• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عام انتخابات کے شفاف انعقاد کو یقینی بنانے کے لئے انتظامی تبدیلی کا عمل جاری ہے۔ پنجاب، سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے آئی جی پولیس اور چیف سیکرٹری کی تبدیلی کے بعد صوبے کے تمام انتظامی عہدوں سے افسران کو تبدیل کیا جارہا ہے۔افسران کی تبدیلی کاا صل ٹارگٹ پنجاب اور سندھ نظر آرہا ہے۔ انتخابی تاریخ میں پہلی مرتبہ پولیس انسپکٹرز تک کو رینج سے باہر ٹرانسفر کردیا گیا ہے۔نئے تعینات ہونے والے ڈی پی اوز اور ڈی سی اوزنے ذمہ داریا ں سنبھال لیں ہیں۔انتخابی مہم کا باقاعدہ آغاز ہوچکا ہے۔مگر انتخابات کے بروقت انعقاد پر ابھی بھی شکوک و شبہات برقرار ہیں۔خیبر پختونخواکی انتظامیہ کے حوالے سے بھی شدید تنقید کی جارہی ہے۔نئی نگران حکومت نے اہم ترین انتظامی افسران کو تبدیل ہی نہیں کیا۔صوبے کے ایڈیشنل چیف سیکرٹری ڈویلپمنٹ ،سیکرٹر ی خزانہ، سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ،سیکرٹری داخلہ،سیکریٹری پی این ڈی اور سیکرٹری صحت ابھی تک عہدوں پر براجمان ہیں۔تحریک انصاف کی حکومت کی طرف سے لگائے گئے اہم ترین افسران کو نگران حکومت نے چھیڑا تک نہیں۔اسی طرح سیکرٹری اسکولز،سیکرٹری ہائیر ایجوکیشن اور سیکرٹری بلدیات کا عام انتخابات میں اہم ترین کردار ہوتا ہے۔مگر ان بالا افسران کے حوالے سے بھی سیاسی جماعتوں کو شدید تحفظات ہیں۔عین ممکن ہے کہ بالاافسران انتہائی ایماندار اور محنتی ہوں مگر میرٹ سب کے لئے ایک جیسا ہونا چاہئے۔جب پنجاب کے تمام افسران کو صرف اس بنیاد پر تبدیل کیا گیا کہ وہ مسلم لیگ ن کے لگائے ہوئے تھے تو پھر خیبرپختونخوا میں میرٹ مختلف نہیں ہونا چاہئے۔میرٹ ایسا ہو جو سب کو نظر آئے۔
پنجاب میں نگران حکو مت نے جن افسران کو ڈی پی اوز اور آرپی اوز لگایا ہے۔ان میں سے بیشتر افسران وہ ہیں جو شہباز شریف کے دور اقتدار میں بھی مختلف اضلاع اور ڈویژنز میں کام کرتے رہے ہیں۔میری اطلاع کے مطابق اس مرتبہ پنجاب کے افسران لگاتے ہوئے کڑی نگرانی کی گئی ہے،چن چن کر غیر جانبدار شہرت کے حامل افسران کو لگایا گیا ہے۔پس ثابت ہوا کہ شہباز شریف کے معیار کو ہی بطورپیمانہ مقرر کیا گیا ہے۔ایک چھوٹی سی مثال بیان کردیتاہوں۔شہباز شریف ہر اہم واقعے کی جے آئی ٹی میں سینئر پولیس افسر ابوبکر خدابخش کو سربراہی دیتے تھے۔ابوبکر خدابخش انتہائی شریف اور دیانتدار پولیس افسر ہیں۔جتنا مرضی دباؤ ہوہمیشہ میرٹ کو ترجیح دیتے ہیں۔ان کے حوالے سے انگلی اٹھائی جاتی رہی کہ حکومت من پسند رپورٹ تیار کروانے کے لئے انہیں کمیٹی میں ڈالتی ہے۔آج ایک ایسی نگران حکومت جس پر مسلم لیگ ن شدید تحفظات کا اظہار کرچکی ہے۔اس نے ابوبکر خدابخش کو آرپی او لگایا ہے۔اسی طرح سے ذوالفقار حمید کو بھی اسی نگران حکومت نے آر پی او کی ذمہ داری سونپی ہے۔نئے لاہور پولیس چیف شہباز شریف کی حکومت میں ہی متعدد اضلاع میں ڈی پی او تعینات رہ چکے ہیں۔نئے تعینات ہونے والے 20ڈی پی اوز ایسے ہیں جو پہلے ہی پنجاب کے مختلف اضلاع میں شہباز شریف کے ساتھ کام کرچکے ہیں ۔اسی طرح سے مختلف محکموں کے سیکرٹریز کا حال ہے۔کیپٹن (ر) ثاقب ظفر انتہائی ایماندار اور محنتی افسرہیں۔شہباز شریف نے انہیں کمشنر بہاولپور تعینات کیا ہوا تھا۔حالیہ حکومت میں وہ سیکرٹری صحت تعینات ہوئے ہیں۔افسران کی فہرست اتنی طویل ہے کہ ایک کالم اس کا پیٹ نہیں بھر سکتا۔
مندرجہبالا حقائق سے یہ بات تو ثابت ہوتی ہے کہ شہباز شریف کا افسران کو لگانے کا معیار ایمانداری اور اچھی شہرت تھا۔شہباز شریف کے لگائے ہوئے افسران کو نگران حکومت نے چنا ہے۔میں ذمہ داری سے کہتا ہوں کہ اگر کسی اور جماعت کی بھی حکومت آئی تو وہ بھی انہی افسران کا چناؤ کرے گی۔کیونکہ یہ وہ افسران ہیں جو محنت اور دیانتداری کو اپنا فرض سمجھتے ہیں۔جو صحیح معنوں میں قائد کے فرمان کی پاسداری کرتے ہیں کہ "آپ عوام کے خادم ہیں اور ریاست کے ملازم ہیں ،آپ نے پولیٹکل ماسٹر نہیں بننا"۔اگر کوئی شخص اچھا کام کرتا رہا ہو تو ہمیں اسے داد ضرور دینی چاہئے۔نگران وزیر اعلیٰ نے پچھلے دنوں منڈی بہاؤالدین ڈی ایچ کیو اسپتال کا دورہ کیا۔پرانے اسپتال کی نئی شکل دیکھ کر ششدر رہ گئے۔سیکرٹری صحت علی جان سے پوچھا کہ کیا یہ وہی اسپتا ل ہے۔نگران وزیر اعلیٰ کو یقین ہی نہیں آیا کہ پنجاب کےاسپتالوں میں صحت کا معیار اس حد تک بہتر ہوا ہے۔اگر پنجاب میں کسی نے صحت کا بہتر معیار دیکھنا ہے تو راجن پور ڈی ایچ کیو کا دورہ ضرور کرے۔راجن پور پنجاب کا آخری ضلع ہے۔اس کے بعد پنجاب ختم ہوجاتا ہے۔انتہائی پسماندہ علاقہ ہے اور کالا پانی مشہور ہے۔ماضی میں جس افسر کو سزا دینا مقصودہوتی تھی،اسے او ایس ڈی بنانے کے بجائے راجن پور بھیج دیا جاتا تھا۔صرف راجن پور کے ڈسٹرکٹ اسپتال کو بنچ مارک بنادیا جائے تو واضح ہوجاتا ہے کہ شہباز شریف نے صحت کے شعبے میں کیا انقلاب برپا کیا ہے۔
مظفر گڑھ طیب اردووان اسپتال کا توسیعی منصوبہ دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان میں اس کے معیار کا کوئی سرکاری اسپتال نہیں ہے۔مسلم لیگ ن کے بیانیے سے اختلاف کیا جاسکتا ہے۔سیاسی مخاصمت اپنی جگہ پر مگر شہباز شریف کی بہترین کارکردگی کا اعتراف کئے بغیر منہ نہیں موڑا جاسکتا۔آج انتخابات میں پورا ایک مہینہ باقی رہ گیا ہے۔حالیہ عام انتخابات پاکستان کے مستقبل کا تعین کریں گے۔اداروں اور مسلم لیگ ن کے درمیان فاصلے بہت بڑھ چکے ہیں۔مسلم لیگ ن آج حکومت میں نہیں ہے۔اب دونوں فریقین کو ملک کی خاطر تلخیاں کم کرنی چاہئیں۔مسلم لیگ ن کی ہار کی صورت میں بھی غیر یقینی میں اضافہ ہوگا اور جیت کی صورت میں بھی ٹکراؤ بڑھنے کا امکان ہے۔معاشی طور پر پاکستان بہت کمزور ہورہا ہے۔روپے کی قدر گر تی جارہی ہے۔آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک ہمارے دیوالیہ ہونے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ کم یا زیادہ مگر مسلم لیگ ن کو آئندہ سیٹ اپ میں شیئر ضرور دینا ہوگا۔جس طرح نوازشریف نے 2013میں سیاسی دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تحریک انصا ف کو خیبر پختونخوا میں حکومت بنانے کا موقع دیا تھا اور اس کا فائدہ یہ ہوا کہ مسلم لیگ ن نے جیسےتیسے پانچ سال پورے کرلئے۔ اسی طرح تھوڑا تھوڑا شیئر دے کر مسائل کا حل نکالا جاسکتا ہے۔ وگرنہ مکمل لٹا ہوا آدمی کسی طرح کے اقدام سے بھی گریز نہیں کرتا۔

تازہ ترین