• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نواز شریف حکومت مئی کے آخر تک اپنی مدت مکمل کرلے گی۔ موجودہ حکومت کی معاشی کارکردگی کا جائزہ لیں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ حکومت نے ابتدا میں صحیح ترجیحات کی بنیاد پر افواج پاکستان، رینجرز سیاسی جماعتوں کے صلاح مشورے اور تعاون سے ملک میں دہشت گردی پر قابو پایا اور امن و امان کی صورتحال بہتر ہوئی بالخصوص شہر کراچی جو پاکستان کا معاشی حب ہے، ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری، اغواء برائے تاوان اور ہڑتالوں پر قابو پایا گیا جس سے کراچی کے لوگوں نے سکون کا سانس لیا۔ کراچی آپریشن کے ذریعے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے جرائم پیشہ افراد اور ان کے سہولت کاروں کا صفایا کیا، ایم کیو ایم کا عسکری ونگ جس کا کراچی میں امن و امان کی صورتحال خراب کرنے میں اہم کردار تھا، کو رینجرز نے منطقی انجام تک پہنچایا اور اب ایم کیو ایم مختلف دھڑوں میں بٹ کر اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے۔ حکومت کی دوسری بڑی ترجیحات میں ملک میں لوڈشیڈنگ کا خاتمہ اور صنعتوں کو بلاتعطل توانائی سپلائی کرنا تھا۔ حکومت نے سی پیک کے توانائی کے Early Harvest منصوبوں کے ذریعے تقریباً 8 سے 10 ہزار میگاواٹ اضافی بجلی نیشنل گرڈ میں داخل کی جس سے ملک میں کافی حد تک لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ہوگیا تاہم کراچی میں حالیہ لوڈشیڈنگ کے الیکٹرک کی سوئی سدرن گیس کمپنی کو عدم ادائیگی کی وجہ سے گیس کی سپلائی منقطع کرنے اور کے الیکٹرک بن قاسم پاور پلانٹ میں تکنیکی خرابی کی وجہ ہے۔
حکومت نے وعدہ کیا تھا کہ پہلے تین سال اصلاحات اور آخری دو سال اونچی گروتھ حاصل کرنے پر فوکس کریں گے لیکن سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی ان ڈائریکٹ ٹیکسز کے ذریعے ریونیو کے زیادہ سے زیادہ حصول، روپے کی قدر کو مصنوعی طور پر ڈالر کے مقابلے میں 98اور پھر 102کی سطح پر رکھنے، ایکسپورٹرز کے 400ارب روپے سیلز اور انکم ٹیکس ریفنڈ کی عدم ادائیگی کی پالیسی کی وجہ سے ملکی ایکسپورٹس مسلسل گرتی رہیں جبکہ امپورٹس میں تیزی سے اضافہ ہوا جس کی وجہ سے حکومت کو اس سال تقریباً 30 ارب ڈالر کے تجارتی اور 13.7ارب ڈالر کے کرنٹ اکائونٹ خسارے کا سامنا ہے۔ قرضوں کی ادائیگی کی وجہ سے زرمبادلہ کے ذخائر میں تیزی سے کمی ہورہی ہے جو کم ہوکر 17ارب ڈالر تک رہ گئے ہیں جس میں اسٹیٹ بینک کے 11ارب ڈالر اور کسٹمرز کے بینک ڈپازٹ 6ارب ڈالر ہیں۔ اس عرصے میں ڈاکٹر مفتاح اسماعیل نے وزیر خزانہ کا چارج سنبھالا جن کی پالیسیاں سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار سے بالکل مختلف ہیں۔ انہوں نے روپے کی 10فیصد ڈی ویلیوایشن کی جس کی وجہ سے روپیہ ڈالر کے مقابلے میں 116روپے کی سطح پر آگیا۔ وزیراعظم کے 180 ارب روپے کے ایکسپورٹس بحالی پیکیج جو 10 فیصد ایکسپورٹ گروتھ سے مشروط تھا، کو غیر مشروط کردیا گیا۔ مفتاح اسماعیل نے ایکسپورٹرز کے 100 ارب روپے کے سیلز ٹیکس ریفنڈز موجودہ حکومت ختم ہونے سے پہلے ادائیگی کا وعدہ کیا ہے جس کی وجہ سے ملکی ایکسپورٹس بڑھنا شروع ہوئی ہیں لیکن حکومت پر بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں کا بے پناہ بوجھ ہے جو بڑھ کر ریکارڈ 91 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہیں۔ قرضوں میں بے انتہا اضافے کی وجہ سے حکومت نے زیادہ سے زیادہ قرضوں کے حد کے قانون FRDL جس کے تحت حکومت جی ڈی پی کے 60 فیصد سے زیادہ قرضے نہیں لے سکتی، کو بھی تجاوز کرلیا ہے۔ پاکستان کو آنے والے مالی سال میں ایکسٹرنل فرنٹ پر تقریباً 19 ارب ڈالر کی ضرورت ہے جس میں 14 ارب ڈالر کرنٹ اکائونٹ خسارے (جی ڈی پی کا 5 فیصد)اور 5 ارب ڈالر بیرونی قرضوں اور سود کی ادائیگی کی مد میں چاہئیں۔ اس سلسلے میں حکومت نے بیرونی اثاثوں کو وطن واپس لانے یا ظاہر کرنے کیلئے ایمنسٹی اسکیم کا اعلان کیا ہے۔ اسکیم کے تحت امید ہے کہ حکومت کو تقریباً 5 ارب ڈالر حاصل ہونگے۔ پاور سیکٹر کے حکومت پر تقریباً ایک کھرب روپے کے گردشی قرضے جمع ہوگئے ہیں جن کی ادائیگی آنے والی حکومت کیلئے ایک بڑا چیلنج ہوگی۔ اس کے علاوہ نقصان میں چلنے والے حکومتی اداروں پی آئی اے، اسٹیل ملز، ریلوے، واپڈا کو چلانے کیلئے 500 ارب روپے سالانہ کا بوجھ بھی آنے والی حکومت کیلئے چیلنج ہوگا۔ حکومت نے حالیہ بجٹ میں 1800ارب روپے کا بجٹ خسارہ ظاہر کیا ہے لیکن اگر اس میں پاور سیکٹر کے 980ارب روپے کے گردشی قرضے، ایکسپورٹرز کے 260 ارب روپے کے سیلز ٹیکس ریفنڈز اور حکومتی نقصان میں چلنے والے اداروں کے 500ارب روپے کے سالانہ نقصانات جمع کریں تو بجٹ خسارہ بہت بڑھ جاتا ہے۔ ملک میں سیاسی عدم استحکامی کی وجہ سے اسٹاک ایکسچینج جو 2017ءمیں 53,300 کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا تھا، 30فیصد گرکر 37,800 کی نچلی ترین سطح پر پہنچ آگیا لیکن روپے کی ڈی ویلیو ایشن کے مدنظر بیرونی خریداروں کی دلچسپی سے انڈیکس دوبارہ 42,400 کی سطح پر پہنچ گیا ہے۔
آئی ایم ایف نے پاکستان کی موجودہ معاشی صورتحال اور پاکستان کے بیرونی ذخائر میں کمی پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ملکی معیشت کے تجزیئے کے ساتھ میں پالیسی میکرز کو معیشت کی بحالی کیلئے چند تجاویز پیش کرتا ہوں۔ پاکستان کی معیشت میں زراعت13 فیصد، صنعت (مینوفیکچرنگ) 20 فیصد اور سروس سیکٹر 67 فیصد پر مشتمل ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملکی زراعت اور صنعت کے شعبے سکڑ رہے ہیں جبکہ خدمات کا شعبہ پھیل رہا ہے۔ ہمیں زراعت اور صنعت کے شعبوں کو فروغ دینا ہوگا۔ بیرونی ذخائر بڑھانے کیلئے ملکی ایکسپورٹس سب سے اہم ہے، ہمیں ایکسپورٹس بڑھانے کیلئے پیداواری لاگت، بجلی اور گیس کے نرخوں میں کمی اور سیلز ٹیکس ریفنڈز اور امپورٹ مصنوعات کے متبادل پر کام کرنا ہوگا۔ سی پیک کے اسپیشل اکنامک زونز میں بیرونی سرمایہ کاری راغب کرنے کیلئے حکومت کو ملک میں سیاسی استحکام اور پالیسیوں کا تسلسل رکھنا ہوگا۔ ایمنسٹی اسکیم کو جلد از جلد فعال بناکر اثاثوں کو ریگولرائز کرنا ہوگا تاکہ سرمایہ کاروں کا ملک پر اعتماد بحال ہوسکے۔ پاکستان کا انرجی مکس خطے میں سب سے مہنگا ہے، ہمیں اپنی انرجی کی اوسط نرخ کم کرنے کیلئے سستے ذرائع جن میں کوئلے، ہائیڈرو، نیوکلیئر سے بجلی پیدا کرنا شامل ہے، سے بجلی پیدا کرنی ہوگی۔ ٹیکس نیٹ بڑھانے کیلئے نئے ٹیکس پیئرز کو ٹیکس نیٹ میں شامل کرنا ہوگا۔ پاکستان نے چین اور دیگر ممالک کے ساتھ جو آزاد تجارتی معاہدے (FTAs) جس میں ہم نے ان ممالک کو ڈیوٹی فری مارکیٹ رسائی دی ہے، سے پاکستان کے مقابلے میں چین اور دیگر ممالک کو زیادہ فائدہ ہوا ہے۔ مثال کے طور پر چین کے ساتھ FTA سے چین کی پاکستان کو ایکسپورٹس 15 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہے جبکہ پاکستان کی چین کو ایکسپورٹ صرف 2 ارب ڈالر ہے۔ ہمیں ایسے تمام آزاد تجارتی معاہدوں کا دوبارہ مطالعہ کرنا ہوگا اور ان ممالک سے پاکستان سے دیگر مصنوعات کی ایکسپورٹس کیلئے ڈیوٹی فری مارکیٹ رسائی حاصل کرنا ہوگی۔ نقصان میں چلنے والے قومی اداروں پی آئی اے، اسٹیل ملز، واپڈا وغیرہ کی ترجیحی بنیادوں پر نجکاری کرنا ہوگی۔ ملک میں غربت میں کمی کیلئے ہمیں مسلسل چھ سات سال 7فیصد اونچی جی ڈی پی گروتھ حاصل کرنا ہوگی جس سے ملک میں نئی ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوں گے اور غربت میں کمی آئے گی۔ زراعت کے شعبے میں ہمیں ریسرچ کے ذریعے نئے بیج دریافت کرنے ہونگے جو ہماری فی ایکڑ زرعی پیداوار میں اضافہ کریں۔ بھارت نے 5 سال میں اپنی کاٹن کی پیداوار 18ملین بیلز سے 36ملین بیلز کرلی ہے جبکہ پاکستان میں کاٹن کی پیداوار 14سے 15ملین بیلز سے کم ہوکر 10سے 11ملین بیلز تک آگئی ہے جس کی وجہ سے پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری کو ہر سال کئی ملین بیلز کاٹن بھارت اور دیگر ممالک سے امپورٹ کرنا پڑتی ہے جو ان کی مقابلاتی سکت کو نقصان پہنچارہی ہے۔ ملک کی موجودہ معاشی صورتحال، بجٹ میں رکھے گئے اہداف، بیرونی ذخائر میں کمی اور قرضوں کی ادائیگیاں یقیناً آنے والی عبوری اور نئی حکومتوں کیلئے بڑے چیلنج ہوں گے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین