیں، کیوں فرقان؟‘‘ اس نے شوہر کی تائید چاہی۔ ’’ہاں، ہاں کیوں نہیں‘‘ عجلت سے ناشتا کرتے فرقان نے جواب دیا۔میرال اور ذیشان کو پیار کرکے وہ ماں کے آگے جُھکی، تو اُنہوں نے ہمیشہ کی طرح اس کی پیشانی چومی اور کچھ پڑھ کر پھونکا۔ زینی کی آنکھیں بے اختیار نم ہوگئیں، وہ نمی چُھپانے کے لیے تیزی سے مُڑی اور سب کو خدا حافظ کہتی باہر نکل گئی۔زہرہ خاتون اُس وقت تک بیٹی کو جاتا دیکھتی رہیں، جب تک وہ نظروں سے اوجھل نہیں ہوگئی۔ 

کچھ دیر بعد ذیشان اور فرقان بھی ’’خدا حافظ‘‘ کہتے باہر نکل گئے۔ خلافِ معمول میرال آج گھر پر تھی اور کچھ پریشان بھی لگ رہی تھی۔’’کیا ہوا بیٹا! آج کالج نہیں جانا؟‘‘ زہرہ خاتون نے پوچھا۔ ’’نہیں نانو! دِل نہیں چاہ رہا۔‘‘ وہ کچھ بےزاری سے بولی۔’’طبیعت تو ٹھیک ہے ناں۔‘‘ وہ کچھ متفکّر ہوئیں۔’’جی! آپ پریشان نہ ہوں، مَیں اپنے کمرے میں جارہی ہوں۔آپ کو کچھ چاہیے تو نہیں؟‘‘ وہ جاتے جاتے بولی۔’’نہیں بیٹا! تم جائو۔‘‘تھوڑی دیر بعد ملازمہ آگئی اور آتے ہی برتن سمیٹ کر باورچی خانے میں چلی گئی۔زہرہ خاتون نے یونہی اطراف میں نظریں دوڑائیں۔ زینی نے ملازمت کے باوجود گھر خُوب سنوار رکھا تھا۔ ایک ایک چیز سے اس کا ذوق جَھلکتا تھا۔ گھر میں سبھی آسائشیں مہیا تھیں، مگر پھر بھی کچھ کمی سی تھی۔ زہرہ خاتون گہری سانس لےکراُٹھ کھڑی ہوئیں اور باورچی خانے کی طرف آگئیں۔ پانی کا نل کھلا تھا اور ملازمہ موبائل فون پر لگی تھی۔ انہیں دیکھ کر وہ دوبارہ برتن دھونے لگی۔

پھر وہ گھر کے باغیچے میں چلی آئیں اور وہ وہیں پڑی کرسی پر بیٹھ گئیں۔انھیں آئے تین دِن ہوچکےتھے،مگر ان تین دِنوں میں انھوں نے بہت کم سب کو ساتھ بیٹھے دیکھا تھا۔ صُبح افراتفری میں ناشتا ہوتا اور آگے پیچھے سب گھر سے نکل جاتے ،پھر واپسی بھی اسی طرح ہوتی۔ یک دَم اُنھیں میرال کا خیال آیا، تو وہ اس کے کمرے کی جانب چل دیں۔ اُسے فون پر مصروف دیکھ کر واپس پلٹنے ہی والی تھیں کہ پیچھے سے آواز آئی۔’’نانو! آجائیں آپ۔‘‘’’کس کا فون تھا بیٹا؟‘‘ وہ واپس آکر بیٹھتے ہوئے بولیں۔’’میری دوست کا، پوچھ رہی تھی کہ کالج کیوں نہیں آئیں؟‘‘ ’’زینی کو بتادیا تھا کہ آج چُھٹی کروگی۔‘‘ ’’نہیں،ان کے پاس وقت ہی کہاں ہوتا ہے، ہماری بات سُننے کا۔‘‘میرال نے شکوہ کیا۔’’تو تم مجھ سے بات کرلو، اتنا لمبا سفر کرکے مَیں تم سب سے باتیں کرنے ہی تو آئی ہوں، ورنہ وہاں گائوں میں تو بس دیواروں سے باتیں کرتی رہتی تھی۔‘‘ وہ مُسکرا کر بولیں، تو میرال بھی مُسکرا دی۔

اگلی صُبح زہرہ خاتون نے فجر کی نماز پڑھ کر باورچی خانے کا رُخ کیا،تاکہ بچّوں کے لیے خود ناشتا بنائیں۔لاؤنج سے گزرتے ہوئے انھیں زینی کی آواز سُنائی دی،وہ اپنے بیٹے ذیشان سے مخاطب تھی۔’’بیٹا! مَیں نے تمہیں کتنا سمجھایا ہے ، ابھی بالکل گنجایش نہیں ہے۔گھر کی قسطوں کی ادائیگی، تم لوگوں کی فیسز، بجلی، گیس کے بلز اور بے شمار چھوٹے موٹے اخراجات…‘‘مگر ذیشان نے ماں کی بات سُنی ہی نہیں۔ ’’مجھے کچھ نہیں پتا۔میرے سارے دوست یونی ورسٹی شان دار گاڑیوں پر آتے ہیں، ایک مَیں ہی ہوں، جو پھٹیچر موٹر سائیکل گھسیٹے پھرتا ہوں۔بس، اب مَیں پاپا سےبات کروں گا۔‘‘ ’’ہرگز نہیں ذیشان، انہیں تنگ مت کرنا۔انھوں نےپہلے ہی بینک سے قرض لے رکھا ہے۔‘‘ ’’ٹھیک ہے، پھرمَیں آج سے یونی ورسٹی نہیں جائوں گا،مَیں یہ سیمسٹر ڈراپ کررہا ہوں۔‘‘ وہ پائوں پٹختا اپنے کمرے کی طرف چلا گیا۔زہرہ خاتون یہ سب سُن کر پریشان ہوگئیں۔ کچھ دیر بعد وہ ناشتے کی ٹرے لے کر لائونج میں آئیں، تو زینی سَر پکڑے بیٹھی تھی۔ 

ان کے ہاتھ میں ٹرے دیکھ کر حیران ہوگئی۔’’ارے امّاں! یہ کیا،مَیں نے آپ کو یہاں آرام کے لیے بلوایا تھا، نہ کہ…‘‘’’بہت آرام کرلیا مَیں نے۔تم روز ہی ناشتا کیے بغیر چلی جاتی ہو۔سوچا ،آج تمھیں اپنے ہاتھوں سے ناشتا کرائوں گی۔‘‘ ’’امّاں! آپ بھی ناں…مَیں کوئی چھوٹی بچّی ہوں؟‘‘’’ہاں،تم لاکھ افلاطون بن جائو، میرے لیے تو وہی ننّھی سی زینو ہی رہو گی۔‘‘ زہرہ خاتون محبّت سے بولیں۔پراٹھوں اور خاگینے میں جیسے مامتا کی مہک گھلی تھی۔ماں کی محبّت نے زینی کی ساری اُداسی دُور کردی۔باتوں ہی باتوں میں زہرہ خاتون نے کہا،’’تمہیں پتا ہے، میرال کل کالج نہیں گئی تھی، تم نے وجہ پوچھی؟‘‘’’نہیں مجھے وقت ہی نہیں ملا۔ 

وہ بھی ناراض ہی ہوگی مجھ سے کسی بات پر۔‘‘ مَیں نے ان سب کو آسائشیں اور سُکھ دینے کے لیے، ان کے خواب پورے کرنے کے لیے خود کو گروی رکھ دیا، مگر پھر بھی سب مجھ سے نالاں ہی رہتے ہیں، جانے کیوں؟زینی سوچ رہی تھی، مگر زبان سے کچھ نہ بولی،لیکن زہرہ خاتون نے جیسے بیٹی کے دِل کی بات پڑھ لی ۔ ’’سب ٹھیک ہوجائے گا، پریشان نہ ہوا کرو۔‘‘ وہ رَسان سے بولیں۔

میرال آج بھی کالج نہیں گئی،تو زہرہ خاتون نے معاملے کی تہہ تک پہنچنے کی ٹھان لی۔ پھر ان کے پیار بَھرے اصرار پر میرال نے اپنا دِل کھول کر رکھ دیا۔’’نانو!میری دوست فریحہ نے ہماری ایک پارٹی کی تصاویرفیس بُک پر اَپ لوڈ کی تھیں،جو اس کے کزن آیان نے دیکھیں، تب سے وہ میرے پیچھے پڑگیا ہے۔فون نمبر بھی کہیں سے حاصل کرلیا۔اب روز چُھٹی کے وقت بائیک لے کر کھڑا ہوجاتا ہے اور فون پر بھی تنگ کرتا ہے۔‘‘ ’’اچھا تو یہ بات ہے۔تم نے زینی کو بتایا؟‘‘’’نہیں نانو! ماما بہت ناراض ہوں گی۔ 

جب مَیں کالج جارہی تھی، تو انہوں نے کہا تھا کہ خبردار کوئی ایسی ویسی بات نہ ہو۔مجھے بہت ڈر لگتا ہے۔‘‘ ’’اس میں ڈرنے کی کوئی بات نہیں۔اب پریشان نہ ہونا اور کل سے کالج جانا۔‘‘زہرہ خاتون اعتماد سے بولیں۔شام کو انہوں نے زینی کو بتایا، تو وہ بھی پریشان ہوگئی۔’’یہ لڑکی ہے ہی بے وقوف۔اتنے دِنوں سے اس نے مجھے بتایا کیوں نہیں، مَیں معاملے کا کوئی حل نکال لیتی۔‘‘’’اس لیے کہ تم نے اسے ڈرایا تو سہی، مگر اعتماد نہیں دیا،توبھلا وہ کیسے بتاتی تمہیں۔‘‘ زہرہ خاتون نے بیٹی کو جتایا، تو جیسے وہ شرمندہ سی ہوگئی۔’’امّاں! آپ نے اس سے ٹھیک کہا۔ وہ کل سے کالج جائے گی۔ مَیں فریحہ کی فیملی سے بات کرتی ہوں اور کالج کی پرنسپل سے بھی۔وہ میری دوست ہے۔‘‘میرال اب باقاعدگی سے کالج جارہی تھی اور مطمئن دکھائی دیتی تھی،البتہ ذیشان اب بھی ناراض سا نظر آتا تھا۔

اُس شام زینی جلدی گھر آگئی اور ملازمہ کے ساتھ مل کر گھر سیٹ کرنے میں مصروف ہوگئی۔ اچھا سا کیک بھی بیک کیا۔ پھر کھانا آرڈر کرکے خود تیار ہونے چلی گئی۔ فرقان بھی جلدی گھر آگیا۔آج ذیشان کی سال گرہ تھی اور سب نے مل کر اُسے سرپرائز پارٹی دینی تھی۔ذیشان کا انتظار ہورہا تھا، کوئی دس بجے کے قریب وہ گھر آیا، تو سب نے اُسے مبارک باد اور تحائف دئیے۔ کھانا سامنے آیا، تو اس نے فوراً کہا ’’آج کے دِن بھی آپ نے کھانا بازار سے منگوایا ہے۔ اپنے ہاتھوں سے میرے لیے کچھ نہیں بناسکتی تھیں۔‘‘زینی کچھ نہیں بولی، بس چُپ بیٹھی رہی۔ تھکن اس کے چہرے سے عیاں تھی۔ پھر کھانے کے بعد وہ کافی دیر تک گھر سمیٹتی رہی۔زہرہ خاتون نے اُس کی مدد کرنی چاہی،مگر وہ زبردستی انھیں بستر پرلٹا آئی۔

اگلے دِن سب دیر سے اُٹھے۔ شام کو فرقان اور زینی نے کہیں جانا تھا۔ بچّے گھر ہی پر تھے۔ زہرہ خاتون لائونج میں میرال اور ذیشان کے پاس آکر بیٹھ گئیں۔ اِدھر اُدھر کی باتوں کے بعد وہ اصل موضوع پر آگئیں۔’’مَیں جب تک یہاں نہیں آئی تھی، تم دونوں کی طرح زینی سے دِل ہی دِل میں ناراض رہتی تھی۔گائوں والے آبائی گھر سے اتنی یادیں جڑی ہیں کہ وہاں سے نکلنا مجھے بڑا مشکل لگتا ہے، مگر مَیں سوچتی تھی بچّے تو میرے پاس آہی سکتے ہیں۔ ملازمہ کے ساتھ مل کر معمول کے چھوٹے چھوٹے کام نمٹانے کے بعد میرے پاس کرنے کو کچھ نہیں ہوتا تھا۔ 

بس پُرانے البم نکال کر دیکھتی رہتی تھی، جن میں تمہاری ماں اور خالہ کا بچپن بکھرا تھا یا پھر ان کے ہاسٹلز سے لکھے ہوئے خط بار بار پڑھتی، جو اب ازبر ہوگئے ہیں۔سارا دِن میرے کان فون کی گھنٹی پر اور آنکھیں دروازے پر لگی رہتیں۔ فون آتا تو سب عجلت ہی میں بات کرتے اور پھر وہی جان لیوا خاموشی۔مجھے اکثر خوش فہمی ہوتی کہ میرے بچّے اچانک مجھ سے ملنے آجائیں گے، مگر ایسا سال میں ایک آدھ بار ہی ہوتا۔ مَیں خود غرضی سے سوچتی کہ مَیں نے ان کو پالنے اور ان کی تعلیم و تربیت کے لیے کیاکیا نہیں کیا، مگر اب ان کے پاس میرے لیے وقت ہی نہیں۔ 

گزشتہ ماہ مَیں اچانک بیمار پڑگئی اور کافی دِن بستر پر رہی۔ مَیں نے کسی کو نہیں بتایا، مگر زینی کو کسی اور کی زبانی پتا چلا، تو فرقان مجھے لینے آگیا۔ مَیں آنے کے لیے تیار نہیں تھی۔ زینی فون پر رونے لگی، تو مَیں فرقان کے ساتھ چلی آئی۔ یقین جانو،یہاں آکر میرے سارے شکوے ختم ہوگئے ہیں۔ مجھے احساس ہوا کہ زینی اب صرف میری بیٹی تھوڑی ہے، وہ ایک بیوی، ماں اور ذمّے دار افسر بھی تو ہے۔ وہ زندگی کے محاذ پر چومکھی لڑ رہی ہے۔ گائوں کی سادہ سی زندگی سے یہ دوڑتی بھاگتی زندگی کتنی مختلف ہے۔ 

آج کی ماں گزشتہ دَور کی نسبت زیادہ مشکلات سے گزر رہی ہے۔ ایسے میں اسے سراہنے کی ضرورت ہے، نہ کی صرف نکتہ چینی کی۔رشتوں میں خلیج پیدا ہوجائے، تو الجھنیں بڑھتی ہیں۔ باہمی محبّت اور اعتماد ہی میں مسائل کا حل پوشیدہ ہے۔ آسائشوں کے حصول کی خواہش کو کبھی رشتوں کے خالص پن پر حاوی نہیں ہونے دینا چاہیے۔ تم دونوں میری بات سمجھ رہے ہو ناں۔‘‘ ’’جی نانو!‘‘ دونوں بہ یک وقت بولے۔

اگلی صبح زہرہ خاتون نے دیکھا زینی کے ساتھ میرال بھی باورچی خانے میں ہاتھ بٹا رہی تھی۔ ناشتا کرتے وقت روز کی نسبت سکون تھا۔ زینی نے بچّوں کو پیار کیا، تو میرال نے اُٹھ کر ماں کو الوداع کہا۔ ذیشان بھی زینی کو باہر تک چھوڑنے گیا۔’’یہ سب آپ کا کمال ہے، تائی امّاں۔‘‘فرقان بولا۔’’اللہ تم لوگوں کو ہمیشہ خوش رکھے۔مَیں نے بھلا کیا کیا ہے۔ بیٹا! آج میری ٹکٹ کروا دو۔ مَیں بس اب واپس جائوں گی۔‘‘’’یہ کہاں جانے کی بات ہورہی ہے…؟‘‘ میرال اور ذیشان بہ یک وقت بولے۔’’واپس اپنے ٹھکانے پر۔‘‘ ’’وہ تو ٹھیک ہے، مگرتیرہ تاریخ سے پہلے آپ گائوں نہیں جاسکتیں۔‘‘ بچّے بولے۔’’تیرہ تاریخ میں کیا خاص بات ہے۔‘‘زہرہ خاتون نے پوچھا۔’’ایک سرپرائز ہے، آپ کے لیے۔‘‘ ذیشان نے جواب دیا۔زہرہ خاتون مُسکرادیں۔ ایک سرپرائز انہوں نے بھی نواسے کو دینا تھا۔ 

انہوں نے کچھ زمین بیچی تھی، ذیشان کی گاڑی کے لیے۔ کل بھی تو سب کچھ انہی بچّوں کا ہونا تھا، تو پھر آج ان کی خوشی کے لیے یہ سب کیوں نہیں کیا جاسکتا تھا۔ انہوں نے سوچ لیا تھا کہ جاتے وقت زینی کو وہ رقم زبردستی بھی دینی پڑی، تو دے کر جائیں گی۔ آخر کو بیٹی کی خودداری سے بخوبی واقف تھیں۔

اُس روز بچّوں اور فرقان نے زینی اور زہرہ خاتون کو کمرے سے باہر ہی نہیں نکلنے دیا تھا۔ وہ سب دونوں مائوں کے لیے کچھ خاص کرنا چاہ رہے تھے۔ زینی بے حد مطمئن سی ماں کی گود میں سَر رکھے لیٹی تھی۔ زہرہ خاتون اُسے اس کے بچپن کے قصّے سُنا رہی تھیں اور وہ بات، بے بات ہنس رہی تھی۔’’امّاں! آپ یہیں رہ جائیں، تو کتنا اچھا ہو۔‘‘’’نہ بیٹا! دُعا کرو کہ اللہ تعالی مجھے چلتا پھرتا رکھے،کسی کا محتاج نہ کرے۔‘‘اسی اثنا میں دروازے پر دستک ہوئی اور ذیشان جُھک کر بڑی ادا سے بولا،’’اب آپ دونوں معزز خواتین لائونج میں تشریف لے آئیں۔‘‘زہرہ خاتون اور زینی باہر آئیں، تو دیکھا، میز پر کیک، دیگر لوازمات اور تحائف سجے تھے۔

میرال نے دونوں کو گل دستے پیش کیے۔’’ارے اتنا اہتمام،یہ کس لیے…؟‘‘ زینی حیران تھی۔’’آپ دونوں یہاں بیٹھیں اور مل کرکیک کاٹیں۔‘‘فرقان بولے۔زینی کے ذہن میں ایک دَم جھماکا سا ہوا۔’’ارے، مَیں کیسے بھول گئی، امّاں کے لیے کوئی تحفہ بھی نہیں لیا۔‘‘’’کیک کاٹیں ناں، کیا سوچ رہی ہیں؟‘‘ بچّے بے قراری سے بولے۔ اس نے ماں کا ہاتھ تھام کر کیک کاٹا۔’’ہیپی مدرز ڈے…۔‘‘سب نے دونوں کو وش کیا۔’’آپ دونوں اس دنیا کی عظیم ترین مائیں ہیں۔‘‘زینی ماں کے کندھے پہ سَر رکھ کر طمانیت سے مُسکرادی۔’’اس میں تو شک کی کوئی گنجایش ہی نہیں ہے۔کیوں امّاں…؟‘‘زینی نے ماں کی تائید چاہی اور ان کے کندھے پر سَر رکھ دیا اور ذیشان نے اِن اَن مول لمحوں کو کیمرے کی آنکھ میں ہمیشہ کے لیے محفوظ کرلیا۔

تازہ ترین
تازہ ترین