• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کیا کہنے اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کی سیاسی سوجھ بوجھ کے۔ ارشادفرمایا ہے : حکومت میں آنے کے بعد پہلےسودن کے لائحہ عمل کا اعلان کرناانتخابات سے پہلے دھاندلی کے مترادف ہے ۔انہیں تو ہارورڈ یونیورسٹی کی طرف سے ایسی سیاسی دانش مندی پر ایوارڈ ملنا چاہئے اور ان کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے امریکیوں کو بھی صدر ٹرمپ کے خلاف احتجاجی تحریک شروع کردینی چاہئے جس نے 22نومبر 2016کوپہلےسو دن کے لائحہ عمل کا اعلان کر کے پری پول ریگنگ کی تھی ۔
میں سوچ رہا تھا کہ ان سو دنوں میں عمران خان نےکونسی بہشت ِ بریں بنانے کا اعلان کردیا کہ حکومت اورحکومتی اپوزیشن زبانوں کی لاٹھیاں تان کر میڈیا کی سڑکوں پر نکل آئےہیں۔معلوم ہے کہ پہلے سو دن میں صرف فاٹا کو خیبر پختونخوا میں شامل کرنا ہے۔جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانا ہے ۔پسماندہ اضلاع کو خصوصی پیکیج دینے ہیں ۔کراچی میں لوکل حکومت با اختیار کرنی ہے۔ کراچی کی ہائوسنگ اسکیموں کوسستے گھر فراہم کرنے کا حکم جاری کرنا ہے ۔ہیلتھ کیئر نظام کو متعارف کرانا ہے۔ٹیکس کے لئے قانون بنانا ہے کہ ادا نہ کرنے والا سزا سے بچ نہ سکے ۔بیورو کریسی اور پولیس کو غیر سیاسی بنانے کےلئے بھی قانون سازی کر نی ہےکہ کوئی کسی کی سفارش نہ کر سکے۔یقیناًان اقدامات سے گورننس میں بہتری آئے گی ، وفاق مضبوط ہوگا، معاشی اور زرعی ترقی ہوگی، سماجی سروسز میں جدت آئے گی، قومی سیکورٹی بہتر ہوگی۔ حیران ہوں کہ ان میں کونسی ایسی بات ہے جو پہلے سو دنوں میں نہیں ہو سکتی ۔اگر دوتہائی اکثریت ہوتو فاٹا کو پختون خوامیں شامل کر نے کا بل اور جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کا بل قومی اسمبلی سےایک ہی روز میں پاس ہو سکتا ہے۔ پسماندہ اضلاع کو خصوصی پیکیج دینے کےلئے کونسی سائنس چاہئے ۔اس کے لئے بھی ایک بل ہی پاس کیا جائے گا ۔سستے گھروں کی فراہمی کےلئے وفاقی کابینہ نے ایک آرڈر نکالنا ہے ۔ہیلتھ کیئر نظام تیار ہے اسے قومی اسمبلی نے پاس کرنا ہے اگر عمران خان جیسا کرنے والا ہو تویہ تمام کام سو دنوں سے پہلے ہوجائیں گے ۔بیچارے خورشید شاہ کہہ بیٹھے ہیں کہ اگر یہ سارے کام سو دنوں میں ہو گئے تو میں سیاست چھوڑ دوں گا ۔اپنے شہباز شریف تو کئی ایسے نعرے لگا کر بھول چکے ہیں اب دیکھتے ہیں سید بادشاہ کیا کرتے ہیں ۔
ایک اور بات پربھی بہت شور مچا ہوا ہےکہ عمران خان پانچ سالوں میں ایک کروڑ ملازمتیں کیسے دیں گے۔یعنی ایک سال میں بیس لاکھ ملاز متیں ۔حیرت ہوتی ہے اعتراض کرنے والوں پر ۔انہیں شاید معلوم نہیں کہ پاکستان میں پہلے تقریباً چھ کروڑ لوگ ملازمتیں کرتے ہیں۔ کوئی بتائے کہ انہیں یہ ملازمتیں کیسے ملی ہیں اس کےلئے کوئی لاڑکانہ یاجاتی امرا میں سائنس تیار کی گئی تھی۔پہلے سال کی بیس لاکھ ملازمتیں میں ابھی پوری کر دیتا ہوں ۔فاٹا خیبر پختون خوا میں شامل ہوگا ۔وہاں ڈپٹی کمشنر سے لے کر نائب قاصد تک پولیس سپرنٹنڈنٹ سے لے کر سپاہی تک ہزاروں لوگ بھرتی ہوںگے۔ جنوبی پنجاب الگ صوبہ بنے گا ۔وہاں صوبائی اسمبلی بنے گی۔ چیف منسٹر ہوگا وزیر ہونگے تو اس کا مطلب ہوا کہ تمام محکمے بھی ہونگے ۔صوبائی سیکرٹریوں سے لے کر کلرک بادشاہوں تک کتنی ملازمتیں نکلیں گی ۔پچاس لاکھ نئے گھروں کی تعمیر کےلئے کتنے لوگ کام کریں گے یقیناََ لاکھوں ۔اس پر بھی بہت شور کیا ہے کہ پچاس لاکھ گھر کیسے بنائے جا سکتے ہیں۔ بھئی کیوں نہیں بنائے جا سکتے ۔زمین حکومت کی اپنی ہے اس کے اوپر تعمیر کےلئے بینک قرضہ دیں گے ۔لوگوں کو کرائے پر مکان دئیے جائیں گے اور پورپ کی طرح جب کوئی شخص وہ مکان خریدنا چاہے گا تو جتنا عرصہ اس نے کرایہ دیا ہوگا وہ سارااس کی قیمت سے منہا کرلیا جائے گا ۔یوں کرائے کے گھر میں ساری زندگی گزارنے والے ایک دن خو د بخود اس کے مالک بن جائیں گے ۔یہی فلاحی مملکت کا تصور ہے۔ عمران خان نے بڑے پیمانے پر شجر کاری کا بھی وعدہ کیا ہے ۔یہ بھی کونسا مشکل کام ہے ایک ارب درخت اگر صوبہ خیبر پختون خوا میں لگ سکتے ہیں تو باقی صوبوں میں بھی لگ جائیں گے ۔جہاں تک بیرونی قرض کی ادائیگی کی بات ہے تو اس میں بھی کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی ۔پاکستان میں روزانہ تقریباً دس ارب روپے کی کرپشن ہوتی ہے جیسے ہی روزانہ کی کرپشن چالیس پچاس کروڑ تک پہنچے گی پاکستان چند ماہ میں قرض ادا کرنے کے قابل ہو جائےگا اور کرپشن کاوہ پانچ سو ارب ڈالر جو غیر ملکی بینکوں میں پڑا ہےاگرپی ٹی آئی کی حکومت اسے واپس لانے میںکا میاب ہو گئی تو پاکستان میں ہر پانچویں آدمی کے پاس اپنی گاڑی ہوگی ۔سوات میں اور بلوچستان میں جو سونے کی کانیں موجود ہیں اگر ان سے سونا نکالنے کا کام شروع ہوگیا تو ان قرضوں کی تو کوئی حیثیت ہی نہیں رہے گی ۔میں نے ابھی سی پیک کا ذکر نہیں کیا۔ گوادر کی بندرگاہ کی بات نہیں کی ۔اگر اگلے پانچ سالوں میں گوادر کی بندرگاہ پوری طور پر فعال ہو جاتی ہے تو پاکستان کا شمار ترقی یافتہ ممالک میں ہونے لگے گامگر اس کے فعال ہونے کیلئے میرے خیال میں دس سے پندرہ سال کا عرصہ درکار ہے پھر سی پیک میں چین کی پچاس پچپن ارب ڈالر کی سرمایہ کاری پاکستان کو کہاں سے کہاں لے جائے گی ۔پاکستان کا مسئلہ صرف کرپشن ہے اور مجھے اپنے خدا پر پورا یقین ہے کہ عمران خان کرپشن کے ناسور کو جڑوں سے نکالنے میں کامیاب ہوجائیں گےاور بھی بہت سے خوش کن حقائق ایسے جنہیں بیان ہونا چاہئے پھر کسی وقت کروں گا۔ یہ سودن کا لائحہ عمل پہلی بار پاکستانیوں نے دیکھا ہے اس سے پہلے جب بھی کوئی حکومت آتی ہے عوام کےلئے کچھ کرنے کا نہیں سوچتی ۔وزیر اعظم دنیا بھر میں اپنے تعلقات بنانے کےلئے غیر ملکی دورے شروع کر تے ہیں ۔وزیر وں کو جلدی ہوتی ہے کہ وہ انتخابات میں جو پیسہ لگا کر آئے ہوتے ہیں اسے جلدی جلدی ضربیں دے لیں کہ اس ملک میں ایک چیز مارشل لا بھی ہوتی ہے۔کسی لائحہ عمل پر کام نہیں کیا جاتا الیکشن سے پہلے جو سہانے خواب دکھائے گئے ہوتے ہیں انہیں اس طرح بھلادیا جاتا ہے جیسے بے خیالی میں زبان سے کچھ نکل گیا تھا۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار یہ ہونے جارہا ہے کہ آنے والی حکومت اپنے لائحہ عمل کو مکمل کرنے کی سر توڑ کوشش کرے گی کیونکہ عمران خان کی زندگی کا اس کے سوا کوئی اور مقصد نہیں ۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین