• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کوئی بھی چیز اگر معمول سے مختلف ہو تو ضرور اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔ میں اسے انوکھا پن یا انوکھی چیز کہتا ہوں۔ ہر انوکھی شے میں تخلیق کا جذبہ نمایاں ہوتا ہے جو اسے منفرد اور انوکھا بناتا اور اس میں کشش پیدا کرتا ہے۔ میں نے عرض کیا تھا کہ گزشتہ تقریباً ڈیڑھ ماہ سے میں امریکی ریاست کیلی فورنیا کے ایک خوبصورت، سرسبز وشاداب، صاف شفاف، نہایت پرامن اور خوشحال قصبے میں سیاحت کی منزلیں طے کررہا ہوں۔ لاکھوں کی آبادیوں میں گھومنے پھرنے کے باوجود اگر مجھے آج تک ایک شخص بھی بے گھر اور بھکاری نہیں ملا تواس کا مطلب ہے کہ یہاں کے باشندے خوشحال ہیں۔ امریکہ میں ماشاء اللہ بے گھر افراد بھی ہیں، بے روزگار بھی ہیں اور غریب بھی ہیں لیکن ان کی تعداد نہایت کم ہے۔ کم سے کم اس علاقے میں کمپیوٹر سائنس اور ٹیکنالوجی کے طفیل ایک بھی شخص نہ بے گھر ہے اورنہ ہی خالی جیب۔ بڑے بڑے گھر، بڑی گاڑیاں، شاپنگ پلازوں اور بڑے بڑے مالز (MALLS)میں دن رات رونقیں اس علاقے کی خوشحالی کی علامت ہیں۔ میں لاہور کا رہنے والا ہوں جہاں ہر طرف بھکاریوں کی فوج راہ گزر حضرات کا دامن کھینچتی رہتی ہے اس لئے یہاں آکر مجھے بھکاری سے ملاقات کی حسرت تھی۔ وہ حسرت کیسے پوری ہوئی، آپ کو بعد میں بتاتا ہوں۔ اسی طرح مجھے یہ بھی حسرت تھی کہ لاکھوں کاروں کے ہجوم میں ہارن بجنے کی آواز سنائی کیوں نہیں دیتی۔ میرے شہر لاہور میں تو اتنے ہارن بجتے ہیں کہ بے شمار لوگ شور کی آلودگی (Noise Pollution)سے قوت سماعت کی کمزوری کا شکار ہو چکے ہیں۔ کئی دفعہ مارکیٹ میں پیدل چلتے ہوئے گاڑی کا ہارن سن کر میں ہارن بجنے کی وجہ تلاش کرنے لگتا ہوں تو محسوس ہوتا ہے جیسے کار ڈرائیور نے سڑک پر پڑے ہوئے کھڈے کو ہارن بجایا تھا یا محض شوق پورا کرنے کے لئے یا میوزک کی خواہش کی تسکین کے لئے ہارن پہ ہارن بجائے تھے۔ یہاں لاکھوں کاروں کو خاموشی سے سفر کرتے دیکھ کر میں لاہور کو مس (Miss) کرنے لگا۔ اک حسرت نے میرے دل میں سر اٹھایا کہ اے کاش میں ان گونگی کاروں کو بولتے ہوئے بھی سنوں۔ کل یہ خواہش بھی پوری ہوگئی۔ کس طرح یہ بات بھی بعد میں بتائوں گا۔
ہاں تو میں عرض کررہا تھا کہ اگر آپ کو معمول سے ہٹ کر کوئی ایسی شے نظر آئے جس میں تخلیق کا پہلو بھی شامل ہو تو وہ انوکھی شے لگتی ہے۔ چند روز قبل میں کار پر ایک ٹائون سے دوسرے قصبے میں جارہا تھا تو ایک خوبصورت پہاڑی پر از قسم قبرستان نظر آیا۔ سرسبز اور درختوں میں گھری ہوئی اس پہاڑی کی ڈھلوان ہائی وے کی جانب تھی چنانچہ یہاں سے گزرنے والے لاکھوں لوگوں کی نظریں اس قبرستان پر ضرور پڑتی تھیں جسے بڑے منظم انداز سے بنایا گیا تھا۔ میں نے اپنے میزبان سے کہا کہ اس قبرستان یعنی ’’شہر خاموشاں‘‘ کے مکین کتنے دلفریب اور پربہار مقام پر آرام کررہے ہیں۔ وہ میری بات سن کر مسکرایا اور بجھارت کے انداز میں کہنے لگا ’’اس شہر خموشاں‘‘ میں کوئی مکین نہیں، یہ قبریں خالی ہیں‘‘۔ میں اس کا جواب سن کر حیرت میں گم ہوگیا اور سوچنے لگا کہ کیا یہ قبریں لوگوں کو موت یاد دلانے کے لئے بنائی گئی ہیں؟ ابھی میں اس ادھیڑ بن سے نکلنے کی کوشش کر ہی رہا تھا کہ اس نے خاموشی توڑی اور بتایا کہ ’’اس قصبے کے ایک شہری نے یہ پہاڑی خرید کر یہ قبرستان بنایا ہے۔ یہ قبریں خالی ہیں لیکن ان پر ناموں کے کتبے نصب کردیئے گئے ہیں‘‘۔ میں اس کی بات سن کر مزید حیرت میں ڈوب گیا۔ پھر اس نے راز سے پردہ اٹھاتے ہوئے بتایا کہ یہ شخص امریکہ کی افغانستان میں جنگ کے سخت خلاف ہے۔ اس نے احتجاج کا یہ انوکھا طریقہ وضع کیا ہے کہ جس امریکی فوجی کی موت کی خبرآتی ہے یہ خالی قبر پر اس کے نام کا کتبہ سجا دیتا ہے۔ اگر مرنے والے کا نام پتہ معلوم نہ ہو تو خالی کتبہ نصب کر دیتا ہے۔ چنانچہ اس قبرستان پر نظر پڑتے ہی اندازہ ہوتا ہے کہ اب تک افغانستان میں کتنے امریکی فوجی مر چکے ہیں۔ اس سے دل میں جنگ کے خلاف نفرت پیدا ہوتی ہے اور یہی اس انوکھے احتجاج کا مقصد ہے۔ میں نے دنیا بھر میں ’’احتجاجوں‘‘ اور احتجاجی حضرات کو دیکھا ہے۔ پاکستان تو ماشاء اللہ ’’احتجاجوں‘‘ کا گڑھ ہے۔ جس کا جی چاہتا ہے سڑک بند کردیتا ہے اور جس کا جی چاہتا ہے گزرنے والی کاروں پر پتھر برسانے شروع کردیتا ہے۔ احتجاج کا مقصد حاصل ہو یا نہ ہو دوچار مریض اسپتال جاتے ہوئے وفات پا جاتے ہیں اور سینکڑوں دفتروں سے لیٹ ہو جاتے ہیں۔ میں اس قبرستان کو انوکھے احتجاج کا ماڈل سمجھتا ہوں کیونکہ امریکی جنگ کے خلاف اس سے زیادہ موثر احتجاج نہیں ہوسکتا۔ یہ الگ بات کہ امریکی حکمران ایسے ٹوٹکوں سے متاثر نہیں ہوتے۔ چنانچہ صدر ٹرمپ نے بھی اپنے انتخابی وعدے کے خلاف افغانستان میں امریکی فوج کی تعداد بڑھا دی ہے۔ بہرحال میں نے اس انوکھے احتجاج کا ذکر اس لئے کیا کہ اس میں انفرادیت اور تخلیقی سوچ کا پہلو نمایاں ہے۔ شاید پاکستان کے احتجاجی حضرات بھی اپنے دھرنوں، جلوسوں اور احتجاجات کو لوگوں کے لئے عذاب، مصیبت اور اذیت بنانے کے بجائے اپنے انداز میں تخلیقی پہلو شامل کریں لیکن سچ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں جسے دکھ، تکلیف، حق تلفی اور اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس کی دوسروں کواذیت دیئے بغیر تسلی نہیں ہوتی نہ ہی حکومت بے ضرر احتجاجوں کو اہمیت دیتی ہے۔ لاقانونیت اور بے انصافی کے شکار معاشروں کا یہی چلن ہوتا ہے کہ وہ اذیت پسند ہو جاتے ہیں۔
یہاں میں اکثر شام کو آئرن ٹریل پہ تھوڑی سی واک کرنے نکل جاتا ہوں۔ سینکڑوں میلوں پر مشتمل یہ آئرن ٹریل صرف واک اور جاگنگ کرنے والے حضرات اور سائیکل سواروں کیلئے مخصوص ہے۔ میں جب تھک جاتا ہوں تو ہزاروں واک اور جاگنگ کرنے والے حضرات کا میلہ دیکھنے کے لئے لکڑی کے بنچ پر بیٹھ جاتا ہوں۔ کل میں نے بیٹھے بیٹھے بنچ کی بیک پرلگی ہوئی پیتل کی پلیٹ پر نظر ڈالی تو پتہ چلا کہ اس علاقے کا ایک ابھرتا ہوا جواں سال لکھاری اور معروف نام چند سال قبل وفات پا گیا تھا۔ اس کے چند دوستوں نے اس کی یاد میں یہ مضبوط بنچ بنوا کر یہاں رکھا ہے تاکہ راہ گزر تھک کر آرام کرسکیں۔ پلیٹ پر لکھا تھا کہ اگرچہ تم مر چکے ہو لیکن ہمارے دلوں میں تم اسی طرح زندہ ہو۔ میں ان الفاظ اور اس منفرد طریقہ یاد سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا اوراپنے میزبان سے پوچھا تو وہ کہنے لگے یہاں آپ کو سیرگاہوں کے کنارے اور پارکوں میں جتنے لکڑی کے بنے مضبوط بنچ نظر آئیں گے ان تمام پر آپ کو پیتل کی ایک پلیٹ کندہ نظر آئے گی جس پر لکھا ہوگا کہ یہ بنچ خوشی و مسرت کا تحفہ ہے یا آنسوئوں کی مالا۔ کل آپ پارک میں پھولوں کے درمیان رکھے بنچ پر بیٹھے تھے۔ اردگرد مختلف جگہوں پر درجن سے زیادہ بنچ پڑے تھے۔ ان میں کوئی بنچ شادی کا شادیانہ، کوئی محبوب کا فراق نامہ، کوئی مرحوم بیٹے یا خاوند کا نوحہ، کوئی کسی بڑے اعزاز کا اعتراف اور کوئی کسی مرحوم دوست کی یاد کا چراغ تھا۔ یہاں لوگ ایسے مواقع پر رفاہ عامہ کو ذہن میں رکھتے ہیں نہ کہ دولت کے زیاں یا مہنگی تقریبات کو۔ یقین کیجئے میں اس جذبے اور اس جذبے کے انوکھے اظہار سے بے حد متاثر ہوا۔
آخر میں پنجابی محاورے کے مطابق اپنے پیٹ سے کپڑا اٹھاتا ہوں۔ آرزو تھی کہ یہاں کوئی بھکاری نظر آئے۔ اللہ پاک نے وہ خواہش پوری کردی۔ جمعہ کی نماز ادا کر کے مسجد سے نکلا تو تین خواتین مع بچوں کے ہاتھ میں پلے کارڈ پکڑے کھڑی تھیں۔ ظاہر ہے بھیک مانگنے والی تینوں مسلمان خواتین تھیں۔ دوسری حسرت تھی کہ یہاں کی گونگی کاروں کو ہارن بجاتے سنوں۔ کل میں شام کی نیم تاریکی میں کار چلاتے ہوئے غلطی سے گھر کی سڑک سے آگے نکل گیا۔ سوچا کہ آگے سے یو ٹرن لے کر واپس آتا ہوں۔ سگنل پر سبز لائٹ کا انتظار کررہا تھا تو پاس سے گزرنے والی کارنے وارننگ کے انداز میں ہارن بجایا جس نے مجھے چوکنا کردیا۔ غور سے دیکھا تو پتہ چلا کہ یہاں سے یو ٹرن لینا منع ہے۔ چنانچہ آگے جاکر جہاں یو ٹرن کی اجازت تھی وہاں سے مڑا۔ یوں ہارن کی خواہش بھی اللہ پاک نے پوری کردی اور مجھے وطن عزیز یاد آیا جہاں کسی جگہ سے بھی قانون کی پروا کئے بغیر یو ٹرن لیا جاسکتا ہے یا جو جی چاہے کیا جاسکتا ہے۔ اصل آزادی توپاکستان میں ہے جہاں آزادی کے نشے میں سرشار لوگ ہر قسم کی پابندی، قانون اور ضابطے سے آزاد ہیں۔ پاکستان زندہ باد۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین