ڈاکٹر محسنہ نقوی
ادب، عربی زبان کا لفظ ہے، جس کے لغوی معنی ’’قربانی‘‘ کے ہیں۔ عربی زبان میں اچھی طرح بولنے اور لکھنے کو بھی ادب کہا جاتا ہے۔ اس کے معنی میں وقت کے ساتھ ساتھ مختلف تبدیلیاں رونما ہوتی رہیں، جس سے اس کے مفہوم میں وسعت پیدا ہوئی۔ ان ادب سے مراد میزبانی اورخوش گفتاری بھی تھا، جب اسلام کی ابتداء ہوئی تو ادب کے معنی تعلیم کو قرار دیا گیا۔ اہلِ عجم نے عربوں کی تقلید کی اور ادب میں ان تمام علوم کو، جن سے زبان پر پوری طرح قدرت حاصل ہو شامل کردیا۔
ادب، اس مواد کو کہا جاتا ہے، جس کا تعلق عام انسانی دل چسپی سے ہو، لیکن اس میں ایک خاص ہیئت بھی موجود ہو، جو دل کشی اور فرحت کا باعث ہو۔ ادب میں مخصوص قانون اور قاعدے نہیں ہوتے، نہ کسی کی آمریت یا بادشاہت چلتی ہے۔ ادب کا اپنا ایک حرکیاتی نظام ہے، جس میں وقت کے ساتھ ساتھ تغیر و تبدل ہوتا ہے۔ ادب کی پیمائش کا واحد میزان و معیار ادبیت ہے۔
ادب برائے ادب میں ادب کو صرف احساسات و جذبات کے اظہار کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ اس نظریے کے ماننے والوں کے مطابق، ادب کا مقصد، قلبِ انسانی کے لطیف اور نفیس احساسات کو بیان کرنا ہے۔ شاعری ہو یا نثر اس میں رنگینی، حسن آفرینی، خیالی قصے کہانیوں کے ذریعے زندگی کے لطیف پہلوئوں کو بیان کیا جاتا ہے، تاکہ قاری اس سے لطف اندوز ہو۔ ادب برائے ادب کے حامیوں کے مطابق، ادب ایک جمالیاتی چیز ہے۔ ادب کا مقصد صرف مسرت بہم پہنچانا ہے، زندگی کے مقاصد کے حصول کے لیے ادب کے استعمال کے وہ قائل نہیں۔ ان کے مطابق ادب کا مقصد تخلیقِ حُسن اور تلاشِ حُسن ہے، جس سے انفرادی جذبات و احساسات کی تسکین ہو نہ کہ اجتماعی مقاصد کا حصول پیشِ نظر ہو۔ ادب برائے ادب کے ماننے والوں نے ادب میں زمانے کے سیاسی و سماجی مسائل کو بیان کرنے کو، ادب کی روح کو صدمہ پہنچانے کے مترادف قرار دیا۔
اردو ادب میں ادب برائے ادب کے حوالے سے دیکھا جائے تو ابتدائے اردوِ ادب میں، چونکہ ادب کی تخلیق کا مقصد محض خط اٹھانا تھا۔ اکثر ادبا و شعرا دربار سے وابستہ تھے، اس لیے اُس دور میں وہی ادب تخلیق ہوا، جس کا مقصد بادشاہ کی خوش نودی حاصل کرنا تھا۔ جذبات و احساسات کی تسکین کے لیے ادب برائے ادب تخلیق کیا گیا، بعدازاں حلقۂ اربابِ ذوق کی تحریک کے علم برداروں نے بھی ادب برائے ادب کے نظریے کی حمایت، اس نظریے کو پروان چڑھانے کے لیے کوششیں کیں۔ فن کے جمالیاتی پہلو کو زیادہ اہمیت دی گئی۔ میرا جی، جو حلقے کے روح و رواں تھے، اُنہوں نے بھی ادب برائے ادب کی حمایت کی۔ ادب برائے ادب کے حامی، ادب میں افادیت کے قائل نہ تھے۔
ادب برائے زندگی کا تصور بھی اپنی جگہ اہم ہے۔ ادب زندگی سے جنم لیتا ہے، زندگی کی خارجی تبدیلیاں ادب پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ ادب، محض معاشرتی زندگی کا جامد عکس پیش نہیں کرتا، بلکہ زندگی کی ناہمواریوں، شخصی و اجتماعی دکھوں کا عکس بھی ادب میں ملتا ہے۔ ادب میں نہ صرف معاشرتی اور تعلیمی عوامل کی عکاسی ہوتی ہے، بلکہ زندگی کے تمام تقاضوں کا اظہار احتجاج، طنز، شکایت، دعا، خوشی، غم کی تمام کیفیات ادب میں جگہ پاتی ہیں۔ ادب اور زندگی آپس میں باہم مربوط ہیں، ایک کے بغیر دوسرے کا تصور ممکن نہیں۔ چونکہ انسان ایک معاشرتی حیوان ہے اور معاشرے میں دوسرے انسانوں سے نہ صرف میل جول رکھتا ہے، بلکہ اپنے جذبات و احساسات کا اظہار بھی الفاظ کے ذریعے کرتا ہے۔ اس طرح تخلیقات وجود میں آتی ہیں۔ یہ تخلیقات ادبی تب کہلاتی ہیں، جب زندگی کی دائمی قدروں اور فنی و جمالیاتی اقدار کو اس میں شامل کیا جائے۔
ادب، نہ صرف زندگی کا ترجمان ہوتا ہے، بلکہ اس میں زندگی کے تمام پہلوئوں کو بیان کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ ادب، انسانی زندگی، سماج اور معاشرے کی تمام تلخ اور مسحور کن کیفیات کو دل سے دل تک پہنچاتا ہے۔ ادب، ہمارے دوسرے اعمال و افعال کی طرح زندگی کے معاشی و اقتصادی اور سماجی پہلوئوں سے براہ راست متاثر ہوتا ہے۔ زندگی اور معاشرے میں رونما ہونے والا تغیر و تبدل ادب پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ شاعر یا ادیب جو کچھ تخلیق کرتا ہے، اس میں اس کی داخلی کیفیات، جو خارجی ماحول اور حالات سے پیدا ہوتی ہیں، کا دخل ہوتا ہے۔ ادیب یا شاعر اپنے معاشرے سے نہ صرف متاثر ہوتا ہے، بلکہ اس کا عکس اس کی تحریروں میں بھی آتا ہے، اس لیے جیسا معاشرہ ہوگا، ویسا ہی ادب تخلیق ہو گا۔