• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
زیادہ پرانی بات نہیں1999میں اقتدار حاصل کرنے والےجنرل پرویزمشرف کے ابتدائی دور میں تمام وزارتوں کے وزراء اور اداروں کے نگراں سابق یا حاضر سروس جرنیل تھے، کہا جارہا تھا کہ ملک کی نہ صرف تقدیر بلکہ نقشہ بھی بدلنے جا رہا ہے، انہی میں ایک سابق جنرل اور سابق گورنر سندھ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ معین الدین حیدر بھی تھے جو اس وقت وفاقی وزیرداخلہ تھے، 2002میں جیوٹی وی کے پردہ سیمیں پر جلوہ گر ہوئے ابھی چند ہی روز ہوئے تھے، میں نےان سے آن کیمرا انٹرویو کے لئے رابطہ کیا تو بولے وہ ٹی وی پر آنے کے شوقین نہیں جو پوچھنا ہے زبانی کلامی پوچھ لیں، کیونکہ وہ ملک کے امن کے لئےبہت کچھ کرنا چاہتے ہیں، میری درخواست پرآمادہ ہوئے توقیام امن کے متعلق میرے چبھتے سوالوں پراپنی جوابی حکمت عملی عیاں کرتے ہوئےبولے اس ملک کا امن صرف ہتھیاروں کی واپسی یاخاتمے (ڈی ویپن نائزیشن) میں پنہاں ہے، ہتھیار صرف قانون نافذ کرنے والے ریاستی اداروں کے پاس ہونے چاہئیں، جو عوام کے تحفظ اور دشمن کے خاتمے کے لئے استعمال ہوں، بولےضیاء الحق کے دور سے اب تک جس طرح سے ملک اسلحہ سے بھر چکا ہے وہ امن کی تباہی ہے، انہوں نے انکشاف کیا کہ فاٹا، کراچی سمیت ملک بھر سے ہتھیاروں کی رضاکارانہ واپسی اور پولیس فورس کے استحکام، جدید تربیت اور کمیونٹی پولیس کے جامع منصوبہ کی تیاری شروع کردی گئی ہے اور کئی سوالات کے بعد انٹرویو ختم ہوا،بریکنگ نیوز چلی اور پھر اس خواب کی تعبیر گم ہوگئی ماضی کے کئی سنہرے خوابوں کی مانند،جنرل ر معین الدین کی وزارت چند ماہ بعد ختم اور چند سال بعد مشرف کادور بھی انجام کو پہنچ گیا،نہ ہتھیار ختم ہوئے نہ ہی عوام میں عدم تحفظ کا احساس،بلکہ جنرل مشرف دہشت گردی کےخلاف فرنٹ لائن اسٹیٹ کا کردار ادا کرتے کرتے ملک کوایک ایسے فتنہ وفساد میں مبتلا کرگئے کہ ایک رپورٹ کے مطابق ان کے اقتدار کے آخری دو سال خودکش حملوں کے حوالے سے دنیا بھر میں پاکستان کے لئے بدترین سال تھے،بدقسمتی دیکھئے کہ عوام کے ووٹوں سے منتخب جمہوری حکومت نے اس سنگین مسئلے پر توجہ دینے کی بجائے اپنے پانچ سال کے دوران راستوں کومقفل ،موبائل سروس بند کرنے اور عوام کو جھوٹے دلاسوں سے دہشت گردی ختم کرنے کی ناکام کوشش کی،یہی نہیں اس راقم نے اس وقت کے وزیر داخلہ اور وزیراعظم کے دستخطوں سے جاری ہونے والے لاکھوں خطرناک ہتھیاروں کے لائسنس کےاجراء کی خبر بریک کی تو اعلیٰ سطح سے پہلے سچ چھپانے کی کوشش اورپھر دستاویزات کے منظرعام پرآنے کے بعد خود کوبچانے کی کوششیں کی گئیں لیکن ان ہتھیاروں کی واپسی یا خاتمے کی مقدوربھر کوشش نہ کی گئی۔ایک جمہوری حکومت کے بعد دوسری جمہوری حکومت قائم ہوئی،پھر اسی دہشت گردی کے خاتمے کاعزم کیا گیا،، پہلے ڈیڑھ سال ہتھیار اٹھانے والوں سے مذاکرات میں ضائع کئے اور پھر ایک سال سے دہشت گردی کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہونے کی کوششوں میں مصروف نظرآتے ہیں لیکن پشاور اسکول میں معصوموں پر سولہ دسمبر دو ہزار چودہ کےبدترین دہشت گرد حملے کے بعد حیران کن طور پرنیا پاکستان بنانے کی شدید خواہشمند جماعت کی صوبائی حکومت نے کتابوں اور قلم کے ذریعےعلم کے لئے سرگرداں طالب علموں اوراساتذہ کے ہاتھوں میں ہتھیار پکڑانے اور اپنی حفاظت خود کرنے کی خوفناک پالیسی اپنانے کا فیصلہ سنادیا،ایک سال عوام کو نئے نئے منصوبوں میں الجھائے رکھنے اور ہتھیار اٹھائے دشمن کے بچوں کو پڑھانے کے جھانسے کےدوران دہشت گردوں نے چارسدہ کی ایک بڑی یونیورسٹی میں گھس کر ملک و قوم کے جوانوں کو معمار بننےسے ہمیشہ کے لئے روک دیا، تب بھی احساس تو دور کی بات ایک نئی منطق گھڑ لی گئی، ملک و قوم کی جیبوں سےنکالے گئےاربوں روپے سے پلنے والےریاستی اداروں کوان کےواحد فرض عین کے لئے تیار کرنے کی بجائےڈھٹائی سے کہہ دیاگیاکہ حکومت ہر اسکول کالج اور یونیورسٹی کی حفاظت نہیں کرسکتی،یہی نہیں انتہائی افسوس کا مقام تو یہ ہےکہ چارسدہ کے واقعہ کی تحقیقات میں اسی یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو ذمہ دار قرار دے کر کارروائی کی سفارش کردی گئی۔
یہی نہیں اس سے بھی زیادہ خوفناک پہلو یہ ہےکہ تعلیمی اداروں کو حفاظتی انتظامات کے لئے براہ راست ہتھیاروں سے لیس کرنے کی پالیسی شروع کردی گئی ہے، ایک ٹی وی فوٹیج دیکھ کر دماغ سن ہوگیا جس میں دکھایا گیا کہ اسکولوں میں گھس کر سیکورٹی اداروں کے اہلکار بچوں کے سروں پر گن تان کر، شور مچاکردہشت گردوں کی ممکنہ کارروائی کو کیسے ناکام بنارہے ہیں، خدارا کسی نے سوچا ان معصوم ذہنوں میں کیا پک رہا ہوگا، کوئی آنکھیں کھول کے دیکھے، دنیا کے مضبوط، امیر اور جدید ٹیکنالوجی سے لیس ملک امریکہ کو اپنے گن کلچر کا کیا نتیجہ بھگتنا پڑ رہا ہے، صرف گزشتہ ایک سال میں درجنوں واقعات میں چھوٹے بچے ہتھیار لے جاکر اپنے ساتھی طالب علموں کو ہلاک کررہے ہیں، صدر اوباما مسلسل ہتھیاروں پر پابندی کےقانون اور اس پر عمل درآمد کی کوشش میں مصروف ہیں، لیکن یہ واقعات ہماری آنکھیں کھولنے کے لئے ناکافی ہیں، فوج تو سرحدوں کی حفاظت اور ناقابل کنٹرول علاقوں کو اپنی بہادری اور قربانیوں سے فتح کرنے کے لئے پیش پیش ہے لیکن ریاست کے اندر حفاظت کے نگہبان اداروں کی استعداد کار کیوں بہتر نہیں ہورہی، عوام کو تحفظ کا احساس دلانے کی بجائے انہیں اسلحے سے لیس کرنےکی ناسمجھنے والی حکمت عملی پر ہی کیوں بضد ہیں یہ حقیقت ہےکہ ہم حالت جنگ میں ہیں،اور مان لیجئےکہ دہشت گردوں کے لئےتعلیمی ادارے سافٹ ٹارگٹ ہیں تو تعلیمی اداروں کی حفاظت توبہرصورت حکومت کی ہی ذمہ داری ہے،اس خطرے سے نمٹنے کےلئے تعلیمی اداروں کو بند کرنے یا اساتذہ وطلباء کو ہتھیار تھمانے کی بجائے صوبے اور بڑے تعلیمی ادارے مل کر خصوصی ٹاسک فورس بنالیں، انٹیلی جنس میکانزم کو موثر بناکر کمیونٹی پولس کو مؤثر بنائیں۔ طلباء کو کم سےکم حربی تربیت کے لئے ماضی کے این سی سی پروگرام کو مؤثر اور نئے انداز میں لاگو کردیا جائے، ہمیں اپنی موجودہ اورآنے والی نسل کو اس جنگ سےآزاد کرانا ہے،انہیں اسلام کاحقیقی سبق اورعملی طور پربرداشت کا روشن چہرہ دکھانا ہےوالدین کوبھی گھر سے اپنے بچوں کی سوچ معتدل بنانے کابیڑہ اٹھانا ہے۔
پڑھے لکھے دانشوروں ،قابل تجربہ کار افراد اور تمام مکاتب فکر کےعلماء کرام کونوجوانوں سے براہ راست مکالموں کے ذریعے انتہا پسند سوچ کے سامنے متوازن فکر و سوچ کو لانا ہے، نصاب کو جدید خطوط پر استوار کرنا ہے۔ تو پھر یہ کون کرے گا، اس سوال کا جواب ملنا اس لئے بھی مشکل ہے کہ حکومت ابھی بہت مصروف ہے، شاید اس کے لئے کئی اہم کام اور بہت ہیں، ہاں ایک انتہائی ضروری ولازمی کام جو حکومت خود کو اور بھولے بھالے عوام کو باور کرانے کے لئے زور و شور سے کررہی ہے کہ حکومت اور فوج ایک صفحے پرہیں اور اس مقصد کے حصول کے لئے وہ پوری تندہی سے ہر فوٹو، ہر فوٹیج اور ہر پریس ریلیز کےسہارے بھرپور پرعزم ہوکر عملی مظاہرے میں الجھی ہے۔
تازہ ترین