فرحی نعیم
نیکیوں، رحمتوں، برکتوں اور مغفرتوں والے ماہ مبارک یعنی’ رمضان المبارک ‘کی آمدمیں صرف چند گھنٹےباقی ہیں ۔ ہم سب اس مبارک مہینے کے استقبال کی تیاریاں اپنی اپنی سوچ، طرز زندگی اور حیثیت کے مطابق انجام دیتے ہیں۔ کہیں گھروں کی صفائیوں کی فکر ،تو کہیں رمضان کی خریداری اور اخراجات کی پریشانی۔سحرو افطار کی تیاریاں اور بہت سے دیگر لوازمات زندگی کی خریداری میں توازن رکھنے اور اپنی چادر دیکھتے ہوئے پائوں پھیلانے کی کوشش میں کبھی سر کھلا رہ جاتا ہے تو کبھی پیر۔
ہم معاشرے کے اعلیٰ اور متوسّط اعلیٰ طبقے کی بات نہیں کرتے کہ ان کے لیے من پسند خریداری کوئی مسئلہ نہیں، مسائل تو ان کے لیے ہیں جن کے اخراجات ایسے مواقع اور تہوار کے وقت بڑھ جاتے ہیں اور وہ چاہتے ہوئے بھی ان کو پورا نہیں کر پاتے۔ وہ بھی سال میں ایک دفعہ آنے والے ان خاص دینی ایّام اور عید جیسے خوشیوں سے بھرپور تہوار، اپنی خواہش اور ضروریات کا گلا گھونٹ کر گزار دیتے ہیں۔ ان کے بچّے حسرت و یاس کی تصویر بن کر بازاروں میں تھیلے بھر بھر کر بے دریغ خرچ کرنے والوں کو جب دیکھتے ہیں تو کیسی منفی سوچیں ان کے اندر پنپتی ہیں، ہم صرف اس کا اندازہ ہی کر سکتے ہیں۔
بڑے افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ ہم وہ قوم ہیں جن کا شمار غیر قوموں کی اندھادھند نقل کرنے اور بھیڑچال میں ہوتا ہے۔ ہم اپنی زبان، لباس، تہذیب، طور طریقوں سب سے بیزار ہیں۔ ہمیں نقالی کرنا اچھا لگتا ہے، چاہے وہ ہم سے لگا کھاتا ہو یا نہیں۔ ہمیں ان کے طور طریقے بہت پسند ہیں، ہم ان کے دن بھی بہت فخریہ مناتے ہیں لیکن کیا وجہ ہے کہ ان کی اچھی باتیں اپناتے ہوئے ہمیں ہچکچاہٹ ہوتی ہے۔ وہ ہم سے زیادہ دوسروں کا احساس خاص طور پر معاشرے کے کمزور طبقے کا خیال رکھتے ہیں اور اسی وجہ سے ہر سال اپنے سب سے بڑے تہوار کرسمس اور نئے سال کی آمد سے پہلے پورے ملک میں ’گرینڈ سیل‘ لگا دیتے ہیں ،تاکہ ہر شخص کی پہنچ میں ہر شے ہو جائے۔
اشیاء کی قیمتیں انتہائی کم کر دیتے ہیں تاکہ ہر شخص اس تہوار کو بھرپور طریقے سے منا سکے۔ کرسمس سے ایک ماہ قبل نومبر کے آخری جمعہ کو جسے انہوں نے ’’بلیک فرائڈے‘‘ کا نام دیا ہے، 50سے 70فی صد تک رعایتی سیل لگا دی جاتی ہے۔ پچھلے سال یہ دن بھی ہم نے بڑے اہتمام سے منایا۔ اگرچہ اس کی مخالفت بھی بہت کی گئی۔
ہماری تاجر برادری اور بزنس پیشہ افراد کیوں نہ اب رمضان اور عید سے پہلے بھی اس طرح کا ایک دن منا کر اور اسے سنہری جمعہ، روشن جمعہ، سبز جمعہ یا اسی طرح کا کوئی اچھا اور منفرد نام دے کر نچلے اور کمزور طبقے کو خوشیوں میں شریک کرے تاکہ وہ اپنی ضروریات زندگی اور خواہشات کو ناتمام نہ رہنے دیں بلکہ صحیح معنوں میں وہ بھی ان خوشیوں بھرے تہوار کو منائیں۔
تقلید ہی کرنا ہے تو کرسمس سے پہلے نہیں بلکہ اپنے مسلمان بہن، بھائیوں کو رمضان و عید سے قبل وہ سچّی خوشی عطا کر دیں جو دعائوں اور خوشیوں بھری مسکراہٹوں کی وجہ بن جائے۔ آپ اپنے نفع میں کمی کریں گے تو یہ کمی، کمی نہ رہے گی بلکہ دگنی خریداری ہو کر نفع میں زیادتی ہی ہو جائے گی۔
خوشیاں اور آسانیاں بانٹیے، بانٹنے سے چیزیں کم نہیں ہوتیں بلکہ ان میں اضافہ ہی ہو جاتا ہے۔ رمضان کا مہینہ ہمیں اللہ سے قرب اور تقویٰ اختیار کرنے کا درس دیتا ہے۔ غم گساری اور غم خواری سکھاتا ہے۔ نیکی کے حصول کا ذریعہ بنتا ہے تو کیوں نہ ہم بھی اللہ کے بندوں کو خوش کر کے اللہ کو خوش اور راضی کر لیں۔