• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
شمالی اور جنوبی کوریا کے تعلقات، کم جونگ ان اور ڈونلڈ ٹرمپ کے کشیدہ تعلقات میں کمی

سنگاپور: برائن ہیرس،

دیمتری سواستو پولو

پیانگ یانگ اور سیؤل دونوں نے امید ظاہر کی ہے کہ منگل کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان کے درمیان ملاقات کامیاب ہوگی ، جنوبی کوریا کے صدر مون جے ان نے اسے صدی کا صربراہی اجلاس کہا ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ پیر کے روز امریکا اور شمالی کوریا کے موجودہ رہنماؤں کے درمیان ملاقات کے بارے میں خوش تھے،انہوں نے کہا کہ میرے خیال میں ساری چیزیں اچھی طرح سے کام کرسکتی ہیں۔

امریکی صدر ایک معاہدہ ہونے کی امید کررہے ہیں جو دنیا سے کٹی ہوئی ایشیائی قوم کیلئے سفارتی اور اقتصادی انعام کے لئے ممکنہ تبادلے میں شمالی کوریا میں جوہری ہتھیاروں کے خاتمے کا عمل شروع کردے گا،

تاہم،امریکی حکام نے حالیہ دنوں میں توقعات کو اعتدال میں پیش کیا ہے ،انہوں نے کہا کہ ملاقات سے بگ بینگ معاہدے کے حتمی مرحلے کی بجائے آیک عمل کا آغاز ہوگا۔

مسٹر مون جنہوں نے پیانگ یانگ اور مغرب کے مابین خلاء میں پل تعمیر کرنے میں اہم کردا ادا کیا ہے، نے کہا کہ اب ہم اس صدی کے سب سے ؓڑے سربراہی اجلاس کا انتظار کررہے ہیں،مجھے ملاقات کے تاریخی سنگ میل ہونے کی امید ہے جو امن کے لئے راہ ہموار کرے گی۔

انہوں نے مزید بتایا کہ دونوں رہنماؤں کے مزاکرات شروع ہونے کے بعد بھی ہمیں ایک طویل عمل کی ضرورت ہے جو مسئلے کے مکمل حل کیلئے ہوسکتا ہے ایک سال، دو سال یا اسے بھی زیادہ عرصہ لے سکتا ہے۔

سربراہی اجلسا پر شمالی کوریا کے ذرائع ابلاغ کی خاموشی ٹوٹنے کے بعد فورا ہی امریکا اور جنوبی کوریا ے رہنماؤں کی رائے سامنے آگئی۔جوشیلے بیانات کے ساتھ کہ بدلتے دور کی ضروریات کے مطابق اجلاس میں امن اور تخفیف اسلحہ پر تبادلہ خیال کرنے کا موقع ملے گا۔

رپورٹس امیدوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں کہ مسٹر کم جونگ ان اپنے جوہری ہتھیاروں سے دستبردار ہونے کے اپنے بار بار وعدے کے بارے میں حقیقی ہیں اور اقتصادی لبرلائزیشن اور اصلاح کی طرف راستے پر تنہا قوم کو قائم کریں۔

ہفتوں کے لئے، شمالی کوریا کے ذرائع ابلاغ نے اجلاس کے امکان پر رپورٹ نہیں کی، اب تاریخی واقعہ ہونے میں 24 گھنٹے سے بھی کم ہیں،امید ہے کہ دونوں ممالک کئی دہائیوں کی نفرت کو ایک طرف رکھ دیں گے۔

وائٹ ہاؤس کے سابق ایشیا کے اہلکار جو اب جارج ٹاؤن یونیورسٹی میں ہیں ڈینس والڈر نے کہا کہ شمالی کوریا یقینی طور پر یہ کھیل رہا ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ وہ سربراہی اجلاس کی کامیابی کیلئے منصوبہ بندی کررہے ہیں۔وہ ایسا نہیں کریں گے جب تک کہ انہوں نے سوچا کہ وہ اچھا تجربہ نہیں کررہے تھے۔

