• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ شمالی کوریا کا سربراہی اجلاس اب بھی ممکن ہے

ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ شمالی کوریا کا سربراہی اجلاس اب بھی ممکن ہے

واشنگٹن:ڈیمریری سیوسٹپولو

اور کٹینہ مینسن

سیول : برن ہارس

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ آئندہ ماہ شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان سے ملاقات کرسکتے ہیں، جبکہ ایک روز قبل ہی انہوں نے سنگاپور میں بارہ جون کے طے شدہ سربراہی اجلاس کو منسوخ کیا تھا۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعہ کو کہا کہ ہم دیکھیں گے کہ کیا ہوتا ہے، یہ بارہویں تاریخ بھی ہوسکتی ہے۔ ہم اب ان سے بات کررہے ہیں۔ وہ اسے کرنے میں بہت دلچسپی رکھتے ہیں ہم بھی یہ کرنا چاہیں گے۔

ان کا بیان شمالی کوریا اور امریکی صدر کے درمیان ہونے والی پہلی ملاقات جمعرات کو اچانک منسوخ کرنے کے فیصلے پر شمالی کوریا کے جاری کردہ غیر متوقع طور پر معتدل ردعمل کے بعد آیا ہے۔

متعدد تجزیہ کاروں کا خیال تھا کہ شمالی کوریا امریکا کو مورد الزام ٹھہرائے گا لیکن پیانگ یانگ نے یہ کہہ کر جواب دیا کہ وہ سربراہی اجلاس کے انعقاد میں ابھی بھی دلچسپی رکھتا ہے اور کسی بھی وقت مسائل کو حل کرنے کے لئے تیار ہے۔

شمالی کوریا کے امور خارجہ کیلئے نائب وزیر کم کے گوان نے کہا کہ صدر ٹرمپ کے حوالے سے ہم نے اعلیٰ ترجیحات طے کی تھیں، شمالی کوریا و امریکی سربراہی اجلاس کو تاریخی بنانے کیلئے کسی بھی دوسرے صدر کی جانب سے یہ بے نظیر ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے اس کا خیر مقدم کیا انہوں نے اس بیان کو پرجوش اور معنی خیز کے طور پر بیان کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم جلد ہی دیکیں گے یہ یہ کس طرف رہہنمائی کرے گا، امید ہے کہ طویل عرصہ تک امن اور خوشحالی کی جانب لے جائے گا۔

اس پیشرفت نے امیدوں کو پھر زندہ کردیا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اور کم جونگ ان جزیرہ کوریا پر بحران، جس میں گزشتہ کچھ سال سے اضافہ ہوا ہے جیسا کہ پیانگ یانگ نے اپنی جوہری اور میزائل کی صلاحیتوں کو بہتر بنایا ہے، کا حل تلاش کرنے کی کوشش کے لئے جلد ہی ملاقات کرسکتے ہیں۔

لیکن یہ غیر واضح تھا کہ اگر بارہ جون کیلئے تیاری کے لئے امریکا کے پاس کافی وقت ہوگا اگرچہ ڈونلڈ ٹرمپ نے آگے جانے کا فیصلہ کیا۔جمعرات کو سربراہی اجلاس کو منسوخ کرنے کے فیصلے کی وضاحت میں وائٹ ہاؤس کے ایک معاون نے کہا کہ سنگا پور میں اجلاس کا انعقاد کرنے والے امریکی عہدیداروں کے ساتھ ملاقات کیلئے شمالی کوریا کی ٹیم گزشتہ ہفتے حاضر نہیں ہوئی تھی۔

معاون نے کہا کہ بال اب شمالی کوریا کے کورٹ میں ہے اور واقعی بہت وقت نہیں ہے۔ حقیقی بات چیت کی خاصی مقدار ہے اس بات کو یقینی بنانے کے لئے کہ آپ کے ہم منصبوں کے ساتھ کام کرنے کی سطح پر جگہ بنانے کی ضرورت ہے،بارہ جون کو جب یہ بیٹھیں تو یہ ایجنڈہ دس منٹ میں ان دونوں رہنماؤں کے ذہن میں واضح ہو۔

متعدد ماہرین سے سوال کیا گیا تھا کہ اگر امریکی انتظامیہ نے ایک کامیاب سربراہی اجلاس کے لئے راہ ہموار کی تھی اور خدشات ظاہر کئے کہ معاہدہ کرنے کیلئے ڈونلڈ ٹرمپ جلد میں تھے۔

جمعرات کو ڈونلڈ ٹرمپ کے منسوخی کے اعلان کے بعد سابق سیکرٹری آف اسٹیٹ رچرڈ آرمیٹیج نے کہا کہ امریکا نے صحیح فیصلہ کیا تھا کیونکہ دونوں اطراف کے سربراہ اجلاس جو چاہتے ہیں اس کے درمیان توقعات کو ایک بہت بڑا فرق تھا۔

رچرڈ آرمٹیج نے کہا کہ ہم ایک حملے سے بچے ہیں جس کیلئے ہم تیار نہیں تھے، مجھے اس پر شک نہیں کہ ہمارے بیوروکریٹس نے ہر زاویہ کا احاطہ کیا تھا لیکن مجھے یقین ہے کہ ہمارے صدر نے ایک منٹ کی بھی تیاری نہیں کی تھی۔ کم جونگ ان واضح طور پر الف سے ے تک کیلئے تیار تھے۔

تاہم سنگاپور کا سربراہی اجلاس منسوخ کرکے امریکی صدر نے ذاتی ناکامی کی نشاندہی کی جنہوں نے کم جونگ ان کے ساتھ سربراہی اجلاس میں معاہدہ کرنے کے لئے اپنی طویل عرصے سے مشہور ساکھ داؤ پر لگای ہوئی تھی۔سربراہی اجلاس کے امکانات دوبارہ شروع کرنے میں ڈونلڈ ٹرمپ نے دوبارہ روایتی خارجہ پالیسی کی حکمت کو مسترد کرنے کی صلاحیت کا اظہار کیا۔

دو إالفین کے درمیان کافی عرصے سے ثالث کا کردار ادا کرنے والے جنوبی کوریا کے صدر مون جے ان نے کہا کہ زیرہ کوریا میں ایٹمی تخفیف اسلحہ اور پائیدار قیام امن تاریخی کام ہیں جو نہ ترک کرسکتے ہیں اور نہ ہی اس میں تاخیر کرسکتے ہیں۔

شمالی کوریا کی اعلیٰ سربراہ چاؤ سون سونئی کے آیا امریکا ہم سے اجلاس کے کمرے میں ملاقات کرے گا یا جوہری سے جوہری مقابلے کا ٹکراؤ اس کا تمام تر انحصار امریکا کے رویئے اور فیصلے پر ہے،کے کہنے ایک دن بعد ابتدائی منسوخی سامنے آئی ۔

مس چاؤ نے امریکی نائب صدر مائیک پنس جنہوں نے شمالی کوریا کے ساتھ معاہدے کیلئے لیبیا ماڈل کی تجویز دی تھی، کے تبصرے کا جواب دیا تھا۔

امریکی قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن نے پہلے ہی شمالی کوریا میں حکومت کی تبدیلی کی حمایت کی ہے،نے لیبیا کے ماڈل کا بھی حوالہ بھی دیا ہے۔ ناقدین نے اس سربراہ اجلاس کو خطرے میں ڈالنے کیلئے ان پر یہ جملہ استعمال کرنے کا الزام لگایا، جبکہ ان کا دفاع کرنے والوں کا کہنا ہے کہ وہ معمر قذافی کی موت کی بجائے ابتدائی ایٹمی معاہدے کے بارے میں بات کررہے ہیں، شمالی کوریا میں اپنے والد کے انتقال کے بعد کم جونگ ان اقتدار سنبھالنے سے تھوڑا عرصہ قبل ہی معمر قذافی کی موت واقع ہوئی تھی۔

تازہ ترین