• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سمندر یا کچرا گھر؟

کسی بھی ملک کی خوب صورتی،دل کشی اور رعنائی میں اضافے کا سبب وہاں کے دریا،جھلیں،وادیاں اور سمندرہوتے ہیں ،لیکن آج ہماراکرہ ٔ ارض ماحولیاتی تبدیلیوں کے تباہ کن دور سے دوچارہے ،جنہوں نے زمین کی بقا ء کو خطرے میں ڈال دیا ہے ،اس وقت زمین پر موجود ہر جاندار کو اس آلودہ ماحول نے پریشانی میں مبتلا کر رکھا ہے ۔اس کی سب سے بڑی وجہ انسانی سر گرمیاں ہی ہیں ۔انہیں کی وجہ سے دنیا گلوبل وارمنگ کے دلدل میں دھستی جا رہی ہے ۔جس طرح جنگلات ،در یا ،گلیشیرز ،موسموں پر اثر انداز ہورہے ہیں ،بالکل اسی طرح سمندر کو بھی گلو بل وار منگ کا سامنا ہے ،جب کہ ہم جانتے ہیں کہ سمندری جہازوں کے ذریعے تجارت ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے اور ہزاروں مچھیروں کا روزگار بھی اسی سے وابستہ ہو تا ہے لیکن ان سب باتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ہم دن بہ دن سمندر کو آلودہ کر رہے ہیں ۔سمندروں میں بیشتر غیر ضروری ٹھوس و آبی مواد دانستہ اور غیر دانستہ طور پر پھینکا جاتا ہے ،ساحل سمندر پرتفریح کے لیے آنے والے لوگ غذائی اشیاء کے خالی ڈبے و تھیلیاں وہی پر پھینک دیتے ہیں ،جو سمندر میں اُٹھتی لہروں اور ہوا کے ساتھ سمندر میں چلے جاتے ہیں ،اس کے علاوہ پسماندہ ممالک میں ساحلی علاقوں سے نکلنے والا گھریلو و صنعتی استعمال شدہ پانی بھی سمند ر کی نذرکیا جارہا ہے ۔علاوہ ازیں سمندر پر آباد ماہی گیر وں کا استعمال شدہ پانی اور مواد بلدیاتی سہولتیں نہ ہونے کی وجہ سے بر اہ راست سمندر میں پھینکتے ہیں ،جو سمندری آلودگی بڑھانے کا سبب بنتے ہیں ۔اس کے ساتھ ساتھ سمندری جہازوں سے نکلنے اور سمندری حادثات کی صورت میں بہنے والا تیل بھی آلودگی کی اہم وجہ ہے ۔

ماہرین ماحولیات کے مطابق سمندر کے قریب واقع جوہری کار خانوں سے نکلنے والا جوہری اورآبی وٹھوس مو اد بھی سمندر میں ڈال دیا جاتا ہے ،جس سے سمندری آ لو د گی میں خطر ناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے ۔کراچی کی صنعتو ں اور رہائشی علاقوں کا نصف سے زیادہ استعمال شدہ پانی ملیر اور لیاری ندیوں کے ذریعے سمندر میں بہایا جاتا ہے ۔ایک اندازے کے مطابق کرا چی میں روزانہ اسی لاکھ گیلن پانی استعمال کیا جا تا ہے ،جس میں آدھے سے بھی کم ٹریٹ کیا جاتا ہےاور باقی پانی کو برا ہ راست سمندر میں بہا دیا جاتا ہے ۔ 

اس آلودگی سے سب سے زیادہ آبی حیات بری طرح متاثر ہوتی ہیں، مچھلیاں ،جھینگے ،کیکڑے ودیگر مخلوق کی غذائی استعداد نہ صرف کم ہو جاتی ہے بلکہ بعض صورتوں میں صحت کے لیے نقصان دہ بھی ہوتی ہے ۔علاوہ ازیں سمندری نباتات پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں ،غرض یہ کہ آلودہ سمندروں سے کرۂ ارض کے ماحولیاتی توازن میںبگاڑ پیدا ہو تا ہے ،جس کا انسانی حیات پر براہ راست منفی اثر ہوتا ہے ،جب کہ لاکھوں شہر یوں کی غذائی ضروریات مچھلیوں اور دیگر آبی مخلوق کی صورت میں پوری ہوتی ہیں ، روزانہ ہزاروں کی تعداد میں لوگ مختلف ساحلی مقامات پر تفریح کےلیے جاتے ہیں ۔

ایک رپورٹ کے مطابق ساحل سمندر ڈیول پوائنٹ کے قریب پھیلی تیل کی باریک تہہ سے سمندر کا پانی کالا ہو گیا ہے ،جس کے باعث شہری مختلف جلدی امراض اور سانس کی بیماریوں میں بھی مبتلا ہو رہے ہیں ،حالاں کہ دنیا بھر میں ساحلی مقامات کو خاص اہمیت دی جاتی ہے ۔ یہاں پر تفریح کے غرض سے آنے والے سیاحوں کی وجہ سے ملک کو لاکھوں ،کروڑوں کا زرمبادلہ حاصل ہوتا ہے ۔اسی لیے صفائی کا خیال بہت زیادہ رکھا جا تا ہے ،علاوہ ازیں سمندری آبی حیات کے تحفظ کے لیے اقدامات کیے جاتے ہیں ،لیکن ہمارے ملک میں تو گنگا ہی الٹی بہہ رہی ہے ۔یہاں گردونواح کی ساری گندگی ،کچرا اور سیوریج کا پانی سمندر میں ڈال دیتے ہیں ،جس سے نہ صرف سمندر آلودہ ہوتا ہے بلکہ اس کے مضر اثرات آبی حیات پر بھی پڑتے ہیں ۔

سمندر یا کچرا گھر؟

سمندر کےدر جہ ٔ حرات میں اضافے کی ایک بڑی وجہ سمندر میں موجود کئی ٹن پلاسٹک کا کچرا ہے ،اگر صورت حال یہی رہی تو اگلے چند برسوں میں سمندر پلاسٹک کے کچرے سے اس قدر بھر جائیں گے کہ مچھلیوں کی تعداد کم اور کچرا زیادہ ہوجائے گا جو سمندری حیات کے لیے تباہ کن ثابت ہوگا ۔ آلودگی کی وجہ سے بحرالکاہل کے دُور دراز علاقے بھی متاثر ہورہے ہیں ۔گزشتہ برس یورپی یونین نے فیصلہ کیا تھا کہ 2030 ء تک تمام پلاسٹک پیکیجنگ اور کچرے کوری سائیکل کردیں گے ،مگر ابھی تک اس حوالے کوئی خاص پیش رفت ہوتی نظر نہیں آئی ہے۔ایک اندازے کے مطابق ہر سال یورپی ممالک 25 لاکھ ٹن پلاسٹک کا کچرا پیدا کرتے ہیں ،تا ہم اس میں سے صرف 30 فی صد، ری سائیکل اورباقی سمندر کی نذر ہوجاتا ہے ۔

اس ضمن میں آئی یو سی این کاکہنا ہے کہ اس کی ایک اہم وجہ گاڑیوں کے ٹائروں کے باریک ذرات اور ٹیکسٹائل سے نکلنے والے باریک ذ رات ہیں اور 15 سے 30 فی صد تک سمندری آلودگی ان باریک ذرات کی وجہ سےہوتی ہے۔ آئی یو سی این کے ڈا ئریکٹر جنرل انگراینڈرسن کے مطابق یہ مسئلہ ہمارے روز مرہ کے معمولات کی وجہ سے شدت اختیار کررہا ہے ،تا ہم ٹائروں اور مصنوعی کپڑوں سے پھیلنے والی اس آلودگی کا حل بہت مشکل ہے ۔ماہرین ماحولیات کے مطابق ایشیاء کے علاقوں سے مصنوعی کپڑے کے ذرات سمندر میں زیادہ شامل ہوتے ہیں ، جب کہ ٹائروں کی آلودگی امریکا ،یورپ اور وسطی ایشیا سے سمندروں میں شامل ہوتی ہے ۔

تحفظ ماحولیات کے صوبائی ادارے سندھ اینوارنمنٹل پروٹیکشن ایجنسی کے اعدادوشمار کے مطابق بہت سافضلہ مویشیوں کی مقامی کالونی سے بھی آتا ہے ،جس میں تقریباًدس لاکھ کے قر یب جانور ہیں ۔یہاںکا فضلہ بھی سمندر میںہی ڈالا جاتا ہے ۔درجنوں گندے نالے صنعتی فضلے کو کراچی کے سمندر میں لے جاتے ہیں ۔ ان ساحلوں پر پاکستان کی دو بندر گاہیں کراچی پورٹ اور بن قاسم پورٹ بھی آلودگی میں برابر کے ذمہ دار ہیں۔کراچی پورٹ ٹرسٹ کے ار باب اختیار سمندر کو صاف کرنے کے لیے دن رات کوشاں ہیں ۔

ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر کے سمندروں میں ہر منٹ کے بعد ایک ٹر ک کے برابر پلاسٹک کا فاضلہ داخل ہو تاہےاور ہر سال اس مقدا ر میںاضافہ ہو رہا ہے۔سمندر میں داخل آلودگی کا ذریعہ صرف 10 بڑے در یا ہیں ۔محقق کرسچیئن شمٹ کے مطابق، ایسا لگتا ہے کہ بڑے دریا یہ پلاسٹک منتقل کرتے ہیں اور یہ دریا وہی ہیں جہاں آبادی زیادہ ہے۔ماحولیاتی ادارے اور حکام ان دریائوں پر توجہ دے کر اس پلاسٹک کی مقدار کو کم کرسکتے ہیں ۔ان میںسے ایک دریا نیل اور دوسرا نائیجرافریقا میں ہے، جب کہ باقی 8 ایشیا میں ہیں، جن میں گنگا، دریائےسندھ،دریائے زرد،یانگزے،ہائے ہی،پرل، میکانگ اور آمور شامل ہیں ۔محقیقن نے اس مطا لعا تی رپورٹ کا جائزہ لیا جو دریائوں کی آلودگی سے متعلق ہے اور اس کا مقابلہ اس فضلے سے کیا جو دریائوں کے آس پاس کے علاقوں میں مناسب طر یقے سے ٹھکانے نہیں لگا یا جاتا ہے ۔ 

ان ترقی پذیر ملکوں میں فضلے کو ٹھکانے لگانے کے نظام کو بہتر کرنا ہوگا جہاں اقتصادی ترقی تیزی سے ہورہی ہے۔ویسے تو یہ مسئلہ پوری دنیا کا ہے صرف ترقی پذیر ملکوں تک محدود نہیں ہے ۔سمندروں میں پلاسٹک کی آلودگی کے ماحولیاتی اثرات کا تخمینہ لگانا اتنا آسان نہیں ہے ۔ایک اندازے کے مطابق صرف5 فی صد پلاسٹک کو موثر طر یقے سے ری سائیکل کیا جا تا ہے ۔2015 ء میں دنیا بھر میں 32 کروڑ 20 لاکھ ٹن پلاسٹک بنایا گیا اور 2050 ء تک اس مقدار میں چار گنا اضافہ ہو سکتا ہے ۔

کراچی کےسمندر میں روزانہ 50 کروڑ گیلن آلودہ پانی پھینکا جاتا ہے جن میں فیکٹریوں کا زہر آلودہ پانی بھی شامل ہے ،اسے بغیر کسی ٹر یٹمنٹ کے براہ راست سمندر میں ڈالا جاتا ہے ۔اقوام متحدہ کے سروے کے مطابق کراچی کے ساحلی علاقوں میں آلودگی اور زہریلے پانی کی مقدار اس قدر بڑھ گئی ہے کہ نہ صرف سمندری حیات کے لیے خطرے کا باعث ہے ۔بلکہ شہریوں کو بھی سنگین طبی مسائل لاحق ہوسکتے ہیں ۔ سمندر میں مستقل بنیادوں پر زہریلہ مادہ ،صنعتوں اور دیگر فضلہ بغیر کسی پروسس کے پھینکے جانے کے باعث پاکستان کو سالانہ اربوں روپے کا نقصان ہوتا ہے ۔ڈائریکٹر جنرل آف پورٹ اینڈ شپنگ کا کہنا تھا کہ، 25 سال قبل یہ پانی نیلا ہوا کرتاتھا اور ان میں باقاعدہ طور پر ڈولفن کو دیکھا جاسکتا تھا ،آج سمندری مخلوق ناپید ہوگئی ہے ،کیوں کہ بندر گاہیں اور سمندر 100 فی صد آلودہ ہو چکے ہیں ۔

انہوں نے اس بات کی نشان دہی بھی کی ہے کہ یومیہ 40 لاکھ گیلن میونسپل اور صنعتی فضلہ سمندر میں پھینکا جارہا ہے ۔سمندر میں زہریلہ مادہ دو گنا ہونے کی وجہ سے صرف پاکستان نیوی کو ان کے جہازوں کی صفائی کے لیے سالانہ ایک ارب روپے کا خرچ بر داشت کرنا پڑتا ہے ۔اگر غور کیا جائے تو اس آلودگی کا 100 فی صد ذمہ دار انسان خود ہی ہے ، ماحولیاتی ماہرین نے خبر دار کیا ہے کہ اگر اس کی روک تھا م کے لیے جلد ازجلد اقدامات نہیں کیے گئے تو 2050 ء تک ہمارے سمندروں میں مچھلیوں سے زیادہ پلاسٹک ہوگی اور اسی طرح غفلت برتی جاتی رہی تو یہ سب کچھ ملکی معیشت کوکمزور کرنے کا سبب بھی بن سکتا ہے۔س مسئلے کے حل کے لیے سمندری ساحلی پٹی کے لیے ایک ٹاسک فورس تشکیل دینی چاہیے۔

تازہ ترین