خیبر پختون خوا حکومت کے ’’بزرجمہروں‘‘ کی طرف سے ایک نیا شگوفہ پھوٹ پڑا ہے۔ باچا خان یونی ورسٹی چارسدہ کے سانحہ کے بعد صوبائی حکومت نے دہشت گردوں کے حملہ کے حوالے سے ایک انکوائری کمیٹی قائم کی تھی جس میں شامل بزرجمہروں نے سرجوڑ کر اس حملہ کی وجوہات پر غور و خوض کیا، حملے کے ہر پہلو کا بہ غور جائزہ لیا گیا اور بہت سوچ بچار کے بعد کمیٹی کے اراکین اس نتیجہ پر پہنچے کہ باچا خان یونی ورسٹی کی سیکورٹی کی ذمہ داری وائس چانسلر اور سیکورٹی انچارج کی تھی اور ان ہی کی غفلت اور لاپرواہی سے دہشت گردوں کو یونی ورسٹی کے اندر گھس کر طالب علموں اور اساتذہ پر حملہ کرنے کا موقع ملا۔ایسے موقعوں پر شاید یہی کہا جاتا ہے کہ ہمارے بھی ہیں مہرباں کیسے کیسے۔ ہماری قسمت میں ایسے ہی حکمران لکھے گئے ہیں جنھیں یا تو اپنی پارٹی کے چیئرمین کے بے ثمر دھرنوں میں ناچ گانے سے فرصت نہیں اور یا انھیں یہ ہوش تک نہیں رہتا کہ پاک چین راہ داری کا وہ منصوبہ جسے خیبر پختون خوا سے گزرنا ہے اورجس میں وفاقی حکومت خاموشی لیکن تندہی سے اپنے صوبے کے لیے ترقی اور خوشحالی کی نئی راہیں تراش رہی ہے، اس میں وہ بھی اپنے صوبے کے مفادات کے تحفظ کو بروقت یقینی بنا دیتے۔ ہمیں تو ایسے صوبائی حکمران ملے ہیں جن میں اتنی بھی صلاحیت نہیں کہ وہ اپنا سالانہ ترقیاتی بجٹ استعمال کرنے کے لیے منصوبہ بندی کریں اور صوبے میں عوامی ترقی اور خوشحالی کے لیے اسے استعمال میں لائیں۔ ایسے حکمرانوں سے ہم کسی بھلائی کی کیا توقع رکھ سکتے ہیں جو آرمی پبلک سکول پر وحشیانہ حملہ کے بعد اعلان کریں کہ ہر سکول کو اپنی حفاظت کے لیے خود ہی بندوبست کرنا ہوگا۔ دوسرے معنوں میں وہ اپنی ناکامی کا واشگاف اعلان کرتے ہیں کہ وہ سکولوں میں زیر تعلیم بچوں کو امن اور تحفظ فراہم نہیں کر سکتے اب ان کی سلامتی سکول کے گیٹ پر کھڑے ایک غیر تربیت یافتہ چوکیدار سے مشروط ہے جس کے ہاتھ میں کوئی درہ وال پستول ہوگا یا کوئی اور ازکارِ رفتہ اسلحہ جسے محفوظ طریقے سے چلانے کی اسے کوئی مناسب تربیت بھی فراہم نہیں کی گئی ہوگی۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تعلیمی اداروں کا کام بچوں کو تعلیم و تربیت سے بہرہ ور کرنا ہے یا ان کے اساتذہ کو پستول یا کلاشنکوف پکڑوانا ہے کہ ان بچوں کو پڑھانا بھی ان کی ذمہ داری ہے اور ان کو دہشت گردوں سے تحفظ فراہم کرنا بھی ان کے فرائض منصبی میں شامل ہے کیا وزیر اعلیٰ خیبر پختون خوا پرویز خٹک سے یہ پوچھنے کی جسارت کی جاسکتی ہے کہ منتخب عوامی حکومتوں کی کیا ذمہ داریاں ہوتی ہیں اور ریاست کی چھتری تلے عوام کو کو ن سے حقوق حاصل ہوتے ہیں؟ کوئی حکومت، کوئی ریاست اگر اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام رہتی ہے تو اس کے نتائج کیا ہوتے ہیں؟ یہ جاننے کیلئے کسی سقراط یا بقراط کی ضرورت نہیں۔ اجتماعی تباہی و بربادی ایسی حکومتوں اور ریاستوں کے در پر دستک دینی لگتی ہے اور اس کے بھیانک تنائج خانہ جنگی اور انارکی کی صورت میں برآمد ہوتے ہیں خیبر پختون خوا کی حکومت نے اگر باچا خان یونی ورسٹی چارسدہ پر دہشت گردوں کے حملہ کی ذمہ داری وائس چانسلر پر عائد کی ہے اور اس کا سبب ناقص سیکورٹی انتظامات قرار دئیے ہیں تو اعلیٰ صوبائی حکام سے یہ بھی پوچھا جاسکتا ہے کہ افغانستان سے آنے والے دہشت گرد جب پاک افغان سرحد پار کر رہے تھے تو اس وقت متعلقہ سیکورٹی ادارے کیا کر رہے تھے؟ سرحدوں کی حفاظت کن کی ذمہ داری ہے؟ باچا خان یونی ورسٹی پر حملہ سے قبل سیکورٹی تھریٹ جاری کردی گئی تھی لیکن صوبائی حکومت نے باچا خان یونی ورسٹی میں منعقدہ پروگرام کے سلسلہ میں فول پروف سیکورٹی کیوں فراہم نہیں کی؟ اس لاپرواہی کے ذمہ دار کون ہیں؟ کراچی میں مہران بیس کیمپ اور کراچی ائرپورٹ پر دہشت گردوں کا حملہ، راولپنڈی میں جی ایچ کیو جیسے حساس مقام پروحشت کے پجاریوں کی یلغار، آرمی پبلک سکول (پشاور) جو کور کمانڈر کے دفتر کی بغل میں واقع ہے، کا سانحہ کس کی غفلت کا نتیجہ ہے؟ اس جنگ میں اب تک 70ہزار سے زائد معصوم شہری اپنی قیمتی جانوں سے محروم ہوچکے ہیں، اس میں پانچ ہزار سیکورٹی اہلکار کام آئے ہیں، یہ کس کی لاپرواہی ہے؟ کن قوتوں نے ان وحشیوں کو بنایا ہے، ان کی پرورش کی ہے اور ان کے جرائم سے مسلسل چشم پوشیاں کرکے بے گناہ شہریوں کو ان کیلئے تر نوالہ بنایا ہے، کیا کبھی کسی نے انھیں ذمہ دار ٹھہرانے کی جرأت کی ہے؟خیبر پختون خوا حکومت کی قائم کردہ انکوائری کمیٹی نے باچا خان یونی ورسٹی کے وائس چانسلر سمیت یونیورسٹی کے کئی دوسرے افراد کو اپنے عہدوں سے برخواست کرنے کی سفارش کی ہے لیکن صوبائی حکومت کے ان بزرجمہروں کو یہ علم نہیں کہ تعلیمی اداروں کا منصب طلباء کی تعلیم و تربیت ہے، ان کی ذہنی نشوونما ہے ان میں موجود اساتذہ کا کام یہ نہیں کہ وہ اسلحہ بند ہوکر دہشت گردوں کا مقابلہ کر یں، یہ کام ریاست کا ہے اور اس مقصد کیلئے سکیورٹی ادارے موجود ہیں۔ اگر آپ عوام کو امن و سلامتی فراہم نہیں کرسکتے تو اپنی ناکامی کا اقرار کرکے مستعفی ہوجائیں۔ اپنی ناکامیوں اور نا اہلیوں کا ملبہ قابل صد احترام اساتذہ پر نہ ڈالیں۔