• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لکی مروت کے ایک خاندان کی 35 آف شور کمپنیوں کی شناخت

اسلام آباد(عمرچیمہ) لکی مروت سے تعلق رکھنے والےایک خاندان کی 35آف شور کمپنیوں کی شناخت ہوگئی ہے۔24کمپنیاں برٹش ورجن آئی لینڈ میں، 8سیشلز میں جب کہ 1کمپنی پاناما میں ہے‘جب کہ دو کمپنیوں کا علم نہیں کہ کہاں واقع ہیں۔تفصیلات کے مطابق،پاناما پیپرز کے مطابق( پاکستان کے حوالے سے )لکی مروت سے تعلق رکھنے والے سیف اللہ خاندان کی سب سے زیادہ آف شور کمپنیاں ہیں اور ان میں سے زیادہ تر برٹش ورجن آئی لینڈ میں ہیں ۔ان کے علاوہ سیشلز اور پاناما میں بھی ان کی کمپنیاں موجود ہیں۔جب کہ ذرائع آمدن جو کہ لاکھوں ڈالرز ہے، زیادہ تر کیسز میں ’’خاندانی کاروبارکی فروخت ‘‘ظاہر کیا گیا ہے۔کمپنیوں کا استعمال یا تو ایک دوسرے کے ساتھ کاروبا ر کرنے کےلیے کیا گیاہے یا پھر رئیل اسٹیٹ، اسٹاک ایکسچینج، اثاثہ جات کے انتظام یا امریکا ، برطانیہ اور پرتگال میں شمسی توانائی کے لیے کیا گیا ہے۔کمپنیوں کے بینک اکائونٹس برطانیہ، سنگاپور، ہانگ کانگ اور آئر لینڈ میں ہیں۔ جب کہ جہاں خاندانی کاروبار کی فروخت کو ذرائع فنڈنگ ظاہر نہیں کیا گیا ہےوہاں اس خاندان کی ہی آف شور کمپنیوں سے قرضہ لینے کو ذرائع فنڈنگ ظاہر کیا گیا ہے، جب کہ کچھ کیسز میں کاروبار کو ذرائع فنڈنگ ظاہر کیا گیا ہے۔اس نمائندے نےسیف اللہ خاندان کی تقریباً 35 کمپنیوں کی شناخت کی ہے ، جس میں سے زیادہ تر 24 کمپنیاں برٹش ورجن آئی لینڈ میں ، جب کہ سیشلز میں 8اور پاناما میں ایک کمپنی ہے، جب کہ دو کمپنیوں کا علم نہیں کہ کہاں واقع ہیں۔ایک کے علاوہ تمام کمپنیاں پہلے جاری کردہ پاناما پیپرز میں موجود ہیں ، جب کہ ا س وقت جب اس خاندان سے رابطہ کیاگیا تھا تو انہوں نے اس پر کوئی رائے نہیں دی تھی۔ جب کہ آئی سی آئی جے نے دی نیوز سے جن نئے دستا ویز ا ت کا اشتراک کیا ہے اس میں مزید کمپنیوں کی تفصیلات ہیں ، جس میں کاروبار کی نوعیت اور فنڈز کے ذرائع وغیرہ شامل ہیں۔جن کمپنیوں کی ملکیت کو پہلے خفیہ رکھا گیا تھا انہیں اب جاری کردہ دستاویزات میں جاری کیا گیا ہے۔بریڈن کارپوریٹ ہولڈنگز لمیٹڈ وہ پہلی کمپنی تھی جو 2003میں سیف اللہ خاندان نے قائم کی تھی۔2007میں بہت سی رجسٹریشنز سامنے آئی تھیں جب انہوںنے تقریباً 10آف شور کمپنیاں بنائی تھیں ، جس کے بعد 2009میں 8کمپنیاں بنائی گئیں۔2003سے 2017تک اس خاندان نے اوسطاً2کمپنیاں ہرسال بنائیں۔فیئر اوکس وہ آخری کمپنی ہے جو انہوںنے پاناما میں 2017میں بنائی۔جاوید سیف اللہ خان جو کہ اس خاندان میں 17کمپنیوں کا مالک ہے، جس میں یا تو وہ خود تن تنہا مالک ہے یا پھر شیئر ہولڈر ہے ، اس نے فیئر اوکس کی رجسٹریشن کرائی۔دتانی چارٹرڈ اکائونٹنٹس نے موزاک فونیسکا کو جو کہ پاناما کی لا فرم ہے کو لکھے گئے خط میں ان کمپنیوں کو بنانے کے مقاصد بیان کیے ہیں۔جس کے مطابق، خان نے حال ہی میں 3انویسٹمنٹ کمپنیاں برطانوی کمپنی میں منتقل کی ہیں ، ہم اس میں اضافی ہولڈنگ کمپنی (فیئر اوکس لمیٹڈ ) کو خان اور برطانوی کمپنی کے درمیان رکھنا چاہتے ہیں۔خط میں ذرائع فنڈنگ کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ جاوید کی برطانیہ میں مزید دو کمپنیاں ، 1۔اسٹین میٹز انویسٹمنٹس ایل ایل پی جو کہ برطانیہ میں شمسی پروجیکٹس میں مالی خدمت فراہم کرے گی اور 2۔ہالکنز انویسٹمنٹس ایل ایل پی جو کہ اثاثہ جات کے انتظام اور مالیاتی حب ہے ، جسے برطانیہ میں فنانشل کنڈکٹ اتھارٹی ریگولیٹ کررہی ہے۔پاکستان سے تعلق رکھنے والا ایک بینکر جو کہ ماضی میں جاوید کی ملکیت میں آف شور کمپنی کا حصے دار تھا ، وہ ہالکنز کا سی ای او ہے۔ایک سابق وزیر اعظم ہالکنز کے مشاورتی بورڈ میں شامل ہیں۔موزاک فونیسکا کو بھیجی گئی ایک ای میل کے مطابق،جاوید کی ایک اور آف شور کمپنی ، آئل اینڈ گیس انٹرنیشنل ہولڈنگز لمیٹڈنے ان کے پاکستانی کاروبار میں سرمایہ کاری کی ہے۔اس کا کام سیف انرجی لمیٹڈ کو قائم رکھنا ہے، جو کہ پاکستا ن میں تیل اور گیس کی تلاش کرنے والی کمپنی ہے۔اس میں فنڈز کے ذرائع میں تجارتی کاروبار ظاہر کیا گیا ہے۔اس خاندان میں انور سیف اللہ خان جو کہ سابق وزیر پٹرولیم ہیں اور ہمایوں سیف اللہ خان جو کہ سابق ایم این اے ہے ، دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ کمپنیاں ہیں۔ان کی 13،13کمپنیاں ہیں ۔ان میں یہ تنہا بھی بینفیشل آنر ہیں اور دیگر بھائیوں کے ساتھ شیئر ہولڈرز بھی ہیں۔سابق وفاقی وزیر سلیم سیف اللہ خان اور ان کے بھائی ڈاکٹر اقبال سیف اللہ خان کی ذاتی ملکیت یا شیئرز 11کمپنیوں میں ہیں ، جہانگیر سیف اللہ خان جو کہ جاوید کے بیٹےہیں ان کی سات اور عثمان سیف اللہ خان کی چھ کمپنیاں ہیں۔سیف کیپیٹل پارٹنزر جو کہ برٹش ورجن آئی لینڈ کمپنی ہے اور انور کی ملکیت میں ہے ، وہ امریکی شمسی توانائی میں پرائیویٹ ایکویٹی انویسٹمنٹ کرتی ہے۔ان کی ایک اور آف شور کمپنی این سی پرائم مینجمنٹ برطانیہ میں پراپرٹی انویسٹمنٹ کرنے کا بتاتی ہے۔کمپنی کی ٹرانزیکشن کا تخمینہ ہر سال 15لاکھ پائونڈز ظاہر کیاگیا ہے۔اس کے فنڈنگ کے ذرائع ایک اور آف شور کمپنی گریٹ پائرامڈ ڈیولپمنٹ لمیٹڈ ہے جو کہ بلیو ڈین یوب یو کے لمیٹڈ کو بھی فنانس کرتی ہے، یہ انور کی کمپنی ہے جس نے برطانوی اسٹاک ایکس چینج میں بھی سرمایہ کاری کی ہے۔یہ سالانہ تقریباً5لاکھ ڈالرز کی ٹرانزیکشن کرتی ہے۔جب کہ اس نیٹ قیمت کا تخمینہ 10سے50لاکھ ڈالرز ہے۔اتفاق سے گریٹ پائرامڈ ڈیولپمنٹ لمیٹڈ ، ہمایوں سیف اللہ کی نائک فوروز لمیٹڈ، سلیم سیف اللہ کی شیئز لمیٹڈ اور اقبال سیف اللہ کی گرینڈ ریپڈز یو کے لمیٹڈ ، جس نے برطانوی اسٹاک ایکس چینج میں سرمایہ کاری کی ہے کو بھی فنڈنگ کررہی ہے۔بریڈن کارپوریٹ ہولڈنگز لمیٹڈ جو کہ آف شورکمپنی ہےوہ ایک اور آف شور کمپنی یوکے پراپرٹی انویسٹمنٹس لمیٹڈ جو کہ سابق سینیٹر عثمان سیف اللہ خان کی ملکیت ہے، کی تنہا شیئر ہولڈر ہے۔جس کی برطانیہ میں پراپرٹی ہے، جب کہ عثمان ، انور کا بیٹا ہے۔اس خاندان نے برے لینڈ لمیٹڈ نامی آف شور کمپنی کے ذریعے پرتگال کی رئیل اسٹیٹ میں بھی سرمایہ کاری کی ہے۔پانچوں بھائی انور سیف اللہ خان، جاوید سیف اللہ خان، ہمایوں سیف اللہ خان، سلیم سیف اللہ خان اور ڈاکٹر اقبال سیف اللہ خان اس کے شیئر ہولڈرز ہیں۔4دسمبر، 2017کی ایک ای میل کے مطابق اس کمپنی کے ذریعے ٹرانزیکشن کا تخمینہ 40لاکھ یورو لگایا گیا، جب کہ اس کی فنڈنگ کے ذرائع میں پہلے سے موجود کمپنیو ں کے موجودہ اسٹرکچر سے قرضہ ظاہر کیا گیا۔اسی طرح انور اور ہمایوں کارئیل اسٹیٹ کمرشل نامی کمپنی کے ذریعے ایک اور پراپرٹی انویسٹمنٹ کا مشترکہ کاروبارہے۔برٹش ورجس آئی لینڈ میں تقریباًچھ کمپنیاں سامنے آئی ہیں ، جس کا مقصد بی وی آئی کمپنیوں میں شیئرز برقرار رکھنا ہے۔پانچوں بھائی ایکوا فالز لمیٹڈ، گریٹ پائرامڈ ڈیولپمنٹ لمیٹڈ اور ڈیلٹا نومینیز لمیٹڈ میں شیئر ہولڈرز ہیں ، جب کہ ڈکس فورڈ ہمایوں سیف اللہ کی ملکیت میں ہے، کیمپلی اقبال سیف اللہ کی اور ایش بے سلیم سیف اللہ کی ملکیت ہے، ہر کیس میں کمپنیوں کا کام یا تو بی وی آئی کمپنیوں میں شیئرز قائم رکھنا ہیں یا دیگر گروپ کمپنیوں میں جو کہ برٹش ورجن آئی لینڈ میں رجسٹرڈ ہیں ، اس میں سرمایہ کاری کرنا ہے۔خاندانی کاروبار کی فروخت کو ان کمپنیوں کے بینیفشل آنرز کی دولت کا ذریعہ بتایا گیا ہے۔وہ کاروبار کیا ہے اس کا پتہ ابھی تحقیقات کاروں کو لگانا ہے۔

تازہ ترین