• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میری پیاری ماں کا دستر خوان

فضا عارف

شکاگومیںمیری سکونت کا یہ تیسواں برس ہے،پتہ ہی نہیں چلا کب اتنا ساراوقت دبے پاؤں گذرگیا۔دونوں بیٹے عملی زندگی میں قدم رکھ چکے ہیں۔تیس برس قبل جب میں پردیس آئی تھی تومیرے لیے یہ اجنبی دنیا تھی۔کچھ محنت کے بعدمجھے ایک اسکول میں ملازمت مل گئی۔میرے شوہر کے پاس کچھ رقم تھی جس سے انہوں نے ایک چھوٹی دکان کھول لی،جو آج بڑا اسٹور بن چکی ہے۔زندگی بہت ہموار چلتی گئی۔

اکثر سننے میں آتا ہے کہ پردیس جانے والے عموماً مغربی طرز زندگی کے دلدادہ ہوتے ہیں،یہی وجہ ہے کہ جب میں اپنے بچوں کے ساتھ یہاں آئی تو سفر کے آغاز پر ’’ماں‘‘کی جانب سے نصیحتوں،تنبیہوں اور مشوروں کی ٹوکری بھی زادِراہ میں شامل تھی۔جس میں پہلی نصیحت یہی تھی کہ بچوں کو پرائے ماحول سے بچا کے رکھنا اور اُن کے کھانے پینے کے انداز خالص مشرقی رکھنا۔چوں کہ ماں نے دیگر امور میں تو طاق کیا ہی تھا،لیکن کھانا پکانے کا فن مجھے اُن سے ورثے میں ملا تھا۔یہی وجہ ہے کے میرے بچے مغربی معاشرے میں پروان چڑھ کے بھی مشرقی روایات سے جڑے ہیں۔

ماں کی زندگی فجر،ظہر،عصر،مغرب اور عشاء کے درمیان گھومتی تھی۔وہ نماز روزےکی پابند تھیں اور ہمیں بھی سختی سے اس پر عمل پیرا ہونے کی ہدایت تھی۔فجر کی جاگی ہوئی ماں رات گئے سوتیں ،لیکن مجھے یقین ہے وہ ہمارے لیے نیند میں بھی جاگتی ہوں گی۔

کچھ دن پہلےاپنی اسٹڈی کی صفائی کی توماں کی ڈائری ہاتھ لگی،یہ وہی ڈائری تھی جسے انہوں نے میرے لیےخاص کر کھانا بنانے کی تراکیب اور ٹوٹکوں سے مزین کیا تھا۔شروع میں تو یہ ڈائری میرے لیے خاصی مددگار ثابت ہوئی پھر آہستہ آہستہ اس کا لفظ لفظ ازبر ہوگیا،تاہم میں ماں کے ہاتھ کی وہ لذت و چاشنی آج تک نہ پا سکی۔نہ جانے کیا بات تھی اُن مسالوں میں جن کی مہک چار دیواری سے نکل کر چار گھروں کو مہکا دیتی تھی۔مجھے یاد ہے ماں، ہم بہن بھائیوں کو اسکول بھیجنےکے بعد مشینی انداز میں گھریلوامور نمٹاتیںاور ہماری واپسی تک گھرکی صفائی ستھرائی کے ساتھ بیل بوٹوں سے کڑھے ہوئے دسترخوان پر کھانا چن دیتیں۔

نہ اُن کے پاس چوپر تھا اور نہ ہی بلینڈر۔ہم نے ہمیشہ ماں کو سل بٹے پر مسالہ پیستے دیکھا۔اُن شامی کبابوں کی لذت بھلائے نہیں بھولتی جن کا قیمہ ماں بھری دوپہروں میںسل پر پیستیں۔چنے کی دال کے حلوے کے لیے خاص تیاری کرتیں ،دودھ میں تین کلو چنے کی دال رات بھربھگوتیں،دوسرے دن سل بٹے سے دال پیستیں ،دوپہر بھر میں حلوہ تیار کر دیتیں۔وہ مزہ مجھے پھر کہیں نہیں ملا.....کھانوں میں استعمال ہونے والے بارہ مسالوں کے بارے میں ماں نے مجھے اُس وقت بتایا تھا جب میں خود بارہ برس کی تھی،لیکن ماں مجھے کچن کے چھوٹے چھوٹے کام دے دیتیں اُن کے خیال میں لڑکی کی تربیت کا اہم جز باورچی خانے کے آداب میں بھی ہے۔ ان کی ڈائری میں سے چند ٹپس شامل کرنا چاہوں گی۔

بارہ مسالے:

’’کھانے میں چٹ پٹا پن پیدا کرنے والی بارہ چیزیں مشہور ہیں۔ انہیں ’’بارہ مسالے‘‘کہتے ہیں۔ ان میں پودینہ، زیرہ، بڑی الائچی، کالی مرچ، سونف، نمک، دھنیا، ہلدی، ادرک، اجوائن، کلونجی، اور تیج پات(تیز پات) شامل ہیں۔مسالےسے مراد نمک، مرچ، ہلدی، پیاز، لہسن، ادرک دھنیا، کالی مرچ، زیرہ وغیرہ جیسی چیزیں ہیں جو سالن پکاتے وقت اس میں ڈالی جاتی ہیں۔ عام طور پر مسالےڈالنے کا مقصد ذائقہ پیدا کرنا ہوتا ہے۔ اکثر اوقات مسالےپیس کر سفوف بنا لیتے ہیں اور وہی سالن میں ڈالتے ہیں، لیکن بعض پکوان میں ثابت مسالےبھی ڈالے جاتے ہیں جیسےبریانی میں۔ بعض اوقات مسالےباریک پیسنے کی بجائے موٹے موٹے کوٹ لیے جاتے ہیں جیسے کُٹی ہوئی مرچیں‘‘۔

آگے مزید انہوں نے لکھا ہے کہ ’’جب ہم بازار میں گرم مسالہ طلب کرتے ہیں تو دکاندار ہمیں سفید زیرہ، لونگ، بڑی الائچی، چھوٹی الائچی، دار چینی، کالی مرچ، جائفل اور جاوتری ایک خاص تناسب میں ملا کر دیتا ہے۔ ہم اسے پیس کر سفوف بنا لیتے ہیں۔’’ پسا ہوا گرم مسالہ ‘‘بھی ملتا ہے۔ گرم مسالہ تقریباً ہر سالن میں ڈالا جاتا ہے اور اس لحاظ سے سب سے زیادہ استعمال ہونے والا مسالہ پاؤڈر ہے۔

خشخاش، بادام، پستے، کالی مرچ، چھوٹی الائچی اور مغز وغیرہ بھگو اور کونڈی میں پیس کر اسے دودھ میں ملاتے ہیں۔ یہ سردائی کہلاتی ہے اور گرمیوں کا خاص مشروب ہے۔ عید تہوار پر حلوے، کھیر، شیر خورمے پر اور شربت پر کترے ہوئے بادام اور پستے چھڑکتے ہیں‘‘۔

ایسی ان گنت باتیں ان کی ڈائری میں لکھی ہیں،جو کسی بھی نوعمر لڑکی کے لیے خانہ داری کے حوالے سے کار آمد ہیں۔آج میری بیٹی بھی اس ڈائری سے مستفید ہو رہی ہے۔

تازہ ترین