پاکستان کے وجود کے ایک حصے کو الگ کرا دیا گیا تو اندازہ ہوا کہ جسم کے کسی حصے کو کاٹا جاتا ہے تو کتنی تکلیف ہوتی ہے مگر ہم خاموش ہوکر تماشہ دیکھنے کے سوا کچھ نہ کرسکے کیونکہ زخم تو اپنوں کے ہاتھوں لگا تھا۔ خیال تھا کہ اب تو سب کو نصیحت ہو چکی اور اب پاکستان کے زخمی جسم پر مرہم رکھنے کی کوشش کی جائے گی لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ نظریہ ضرورت کے نام پر پاکستان کے جمہوری نظام کو نقصان پہنچایا گیا اور اسے غیروں کی جنگ میں بری طرح الجھا کر رکھ دیاگیا۔ ہم نے پاکستان کو ایشین ٹائیگر بنانا تھا لیکن سیاستدانوں نے اسے سرکس کا ٹائیگر بنا دیا، جب دیکھو کسی نہ کسی کے اشارے پر عوام کی اٹھک بیٹھک کرائی جاتی ہے، عوام کی حالت دیکھ کر رونا آتا ہے۔ شدت پسندی اور کرپشن نے ہمیں ساری دنیا میں رسوا کر دیا ہے۔ پتہ نہیں ان ناسوروں کا کب آپریشن کیا جائے گا لیکن کسی کو اس کی نہ یہاں فکر ہے اور نہ فرصت، سب تو انتخابات کے چکر میں پڑے ہوئے ہیں، سب کو اقتدار چاہئے لیکن عوام کی خدمت کرنے والا کوئی نہیں، یہ دیکھ کر بہت دکھ ہوتا ہے؟
جب سانحہ بلدیہ ٹاؤن کے سوختہ لوگوں کی شناخت کیلئے ڈی این اے ٹیسٹ کیا جا رہا تھا تو میرا دل چاہا کہ مطالبہ کروں کہ پاکستان کے ہر شخص کا ڈی این اے ٹیسٹ ہو تاکہ علم ہو کہ وہ کتنا سچا فرزند پاکستان ہے۔ یہ درست ہے کہ قومیت پہچان کیلئے ہے لیکن ملت بھی تو پہچان کیلئے ہے کہ نہیں؟ اب دیکھ لو کہ گستاخانہ فلم کی مذمت کرتے ہوئے کس نے اپنے آپ کو شیعہ یا سنّی کہا ہے،سب ایک آواز ہو کر احتجاج کر رہے تھے کہ نہیں۔ اب عوام جس ملک کے بھی ہوں ان کی حکومتیں امریکہ سے ڈرتی ہیں،کسی مسلم ملک نے اس پر باقاعدہ سرکاری احتجاج نہیں کیا تھا تو اس میں عام مسلمانوں کا کوئی قصور نہیں۔ المیوں پر جب ایک قوم بن جاتے ہیں تو ہم اسی طرح پھر ظلم کرنیوالوں کیخلاف صف آراء کیوں نہیں ہوتے؟ گھوم گھام کر پرانے چہرے ہی حاکم بن جاتے ہیں۔ ملک میں عام انتخابات کی باتوں پر دل ڈولنے اور شفاف انتخابات کے دعوؤں پرکلیجہ منہ کو آنے لگتا ہے کیونکہ پاکستان میں اقتدارکی منتقلی کبھی برضا و رغبت نہیں ہوسکی ہے۔ ماضی میں جمہوری حکومتوں کی میعاد بھی پوری نہیں ہوتی رہی ہے، اللہ کرے یہ روایت اب بدل جائے اور سپریم کورٹ کے جرأت مندانہ فیصلوں کے نتیجے میں شاید اب شفاف انتخابات منعقد ہونے کی کوئی سبیل نکل آئے۔ موروثی سیاستداں ہمیشہ سے جاگیردار، وڈیروں، سرمایہ داروں، سرداروں، خوانین اور بیورو کریٹس کو اپنا "مائی باپ" بنا لیتے ہیں جو عوام کا مسلسل استحصال کرتے رہے ہیں۔ حکمراں "بیرونی آقاؤں" کی تابعداری ہی کو اپنا فرض سمجھتے ہیں،کوئی امریکہ سے کھل کر نہیں کہتا وہ ڈرون حملے بند کرے۔ یہ توقع رکھنے میں حق بجانب ہیں کہ وہ دہشت گردی ختم کرائیں، انہیں روزگار کے مواقع مہیا کریں ، ٹارگٹ کلنگ ، اغوا برائے تاوان، بھتہ خوری، جگا ٹیکس اورلوڈ شیڈنگ سے نجات دلائیں۔ حکومت کے وعدوں اور دعووں کا جہاں تک تعلق ہے تو اس حوالے سے عوام کا تجربہ یہ رہا ہے کہ حکومت جس کام کے کرنے پر جتنا زیادہ زور دیتی ہے، عوام میں اندیشے اس حوالے سے اتنے بڑھ جاتے ہیں کہ حکومت یہ "کام" نہیں کرے گی۔ اب حکومت کی راگنی یہ ہے کہ وہ "وقت" پر شفاف انتخابات کرائے گی مگر حکمراں اس کا حوصلہ کہاں سے لائیں۔ اس لئے عام انتخابات کے حوالے سے تمام جماعتوں کے تحفظات ہیں اور اتحادی جماعتوں کے رہنما تک خود ایک دوسرے سے پوچھتے نظر آتے ہیں کہ منظور وسان نے "خواب" دیکھا کہ نہیں؟ پارلیمنٹ میں سیاسی جماعتوں کے ذکر میں بل کی منظوری کے معاملے میں اسٹیبلشمنٹ کے کردار پر تنقید سب کے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ جب ایک بل پاس کرانے کے لئے فوج اور اسٹیبلشمنٹ کی منظوری ضروری ہے تو پارلیمنٹ کی، جمہوریت کی بالادستی کے دعووں کا ڈھول کیوں پیٹا جا رہا ہے یقینا دہشت گردی کیخلاف جنگ میں اپنی جانیں قربان کرنے والے فوج کے شہید افسروں اور جوانوں کا لہو فوج پر قرض ہے۔ قوم سو فیصد افواج پاکستان کے ساتھ ساتھ ہوگی۔ سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے بعد عوام اب سوچنے پر مجبور ہیں کہ کس پر یقین کریں اور کس پر یقین نہ کریں۔ سب جماعتیں دعویٰ کر رہی ہیں کہ وہ پاک صاف ہیں لیکن سچ تو یہ کہ ملک کو مسلسل لوٹا جا رہا ہے اور محض مفادات کے لئے اجتماعیت کے ٹکڑے کئے جا رہے ہیں، علیحدگی پسندی کی تحریکیں پاکستان کی وحدت کو زخمی کر رہی ہیں۔ فرقہ واریت اور لسانیت کے نام پر خونریزی جاری ہے تاجر بھتہ خوری سے پریشان ہیں، امریکہ ڈرون حملے کرکے بے گناہ لوگوں کو ہلاک کئے جارہا ہے ، یوں پاکستان کو نظریاتی ہی نہیں دفاعی طور پر کھوکھلا کیا جا رہا ہے، پاکستانی عوام بے بسی کے ساتھ اپنے لٹنے کا تماشہ دیکھ رہے ہیں۔ سوچتا ہوں کہ ایسا وقت کب آئے گا جب ہمیں ایسے حکمران ملیں گے جو قومی اخوت کے داعی، عوام کے غمگسار ہوں۔ اللہ کرے جلد ایسا ہو۔ آئیے ہم سب مل کر آئندہ انتخابات میں اچھے نمائندے منتخب کرنے کا عہد کریں۔