• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہے کتنی پیاری، پیار بَھری عید کی ادا....

تحریر: نرجس ملک

ماڈلز: کرن، نایاب، سونی

ملبوسات:شاہ پوش

آرایش: لش بیوٹی سیلون

عکّاسی: عرفان نجمی

لے آئوٹ: نوید رشید

آج کل ایک پوسٹ ’’آخری لوگ‘‘ کافی شیئر ہورہی ہے کہ ’’ہم بہت خوش نصیب لوگ ہیں… کیوں کہ ہم وہ آخری لوگ ہیں، جنہوں نے مٹّی کے گھروں میں بیٹھ کے پریوں کی کہانیاں سُنیں۔ ہم وہ آخری لوگ ہیں، جنہوں نے گلی، محلّوں میں اپنے خالص روایتی کھیل (پٹھو گول گرم، کوکلا چھپاکی، سٹاپو، پکڑم پکڑائی، آنکھ مچولی، یسّو پنجو، چُھپن چُھپائی، برف پانی، کھوکھو اور گلی ڈنڈا وغیرہ) کھیلے۔ ہم وہ آخری لوگ ہیں، جنہوں نے لالٹین کی روشنی میں ناول، ڈائجسٹ پڑھے۔ ہم وہ آخری لوگ ہیں، جنہوں نے اپنے پیاروں کے لیے اپنے احساسات، مبارک بادیں خطوط، عید کارڈز میں لِکھ لِکھ بھیجیں۔ ہم وہ آخری لوگ ہیں، جنہوں نے کھیتوں میں بیلوں کو ہَل چلاتے دیکھا۔ ہم وہ آخری لوگ ہیں، جنہوں نے مٹّی کے گھڑوں کا پانی پیا۔ ہم وہ آخری لوگ ہیں، جو سَر میں سرسوں کا تیل، آنکھوں میں سُرمہ ڈال کے شادیوں میں جاتے تھے۔ ہم وہ آخری لوگ ہیں، جو گلے میں مفلر لٹکاکے خود کو ’’بابو‘‘ سمجھتے تھے۔ ہم وہ آخری لوگ ہیں، جنہوں نے فلموں میں شبنم، ندیم کی ناکام محبّت پر آنسو بہائے۔ ہم وہ آخری لوگ ہیں، جنہوں نے تختیاں لکھیں، اُن پر گاچی مَلی، دوات گاڑھی کرنے کے لیے اُس میں چینی ملائی اور اسکول کی گھنٹی بجانے کو اپنے لیے اعزاز سمجھا۔ ہم وہ آخری لوگ ہیں، جنہوں نے عید کا چاند دیکھ کر تالیاں بجائیں اور ہم وہ آخری لوگ ہیں، جنہوں نے سارے خالص رشتوں کی اصل مٹھاس چکھی، شیرینی و حلاوت محسوس کی‘‘۔

واقعی، نسلِ نو کی نسبت، 50,40 کے پیٹے والی نسل بے حد خوش نصیب ہے کہ اِس گزری نصف دہائی نے تو خوراک، ادویہ سے لے کر رشتوں تک کو خالص نہیں رہنے دیا۔ ہر شئے میں ملاوٹ، کھوٹ، ہر تعلق، رشتے، بندھن میں تصنّع و بناوٹ، دکھاوا، کوئی نہ کوئی مطلب و غرض۔ تہواروں تک سے مصنوعی پَن جھلکنے لگا ہے۔ حالاں کہ دیکھا جائے، تو ہمارے اصل اجتماعی، دینی و ملّی تہوار تو صرف دو عیدین (عید الفطر اور عیدالاضحی) ہی ہیں۔ اور اب انہیں بھی ان کی اصل روح کے مطابق منانے کا سِرے سے تصوّر ہی ختم ہوگیا ہے۔ عیدالفطر کی تیاریاں تو رجب سے شروع ہوجاتی ہیں، لیکن وہ حقیقی مسّرت و خوشی، جس کے حصول کے لیے اس قدر تگ و دو کی جاتی ہے، آنکھوں سے جھلکتی ہے، نہ ہی دل میں محسوس ہوتی ہے۔ جب دوڑ ہی صرف سبقت کی ہو، وہ حقیقی فلسفہ، معنی و مفہوم، حکمتیں، فضیلتیں، مقاصد و مصالح ہی نہ رہے، جن کی خاطر یہ خُوب صُورت تہوار، تحفہ عنایت کیا گیا ہے، تو پھر آنکھوں کا نور کیا، تو دل کی خوشی کیا…!!

نذیر بنارسی نے ’’عیدملن‘‘ کے عنوان سے ایک بہت میٹھی، شیریں اور سادہ و عُمدہ سی نظم لکھی ہے ؎ بچھڑے ہوئوں کو بچھڑے ہوئوں سے ملائے ہے.....ہر سمت عید جشنِ محبّت منائے ہے.....انسانیت کی پینگِ محبّت بڑھائے ہے.....موسم ہر اِک امید کو جھولا جُھلائے ہے.....بارش میں کھیت ایسی طرح سے نہائے ہے.....رونق ہر اِک کسان کے چہرے پہ آئے ہے.....ہم سب کو اپنے گھیرے میں لینے کے واسطے.....چاروں طرف سے گِھر کے گھٹا آج آئے ہے.....’’شہزادئ بہار‘‘ کی آمد ہے باغ میں.....ہر ایک پھول راہ میں آنکھیں بچھائے ہے.....ہے کتنی پیاری، پیار بھَری عید کی ادا.....اپنا سمجھ کے سب کو گلے لگائے ہے.....بوچھاریں آکے دیتی ہیں اس کو سلامیاں.....بنسی بجا بجا کے جو میلہ لگائے ہے.....عیدالفطر کی وجۂ شرافت تو دیکھیے.....ہر سال آکے سب کو گلے سے لگائے ہے.....دیجیے دعائیں عید کے تیوہار کو نذیر.....اِک بھیڑ آج آپ سے ملنے کو آئے ہے۔

عیدالفطر، ’’شہزادئ بہار‘‘ کی صداقت و شرافت، رنگینی و لطافت کا تو آج بھی وہی عالم ہے، جو ازل سے، اس کے نام، تصوّر سے منسوب و مشروط ہے۔ ہاں بس، ہمارے ہی تیور و انداز کچھ بدل سے گئے ہیں۔ الوہیت و روحانیت، خلوص و سادگی، ہم دردی و غم خواری جیسے جذبات و احساسات سے تو ہم عاری ہوئے ہی ہوئے، حد درجہ تصنّع و بناوٹ، دُنیاداری، دکھاوے اور بے دریغ روپیا پیسا لُٹانے کے باوجود آنکھوں سے چھلکتی اس معمولی سی خوشی، چمک، بے اختیار لبوں تک آنے والی مُسکراہٹ تک سے محروم ہیں، جو صبحِ عید، بند مٹھی کھولنے پر، مہندی کی سوندھی خوشبو بکھرنے اور ہتھیلی میں بنی مچھلی دیکھنے سے ملتی تھی۔ آہ!وہ سادہ سے سُرخ جوڑے کے دوپٹے پہ لگی سستی سی گوٹا کناری، باٹا کی سینڈل، عیدی کے نام پہ کڑکڑاتا دس روپے کا نوٹ، موتی، نگوں سے مرصّع چھوٹا سا پرس، بالوں کی رنگین پونیاں، کِلپ، ننّھی ننّھی جُھمکیاں اور کلائیوں پر رنگ چھوڑتی کانچ کی سَت رنگی چُوڑیاں بھی کیسی دیرینہ قلبی خوشی، اِک نہ ختم ہونے والے احساسِ تفاخر سے لب ریز کرتی تھیں کہ پھر اگلی عید تک حواس و رُوح پہ ایک سرشاری ہی کی سی کیفیت رہتی۔ اور اِک آج کی عید ہے، اتنا کچھ ہے، اتنا کچھ ہے کہ گنتی محال ہے۔ ہاں، نہیں ہے تو بس اصلی چہرے، رشتے، سچّی خوشیاں، حقیقی چاہتیں، بے غرض محبّتیں، خلوص و احترام، شفقت و موّدت، خدا ترسی و رحم دلی، مہربانی و ہم دردی، اطمینانِ قلب اور تسکینِ روح نہیں ہے۔

تو چلیں، آج اِک روز ہی کے لیے سہی، اس مشینی دَور، روبوٹک لائف سے نکل کر اُسی سادگی و سادہ دلی کو یاد کرتے ہیں کہ جو کبھی ہمارا اوڑھنا بچھونا، ہمارا خاصّہ تھی۔ جس میں بے شک آسائشیں کم تھیں، مگر سکینتِ قلب و جاں بے اندازہ تھی۔ جب کسی سے ہاتھ ملاتے، گلے ملتے، پیار سے ’’عیدمبارک‘‘ کہتے تھے، تو دِلوں میں ہلکے سے غبار، میل کا شائبہ تک نہ ہوتا تھا۔ بزرگوں کے احترام میں خود تو کھڑے ہوتے، مگر نگاہیں جُھکائے رکھتے۔ والدین، بہن بھائیوں، دوست احباب سے محبّت نہیں، عشق کرتے تھے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں، معمولی خواہشات کی تکمیل پر مجسّم تشکّر ہوجاتے۔ سوچتے زیادہ تھے، نہ بولتے زیادہ۔ مانگتے زیادہ تھے، نہ لیتے زیادہ۔ دے کے خوش ہوتے۔ روٹھے کو منانا اچھا لگتا۔ اِک بار کہنے پر مان جانے میں کوئی عار محسوس نہ کرتے۔ انائیں بڑی تھیں، نہ ضدیں پکّی۔ ہٹ دھرمی تھی، نہ بے حِسی و بے دلی۔ بے صبرا پن تھا، نہ نفسا نفسی و خود غرضی۔ سب ایک دوسرے کا خیال رکھتے، اِک دُوجے سےباہم جُڑے رہتے، عمومی طور پر بھی اور عید تیوہاروں پر تو خاص طور پہ۔ نہ ہوئی ہمارے پاس ’’ٹائم مشین‘‘ کہ کسی صُورت اس دَور میں واپس لوٹ جائیں، تو چلیں، جا نہیں سکتے، دہرا تو سکتے ہیں، یاد تو کرسکتے ہیں۔ تو آج، اُسی بیتے وقت کو اِک بار پھر دل کی گہرائیوں سے یاد کریں اور اُسی جذبہ خلوص و چاہت کے ساتھ ’’تم جس سے ملو، اُسے عید مبارک‘‘ کے مثل بن جائیں۔

ہماری جانب سے اس ’’عید اسپیشل بزم‘‘ کی صُورت اِک چھوٹے سے نذرانے اور دل کی گہرائیوں سے نکلی اس دُعا کے ساتھ کہ ؎’’دُعا ہے آپ دیکھیں زندگی میں بے شمار عیدیں.....خوشی سے رقص کرتی، مُسکراتی پُربہار عیدیں.....نچھاور آپ پر ہوں ایسی ایسی صد ہزار عیدیں.....زمانے بھر کی خوشیاں آپ پر کردیں نثار عیدیں‘‘ عیدِ سعید کی مبارک باد قبول کریں۔ اللہ کرے کہ یہ عید آپ کو بہت راس آئے اور گزری ہر عید سے زیادہ سعد و مبارک ثابت ہو۔

تازہ ترین
تازہ ترین