اس کے باوجود اجلاس جس کی سنگاپورکی حکومت میزبانی کیلئے متوقع لاگت 20 ملین ڈالر ہے،شکوک و شبہات کے ابوجود یقینی بنایا گیا۔

’’واشنگٹن اور پیانگ یانگ کے سفارتکار سنگاپور کے رٹزکارلٹن ہوٹل میں گیارہ گھنٹوں کے مذاکرات میں مصروف رہے۔ صبح کے ایک اجلاس کے بعد امریکی وزیر مائیک پومپیو نے کہا کہ واشنگٹن کوریائی جزیرے کے مکمل، مصدقہ اور ناقابل ترمین تخفیف اسلحہ کے لئے پرعزم تھا‘‘

متعدد ماہرین بالخصوص جو واشنگٹن میں ہیں، یقین نہیں کرتے کہ پیانگ یانگ اپنے جوہری ہتھیاروں سے دستبردار ہونے کی اپنی خواہش کے بارے میں مخلص ہے اور ان کا کہنا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ملاقات پابندیوں میں نرمی کیلئے صرف ایک چال ہے۔ یہ خدشات ابھر کر سامنے آنے کے بعد مضبوط ہوئے کہ اجلاس شروع ہونے کے پانچ گھنٹے بعد ہی جوہری عدم پھیلاؤ کی مکمل تفصیلات پر تبادلہ خیال کرنے کیلئے تھوڑز سا وقت چھوڑ کر کم جونگ ان منگل کو دو بجے دن جنوب مشرقی شہر چھوڑنے کی منصوبہ بندی کررہے تھے۔

واشنگٹن اور پیانگ یانگ کے سفارتکار سنگاپور کے رٹزکارلٹن ہوٹل میں گیارہ گھنٹوں کے مذاکرات میں مصروف رہے۔ صبح کے ایک اجلاس کے بعد امریکی وزیر مائیک پومپیو نے کہا کہ واشنگٹن کوریائی جزیرے کے مکمل، مصدقہ اور ناقابل ترمین تخفیف اسلحہ کے لئے پرعزم تھا۔ شمالی کوریا کے سرکاری ذرائع ابلاغ نے وزیر اعظم زین لونگ سمیت سنگاپور کے حکام کے ساتھ ملاقاتوں میں رہنما کی نمایاں تصایور کے ساتھ کم جون این کی آمد کا جشن منایا۔

کوریا کی مرکزی خبر رساں ایجنسی نے کہا کہ سربراہی اجلاس پوری دنیا کی عظیم توجہ اور توقع کے تحت منعقدہوگا۔ اس نے رپورٹ کیا کہ شمالی کوریا اور امریکا کے نئے تعلقات قائم کرنے کا مسئلہ، کوریائی جزائر پر مستقل اور دیرپا امن کے قیام کے طریقہ کار کی تعمیر کا مسئلہ اور باہمی خدشات کے دیگر مسائل جیسا کہ بدلے ہوئے دور کی ضرورت ہے کا تبادلہ کیا جائے گا۔ یہ کم جونگ ان کا پہلا غیرملکی سرکاری دورہ ہے۔ انہوں نے چین کے طیارے پر پرواز کی، ایک پیشرفت جس نے ایونٹس میں چین کی پس پردہ اہمیت کو اجاگر کیا۔

اجلاس مسٹر کم کے ملکی مرتبہ کے لئے شائد فائدہ مند ہوگا۔شمالی کوریا حالیہ برسوں میں عارضی لیکن نمایاں اقتصادی تبدیلیوں سے گزرا ہے اس نے ملک میں بعض افراد کیلئے اجرت اور زندگی کی کیفیت میں بہتری لائی ہے لیکن یہ ابھی بھی غریب ہے۔

گزشتہ سال کے آخر میں شمالی کوریا کے جوہری پروگرام کی تکمیل کے اعلان کے بعد مسٹر کم نے کہا کہ ملک اب اقتصادی ترقی پر توجہ دے گا۔

تازہ ترین