یہ امر نہایت قابل افسوس ہے کہ عالمی طور پر تقریباً 2.7 ملین بچے اس وقت کم غذائیت کا شکار ہو کر 5سال کی عمر کو پہنچنے سے قبل ہی جاں بحق ہو جاتے ہیں۔ اس صورتحال سے پاکستان بھی متاثر ہے اور 44فیصد پاکستانی بچوں کی بہتر نشوونما نہیں ہوپاتی، پاکستانی بچوں کی اس کم نشوو نما کی بنیادی وجہ کم غذائیت ہے۔ غربت، غذائی بحران، خراب طبی سہولتیں، حفظات صحت سے متعلق بیماریاں جیسے کہ اسہال وغیرہ اور غیرمعیاری کھانا کھانےسے پاکستانی بچےکم غذائیت کا شکار ہوتے ہیں۔ جب کہ دوسری جانب 20فیصد پاکستانی حاملہ خواتین اور پانچ سال سے کم عمر کے بچے وٹامن A کی شدید کمی کا شکار ہیں جبکہ 62 فیصد بچے خون کی کمی کا شکار ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق کل بچوں کی تعداد کے ایک تہائی بچے کم وزن اور ان میں سے ایک تہائی بچے خون کی کمی کا شکارہیں۔ Lancet کی جانب سے شائع کردہ بچوں اور مائوں کی کم غذائیت سے متعلق ایک اسٹڈی گروپ کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ دو عشروں میں یہ شرح مشکل ہی سے تبدیل ہو پائی ہے۔ وجہ انتہائی سادہ ہے کہ کیا بچہ اپنی عمر کے ابتدائی چھ ماہ تک ماں کے دودھ سے کافی غذائیت حاصل کرتا ہے یا نہیں، جو اس کو اس عمر میں درکار ہوتی ہے؟ ہمارے ماحول میں اس کا جواب یقیناً نہیں میں ہوگا کیونکہ وہ اس عمر میں ماں کے دودھ سے اپنی درکار غذائیت اور طاقت کی ضروریات کو پورا نہیں کرپاتاجبکہ ان ضروریات کو پورا کرنا صحت کی بہتری کیلئے ضروری ہے۔ غذائی ماہرین کے مطابق اگر شیرخوار بچہ اپنی نشوونماکےلئے درکار غذائی ضروریات حاصل نہیں کرپاتا تو اس بچے کی صحت خراب ہو سکتی ہے۔
لہٰذا پاکستان اور اس جیسے دیگر ممالک میں بچے کی غذائیت کیلئے درکار سب سے اہم عنصر واضح طور پر غربت اور غذائی کمی کا وسیع پیمانے پر ہونا ہے۔ اگرچہ پاکستان میں بچوں کی مکمل اور غذائیت سے بھر پور خوراک دستیاب ہے مگر بہت سے والدین اس کی قیمت برداشت نہیں کر سکتے۔ دوسری جانب درمیانی طبقے کے بیشتر والدین اس حقیقت سے واقف نہیں ہیں کہ چھ ماہ سے زائد بچوں کو ماں کے دودھ کے علاوہ بھی غذائیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ لہٰذا والدین کو بچوں کی غذائیت کے بارے میں تعلیم دینے اور عام طور پر بچوں کی مکمل اور غذائیت سے بھر پور خوراک کی دستیابی کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔
غذائی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ بچے کی زندگی کے ابتدائی چھ ماہ کے بعد بچے کو اپنی نشوونما کیلئے درکار مناسب مکمل اور غذائیت سے بھر پور خوراک کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ دراصل معلومات کی کمی اور دوسری سماجی باتوں سمیت غلط تصورات (جیسے کہ گرم و سرد کھانے کا تصور) عام طور پر کھانا کھلانے کے منظور شدہ طریقوں کی مخالفت میں بچوں کے کھانے کی بیشتر اشیاء جیسے کہ گوشت اور پھل وغیرہ کی غیر مناسبت قائم کر کے بچوں کی صحت کو متاثر کر رہے ہیں۔ ماں اور بچے کی صحت کا قومی پروگرام اس صورتحال سے مکمل طور پر واقف ہے اور اس بات کی تصدیق کی جاتی ہے کہ ماں اور بچے کی صحت کی حیثیت میں بہتری اہم ہے۔ مائوں، نوزائیدہ بچوں اور بچوں کے بارے میں صحت کے اشاریئے واضح کرتے ہیں کہ ان کی افادیت کو بہتر بنانے کیلئے بہت زیادہ کوشش کی ضرورت ہے اور اسی وجہ سے غربت میں کمی پاکستان کی حکومت کی تمام پالیسیوں کا ایک اہم حصہ ہے۔ پاکستان Millennium Development Goals کا دستخط کنندہ بھی ہے جس کے ہدف نمبر4 اور 5 میں خاص طور پر مائوں اور بچے کی صحت پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔
علاوہ ازیں باوجود خصوصی طور پر ماں کے دودھ پر پرورش پانے کے بعد بچوں میں کم غذائیت کی ایک اہم وجہ وہ بیشتر والدین ہیں جو کام کی زیادتی اور بوجھ کی وجہ سے بچوں کیلئے متبادل مائع کا انتظام شروع کردیتے ہیں جس میں چائے اور گائے، بھینس یا بکری کا دودھ شامل ہے۔ نیشنل ریگولیٹری اور سپورٹ سسٹم بھی زچہ یا دودھ پلانے والی خواتین کیلئے paid maternity leave یا دودھ پلانے کی سہولت کے میکینزم کی خاطر خاص طور پر دودھ پلانا جاری رکھنے کیلئے فراہم نہیں کی جاتیں، یہ ایک ایسا عنصر ہے جو دوسرے ممالک میں دیکھا جا سکتا ہے لیکن یہاں پاکستان میں یہ ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ پاکستان کے Demographic and Health Survey (2012-2013) کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ تمام پیدا شدہ نوزائیدہ بچوں کے 18فیصد میں فوری طور پر ماں کا دودھ پلانے کا انتظام کیا جاتا ہے جبکہ چھ ماہ سے کم عمر کے بچوں میں صرف 38فیصد بچے خاص طور پر ماں کے دودھ سے فیضیاب ہوتے ہیں۔
بچےکی غذائیت کو بہتر بنانے کیلئے بعض دیگر عوامل پر توجہ مرکوز کرنا بھی ضروری ہے جن میںماں کی غذائیت اور زچہ و بچہ کی دیکھ بھال اور خاص طور پر بالغ لڑکیوں اور نوجوان مائوں کی غذائیت، بروقت ویکسین، صحت کی کی سہولتیں اور انتظامات تک فوری اور آسان رسائی بھی انتہائی ضروری ہے۔
ابتدائی طور پر مقوی خوراک (fortified food) کی اہمیت کے بارے میں مائوں کی تعلیم ضروری ہے۔ درحقیقت ملک میں دودھ کی تقویت سے بھر پور (fortification) غذائی حکمت عملی جاری ہے۔ اس خیال کی عالمی ادارے (UNICEF- WHO-CDC-GAIN) بھی حمایت کرتے ہیں۔ عالمی شراکت داری کے ذریعہ FFI والدین کے منصوبوں کو لاگو کرنے اور اعلیٰ معیاری و تقویت سے بھر پور (fortification) غذا کے طریقوں کی نگرانی کرنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں اور تکنیکی مدد فراہم کرتے ہیں۔ حکومت کیلئے ان اداروں سے مدد طلب کرنا ضروری ہے تاکہ مائوں کو تقویت سے بھر پور غذا (food fortification) میں کمی کے بارے میں صحیح اور بروقت معلومات حاصل ہوں۔
بدقسمتی سے پاکستان کے غذائیت کے اشاریئے اور بچپن کے غذائیت و نشوونما کی شرح خطے کی دیگر قوموں کے مقابلے میں پست رہ گئی ہے۔ یہ معیاری پروگراموں کو لاگو کرنے اور مساوات سے نمٹنے پر توجہ کے ارتکاز میں کمی سے متعلق ہے جس کی بچوں کیلئے ایک سستی اور تقویت سے بھر پور غذا (fortified food) متعارف کرانےکی فوری ضرورت ہے۔ ایک مضبوط قوم بننے کیلئے ہمیں اپنی آئندہ اور موجودہ نسلوں کی جسمانی صحت کا خاص خیال رکھنا پڑے گا۔ اس سلسلے میں کوئی دورائے نہیں ہو سکتیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)