• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چین-امریکا کشیدگی،بحیرہ جنوبی چین میزائل تنصیب

امریکا کے صاحب صدر بہادر ڈدونلڈ ٹرمپ یورپ سے تجارتی جنگ میں مصروف تو ہیں ہی اس کے ساتھ اب چین سے بھی تجارتی کے ساتھ سفارتی جنگ میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔ تازہ ترین بیانات کے تبادلوں میں چین نے واشگاف الفاظ میں امریکا کو بتا دیا ہے کہ چین اپنے علاقوں میں کہیں بھی فوج تعینات کر سکتا ہے۔

امریکی صدر کی ان بڑھکیوں میں اب ٹرمپ کے وزیر دفاع جیمز میٹس بھی شامل ہو گئے ہیں اور انہوں نے چین پر الزام لگایا کہ وہ بحیرہ جنوبی چین میں میزائل نصب کر کے اپنے پڑوسی ملکوں کو ڈرا دھمکا رہا ہے۔

گزشتہ دنوں سنگا پور میں ہونے والی سکیورٹی کانفرنس میں امریکی وزیر دفاع اور چینی وزیر لیفٹنٹ طاہر نے ایک دوسرے کو آنکھیں دکھائیں اور تابڑ توڑ بیانات دیئے۔

چین کا موقف یہ ہے کہ بحیرہ جنوبی چین میں افواج کی تعیناتی چینی قومی دفاعی حکمت عملی کا حصہ ہے اور اس پر اعتراض کرنے کا کسی کو حق نہیں ،ساتھ ہی یہ بھی کہ چین کی افواج اس امر کو یقینی بنائے گی کہ کوئی اور اس علاقے میں اپنی بالا دستی قائم کرنے کی کوشش نہ کرے۔ چین بار بار یہ کہتا رہا ہے کہ یہ چین کا اپنا علاقہ ہے اور اسےوہاں افواج تعینات کرنے کا پورا حق ہے۔ اور وہ دیگر ممالک کی جانب سے غیر ذمہ دارانہ بیانات قبول نہیں کرےگا۔

ان بیانات کی اہمیت اس لئے بھی بڑھ جاتی ہے کہ عنقریب امریکی صدر شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان سے ملاقات کرنے والے ہیں اور اس پورے خطے میں ایک نئے دور کا آغاز ہو سکتا ہے، ایسے میں اگر شمالی کوریا امریکی مطالبات مان کر اپنے ایٹمی ہتھیار تلف کرنے پر رضا مند ہو جاتا ہے تو یہ امریکا کی بڑی کامیابی ہو گی اور اس کے صرف اس خطے پرہی نہیں بلکہ پوری دنیامیں ہر دور رس نتائج برآمد ہوں گے۔

دراصل اس پورے خطے میں یعنی مشرق ایشیا میں تاریخی طور پر جاپان اور چین بڑی طاقتیں رہی ہیں۔ جاپان تو کئی سو سال تک الگ تھلگ رہا اور چین بھی کوئی سو سال پہلے تک اپنے اندرونی معاملات میں ہی الجھا ہوا تھا۔ بیسویں صدی میں جاپان نے اس علاقے میں تیزی سے پر پھیلائے تھے اور کوریا پر قبضہ کرنے کے بعد چین کے علاقے منچوریا پر بھی قبضہ کر لیا تھا۔ اس دوران امریکا تو اس خطے سے دور رہا مگر روس نے جاپان اور چین کے مقابلے میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش کی تو پہلے تو شہنشاہ روس کو جاپان نے شکست دی پھر دوسری جنگ عظیم کے بعد جاپان کو شکست ہوئی اور چین بھی آزاد ہو کر ایک سوشلسٹ ملک بن گیا۔

بیسویں صدی کے نصف آخر میں امریکا اس خطے میں ایک بڑی طاقت کے طور پر اس لئے ابھرا کہ اس نے جاپان پر قبضہ کر لیا تھا ، پھر وہ کوریا اور چین میں سوویت یونین کےبڑھتے ہوئے اثر پرخوش نہیں تھا۔ امریکا نے کوریا کو تقسیم کرایا اور جاپان کو بھرپور امداد دی ،ایسے میں اگر سوویت یونین اور چین باہم دوست رہے تو امریکا کے لئے مزید کردار ادا کرنا مشکل ہوتا، مگر ستم ظریفی یہ ہو گئی کہ سوویت یونین جس نے چین کے سوشلسٹ انقلاب میں چینی کمیونسٹوں کی بھرپور مدد کی تھی چین پر دھونس جمانے لگا ،دراصل چیئرمین مائوزے تنگ استانہ کی موت کے بعد عالمی سو شلسٹ تحریک کے رہ نما بننا چاہتے تھے یعنی مارکس اینکلز ،لینن اور اسٹالن کے بعد مائو کی خواہش تھی کہ عالمی سوشلسٹ تحریک کی قیادت کریں۔ سوویت یونین کے نئے رہنا شرو شیف چیئرمین مائو کو یہ اعزاز دینے کے قائل نہیں تھے اور سوویت یونین کو قائدانہ مقام پر فائز رکھنا چاہتے تھے، ایسے میں چین نے سوویت یونین تعلقات کشیدہ کر لئے اور امریکا کو موقع مل گیا۔

مشرقی ایشیا میں بیسویں صدی کے آخری عشروں میں بڑی تبدیلیاں ہوئیں، ایک طرف تو امریکا نے ایشین ٹائیگرز یعنی تائیوان، سنگا پور، ملائیشیا ،ہانگ کانگ وغیرہ کو بھرپور امداد دے کر سرمایہ دار معیشت کے استحکام اور بالا دستی کو بڑھاواد یا دوسری طرف چین تائیوان پر اپنا دعویٰ کرنے کے باوجود کسی لڑائی میں شریک نہیں ہوا۔ اس دوران امریکا کو ویت نام میں شرم ناک شکست ہوئی اور 1975کے بعد ایسا لگ رہا تھا کہ اب مشرقی ایشیا میں بھی سو شلسٹ ممالک کی بالا دستی ہو گی۔

یہ ساری صورتحال اس وقت تبدیل ہوئی جب چیئرمین مائو 1976 میں انتقال کر گئے اور چین میں سوویت یونین کی طرح اپنی سابقہ قیادت پر تنقید کا سلسلہ شروع ہوا، گو کہ چین مائو کے خلاف اس حد تک نہیں گیا جس حد تک سوویت یونین گیا تھا لیکن پھر بھی مائو کے خیالات کو بڑی حد تک ادا کر کے نئے رہنما دینگ سیائو پنگ نے نجی کاروبار کی اجازت اور 2000کے آتے آتے چین صرف نام کا کمیونسٹ رہ گیا تھا۔ نام کا اس لئے کہ حکومت اب بھی ایک جماعت یعنی کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کے ہاتھ میں تھی اور کسی حزب مخالف کی اجازت نہیں تھی۔

2000کے بعد شمالی کوریا نے اپنے ایٹمی پروگرام کو بڑھاوا دیا اور امریکا نے اس کی شدید مخالفت کی اس طرح پچھلے اٹھارہ سال میں شمالی کوریا کی وجہ سے یہ خطہ بار بار جنگ کےدہانے تک پہنچا مگر عالمی طاقتوں نے کسی بڑی جنگ سے اس خطے کو محفوظ رکھا ہے۔ اس طرح جاپان بھی اپنی فوجی طاقت میں اضافہ کرتا رہا ہے ،تاکہ چین کے ممکنہ خطرے سے بچ سکے۔

اکیسویں صدی میں مشرقی ایشیا میں چین ایک بڑی طاقت بن کر ابھرا ہے، نہ صرف اس کی معاشی طاقت کئی گنا بڑھ گئی ہے بلکہ اس نے اپنی فوجی صلاحیتوں میں بھی خاطر خواہ اضافہ کیا ہے۔ اس لئے چین نے کئی علاقوں میں اپنے فوجی ادارے قائم کئے ہیں اور بحیرہ جنوبی چین میں کئی غیر آباد جزیروں پر اپنی افواج تعینات کرنے کے ساتھ ساتھ کچھ مصنوعی جزیرے بھی بنائے ہیں جہاں چینی بحری جہاز رک سکتے ہیں۔

اس طرح اس خطے میں طاقت کا توازن بتدریج چین کے حق میں ہوتا چلا گیا ہے۔ پچھلے دس سال میں چین نے اس خطے کے ممالک کی معاشی امداد میں بھی اضافہ کیا ہے اور اب ایک نئے ون بیلٹ ون روڈ کے منصوبے کے تحت درجنوں ممالک کو اپنے ساتھ منسلک کر دیا ہے مگر اس سارے عمل میں امریکا اور بھارت منہ دیکھتے رہے ہیں۔

اگر امریکا نے ٹرمپ کی شکل میں ایک احمق منتخب کیا ہے تو بھارت نے ایک تنگ نظر قوم پرست اور ہندو بنیاد پرست مودی کو وزیر اعظم بنایا ہے، گو کہ بظاہر امریکا اور بھارت مل کر چین کے خلاف ایک محاذ کھڑا کر سکتے ہیں، مگر عملاً ایسا ناممکن نظر آتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہےکہ اب امریکا کا اس خطے میں کوئی بڑا ساتھی سوائے جاپان کے نہیں ہے۔ فلپائن سے لے کر انڈونیشیا اور تھائی لینڈ سے لے کر بنگلہ دیش تک سب چینی سرمایہ کاری سے فائدہ اٹھا رہے ہیں اور امریکا صرف بیانات دے سکتا ہے۔ یعنی چین کو اب نہ امریکا روک سکتا ہے اور نہ بھارت۔

تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ امریکا بظاہر تو اس خطے کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک کرنے کی بات کرتا ہے، مگر عملاً جنوبی کوریا میں اپنی افواج کی تعیناتی کو جاری رکھنے پر مصر ہے۔ امریکا کا کہنا ہے اگر شمالی کوریا نے اپنے ایٹمی ہتھیار تلف کر بھی دیئے تو بھی جنوبی کوریا میں اپنی افواج کو بدستور تعینات رکھے گا۔یاد رہے کہ اس وقت امریکا نے تقریباً چالیس ہزار فوجی جنوبی کوریا میں رکھے ہوئے ہیں۔

جنرل میٹس نے چین پر الزام لگایا ہے کہ وہ طیارہ شکن میزائل اور دیگر خوف ناک ہتھیار اس خطے میں نصب کر رہا ہے جس کے باعث امریکا کےلئے یہ بھی ممکن نہیں کہ وہ جنوبی کوریا سے اپنی افواج واپس بلائے ۔

بحیرہ جنوبی چین اس لئے اہم ہے کہ اس کے ارد گرد چھ ممالک ہیں جو مختلف خطوں کے دعوے دار ہیں ،اس لئے چین یہاں چھوٹے جزیرے تعمیر کر رہا ہے، جن پر بحری اور بری فوج کی تنصیبات لگائی جا رہی ہیں۔ کچھ جزیرے تو چین نے اتنے اچھے بنا لئے ہیں کہ وہاں پر چینی بمبار طیارے پر اتارے جا سکتے ہیں، خاص طور پر ووڈی جزیرہ جو ویت نام اور تائیوان دونوں کی ملکیت کے دعوے میں آتا ہے ،اب مکمل طور پر چین کے قبضے میں ہے۔

کچھ دن قبل امریکا نے اس متنازع جزیرے کے قریب دو بحری جنگی جہاز بھیجے تھے ،جس پر چین نے الزام لگایا تھا کہ امریکا چین کی خود مختاری کی سنگین خلاف ورزی کر رہا ہے۔ اگلےہفتے شمالی کوریا اور امریکا کے رہنمائوں کی ملاقات میں توقع کی جانی چاہئے کہ اس خطے میں امن کے لئے پیشرفت ہو گی۔

تازہ ترین