• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس مرتبہ میرے والدِ محترم کی برسی ایسے وقت آئی ہے جب ملک میں سیاسی بے چینی اپنے پورے عروج پر ہے۔ کہیں پر نئے بیانیے کی بات ہو رہی ہے تو کوئی 11 نکات لے کر سامنے آیا ہے۔ کسی طرف سے جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کی بات ہو رہی ہے تو کوئی احتساب کا نعرہ بلند کر رہا ہے۔ ان تمام باتوں کے پس منظر میں مَیں ایک ہی بات کہنا چاہتا ہوں کہ جب ہم کسی سیاسی بیانیے کی بات کرتے ہیں تو مَیں نے اپنی پوری زندگی میں دو ہی سیاسی بیانیے معتبر پائے ہیں۔ پہلا سیاسی بیانیہ بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ کا تھا جس کے بعد ہم ایک آزاد اور خودمختار پاکستان کے مالک ہوئے۔ جبکہ دوسرا سیاسی بیانیہ شہید ذوالفقار علی بھٹو کا تھا جس نے قوم کو متفقہ آئین دیا اور ایٹمی قوت بنانے کے لئے انہوں نے بنیاد رکھی۔ اب اگر کوئی اس ملک کو سیاسی بنیادوں پر مضبوط کرنا چاہتا ہے تو اسے یہ دونوں بیانیے اپنے سامنے رکھنا ہوں گے۔میری خوش بختی یہ ہے کہ ان دونوں سیاسی بیانیوں کے دوران میرے والدِ گرامی سیاسی طور پر نہ صرف سرگرم تھے بلکہ قیامِ پاکستان سے لے کر تعمیرِ پاکستان کے ہر عمل میں شریک ہوتے تھے۔ والد محترم 12؍دسمبر 1919ء بمطابق آٹھ محرم الحرام اپنے آبائی گھر واقع پاک دروازہ ملتان میں پیدا ہوئے۔ پیدائش کے وقت اُن کا نام سیّد ابوالحسن شاہ رکھا گیا۔ لیکن آٹھ محرم الحرام کی نسبت سے بعد میں علمدار حسین رکھ دیا گیا اور یہی نام معروف ہوا۔ والد نے ابتدائی تعلیم ملتان اور مظفرگڑھ میں حاصل کی کیونکہ دادا اُن دنوں سَب ڈویژنل مجسٹریٹ علی پور، مظفرگڑھ تعینات تھے۔ نوابزادہ نصراﷲ خان والد کے کلاس فیلو تھے۔ والد نے 1941ء میں ایمرسن کالج ملتان سے بی۔اے کا امتحان پاس کیا۔ وہ خاندان کے دوسرے فرد تھے جنہوں نے بی۔اے تک تعلیم حاصل کی۔
والد نے اپنے زمانۂ طالب علمی ہی سے سیاست میں حصہ لینا شروع کر دیا اورآل انڈیا پاکستان مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی۔ جب وہ ایف۔اے کے طالب علم تھے تو انہوں نے اپنے بزرگ سیّد زین العابدین شاہ گیلانی اور مسلم لیگ ضلع ملتان کے صدر دادا مخدوم غلام نبی شاہ گیلانی کے ساتھ مل کر مسلم لیگ کے لئے کام کیا۔
ایک مرتبہ پردادا پیر صدرالدین شاہ گیلانی 1946ء میں چچا سیّد رحمت حسین کی منگنی کے سلسلے میں مخدوم الملک سیّد غلام میراں شاہ گیلانی کے ہاں جمال الدین والی، ضلع رحیم یار خان گئے۔ جب وہ وہاں پہنچے تو مخدوم الملک نے خواہش ظاہر کی کہ ان کی والدہ اور دو بیٹیوں سے بیعت لیں۔ اس طرح یہ خواتین پردادا کے ہاتھ پر بیعت ہوئیں اور بعد میں اُن کی بیٹیوں میں سے ایک کی شادی 1948ء میں میرے والد اور دوسری کی شادی اُسی روز چچا رحمت حسین سے ہوئی، یوں اُن کی یہ دونوں بیٹیاں میری والدہ اور خالہ بنیں۔ اُن کی تیسری بیٹی اُس وقت نو عمر تھیں۔ بعد میں اُن کی شادی پیر صاحب پگاڑو سے ہوئی۔ والدہ کو شادی کے بعد آبائی گھر واقع پاک دروازہ میں لایا گیا۔ بڑی پھوپھی (جو بڑی بی بی کے نام سے موسوم تھیں، زُہد و تقویٰ اور پرہیزگاری میں اتنی مشہور تھیں کہ ملتان میں شاید ہی کوئی ایسا گھر ہو جس نے ان سے فیض نہ پایا ہو، ساتھ ہی وہ صاحبِ ثروت بھی تھیں) نے والد اور چچا رحمت حسین کو قائل کیا کہ آپ دونوں کی دُلہنیں بڑے گھرانوں سے ہیں اور انہوں نے محلات میں پرورش پائی ہے لہٰذا انہیں الجیلان روڈ پر واقع گھر ’الجیلان‘ لے جائیں اور وہیں رہائش پذیر ہوں۔ یہ گھر آدھ مربع رقبہ پر محیط پھوپھی کی اپنی ملکیت تھا۔ سو، والد اور چچا رحمت حسین اس گھر میں منتقل ہو گئے۔ تایا ولایت حسین پہلے ہی اُس گھر کے قریب رہائش پذیر تھے جو نئے ڈیزائن کے مطابق تعمیر ہوا تھا اور جس میں ایک تہہ خانہ تھا جو ان دنوں ایک جدت تھی۔
والد صاحب اس گھر ’الجیلان‘ کو خوش بختی اور ملتان کی سیاست کا محور سمجھتے تھے کہ اس گھر میں گورنر جنرل غلام محمد، خواجہ ناظم الدین، وزارئے اعظم نوابزادہ لیاقت علی خان، حسین شہید سہروردی، آئی آئی چندریگر اور ملک فیروز خان نون کے علاوہ محترمہ فاطمہ جناح اور سردار عبدالرب نشتر اور راجہ غضنفر علی جیسی نامور شخصیات تشریف لا چکی تھیں۔ علاوہ ازیں پیر صاحب اجمیر شریف بھی اس گھر میں تشریف لا چکے تھے۔1951ء کے عام انتخابات میں والد کے نامزد اُمیدواروں کو مسلم لیگ کے ٹکٹ دیئے گئے۔ ان انتخابات کے سلسلے میں مسلم لیگ کا کنونشن ہمارے گھر ’الجیلان‘ ملتان میں ہوا جس کی صدارت وزیر اعظم پاکستان اور صدر مسلم لیگ نوابزادہ لیاقت علی خان نے کی۔ جلسے کے دوران وزیراعظم نے والد، تایا ولایت حسین اور چچا رحمت حسین کے ہاتھ تھام کر کہا:
"They are the backbone of the Muslim League"
ترجمہ: یہ مسلم لیگ کی ریڑھ کی ہڈی ہیں۔
والد محترم نے 1953ء میں فیروز خان نون کی کابینہ میں بطور وزیر صحت و بلدیات حلف اٹھایا۔ وزارتِ بلدیات عوام کے ساتھ رابطے اور مقامی سطح کے کام کروانے کے نقطہ نظر سے اہم ہے۔ والد صاحب نے وزیر صحت کی حیثیت سے گرانقدر خدمات انجام دیں۔ انہوں نے کئی اضلاع میں ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال (ڈی ایچ کیو) بنوائے جن میں ملتان، میانوالی، مظفرگڑھ اور ڈیرہ غازی خان کے ہسپتال قابلِ ذکر ہیں۔ ان کے علاوہ نشتر ہسپتال و میڈیکل کالج ملتان کے قیام میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ میو ہسپتال لاہور اور ساملی سینی ٹوریم (ٹی بی ہسپتال) مری کی توسیع بھی ان ہی کے دور میں ہوئی۔ اس دور میں ڈاکٹروں کی بے حد کمی تھی اور دیہی علاقوں میں طبی سہولتیں نہ ہونے کے برابر تھیں۔ اس اہم انسانی مسئلے کے فوری حل کے لئے والد صاحب نے وکٹوریہ ہسپتال، بہاولپور میں ایل ایس ایم ایف میڈیکل سکول کی بنیاد رکھی۔ میٹرک کے بعد اس سکول میں تین برس کا میڈیکل کورس کروایا جاتا تھا جس کے بعد دو برس تک دیہی علاقے میں خدمات انجام دینے کی لازمی شرط پوری کرنے پر متعلقہ اُمیدوار ایم بی بی ایس کے امتحان دینے کا اہل قرار پاتا تھا۔ ماموں مخدومزادہ سیّد حسن محمود اس دور میں بہاولپور ریاست کے وزیر اعلیٰ تھے۔ انہوں نے اس نیک کام کے لئے بنیادی ضروریات بہم پہنچائیں اور یوں ایک دردمند دل کی انقلابی سوچ نے نہ صرف دیہی علاقوں میں طبی سہولیات مہیا کر دیں بلکہ ملک میں ڈاکٹروں کی شدید کمی دور کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔
والد گرامی کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ 1956ء کا آئین بنانے والوں میں شامل تھے۔ آئین کی اہمیت اور تقدس کو اُن سے بہتر کون جان سکتا ہے جنہوں نے قیامِ پاکستان کے لئے اَن گنت قربانیاں دی ہوں۔ آئین پاس ہونے پر انہوں نے تمام اراکین کے ساتھ بابائے قوم قائدِ اعظم محمد علی جناحؒ کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لئے ننگے پاؤں اُن کے مزار پر حاضری دی۔ اُن کے اس عمل میں قوم کے لئے پیغام تھا کہ زندہ قومیں اپنے محسنوں سے محبت اور اُن کا ادب و احترام اُن کی زندگی اور بعد از زندگی برقرار رکھتی ہیں۔ دنیا کی مشہور سوانح عمری "The World Who's Who 1954-55 Edition" میں بھی اُن کا نام شامل ہوا۔ والد صاحب ہمیشہ تین رمضان المبارک کو اپنے ہاتھ سے کھانا تیار کرتے اور کہتے کہ یہ بی بی فاطمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے وصال کا دن ہے۔ اُس دن اپنے دوستوں کو مدعو کرتے اور اُن کی خوب تواضع کرتے تھے۔ زندگی بھر انہوں نے اس روایت کو نہایت محبت و شوق سے نبھایا۔ اتفاق ہے کہ وہ اسی دن یعنی تین رمضان المبارک مورخہ 9؍ اگست 1978ء کو انتقال کر گئے۔ اِنّا لِلّٰہِ و اِنّا اِلَیْہِ رَاجِعُون۔
والد باقاعدگی سے ڈائری لکھا کرتے تھے۔ اپنی وفات سے ایک روز قبل انہوں نے ڈائری میں احمد ندیم قاسمی کا یہ شعر لکھا:
عمر بھر سنگ زنی کرتے رہے اہلِ وطن
یہ الگ بات ہے دفنائیں گے اعزاز کے ساتھ
اس سال جب اپنے والدِ گرامی سیّد عملدار حسین گیلانی کی شخصیت پر لکھنے بیٹھا ہوں تو میرے سامنے چند ہفتے قبل ہم سے جدا ہونے والے حضرت موسیٰ پاک شہید کے سجادہ نشین اور میرے بہنوئی مخدوم سیّد وجاہت حسین گیلانی مرحوم و مغفور کا چہرہ آتا ہے۔ جو شعبان المعظم سے ہی مجھ سے برسی کے انتظامات کے بارے میں پوچھا کرتے تھے اور صدارت کیا کرتے تھے۔ وہ ہمارے سجادہ نشین ہونے کے علاوہ خاندان کے سربراہ اور میرے شفیق بڑے بھائی تھے۔ جنہوں نے اپنی پوری زندگی اتحاد بین المسلمین کے پیغام کو پھیلانے کے لئے وقف کر رکھی تھی۔اس مرتبہ جب دُعا ہو گی تو وہ ہمارے درمیان نہیں ہوں گے بلکہ ہم سب لوگ اُن کے لئے دُعاگو ہوں گے کہ اﷲ تعالیٰ اُن کے درجات بلند کرے۔
آج والد صاحب کو ہم سے بچھڑے 40 برس ہو گئے اور ان کے یومِ وفات پر مَیں انہی کی روایات پر عمل کرتے ہوئے 3 رمضان المبارک کو دوستوں کومدعو کرتا ہوں، ان کی افطاری کرواتا ہوں اس موقع پر اُن کے درجات کی بلندی کے لئے دُعا کی جاتی ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین