• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ کہاوت توہم بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ ’’گاہک اورموت کی کچھ خبر نہیں ہوتی کہ یہ کب آجائیں‘‘ اب یہ ’’خبر‘‘ (اطلاع) کے اضافے کےبغیر مکمل نہیں۔ کچھ ہی خبریں ایسی ہوتی ہیں جن کی آمد متوقع ہوتی ہے، وگرنہ خبروں کے سیل رواں میں زیادہ خبریں اچانک وارد ہوتی ہیں اور میڈیا میں دھوم مچا دیتی ہیں۔ مختلف خبریں معاشرے کے مختلف طبقات کےلئے دلچسپی کا سامان لئے ہوتی ہیں۔ جبکہ فی زمانہ قارئین، ناظرین اور سامعین کے لئے آج کی مشینی زندگی کا یہ چیلنج ہے کہ وہ ہر وقت جاری و ساری خبروں کے سیلاب میں سے اپنی دلچسپی،اہمیت اور فائدے کی خبروں کو کم سے کم وقت میں منتخب کرکے ان کے مندرجات سے آگاہ ہوں۔ میڈیا اور اس کے پیغامات وصول کرنے والوں (ٹارگٹ آڈئنس) کی اسی کیفیت کا مطالعہ کرتے ہوئے میڈیا اسکالرز نے تھیوری آف نالج اکانومی اور اکنامکس آف انفارمیشن جیسی تھیوریز پیش کیں، جو اب ابلاغ عامہ کے لٹریچر میں بہت زیادہ استعمال ہوئی ہیں۔ واضح رہے بلکہ ذہن نشین کیجئے کہ نالج اور انفارمیشن کا بہت گہرا تعلق،آج کی مطلوب ترقی سے ہے، خواہ یہ اقتصادی ہو، سماجی یا سیاسی۔ پڑھے لکھے امریکی بطور قوم فخر اپنے سپرپاور ہونے سے زیادہ ’’انفارمیشن رِچ‘‘ ہونے اور نالج اکانومی کے بہترین استعمال میں مہارت پر کرتے ہیں۔
اخبارات کے ادارتی صفحات کے اداریہ و کالم نویس اور ٹی وی ریڈیو کے ٹاک شوز کے اینکر پرسنز اور شرکائے گفتگو رائے سازی کے عمل میں سرفہرست مانے جاتے ہیں جیساکہ اس کے اور بھی کتنے ہی ہیں لیکن ان کے صحافتی ذہن کا اندازہ بھی ان کے حالات ِ حاضرہ کے منتخب موضوعات سے ہوتا ہے کہ وہ رائے سازی کے لئے موضوع کا انتخاب کرتے ہیں، اس پر اپنی کیارائے قائم کرتے اور کیسے تجزیئے سے ٹارگٹ آڈئنس کی رائے بناتے یا پہلے سے موجود پراثراندازہوتے ہیں؟
پاکستان آج کل اپنی قومی تاریخ کے انتہائی حساس سیاسی و جمہوری عمل سے گزر رہا ہے۔ ایک طرف تیزی سے واضح ہوتی تابناک پاکستان کی تصویر ہے اور دوسری جانب بدستور اسٹیٹس کو میں جکڑے پہلےسے اجڑے پاکستان کی مزید تشویشناک صورت بھی کوئی کم واضح نہیں۔ کالم نویسوںاور تجزیہ نگاروں کی روز کی مشکل پیشہ ورانہ چیلنج میں تبدیل ہوتی جارہی ہےکہ ایک سے بڑھ کر ایک اہم دلچسپی کا سامان لئے اور حساس خبروں میں سےوہ کس موضوع کاانتخاب کریں۔ ’’آئین نو‘‘ میں تو آئندہ صحافت میں اختصار کے اسلوب کو اختیار کرتے ہوئے ایک مخصوص موضوع ہی نہیں بلکہ چند اہم ترین موضوعات کا انتخاب کرکے ان پر رائے زنی اور ان کے تجزیے کرنے کی راہ اختیار کی جارہی ہے۔ الیکشن 18ء کے نتیجے میں نو منتخب حکومت کے قیام تو وقتا فوقتاً ’’آئین نو‘‘ کی ایک ہی اشاعت میں کئی کئی موضوعات پربات ہوتی رہے گی۔
اقتدار کی آئینی مدت پوری کرنےوالی ن لیگی حکومت میں(سابق) وزیر اطلاعات محترمہ مریم اورنگزیب اپنے انداز ِ ابلاغ سے تو استاد معلوم دیتی ہیں، لیکن بطور ترجمان حکومت رخصت ہوتے ہوتے انہوں نے ایسا نحیف بیان دیا ہے کہ کلاس روم کی کوئی کمزور شاگردہ بھی اتنی یکسر الٹ بات نہ کرے۔ اپنی آخری میڈیا ٹاک میں فرماتی ہیں ’’منتخب حکومت (رخصت ہوتی) کی کارکردگی سب کے سامنے ہے، تمام مشکلا ت کے باوجود آج ترقی یافتہ پاکستان دے کر جارہے ہیں۔‘‘ محترمہ پر کھلم کھلا جھوٹ کا الزام لگاناتو مناسب نہیں، لیکن یہ یقینی ہے کہ وہ ’’ترقی یافتہ ملک‘‘ کے لگے بندھے معنی اور تعریف سے ناآشناہیں اور کسی ملک کے وزیر اطلاعات کی اتنی بے خبری فکر کی بات ہے۔ عالمی مالیاتی اداروں نے اقتصادی حیثیت کو عشرہ ہوئے دو کی بجائے تین اقسام میں تقسیم کردیا تھا۔ 60ء کے عشرے تک ان ممالک کی تقسیم ترقی یافتہ (Developed) اور پسماندہ (Under developed)میں ہوتی تھی پھر اس کے درمیان ایک اور ترقی پذیر (Developing) کی نشاندہی کی گئی یعنی وہ ممالک جومقررہ پیمانوں کے مطابق ترقی یافتہ تو نہیں لیکن یہ ایک مخصوص رفتار سے ترقی کرتے آگے بڑھ رہے ہیں۔ 70کے عشرے میں تقریباً تمام ہی پسماندہ ممالک، ترقی پذیر کی کیٹیگری میں آگئے اور پسماندہ (Under Developed) ملک کی اصطلاح ہی متروک ہوگئی۔ محترمہ کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ آج دوبارہ سے چند ہی ممالک جو دوبارہ سے اپنی ’’ترقی پذیری‘‘ کے کم تر ہونے پر سابقہ (Under Developed)والی کیٹگیری کے قریب تر پہنچ گئے ہیں۔ ان میں ایٹمی پاکستان کا شماربھی ہوتاہے۔ جہاں گزشتہ دس سال میں اقتصادی اور سماجی ترقی کے تمام تراشاریے گرتے گرتے تشویشناک حد تک پہنچ گئے ہیں۔ اڑھائی کروڑ اسکول ایج کے بچے بدستور اسکولوں سے باہر، بعض علاقوں میں توخواندگی نہ بڑھی نہ ٹھہری بلکہ کم ہوگئی۔ ری پروڈکٹو ہیلتھ (زچہ بچہ صحت) میں پاکستان ترقی پذیر دنیاکے آخری دس ممالک میںآتا ہے۔ پینے کے صاف پانی پر جو دُہائی پورے ملک اور کراچی میں مچی ہوئی ہے، بطور وزیر اطلاعات آپ اس سے ضرور آگاہ ہوںگی۔ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام، غریب ترین ممالک کو خوراک و دوا کی مفت ڈلیوری کی اپروچ کاوہ پروگرام ہے جو 70ء کی دہائی بطورڈلیوری سسٹم ترقی پذیر دنیا سے بھی ترک ہو گیا اور آفت و جنگ زدہ علاقوں تک محدود ہو گیا۔ لیکن ہمارے ہاں یہ ڈلیوری سسٹم بینظیر انکم سپورٹس پروگرام کے نام پر ایک عشرے سےجاری ہے جس پر باری مکمل کرنے والی دونوں جماعتوں نے فخر کیا حالانکہ یہ ہماری قومی پسماندگی کی بڑی علامت بن گیا۔
قومی اقتصادیات کی تو یہ صورت ہے کہ ن لیگ نے تشویشناک نوعیت کےقرضے لے کر سب سے بڑاچیلنج آنے والی حکومت کے لئے یہ چھوڑاہے کہ وہ عالمی مالیاتی اداروں کے سخت قرضوں کی پہلی قسط کیسے ادا کرے؟ یہ قرض کہاں لگے؟ یہ ایک الگ حساب ہے۔
پی ٹی آئی میںکوئی ہے جو پنجاب کے سابق وزیر قانون رانا ثناء اللہ کے اس سوال کا تسلی بخش جواب دے کہ جو پارٹی، اس کی قیادت ا ور مرکزی کور کمیٹی، نگران دو ماہی وزیراعلیٰ کا نام دینے میںاتنی کنفیوز ہوگئی،وہ پاکستان کی مشکل ترین گورننس کیسے ہینڈل کرےگی؟
’’حبیب اکرم بنام وفاق پاکستان‘‘ مقدمے پر لاہور ہائی کورٹ کی جسٹس عائشہ ملک کایہ فیصلہ تاریخی ہے کہ ’’انتخابی امیدواروںکو ثابت کرنا پڑے گا کہ وہ معاشرے کے بہترین شہری اور آئین کے آرٹیکل 62-63پرپورا اترتے ہیں۔‘‘ شفاف پاکستان کا تقاضا ہے کہ پارلیمنٹ شفاف ہو، اس فیصلے کی یقینی پابندی ہے۔ یہ لغو ہے کہ یہ آئین میں ضیا ء الحق نے شامل کی تھی، کی تھی تو 18ویں ترمیم پر تین سال کے غور میں یہ خارج کیوں نہ ہوئی؟ اس لئے کہ اس کی اخلاقی طاقت اورقومی ضرورت مسلمہ ہے۔اس کے اخراج کا مطلب گدلے پاکستان کی پارلیمانی قبولیت ہوگی۔
O۔ خواجہ آصف کو عدلیہ سے اہلیت کا سرٹیفکیٹ مبارک۔ وہ ٹی وی اسکرین پر فخر سے یہ کہتے سنے گئے کہ ’’میں نےپورا منی ٹریل عدالت کو دیا‘‘ شاباش بزرگوارِ سیالکوٹ جو اس موضوع پر منڈے سیالکوٹیے بنے ہوئے ہیں، انہیں بھی سمجھائیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین