• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستانی کرنسی کی تیزی سے بے قدری ملک وقوم کے لیے ایک المیہ ہے۔ ضروری عملی اقدامات کرنے کے بجائے ایک نہایت ہی ناقابل قبول اور پرخطر اقدامات کئے جارہے ہیں۔ ہوناتو یہ ہی چاہیئے تھا کہ 2002 تا 2005 تک جو ٹھوس اور عملی اقدامات اٹھائے گئے جن کی وجہ سے زرمبادلہ کے ذخائر ایک ارب ڈالر سے بڑھ کر 13 ارب ڈالر ہوگئی۔ ہنڈی حوالے کا خاتمہ ہوا۔ریمٹنس 800 ملین ڈالر سے بڑھ کر 6 ارب ڈالر تک پہنچ گئی۔ وقت سے پہلے ایشین بنک کے قرضے ادا کردیئے گئے اور پانچ سال تک ڈالر 57 سے 60 روپے کی شرح میں ٹریڈ ہوتا رہا۔ اس وقت ہماری کرنسی پورے ایشیاء کی کمزورترین کرنسی بن گئی ہے۔ جس کے نقصانات پوری پاکستانی قوم کو خاص کر کے غریب اور متوسط طبقے کو پہنچیں گے اور پہنچنا شروع ہوگئے ہیں۔اگر8 جنوری 2018 کے مقابلہ کریں۔توڈالر110 سے 124 روپے پر آگیا جبکہ انڈین کرنسی 67 پہ ٹریڈ ہوتی رہی۔ اور بنگلہ دیشی ٹکا84 سے 85 پہ ٹریڈ ہورہا ہے۔ تاہم کچھ حکومتی ماہرین کاخیال ہے کہDevaluation ہمارے مسائل کا حل ہے۔گزشتہ ہفتے ایک تقریب میں میری ملاقات ظفرشیخ صاحب سے ہوئی۔ قارئین کے لیے بتاتاچلوں کہ ظفرشیخ صاحب فارن کرنسی کے ایکسپرٹ ہیں اور انہوں نے ملک میں روپے کی گرتی ہوئی قدر کو سنبھالنے میں نہ صرف اہم کردارادا کیا بلکہ انہی کی گراں قدر اقدامات کے باعث زرمبادلہ کے ذخائر جو ملین ڈالر میں تھے بڑھ کر اربوں ڈالر میں آگئے اور ملک پر ڈیفالٹ ہونے کاخطرہ بھی ٹل گیا۔یہ ان دنوں کی بات ہے جب پرویز مشرف صدر اور شوکت عزیزوزیراعظم تھے۔ روپے کی گرتی ہوئی ساکھ اور زرمبادلہ کے کمزورذخائر کوبہتربنانے کے لیے اس وقت کی حکومت نے ظفرشیخ صاحب کی خدمات حاصل کیں۔جوان دنوں متحدہ عرب امارات میں ایک بڑے بنک سے وابستہ تھے۔ ظفرشیخ صاحب نے باہر کی نوکری کوچھوڑ کر اسٹیٹ بنک میں بطور فارن ایکسچینج ایڈوائزر کے اپنی ذمہ داریاں سنبھالیں۔ اور نہ صرف روپے کی گرتی ہوئی قدر کومستحکم کیا بلکہ زرمبادلہ کے ذخائر بھی اربوں ڈالر میں لے گئے۔ ظفرشیخ صاحب نے ہی پاکستان میں پہلی بار کراچی انٹربنک آفرریٹ(KIBOR) کومتعارف کرایا جو آج تک کامیابی سے چل رہاہے۔ میں نے ظفرشیخ صاحب سے پوچھا کہ روپے کے ساتھ کیا ہورہا ہے آپ کچھ کیوں نہیں کرتے تو انہوں نے کہاکہ روپے کی قدر اور ملکی معیشت کو بہتربنانے کے لیے صحیح سمت پر پورے جذبے کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے انہوں نے تجاویزدی کہکتنی بدقسمتی کی بات ہے کہ ہم پاکستان میں ہر قسم کے فروٹ، مچھلیاں، منرل واٹر اور کولڈرنک تک امپورٹ کررہے ہیں۔ حالانکہ کسی بھی ملک میں اس قسم کی آزادی نہیں دیکھی جاتی۔ اپنے ملک کے ذراعت وصنعت کو تباہی کے دہانے پر پہنچادیا۔ لہذا فوری طور پر غیرضروری امپورٹ پر پابندی لگائی جائے۔کمرشل بنک کی برانچوں کو یہ مواقع فراہم کرنا چاہیئے کہ وہ عام پبلک سے کیش، ڈالر، یورو، پاؤنڈ، درہم اور ریال خرید کر اسٹیٹ بینک میںجمع کرادیں۔ ایک انداز کے مطابق 7 سے 5 ارب کا کیش پاکستان میں موجودہوسکتاہے۔ اس لیے ایک پرکشش اسکیم جاری کی جائے۔ایکسچینج کمپنی کو سختی کے ساتھ پابند کیا جائے کہ وہ زیادہ سے زیادہ زرمبادلہ اسٹیٹ بنک کے حوالے کریںجوکہ اس وقت ان کی ایکسپورٹ کا 10 فیصد ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان کو PRI میں بھی شامل کیا جائے تاکہ ان میں اور بینکوں میں صحت مند مقابلے کا رحجان پیدا ہو۔ Exchange company کو کسی حال میں بھی مارکیٹ سے ہٹ کر Exchange Rateکوڈ کرنے کااختیار ختم کیا جائے۔ہمیں اس وقت اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ مرکز قومی بچت کو فعال کیا جائے اور ان کی کچھ اسکیموں کو خاص کرکے نیشنل اسکیم سرٹیفکیٹ 3 سال مدت کو امریکن کرنسی میں تبادلہ کرکے اس میں پرکشش مراعات وترجیحات شامل کرکے بیرونی ملک پاکستانیوں کودی جائے۔وہ پاکستانی جو بیرون ملک جائیداد رکھتے ہوں ان کو یہ موقع فراہم کئے جائیں کہ اپنی جائیداد بیچ کر پاکستان میں ان کے لیے ڈالر Dollar Investment اسکیم لانچ کی جائے۔قرضوں کے انتظامات کے لیے دفتروں کو Debt Management کوفعال کیا جائے۔ اور اگر وہ قرضے کم نہیں کرسکتے تو کم از کم Debt Serviceکو کم کرنے کا ٹارگٹ دیا جائے۔شرح مبادلہ اسکیم کودوطرفہ Rate ہونا چاہیئے۔ تاکہ ایکسپورٹر اور امپورٹر کویکساں مواقع مل سکیں۔ اور اس کی وجہ سے ہمارافاریکس سسٹم میں بہتری آسکے۔ظفر شیخ کا شمار ممتاز بین الاقوامی کرنسی ماہرین میں ہوتا ہے اور ہمیں امید ہے کہ حکومت روپے کی بے قدری کو روکنے کے لیے ان کی ماہرانہ صلاحیت سے استعفادہ ضرور حاصل کرے گی۔                    

تازہ ترین