• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسلام آباد کی ٹریفک پولیس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ پروفیشنل، خوش اخلاق، ٹریفک کے اصولوں پر عملدرآمد میں سخت اور سب سے بڑا معجزہ کہ ایماندار۔ ایک عرصہ لاہور میں گزرا، جب میں نیا نیا اسلام آباد شفٹ ہوا تو اس خوبصورت شہر کےخوبصورت ٹریفک کو دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوتی۔ اس وقت وزارت خارجہ سےتعلق تھا، جس طرح کوئی نیا نیا سپاہی بھرتی ہو جائے تو عرصے تک اسکی چال نرالی رہتی ہے کہ ایڑیاں زمین کو چھونے نہیں پاتیں، اسی طرح مڈل کلاس گھرانے کے نوجوان جب سی ایس ایس کرتے ہیں تو ایک عرصے تک ایک ایسی کیفیت میں رہتے ہیں گویا ساری دنیا کو انہوں نے ہی اٹھایا ہوا ہے۔ جس طرح اوائل نوکری کے دو چار تلخ تجربوں کے بعد نئے نئے بھرتی ہوئے سپاہی کے پائوں زمین پر لگنا شروع ہو جاتے ہیں اسی طرح سی ایس ایس کرنے والے نوجوانوں کو بھی دو چار تلخ تجربات سیدھا کر دیتے ہیں۔ یہ ان دنوں کی باتیں ہیں جب دنیا کو ہم نے اپنے کندھوں پر اٹھایا ہوتا تھا۔ اسلام آباد میں گھومتے ہوئے کبھی کوئی اشارہ توڑ دیا، یا سیٹ بیلٹ لگانا بھول گئے اور ٹریفک پولیس نے روک لیا تو ہم نے شانِ بے نیازی سے جھٹ اپنا تعارف کرایا تو آگے سے پٹ جواب آتا کہ سر آپ ہمارے افسر ہیں، ہمارے لئے قابلِ احترام ہیں لیکن برائے مہربانی اپنا ڈرائیونگ لائسنس دے دیں۔ چالان کروانے کے بعد خفت تو محسوس ہوتی لیکن دل کے کسی کونے میں اسلام آباد ٹریفک پولیس کیلئے تعریف بھی نکلتی۔کئی سالوں بعد نوکری کی غلامی سے آزادی ملی تو اس آزادی کی قیمت بھی چکانی پڑی۔ اسلام آباد کے دل سے نکلنا پڑا تو اسکے مضافات میں دل لگا لیا۔ تب معلوم ہوا کہ اسلام آباد کے اندر کئی اسلام آباد بستے ہیں۔ ایک وہ اسلام آباد ہے جہاں ہر وقت پھول کھلتے ہیں، جہاں ہر وقت ہریالی نظروں کو طراوت بخشتی ہے، جہاں مارگلہ کے پہاڑ ہرے رہتے ہیں، جہاں خوبصورت پرندے چہچہاتے ہیں۔ جہاں مٹی کا نام و نشان بھی نہیں ہے۔ لیکن یہ اسلام آباد بہت چھوٹا ہے چند کلومیٹر ادھر چند کلومیٹر اُدھر۔ اس جنت نما اسلام آباد کے ارد گرد ایک دوسرا اسلام آباد ہے جہاں پھول کھلتے تو ہیں لیکن مرجھائے مرجھائے سے رہتے ہیں۔ ہریالی موجود تو ہوتی ہے لیکن سوکھی سوکھی سی، میلی میلی سی۔ جہاں مارگلہ کے پہاڑ نظر تو آتے ہیں لیکن دور دور سے اور جہاں پرندے چہچہاتے تو ہیں لیکن انکی چہچہاہٹ میں وہ ترنم نہیں ہوتا۔ ایک تیسرا اسلام آباد بھی ہے جہاں نہ پھول کھلتے ہیں نہ ہریالی نظر آتی ہے، جہاں مارگلہ کے پہاڑکٹے پھٹے ہیں اور جہاں پرندے بھی خال خال ہیں۔ اس اسلام آباد میں مٹی کے طوفان برپا رہتے ہیں۔ یہاں نہ تو کارپٹ سڑکیں ہیں اور نہ ہی اسلام آباد ٹریفک پولیس کا نام و نشان۔ یہ والا اسلام آباد بہت بڑا ہے۔ پہلے اس اسلام آباد میں گائوں کے لوگ بستے تھے لیکن کچھ سالوں سے اس اسلام آباد میں جا بجا ہائوسنگ سوسائیٹیز پھیل گئی ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ سوسائٹیاں ایسے مڈل کلاسیوں سے بھر گئی ہیں جو اسلام آباد میں رہنا تو چاہتے ہیں لیکن رہ نہیں سکتے۔
اسی ریلے کے ساتھ میں بھی یہاں آباد ہو گیا۔ پہلے والا اسلام آباد چھوڑا لیکن مارگلہ کی پہاڑیاں نہیں چھوڑی گئیں سو تیسرے والے اسلام آباد میں مارگلہ کی پہاڑیوں کے دامن میں جا بسیرا کیا۔ یہ ایک خوبصورت جنت نما دامن ہے لیکن اس جنت کو کرشنگ مافیا نے گنہا دیا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے مارگلہ کی پہاڑیوں پر کرشنگ مافیا کے حملے کا ایک کالم میں ذکر کیا، میڈیا متوجہ ہوا، کئی ٹاک شو ہوئے، سپریم کورٹ نے بھی نوٹس لیا۔ کچھ سرگرمی سپریم کورٹ نے دکھائی اور کیس شاید ابھی بھی زیر التوا ہے۔ کچھ عرصہ کو مارگلہ کی پہاڑیوں کی جان بخشی ہوئی لیکن پھر وہی ہوا جو ہمارے ہاں ہوتا ہے۔ روزانہ صبح جب مارگلہ کی پہاڑیوں پر ایک نظر دوڑاتا ہوں تو ان پر ایک نیا زخم لگا ہوتا ہے، کرشنگ مافیا کسی صورت مارگلہ کی پہاڑیوں کی کرشنگ سے باز آنے کو تیار نہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے مارگلہ کی پہاڑیوں کو نگل گیا ہے اور یہ سلسلہ اتنے زور شور سے جاری ہے کہ اگر روکا نہ گیا تو چند سالوں میں اسلام آباد کے کونے میں واقع یہ پہاڑیاں ایک گڑھے میں تبدیل ہو جائیں گی۔
میں روزانہ کام کیلئے پہلے والے اسلام آباد جاتا ہوں اور شام ڈھلے تیسرے والے اسلام آباد کو لوٹ جاتا ہوں۔ راستے میں مگر ایک خونی سڑک سے روزانہ گزر ہوتا ہے۔ یہ جی ٹی روڈ کا وہ حصہ ہے جو پشاور موڑ سے لیکر ٹیکسلا کو جاتا ہے۔ اگر کسی روز راستے میں کوئی حادثہ نظر نہ آئے تو حیرت ہوتی ہے۔ اور روزانہ رات کو اس بات پر اللہ کا خصوصی شکر ادا کرتا ہوں کہ آج کے دن میں اور بیوی بچے اس خونی سڑک سے زندہ سلامت گزر آئے۔ یہ پندرہ کلومیٹرسڑک اسلام آباد کا حصہ تو ہے، اور یہاں روزانہ ہونے والے حادثوں کا میں کئی سال سے عینی شاہد ہوں لیکن آپکویہاں اسلام آباد ٹریفک پولیس کا شاید ہی کبھی نام و نشان نظر آئے۔ ٹریفک پولیس کے معمولی اقدامات سے اور توجہ سے یہ حادثے روکے جا سکتے ہیں لیکن یہ وہ والا اسلام آباد نہیں ہے جہاں زندگی کی کوئی قیمت ہو۔ ٹریفک پولیس کے بعد بہت بڑی مجرمانہ غفلت کا سی ڈی اے مرتکب ہو رہا ہے۔ جب سے اس سڑک کے ارد گرد واقع سوسائیٹیز میں ہزاروں خاندان آ کر آباد ہوئے ہیں تب سے ہزاروں لوگ اس سڑک سے گزر کر پہلے اور دوسرے والے اسلام آباد آتے ہیں، خواتین گاڑیاں چلاتی نظر آتی ہیں، بچے اسکولوں کیلئے یہاں سے گزرتے ہیں تو انہیں یہاں سے ہزاروں کی تعداد میں گزرنے والے ٹرکوں، ٹرالوں، آئل ٹینکروں کے درمیان سے گزرنا پڑتا ہے۔ سی ڈی اے کا کارنامہ دیکھیں کہ سات آٹھ سال پہلے مارگلہ ایونیو کے نام سے بارہ کلومیٹر لمبی سڑک جی ٹی روڈ کو ڈی بارہ سے ملانے کیلئے شروع کی جو ان ہزاروں خاندانوں کو ہیوی ٹریفک کے خطرے کے بغیر اسلام آباد پہنچا سکتی ہے لیکن یہ سڑک جو ایک آدھ سال میں مکمل ہونا تھی ابھی تک کھٹائی میں پڑی ہے ۔
حکومت اور عدالت عظمی سے اپیل ہے کہ مارگلہ کی بچی کھچی پہاڑیوں کو محفوظ بنانے کیلئے اقدامات کریں۔ چاہے قانون سازی ہی کیوں نہ کرنی پڑے اور لائسنس منسوخ ہی کیوں نہ کرنے پڑیں۔ مارگلہ کی پہاڑیوں پر ہر قسم کی کرشنگ پر مکمل پابندی لگائیں اورکرشنگ مافیا نے اتنے سالوں سے جوغیر قانونی کرشنگ کر کے ان پہاڑوں کو تباہ کیا ہے، انکے خلاف سخت کارروائی کریں۔ آئی جی اسلام آباد سے اپیل ہے کہ اس خونی سڑک پر ضروری نفری، ٹریفک بورڈز، ایمرجنسی سروسز بڑھا کر روزانہ ہونے والے حادثوں سے عوام کو بچائیں اور سی ڈی اے سے اپیل ہے کہ ہزاروں خاندانوں کیلئے زندگی موت کی حیثیت رکھنے والےمارگلہ ایونیو کی تعمیر میں چھ سات گنا تاخیر کو باعثِ شرم نہیں تو قابلِ توجہ ہی سمجھ لے اور اسے جلد از جلد مکمل کرے۔

تازہ ترین