• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکہ میں تیزی سے پھیلتی ہوئی انتہا پسندی اور مقبول ہوتے گن کلچر کی شکار 17سالہ پاکستانی طالبہ سبیکا شیخ کو گزشتہ دنوں آنسوئوں اور سسکیوں کے ساتھ سپرد خاک کردیا گیا۔ اس موقع پر وہاں موجود ہر شخص کی آنکھیں اشکبار تھیں۔ روشن مستقبل کے سپنے اپنی آنکھوں میں سجائے کراچی سے تعلق رکھنے والی سبیکا شیخ امریکی حکومت کے ’’کینیڈی لوگر اینڈ اسٹیڈی پروگرام‘‘ کے تحت اگست 2017ء میں امریکہ پڑھنے گئی تھی اور ٹیکساس کے شہر ہیوسٹن کے سانتا ہائی اسکول میں زیر تعلیم تھی۔ سبیکا کو جون میں وطن واپس آنا تھا مگر وہ امریکی دہشت گرد کی دہشتگردی کا شکار ہوگئی۔ واقعہ میں ملوث 17سالہ طالبعلم دیمتریوس پاگورٹزس کو فائرنگ کے بعد حراست میں لے لیا گیا جس کے کمپیوٹر اور موبائل فون سے ملنے والی معلومات کے مطابق دہشت گرد دیمتریوس نے حملے کی پہلے سے تیاری کر رکھی تھی جس کیلئے اُس نے اپنے باپ کی گن استعمال کی اور زندہ بچ جانے والوں کو اس لئے چھوڑ دیا کہ وہ باقی لوگوں کو اس واقعے کی کہانیاں سناتے رہیں۔
سبیکا شیخ کی اندوہناک موت پر ایسا کوئی صاحب اولاد نہیں جس کا دل صدمے سے دوچار نہ ہوا ہو۔ میں سبیکا شیخ کی فیملی کو بہت قریب سے جانتا ہوں۔ واقعہ کے بعد جب میں تعزیت کیلئے گلشن اقبال میں واقع سبیکا کے گھر پہنچا تو وہاں کہرام سی کیفیت تھی۔ میرے ساتھ وزیر تعلیم پنجاب رانا مشہود احمد خان بھی موجود تھے جنہیں مسلم لیگ (ن) کے صدر اور وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے سبیکا شیخ کی فیملی سے تعزیت کیلئے خصوصی طور پر کراچی بھیجا تھا۔ اس موقع پر سبیکا شیخ کے والد عزیز شیخ نے بتایا کہ سبیکا نہایت ہونہار بچی تھی جسے امریکی یوتھ پروگرام کیلئے ہزاروں بچوں میں سے منتخب کیا گیا تھا، وہ 21 اگست 2017ء کو کراچی سے امریکہ گئی تھی جہاں ٹیکساس کے شہر ہیوسٹن کے سانتا ہائی اسکول میں زیر تعلیم تھی اور اِسی شہر میں ایک امریکی رضاکار فیملی کے ساتھ رہائش پذیر تھی، سبیکا کو 9 جون کو وطن واپس آنا تھا لیکن اُس سے پہلے اُس کی موت کی خبر آگئی۔ عزیز شیخ کے بقول واقعہ سے کچھ روز قبل جب میری بیٹی سے آخری بار بات ہوئی تو وہ کہنے لگی کہ ’’بابا! میں نے پچھلے ایک سال سے گھر کا کھانا نہیں کھایا، میں جب پاکستان واپس آئوں تو میری پسند کے سارے کھانے بنواکر رکھئے گا۔‘‘ انہوں نے بتایا کہ ہم لوگ سبیکا کی واپسی کے منتظر تھے لیکن سبیکا اپنے آخری سفر کی تیاری کر بیٹھی۔ اس موقع پر وزیر تعلیم پنجاب رانا مشہود نے سبیکا شیخ کے نام پر اسکالر شپ کا اعلان کیا جو ہر سال پنجاب حکومت کی جانب سے کراچی کی ایک طالبہ کو دی جائے گی۔ سبیکا کی موت پر صرف پاکستانی عوام صدمے سے دوچار نہیں ہوئے بلکہ وہ امریکی فیملی جن کے ساتھ سبیکا ہیوسٹن میں رہائش پذیر تھی، بھی انتہائی افسردہ ہے۔ گزشتہ دنوں سبیکا کی یاد میں ہیوسٹن میں منعقدہ تقریب میں میزبان امریکی فیملی نے بھی شرکت کی اور اُس کے ساتھ بیتے دنوں کا تذکرہ کیا۔ انہوں نے روتے ہوئے بتایا کہ ’’سبیکا یہاں پاکستان کی نمائندگی کرنے آئی تھی اور اپنے اخلاق و کردار سے اُس نے صحیح معنوں میں اپنے ملک کی نمائندگی کا حق ادا کردیا۔‘‘
امریکہ کے کسی اسکول میں پیش آنے والا دہشت گردی کا یہ پہلا واقعہ نہیں بلکہ متواتر اس طرح کے واقعات پیش آرہے ہیں اور یہ واقعہ اس سال امریکہ میں پیش آنے والا شوٹنگ کا 22واں اور اسکول شوٹنگ کا 9واں واقعہ ہے۔ حالیہ واقعہ سے قبل فروری میں بھی فلوریڈا کے ایک اسکول میں زیر تعلیم طالبعلم کی فائرنگ سے 17 طالبعلم ہلاک ہوگئے تھے جبکہ صرف گزشتہ ایک دہائی میں امریکہ کے اسکولوں میں دہشت گردی کے واقعات میں سینکڑوں طالبعلم ہلاک ہوچکے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق امریکہ میں گنوں سے ہونے والی ہلاکتوں کے واقعات میں ہر سال 13 ہزار سے زائد افراد اپنی زندگی سے محروم ہوجاتے ہیں۔ حالیہ واقعہ کے بعد ایک بار پھر امریکہ میں ’’امریکہ کو گن سے پاک‘‘ کرنے کے مباحثے نے زور پکڑلیا ہے۔ امریکیوں میں اسلحہ رکھنے کا رجحان فیشن اختیار کرتا جارہا ہے اور امریکہ میں جدید گنیں خریدنا معمول کی خریداری بنتی جارہی ہے، کوئی بھی شخص اسلحہ شاپ سے وجوہات اور ذاتی پس منظر بتائے بغیر باآسانی اسلحہ خریدسکتا ہے۔
امریکہ میں گنوں کی خریداری میں بڑھتی ہوئی دلچسپی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ گزشتہ سال امریکیوں نے 25 ملین سے زائد گنیں خریدیں۔ ایک تحقیق کے مطابق امریکی شہریوں کی بڑی تعداد اسلحہ رکھنے والوں کے حقوق کی حامی اور اسلحہ رکھنے پر پابندی کے خلاف ہے۔ امریکہ کی ’’گن لابی‘‘ دنیا میں سب سے زیادہ طاقتور لابی تصور کی جاتی ہے جس کا موقف ہے کہ ’’گن لوگوں کو قتل نہیں کرتی بلکہ لوگ انسانوں کو قتل کرتے ہیں۔‘‘ ماضی میں امریکہ کو اسلحہ سے پاک کرنے کی جتنی بھی مہمات چلائی گئیں، اُنہیں گن لابی نے کامیاب نہیں ہونے دیا۔ گن لابی کی طاقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ گزشتہ سال امریکی صدارتی انتخابات میں امریکہ کی نیشنل رائفل ایسوسی ایشن نے انتخابی امیدواروں کو مہم چلانے کیلئے کئی ملین ڈالرز فنڈز فراہم کئے جبکہ موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی گن پر پابندی لگانے اور گن شوٹنگ کے مسئلے کو حل کرنے کے بجائے گزشتہ دنوں نیشنل رائفل ایسوسی ایشن کی تقریب میں یہ تجویز دیتے نظر آئے کہ ’’اسکولوں میں اساتذہ کو بھی اپنے دفاع کیلئے ہتھیار ساتھ رکھنے چاہئیں۔‘‘
مغربی ممالک میں مذہب سے دوری، بے راہ روی، خاندانی تنازعات، میاں بیوی کے جھگڑے اور طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح، پرتشدد فلمیں اور وڈیو گیمز وہ عوامل ہیں جو لوگوں بالخصوص بچوں کے ذہنوں پر اثر انداز ہوکر اُنہیں ذہنی مریض بنارہے ہیں اور لوگ خود اپنی جان لینے سے قبل انتقامی طور پر دوسروں کی جان لینے سے بھی گریز نہیں کررہے جبکہ اسکولوں میں سینئر طلباکی جونیئر طلبا سے بدتمیزی اور غنڈہ گردی کے واقعات بھی کم عمر طلبامیں انتقامی جذبات ابھارنے کا سبب بن رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ نام نہاد سپر پاور امریکہ میں کسی کی جان محفوظ نہیں اور امریکی حکومت دہشت گردوں کے سامنے بے بس نظر آتی ہے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ اگر اس طرح کے کسی واقعہ میں کوئی مسلمان ملوث پایا جاتا ہے تو یورپ، امریکہ اور دیگر مغربی ممالک اُسے ’’دہشت گرد‘‘ قرار دے دیتے ہیں لیکن اگر کوئی غیر مسلم معصوم بچوں اور لوگوں کا قتل عام کرے تو وہ ’’ذہنی مریض‘‘ یا ’’جنونی‘‘ کہلایا جاتا ہے۔ دنیا کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ بے گناہوں کی جانیں لینے والے خواہ اُن کا کسی بھی مذہب سے تعلق ہو، وہ ’’ذہنی مریض‘‘ اور ’’جنونی‘‘ یعنی انتہا پسند ہوتے ہیں جن کا نہ کسی مذہب سے تعلق ہوتا ہے نہ ہی انسانیت سے لیکن افسوس کہ مغربی ممالک نے دہشت گردی کا لیبل صرف اسلامی ممالک اور مسلمانوں سے جوڑ رکھا ہے جبکہ موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ مسلمانوں کو ’’دہشت گرد‘‘ اور اسلامی ممالک بالخصوص پاکستان کو ’’دہشت گردوں کی آماجگاہ‘‘ قرار دیتے رہے ہیں لیکن امریکی دہشت گرد کے ہاتھوں پاکستانی طالبعلم سبیکا شیخ کے قتل نے یہ ثابت کردیا ہے کہ مسلمان اور پاکستانی دہشت گرد نہیں بلکہ خود مغربی ممالک کی دہشت گردی کا شکار ہیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین