• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بعض اوقات کالم کے لئے موضوعات کا ہجوم بھی قلم کے لئے مسائل پیدا کردیتا ہے۔ امریکی ادارے ایشیا سوسائٹی نیویارک میں لاہور لٹریری فیسٹیول کا انعقاد، نیویارک کے محکمہ پولیس کے ہیڈ کوارٹرز میں استقبال رمضان کی سالانہ تقریب، پاک۔ امریکہ تعلقات میں تاریخی تلخی، ٹرمپ دور میں مسلم کمیونٹی کی صورت حال سمیت متعدد موضوعات بیک وقت توجہ طلب انداز میں کھڑے تھے لیکن 14؍مئی کی صبح امریکی فاکس ٹی وی پر امریکہ سے بہت دور یہودیوں، عیسائیوں اور مسلمانوں کے لئے یکساں طور پر محترم اور تاریخی شہر کے مناظر نے تمام تر توجہ حاصل کرلی۔ براہ راست نشریات مقبوضہ یروشلم میں امریکی سفارتخانہ منتقل کرنے کی تقریب پر مشتمل تھیں۔ چند ماہ قبل امریکی صدر ٹرمپ نے ’’جروسلم‘‘ (یروشلم) کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرتے ہوئے امریکی سفارتخانہ کوتل ابیب سے ’’جروسلم‘‘ منتقل کرنے کے لئے وہاں عمارت تعمیر کرنے کا اعلان کیا تھا۔ مہذب ملکوں نے احتجاج بھی کیا ناپسندیدگی کا اظہار بھی اور سوچا کہ ابھی یروشلم میں سفارتخانہ کی عمارت تعمیر اور وہاں منتقل ہونے میں وقت لگے گا لیکن امریکہ میں صدر ٹرمپ کی گرتی ہوئی مقبولیت اور امریکی کانگریس کے مڈٹرم انتخابات کے تقاضوں اور مشرق وسطیٰ کی تبدیل شدہ صورت حال کے باعث صدر ٹرمپ نے اپنے اعلان کے صرف چند ماہ بعد ہی یروشلم میں امریکی قونصیلٹ کی عمارت کو ہی سفارتخانہ کے طور پر عارضی نام دے دیا۔ اب یروشلم کی تاریخ کے پہلے امریکی سفیر ڈیوڈ فریڈمین فی الحال امریکی قونصیلٹ جنرل کی اسی عمارت میں بطور سفیر بیٹھیں گے صدر ٹرمپ نے اسرائیل اور اپنے حامی امریکیوں سے وعدہ پورا کردیا۔ امریکہ سے مختلف مسالک کے سرکردہ عیسائی پادریوں اور یہودی راہبوں نے خوشی، فخر کا اظہار کرتے ہوئے صدر ٹرمپ کو خراج تحسین پیش کیا ان کے فیصلے اور عمل کو، تاریخی، سچائی اور امن کی درست سمت قرار دیا۔ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو تو جوش جذبات سے صدر ٹرمپ کا شکریہ اور امریکہ۔ اسرائیل اتحاد کی حمایت کرتے ہوئے معنی خیز انداز میں یہ بھی کہہ گئے کہ یہ حقیقت سچائی اور امن کی راہ ہے اور اس کے مخالفین مشرق وسطیٰ کے تلخ اور ٹوٹے ہوئے حقائق کی طرح بکھر گئے ہیں۔ صدر ٹرمپ کے داماد جیرڈکشنر نے ہزاروں فلسطینیوں کے احتجاج اور اسرائیلی فوج کا سامنا کرنے والے نہتے فلسطینیوں کو ’’پارٹ آف پرابلم‘‘ قرار دیا۔ مذہبی کلام، پیش گوئیاں، یہودیت کی تاریخ اور سرزمین فلسطین کے بارے میں بنی اسرائیل سے ہزاروں سال قبل اپنی کتب کے الہامی وعدوں کو اپنے موقف کی بنیاد بناکر پیش کیا گیا۔ مختصر الفاظ میں سیکولر امریکہ کے سفارتخانہ کی یروشلم منتقلی کی یہ تقریب مذہبی رہنمائوں کی دعائوں، تقاریر، روایات اور خصوصیات سے بھری ہوئی تھی مگر دور حاضر کی عملی حقیقتوں کی ترجمان بھی تھی کیونکہ طاقتور امریکہ اپنا وزن جس کے پلڑے میں ڈال دے وہی وزن دار ہوکر جیت جاتا ہے۔ یہ ایک تلخ مگر دور حاضر کی ٹھوس حقیقت ہے۔
صدیوں سے اسی سرزمین فلسطین پر آباد عربوں کو ان کے بنیادی حقوق زندگی سے بھی محروم کرکے قبضہ کرنے اور بے دخل کرنے کی مسلسل پالیسی کے باوجود مورد الزام ٹھہرائے جانے والے فلسطینی اس جمہوری دور میں اپنے تمام انسانی حقوق سے محروم اور محبوس ہونے کے باوجود بے بسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اس موقع پر احتجاج کرنے والے ان فلسطینی مردوں، عورتوں اور بچوں کو مسلح اسرائیلی فورسز نے جس بے دردی سے ہلاک اور زخمی کیا ہے وہ بھی تاریخ کا ریکارڈ ہے۔ 2700 افراد زخمی 58ہلاک اور بے شمار گرفتاریاں اور مظالم کا سلسلہ جاری ہے کیونکہ مشرق وسطیٰ کے وسیع علاقے میں اب ان کا کوئی حامی نہیں۔ کوئی بھی بادشاہ یا حکمران ان کی حمایت و مدد کرنے کو نہ تو تیار ہےاور نہ ہی وہ ایسا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
ترکی نے اسرائیل اور امریکہ سے اپنے سفیر احتجاجاً واپس بلا لئے ہیں او۔آئی۔سی ممالک سے رابطے کئے ہیں اور کویت نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے اس صورت حال پر غور کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ عملی دنیا اور زمینی حقائق کے تناظر میں یہ تمام اقدامات بے بسی سے اخلاقیات کا سہارا لینے والے اقدامات ہیں۔ اسرائیل کے خلاف سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی کی درجنوں قرار دادوں کا نتیجہ آج تک صفر نکلا ہے۔ اس کی وجہ مشرق وسطیٰ کے دولت مند حکمرانوں کی اپنی خواہشات اقتدار کی ضرورتوں اور ناعاقبت اندیشی ہے جس کی بدولت آج وہ خود بھی تباہ حال اور بے بس ہیں۔ مشرق وسطیٰ اب اپنی مرضی اور مقامی خواہشات کا مالک بھی خود نہیں رہا۔ اپنی بقا اور شہنشاہیت برقرار رکھنے کے لئے دوسروں کی مرضی کا محتاج ہے۔
یروشلم جسے اسرائیلی اور امریکی ’’جروسلم‘‘ کہتے ہیں وہاں سے ہزاروں میل دور ہمالیہ کے دامن میں آباد نیپال کے شہر جانک پور میں اپنے دو روزہ سرکاری دورہ کے دوران بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی ایک بہت بڑے عوامی طرز کے استقبالئے سے اس انداز میں خطاب کیا ہے کہ جیسے کوئی مذہبی رہنما اپنے ہم مذہبوں کو مذہب کے نام پر متحد کرنے کے مذہبی مشن پر کام کر رہا ہو۔ بھارت کو سیکولر اور بڑھاوا دینے والے حلقے نریندر مودی کی نیپال میں اس تقریر کو غور سے سنیں تو انہیں اندازہ ہوجائے گا کہ ’’جروسلم‘‘ سے جانک پور تک کے علاقوں کے درمیان آباد انسان کیسی ہولناک تباہی کی جانب دھکیلے جارہے ہیں۔ جن قارئین کو اس بارے میں زیادہ تجسس ہے وہ امریکی سفارتخانہ کی تل ابیب منتقلی کی تقریب اور نریندر مودی کی جانک پور کی تقریر کی وڈیوز کو شروع سے آخر تک دیکھ کر اپنی رائے سے آگاہ بھی کریں۔ اگر ایسی ہی تقاریر و تقاریب کسی مسلمان ملک میں ہوتیں تو انہیں تعصب و منافرت کا نام ضرور دیا جاتا۔
پاکستان کے قیام کو 70؍سال ہوگئے اور اسرائیل کے قیام کی 70؍ویں سالگرہ کے دن ہی امریکی سفارتخانہ کو یروشلم منتقل کرنے کی تقریب منعقد ہوئی۔ ان دونوں ملکوں کے قیام کا جواز بھی مذہبی گنوایا گیا۔ اسرائیل اور اس کے تمام قائدین آج بھی اسرائیل کے قیام کی بنیاد اعلانیہ طور پر یہودیت کے ماننے والوں کے لئے وطن قرار دیتے ہیں اور کوئی جھجک محسوس نہیں کرتے۔ 14؍مئی 1948ء کو جب ڈیوڈ بن گوریان نے 70؍سال قبل 4؍ہزار سال پہلے کی اپنی مذہبی پیش گوئیوں کو بنیاد بنا کر اسرائیل کے قیام کا اعلان کیا تو نہ صرف فلسطین میں بکھرے ہوئے مختلف یہودی عقیدوں کے ماننے والے یہودیوں نے منظم ہوکر اسے تسلیم کیا بلکہ صرف 11منٹ کے وقفہ سے امریکی صدر ہیری ٹرومین نے بھی اسرائیل کو تسلیم کرلیا۔ ہم آج قیام پاکستان کے 70؍سال بعد بھی پاکستان کے بانی قائد اعظم کو الجھائے بیٹھے ہیں کہ ان کا قیام پاکستان کا مقصد مذہب تھا یا معیشت تھی؟ 70؍سال بعد آج اسرائیل نہ صرف مشرق وسطیٰ کی ایک عملی حقیقت کے طور پر ابھرا ہے بلکہ وہ امریکہ کے شانہ بشانہ عالمی طاقتوں کے کھیل میں ایک اہم پلیئر بنتا جارہا ہے۔ مشرق وسطٰی میں چند لاکھ آبادی اور چند ہزار مربع میل کے علاقہ میں قائم اسرائیل اب ایشیا میں بھارت سے تعاون اور امریکی شراکت سے جنوبی ایشیا اور سینٹرل ایشیا میں خاموشی سے سرگرم ہے۔ غیراعلانیہ ایٹمی صلاحیت اور مشرق وسطیٰ کی سب سے بڑی فوجی طاقت اور امریکی تحفظ کا حامل اسرائیل ان 70؍سالوں میں دور حاضر کی ایک ٹھوس حقیقت بن کر سامنے آگیا ہے سعودی عرب سمیت متعدد مسلم ممالک خود اس حقیقت کو اعلانیہ تسلیم کررہے ہیں۔ جبکہ ہمارا پاکستان ان 70؍سالوں میں اتار چڑھائو کا شکار ہوکر کچھ ترقی تو کرتا رہا اور اپنی بقا کے لئے ایٹمی صلاحیت بھی حاصل کرکے دنیا کو حیران کردیا لیکن ناعاقبت اندیش اور حرص و لالچ کے شکار قائدین کے فیصلوں کی بدولت ان 70؍سالوں میں پاکستان نہ صرف سکڑ کر نصف رہ گیا اور فوجی شکست کا شکارہوا بلکہ وسائل کی بربادی اور انتشار سے گزرتے گزرتے دوسروں کی جنگوں کو بھی اپنی ذمہ داری بناتے بناتے ایسی تنزلی کا شکار ہوا کہ خود اس کے اپنے شہری غیرمحفوظ اور لاقانونیت کا شکار ہوکر اعتماد کھو رہے ہیں۔ نہ اپنی خارجہ پالیسی کو مضبوط و مربوط کیا اورنہ ہی داخلی حالات کو بہتر بنایا لہٰذا آج ’’جروسلم‘‘ سے لے کر جانک پور تک ہم بیرونی سازشوں کی زد میں ہیں اور سفارتی تنہائی کے گرداب اور بڑی طاقتوں کے دبائو میں ہیں۔ یروشلم اور جانک پور کی مذکورہ عوامی تقاریر میں صرف چند گھنٹوں کا فرق ہے مگر یہ آنے والی تاریخ میں بڑی اہمیت کے حامل ہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مسلمان طالبان کے بعد دیگر مذاہب کے طالبان کی دہشت گردی کا موسم بھی آنے کو ہے جسے کوئی اچھا سا عنوان مل جائے کیونکہ طاقتور ہی اپنے اردگرد کے ماحول اور دور میں جائز و ناجائز، اخلاقیات اور انصاف کی عارضی تعریف متعین کرتا ہے۔ طاقت کا توازن تبدیل ہوتے ہی معیار اور موقف بھی تبدیل ہوجاتے ہیں۔ فی الحال جروسلم سے جانک پور تک بسنے والے انسانوں کے لئے مشکل حالات اور امریکہ بھارت اسرائیل کا ٹرائی اینگل کارفرما نظر آتا ہے۔ اہل پاکستان داخلی جھگڑوں میں مصروف کار رہیں۔ بیرونی طاقتوں کا ٹرائی اینگل حل فراہم کردے گا۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین