• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پہلی مبارک باد۔ پاکستان کےچیف جسٹس ثاقب نثارکےنام، جن کے فیصلے کلام کرتے ہیں، جن کا قلم سچائیاں اُگلتا ہے۔ ابد آباد تک برکتیں ہوں اُن پر اور ان کی منصفی پرقدوسِ ذوالجلال کی۔ جب مجھے ڈاکٹر سلیم مظہر نے کہا کہ انہوں نے ڈاکٹر نیاز احمد کو پنجاب یونیورسٹی کا مستقل وائس چانسلر لگا دیا ہے تو دل شاد ہو گیا۔ یوں لگا ایک برباد ہوتی ہوئی درسگاہ پھر آباد ہو گئی۔ بے شک ان کی آمد کے سبب علم و قلم کے ایک زمیں بوس ہوتے ہوئے شہر کو عروس البلاد بنتے دیکھ رہا ہوں۔ جھکے ہوئے درخت سربلند ہونے والے ہیں۔
انہیں دوسری مبارک باد کہ انہوں نے پارلیمنٹ کی شعبدہ بازی ناکام بنادی۔ اپنے کارہائے نمایاں کے جسمِ ناپاک کو جمہوریت کے ملبوسِ پاک سے چھپانے والے پھر برہنہ ہو گئے۔ جاتی امرا سے لاڑکانہ کے درمیان جو برقی تار بچھی ہوئی ہے اُس کا جگہ جگہ سے سراغ مل رہا ہے۔ نجم سیٹھی کے گھر میں نواز شریف اور آصف زرداری کی خفیہ ملاقات، خیر اب تو خفیہ نہیں رہی مگر یہ گٹھ جوڑ سے منحرف پارٹیاں اس بات سے کیسے انکار کرسکتی ہیں کہ انہوں نے پارلیمنٹ میں مل کر آئین کی شق باسٹھ اور تریسٹھ کو انتخابی عمل سے نکال پھینکا تھا۔ چوروں اور لٹیروں نے راہ کی ایک دیوار گرا لی تھی اگرچہ عارف علوی نے اِس کیخلاف ووٹ دیا تھا مگر تحریک انصاف کے ایک دو لوگ بھی ساتھ ملا لئے گئے تھے۔ یہ سب کچھ اُسی خاموشی سے ہوا جس خاموشی سے ختم نبوت کے قانون پر شبخون مارا گیا تھا۔
سوچتا ہوں اپنی عریانی چھپانے کے لئے سارے شہر کو ننگا کرنے والوں کے دلوں پر کیا بیتی ہوگی جب یہ اطلاع ِ عام ہوا کے دوش پر سفر کرنے لگتی ہوگی کہ کس کس نے کتنے قرضے لے رکھے ہیں۔ کون کون بجلی، گیس اور پانی تک کا بل نہیں دیتا۔ کس کس نے اپنے بیوی بچوں کے نام پر کتنی جائیداد رکھی ہوئی ہے۔ ان کے نام پر کتنے کاروبار ہورہے ہیں۔ کس کس پر کون کون سے فوجداری مقدمات ہیں۔ کون کتنا ٹیکس ادا کرتا ہے۔ کس کے کتنے اثاثے ہیں۔ کس نے کتنے غیر ملکی دورے کئے ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔
اِس سے بڑی قیامت اور کیا ہوگی کہ پارلیمنٹ قوم کے ساتھ واردات کی مرتکب ہوئی ہے۔ یہ تو بھلا ہو اُس صحافی کا جس نے عدالت جانے کا فیصلہ کیا اور جب کوئی صدقِ دل سے کچھ کرنا چاہتا ہے تو پھر ساری کائنات اس کی مدد کے لئے نکل پڑتی ہے۔ وقت نے مدد کی اور اس صحافی کی ملاقات بیرسٹر سعد رسول سے ہو گئی۔ ایک ابھرتے ہوئے وکیل سےجو سچائی کی فتح کے لئے بغیر فیس کے مقدمہ لڑنے کا حوصلہ رکھتا ہے اور پھر جسٹس عائشہ ملک نے انصاف کے تمام تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کاغذات نامزدگی میں ترامیم کالعدم قرار دے دیں۔ اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق اس فیصلے کے خلاف فوری طور سپریم کورٹ کی جانب لپکے۔ آخر کیوں نہ لپکتے۔ وہ خود دو مرتبہ دھاندلی کے مرتکب ہو چکے ہیں۔ ایک مرتبہ تو عدالت نے ان کے خلاف فیصلہ دیا تھا۔ انہیں ڈی سیٹ کیا تھا۔ دوسری مرتبہ لاہور کے مختلف حلقوں سے بیس ہزار ووٹ ان کے حلقے میں منتقل کئے گئے۔ منتقل کرانے والوں کو ان دنوں یہ پریشانی لاحق ہے کہ وہ ووٹ واپس اپنے حلقے میں کیسے لائے جائیں۔ خیر سپریم کورٹ نے اسٹے آرڈر جاری کر دیا۔ پیپلز پارٹی اور نون لیگ میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ سپریم کورٹ کے اسٹے آرڈر کا سبب صرف یہ تھا کہ کہیں اس فیصلے کی وجہ سے انتخابات نہ لیٹ ہوجائیں سو سپریم کورٹ نے اسی فارم کے ساتھ ایک بیان حلقی لگانے کا حکم دے دیا۔ سب جمہوریت کے سورما جھاگ کی طرح بیٹھ گئے۔ لطف کی بات یہ ہوئی کہ پہلے تو غلط معلومات دینے پر صرف جعل سازی کے جرم میں کارروائی ہوتی تھی اس فیصلے کے بعد جھوٹ بولنے والوں کو توہین عدالت کی سزا بھی بھگتنا پڑے گی۔ یقیناً بہت سے غیرمناسب لوگ اس بیان حلفی کی وجہ سے پارلیمنٹ تک نہیں پہنچ سکیں گے مگر یہ سوال ابھی تک انتخابات کی دیوار پر لکھا ہوا ہے کہ وہ لوگ جو جرائم پیشہ افراد کی سرپرستی کرتے ہیں انہیں اسمبلیوں میں آنے سے کیسے روکا جائے۔
مثال کے طور پر جھوک عاربی میں والدین اور بھائی کی موجودگی میں ظالموں کی درندگی کا نشانہ بننے والی دو بہنوں کے مجرم ملتان کے ایک سیاست دان کے گھر سے گرفتار ہوئے تھے، انہیں اُس نے پناہ دی ہوئی تھی۔ یہ واقعہ میڈیا پر کافی عرصہ تک آتا رہا ہے۔ اُس وقت کے وزیر اعظم ان بہنوں کی دادرسی کے لئے خود ان کے گائوں پہنچے، مجرموں کو سزا ہوئی مگر وقت کے اسکندر کو کسی نے کچھ نہیں کہا۔ وہ اسی طرح الیکشن لڑ کر گارڈ مافیا کو اپنے ووٹ سے مضبوط کرتا رہا۔ چند دن پہلے تک وزیر بھی رہا اور اب تحریک انصاف کے ٹکٹ کے لئے طوافِ خانہ عمران خان میں مصروف ہے۔ عزیز لکھنوی کا شعر یاد آگیا ہے۔
’’لالہ سے پوچھتی ہے آکر یہ صبح ِ سوسن
پھر کیوں یہ بوسہ زن ہے چوکھٹ پہ میری بوسن‘‘
بے شک تحریک انصاف نے نون لیگ سے آنیوالے کئی لوگوں کو انتخابی ٹکٹ دیئے ہیں لیکن غلط افرادکو پارٹی سے نکالا بھی گیا ہے۔ فاروق بندیال کا معاملہ سب کے سامنے ہے۔ وہ بھی تو نون لیگ سے پی ٹی آئی میں آیا تھا۔
آغاز مبارک بادوں سے کیا تھا سو ایک اور مبارک باد بھی۔ میں ڈاکٹر بابر اعوان کو تحریک انصاف کے سینئر نائب صدر بننے پر دل کی گہرائیوں سے مبارک باد پیش کرتا ہوں اور سمجھتا ہوں کہ وہ تحریک انصاف کے لئے ایک اثاثہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ وہ پاکستان پیپلز پارٹی کے نائب صدر بھی رہے ہیں۔ شاہ محمود قریشی بھی کسی زمانے میں پیپلز پارٹی کے نائب صدر ہوا کرتے تھے، بہرحال پی پی پی کے یہ دونوں نائب صدور اس وقت تحریک انصاف کی شان ہیں بلکہ عمران خان ہیں ۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین