• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حضرت موسیٰ ؑکی فرعون کو دعوت توحید اور اسرائیل

تحریر:محمد فاضل ضیاء…لوٹن
(دوسری قسط)
دن کے وقت بنی اسرائیل کے کوئی پانچ سےچھ ہزار لوگ نکلے، موسیٰ علیہ السلام انہیں بیت المقدس لے جانا چاہتے تھے۔ راستے میں بحرِ احمر (Red Sea) آتا تھا، موسیٰ علیہ السلام نے بحکم خداوندی اس لمبے راستے کا انتخاب کیا ہو گا، چونکہ اللّہ تعالیٰ کو فرعون اور اس کے لشکر کو غرق کرنا مقصود تھا، موسیٰ علیہ السلام کے قافلے میں مردوں کے علاوہ، عورتیں، بچے اور بوڑھے بھی بتائے جاتے ہیں، جن کے ساتھ جانور اور کچھ ساز و سامان بھی ہو گا، جب یہ قافلہ سمندر کے کنارے پہنچا تو کیا دیکھتے ہیں کہ پیچھے سے فرعون اور اس کا لشکر جو سواروں پر مشتمل تھا، تعاقب میں آ رہاہے، موسیٰ علیہ السلام کے ساتھی ڈر گئےکہ ہم پکڑے گئے، موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا ہر گز نہیں! چنانچہ اللّہ کے حکم سے آپ نے اپنا عصا سمندر میں ڈالا تو سمندر دو حصوں میں تقسیم ہو گیا اور موسیٰ علیہ السلام کے قافلہ کو راستہ دےدیا۔ موسیٰ علیہ السلام کا لشکر اطمینان سے گزر گیا، سامری جو جادوگر تھا، دیکھا کہ حضرتِ جبرائیل علیہ السلام براق پر سوار سمندر کےراستہ کے درمیان تشریف فرما ہیں، لہٰذا اس نے براق کے نیچے سے کچھ مٹی اُٹھا لی،جب موسیٰ علیہ السلام اپنے لشکر سمیت دوسرے کنارے پر پہنچ گئے تو راستہ دیکھ کر فرعون اور اس کا لشکر بھی بنی اسرائیل کے تعاقب میں سمندر میں داخل ہو گیا، وہ جونہی درمیان میں پہنچا تو سمندر کے دونوں حصے آپس میں مل گئے اور وہ سب غرق ہو گئے! قرآن پاک میں ارشاد ہے کہ غرق ہوتے وقت فرعون نے کہا میں موسیٰ اور ہارون کے رب پر ایمان لاتا ہوں لیکن تب تک بہت دیر ہو چکی تھی، اللّہ کا فرعون سے وعدہ تھا کہ میں تجھے قیامت تک لوگوں کیلئے عبرت بنائے رکھوںگا لہٰذا اس کی لاش سمندر کے کنارے سے ملی! جو حنوط شدہ (Mummy) آج بھی عجائب گھر میں موجود ہے۔غالباً ستر کی دہائی میں برطانیہ اور یورپ سے پھرا کر لوگوں کو دکھائی گئ تھی کہ’ دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو‘۔ سمندر عبور کر کے یہ قافلہ عازمِ بیت المقدس کی طرف تھا، موسیٰ علیہ السلام نے قافلے کو بارہ حصوں میں تقسیم کیا اور ہر لشکر پر ایک سردار مقرر کیا،آپ کو حکم ہوا کہ چالیس دن کا اعتکاف طورِ سینا پر کریں آپ اُدھرعبادت میں مشغول رہے، پیچھے سامری جادو گر نے قوم کو ورغلایا، خواتین سے ان کا سونے کا زیور جمع کر کے اسے پگھلا کر ایک بچھڑے کا بت بنایا، پھر اس میں سمندر سے لائی گئی مٹی ڈالی، لہٰذا وہ بچھڑا باتیں کرنے لگا بلکہ لوگوں کے سوالوں کے جواب بھی دیتا! بنی اسرائیل خدا کو چھوڑ کر بچھڑے کو خدا ماننے لگی، جب چالیس دن پورے ہوئے تو اللّہ تعالیٰ نے تورات کی الواح دیں جنہیں لے کر جب موسیٰ علیہ السلام قوم میں آئےتو انہیں شرک میں مبتلا دیکھ کر سخت کبیدہ خاطر ہوئے، الواح کو رکھ کر اپنے بڑے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کی داڑھی پکڑ لی کہ آپ کے ہوتے ہوئے قوم مشرک کیسے ہو گئی؟ انہوں نے کہا اے ماں جایا میری داڑھی پکڑ کر مجھے قوم کے سامنے رُسوا نہ کر، میں نے نفاق پڑ جانے کے ڈر سے انہیں کچھ نہیں کہا، جب غصہ ٹھنڈا ہوا تو سامری سے پوچھا جس نے بتا دیا کہ بچھڑا باتیں کیوں کرتا تھا، یہ اس برکت والی مٹی کی بدولت تھا، سامری کے جادو کا کمال نہ تھا! لہٰذابچھڑے کے بت کو آگ میں پھینک دیا گیا، سامری سمیت قوم تائب ہو کر توحید پر آ گئی، تورات کی تعلیمات کے مطابق اللّہ نے بنی اسرائیل کو قوم عمالقہ جو شام اور فلسطین پر قابض تھی، سے جہاد کرنے کا حکم دیا تھا، فتح کی بشارت پانے کے باوجود وہ جہاد پر جانے کیلئے تیار نہ ہوئے، اس نافرمانی کے جرم میں تیہ کے صحرا میں وہ چالیس سال تک بھٹکتے رہے! صبح سفر پر نکلتے، کیا دیکھتے کہ شام کو اُسی جگہ ہوتے جہاں سے چلے تھے! اس دوران کھانے کیلئے اللّہ انہیں آسمان سے من و سلویٰ برساتے، پیاس بجھانے کیلئے ایک پتھر پرموسیٰ علیہ السلام عصا مارتے تو بارہ چشمے روانہ ہو جاتے، ہر گروہ یا لشکر کو اپنا گھاٹ معلوم تھا، لہٰذا وہ وہاں سے پانی لے لیتے،موسیٰ علیہ السلام سے قوم زمینی خوراک گیہوں، دالیں اور سبزی مانگنے لگی تو آپ نے فرمایا چلو شہر میں عمالقہ سے جہاد کرو اور پھر تمہیں یہ چیزیں مل جائیں گی، وہ بدستور انکاری رہے،موسیٰ علیہ السلام نے بارہ سرداروں کو شام کی خبر لانے کیلئے بھیجا، شہر سے باہر ان کی ملاقات عوج بن عنق سے ہوئی اور اسرائیلی روایات کے مطابق اس کا قد تین ہزار تین سو ساٹھ ہاتھ لمبا تھا، ایک ہاتھ کی لمبائی ہاتھ کی درمیانی اُنگلی کے ناخن کے آخری سرے سے شروع ہوکر کہنی کے جوڑ تک تھا، وہ سمندر کے کنارے بیٹھ کر اس کی تہہ سے مچھلی پکڑ کر اوپر اُٹھا کر سورج کی تمازت سے پکا کر کھایا کرتا تھا، عوج بن عنق کو بھنک پڑ گئی کہ یہ بنی اسرائیل ہیں اور اسے قتل کرنے کیلئے آئے ہیں، چنانچہ وہ انہیں اُٹھا کر قوم عمالقہ کے لوگوں کے پاس لے گیا جو خود بھی بلند قامت تھے۔
عوج بن عنق کا قتل
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے مندرجہ ذیل افراد کو بنی اسرائیل کو بارہ حصوں میں تقسیم کر کے ان پر نقیب مقرر فرمایا تھا:
1-روبن کے فرقہ سے سموع بن زکور2-شمعون کے فرقہ سے سافت بن حوری3-یہودا کے فرقہ سے کالب بن یفنہ4-شکار کے فرقہ سے اجال بن یوسف5-فرائم کے فرقہ سے یوشع بن نون6-بنیامین کے فرقہ سے خلتی بن رفو 7-زبلون کے فرقہ سے جدی ایل بن سودی8-دان کے فرقہ سے عمی ایل بن جملّی9-آسہ کے فرقہ سے ستور بن میکائیل 10-نقتال کے فرقہ سے نجمی بن دسنی11-جدین کے فرقہ سے جوایل بن ماکی12-منسی کے فرقہ سے جدّی بن سوی۔
کہا جاتا ہے کہ ان لوگوں کو عوج بن عنق اُٹھا کر اپنے لوگوں کے پاس لے گیا کہ یہ ہماری خبر پانے کیلئے آئے ہیں تاکہ اپنی قوم کو بتائیں کہ وہ ہم پر حملہ کریں؟ لوگوں نے کہا انہیں منصف کے پاس لے جانا چاہیے کہ وہ کیا فیصلہ دیتا ہے، منصف نے کہا انہیں آزاد کر دیں تاکہ یہ جاکر اپنی قوم پر ہماری طاقت کے بارے میں بتا سکیں کہ عمالقہ قوم کے لوگ کس قدر طاقتور ہیں، چنانچہ یہ بارہ لوگ واپس آگئے اور موسیٰ علیہ السلام کو بتایا کہ عمالقہ بہت طاقتور ہیں، ہمارا اور ان کا کیا مقابلہ، ان کا ایک ہی آدمی یعنی عوج بن عنق کتنے لوگوں پر بھاری ہے، جب موسیٰ علیہ السلام نے نقیبوں سے یہ خبر سنی تو انہیں تاکید کی کہ قوم کو یہ بات مت بتانا، ان پر عمالقہ کی ہیبت طاری ہو جائے گی، دس آدمیوں نے اپنے اپنے لشکر پر عمالقہ کی طاقت کے بارے میں بتا دیا صرف دو آدمیوں یوشع بن نون اور کالب بن یفنہ نے موسیٰ علیہ السلام کا پاس رکھا اور نہیں بتایا! لیکن یہ بات پوری قوم میں پھیل گئی کہ موسیٰ علیہ السلام ہمیں جس قوم عمالقہ سے جہاد کرا رہے ہیں وہ ہمیں مار ڈالے گی چنانچہ انہوں نے کہا حضرت ہم تو آگے نہیں بڑھیں گے وہ بڑے جابر لوگ ہیں، آپ اور آپ کا خدا جا کر ان سے لڑیں۔یہ جواب سن کر موسی علیہ السلام یقیناً مایوس ہوئے ہوں گے بالآخر چونکہ غلبہ دینا اللّہ کا وعدہ تھا، اس لئے اپنے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کو لے کر شام کی طرف روانہ ہو گئے، شہر سے باہر انہیں عوج بن عنق مل گیا جب تعارف ہوا کہ یہ موسیٰ علیہ السلام اور ان کے بھائی ہیں تو پوچھنے لگا اچھا فرعون کو تم نے مارا تھا، چنانچہ وہ انہیں اپنی ہتھیلی پر اٹھا کر گھر لے گیا اور بیوی سے تعارف کرایا کہ یہ فلاں لوگ ہیں اور مجھے مارنے کیلئے آئے ہیں، اس کی بیوی نے کہا چھوڑو ان لوگوں کو یہ کہاں تمہیں مار سکتے ہیں؟ چنانچہ اس نے دونوں بھائیوں کو چھوڑ دیا، خدا کا موسیٰ علیہ السلام کو حکم ہوا کہ عوج بن عنق کو قتل کریں، عرض گزار ہوئے یا اللّہ اتنے لمبے اور طاقتور آدمی کو میں کیسے قتل کروں، ترکیب بتائی گئی کہ اس کے ٹخنے پر ہلکی سی ضرب سے کاٹیں بعض روایات میں انگارہ رکھنے کا ذکر ہے، جب وہ جھک کر ٹخنے کو دیکھے تو اُچھل کر تلوار کے وار سے اس کی گردن کاٹیں،چنانچہ موسی ٰعلیہ السلام نے جب اس کے ٹخنے کے ساتھ انگارہ رکھا تو جونہی عوج بن عنق جھک کر دیکھنے لگا موسیٰ علیہ السلام اپنے قد سے شاید کافی زیادہ اُچھلے اور عوج بن عنق کی گردن پر زور سے تلوار ماری جس سے وہ وہیں ڈھیر ہو گیا، کہا جاتا ہے عوج بن عنق کے استخوان کے پنجر کو ایک عرصہ تک دریائے نیل پر بطورِ پُل استعمال کیا جاتا رہا! اب شام فتح ہو گیا؛ جب موسیٰ علیہ السلام یہ خبر لے کر اپنی قوم میں آئے تو قوم ان کی بہادری پر بہت خوش ہوئی، شام کی فتح کے بعد بنی اسرائیل شہر میں داخل ہوگئے بعد میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام وفات پا گئے بنی اسرائیل نے موسیٰ علیہ الاسلام کا عمامہ، عصا پاپوش اسی طرح کچھ اور بھی اشیاء اور حضرت ہارون علیہ السلام کی بھی جس لکڑی کے صندوق میں موسی علیہ السلام تورات کے الواح رکھتے تھے، اسی میں یہ تبرکات رکھیں، واضح رہے کہ یہ صندوق موسیٰ علیہ السلام نے خود بنایا تھا بنی اسرائیل کے پاس یہ ‘صندوقِ سکینہ’ ایک عرصہ تک رہا، وہ اسے لڑائی میں آگے رکھتے اور فتوحات سے ہمکنار ہوتے یہ ان کا ایمان تھا،فلسطین پر بھی ان کا قبضہ ہو گیا، حضرت موسیٰ علیہ السلام کی وفات کے بعد یوشع بن نون بنی اسرائیل کی قیادت کرتے رہے دراصل یہ حضرت کے خدمت گار تھے، قرآن پاک میں جس جگہ موسیٰ علیہ السلام کی حضرت خضر سے ملاقات کا ذکر آتا ہے اور ایک لڑکا موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ہوتا ہے، جسے کہتے ہیں کھانا لاؤ اور وہ جواب دیتا ہے کہ مچھلی تو فلاں مقام پر چھلانگ لگا کر پانی میں چلی گئی تھی، حضرت کہتے ہیں ہاں ہاں ہمیں اسی مقام پر جانا ہے، ملاقات وہاں ہی ہوگی، کہا جاتا ہے وہ خادم یا ساتھی یوشع بن نون ہی تھے۔
تازہ ترین