• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ترقی پسند تحریک اور سید سجاد ظہیر

اُردو یا اُردو ادب میں مختلف اوقات میں مختلف تحاریک نے جنم لیا۔ کچھ کے اثرات محدود رہے اور کچھ دُور رس اثرات کی حامل رہیں۔ تقدیم و تاخیر کی بحث میں اُلجھے بغیر ان تمام تحاریک میں سے چند کے نام کچھ یوں ہیں۔ فارسیت کی تحریک، ابہام گوئی کی تحریک (کلام کی معنوی صفت، جس کے تحت کلام میں ایسا لفظ برتا جاتا ہے کہ جس کے معنی ایک سے زیادہ ہوتے ہیں۔ مطلب یہ کہ ایک معنی قریب اور دوسرا معنی بعید۔ شاعر معنی بعید مراد لیتا ہے، مگر عمومی طور پر معنی قریب سمجھا جاتا ہے۔ تاہم، خوبی یہ ہے کہ دونوں معنی دُرست ہو سکتے ہیں۔ جیسا کہ مصرع اگر یوں ہے کہ’’ ایسا گنہ کیا ہے کہ کچھ جس کی حد نہیں۔‘‘ اس مصرعے میں حد کے دو معنی سمجھ میں آ رہے ہیں۔ 

یعنی انتہا اور کسی گناہ کی سزا۔ دِل چسپ بات یہ ہے کہ یہاں پر دونوں معنی منطبق ہو سکتے ہیں۔ عمومی مطلب اس کا انتہا ہے، جب کہ شاعر نے دوسرا مطلب یعنی سزا مراد لیا ہے)، نظم نگاری کی تحریک، علی گڑھ تحریک، تحریکِ ادب اسلامی اور جدیدیت کی تحریک وغیرہ۔ تاہم، ایک تحریک، جس کا متذکرہ فہرست میں ذکر نہیں کیا گیا، وہ ’’ترقی پسند تحریک‘‘ ہے۔ ایک ایسی تحریک، جس نے تمام تر تحریکوں کو پیچھے چھوڑ دیا اور اُردو ادب پر اَن مٹ نقوش مرتّب کیے۔ ترقی پسند تحریک جس شخص کی مرہونِ منّت تھی، اُس کا نام سیّد سجّاد ظہیر تھا۔ گویا ترقی پسند تحریک اور سیّد سجّاد ظہیر ایک سکّے کے دو رُخ بھی قرار دیے جا سکتے ہیں اور ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم بھی۔

5نومبر1905ء کو گولہ کنج، لکھنٔو، یوپی (بھارت) میں سیّد وزیر حسن کے گھر پیدا ہونے والے سیّد سجّاد ظہیر نے عیش و آرام میں آنکھ کھولی۔ سجّاد ظہیر بہن، بھائیوں میں چھٹے نمبر پر تھے۔ بھائیوں اور بہنوں کی ترتیب کچھ اس طرح تھی۔ سیّد علی ظہیر، نور فاطمہ، سیّد حسن ظہیر، سیّد حسین ظہیر، نور زہرہ، سیّد سجّاد ظہیر اور سیّد باقر ظہیر۔ سجّاد ظہیر تک آتے آتے خوش حالی نے گھر کا راستہ دیکھ لیا تھا۔ ایسے بچّے، جو صاحبِ ثروت گھرانوں میں پیدا ہوتے ہیں، عمومی طور پر ناز و نعم اور عیش و آرام کے عادی ہوتے ہیں، مگر یہاں تو معاملہ ہی اور تھا۔ جس گھرانے میں پیدا ہوئے، وہ موضع بڑا گاؤں، ضلع جونپور کا ایک چھوٹا زمین دار گھرانا شمار کیا جاتا تھا۔ ماں اور باپ دونوں ہی جونپور کے دیہاتی سادات گھرانے سے تھے۔ دادا، سیّد ظہیر حسن تحصیل دار تھے۔ 

اس گھرانے کے پاس دولت بھی تھی اور عزّت بھی۔ شُہرت بھی تھی اور خدمت بھی۔ عوام و خواص سیّد ظہیر حسن کا یکساں احترام کرتے تھے۔ والد، سیّد وزیر حسن اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص تھے۔ نام وَری اور اثر و رسوخ اس خاندان کا طُرّۂ امتیاز و اعزاز تھا۔ وزیر حسن نے سخت محنت کی۔ اوّلاً وکالت اور بعد میں منصفی اختیار کی۔ وکالت اختیار کی، تو یوپی کے ممتاز وکلا میں شمار کیے جانے لگے۔ اودھ ہائی کورٹ کے چیف جج کا اعلیٰ عُہدہ بھی حاصل کیا۔ سیاست میں آئے، تو تب بھی نیک نامی ہم رکاب رہی۔ آل انڈیا مسلم لیگ میں بھی کام کیا اور کانگریس میں بھی خدمات انجام دیں۔ اُن کی خدمات کے عوض برطانوی حکومت نے اُنہیں ’’سَر‘‘ کے خطاب سے نوازا اور یوں وہ ’’سر وزیر حسن‘‘ کہلائے۔ برّصغیر کے ممتاز سیاست دانوں سے مراسم رہے۔ لکھنٔو میں اُن کی حویلی، ’’ وزیر منزل‘‘ کے نام سے مشہور تھی، جہاں سربرآوردہ شخصیات کی آمد و رفت معمول کی بات تھی۔ ’’وزیر منزل‘‘ ایک وسیع و عریض کوٹھی تھی۔ چھوٹے بڑے کمروں کی تعداد کُل ملا کر لگ بھگ 40تک جا پہنچتی تھی۔ دالان انتہائی کشادہ تھا۔ برآمدے تھے اور ایک بہت بڑا باغ بھی تھا، جس میں اشوک، یوکلپٹس اور مولسری کے درخت تھے۔ گلاب، موتیا اور دیگر پھولوں کی کیاریاں تھیں۔ آم کے بے شمار درخت تھے، جن میں گرمی کے موسم میں جب کوئلیں کُوکتیں، تو سماعت کو بہت بھلا لگتا۔ غرض ’’وزیر منزل‘‘ کسی بادشاہ کے محل کا سا منظر پیش کرتی۔

ترقی پسند تحریک اور سید سجاد ظہیر
دَورِ طالبِ علمی کی یادگار تصویر

سجّاد ظہیر کی باقاعدہ تعلیم کا آغاز 6برس کی عُمر میں ہوا۔ حویلی میں نوکر چاکر اور ملازماؤں کی اچھی خاصی تعداد تھی۔ یوں بچپن کا خاصا بڑا حصّہ اُن ہی لوگوں کے ساتھ گزرا اور اُن سے گھلنے ملنے کے باعث سجّاد ظہیر کو نچلے طبقے کی سماجی اُلجھنوں اور معاشی مشکلات کے بارے میں آگہی ہوئی اور اُن کے دِل میں طبقاتی تقسیم کے لیے نفرت کا احساس بیدار ہوا، جس نے آگے چل کر اُن کی زندگی میں اہم کردار ادا کیا۔ گھر کی فضا کافی حد تک جاگیر دارانہ تھی۔ تاہم، اس میں مذہب کا بھی از حد احترام تھا۔ ان دو باتوں کے علاوہ گھر کی فضا سیاسی مصروفیات اور میل جول کے باعث بہت حد تک قوم پرستانہ بھی تھی۔ ابتدائی طور پر عربی اور فارسی کی بنیادی تعلیم بھی دلوائی گئی اور قاعدہ بغدادی، گلستاں بوستاں تو درسیات کا حصّہ تھیں۔ 

اُن کے اتالیق کے طور پر جائس کے رہنے والے مولوی رضی حسن کی خدمات حاصل کی گئیں۔ تاہم، سجّاد ظہیر کو اپنے دینی استاد کی شخصیت نے قطعاً متاثر نہ کیا۔ مذہبی طبقے سے دُوری کی بنیاد اسی دَور میں پڑی، جس نے آگے چل کر اُن میں مذہب سے بیگانگی کا احساس شدید تر کر دیا۔ لکھنٔو کے جوبلی ہائی اسکول میں داخل ہوئے، تو ہندوستان اپنی سیاسی زندگی کی بڑی تبدیلیوں سے گزر رہا تھا۔1916ء میں مشہور ’’لکھنٔو پیکٹ‘‘ ہوا۔ سجّاد ظہیر کے والد، سر وزیر حسن کا بھی کسی نہ کسی ناتے سے اس میں اہم کردار اس طور رہا کہ وہ مسلم لیگ کے سیکریٹری بھی رہے تھے۔ سجّاد ظہیر کے لڑکپن کے دُھندلکوں میں اس کی یاد قائم رہی۔ 1917ء کا سال تھا کہ جب رُوس میں انقلاب نے دُنیا بَھر کے لوگوں پر عمومی اور ہندوستان کے لوگوں پر خصوصی اثرات مرتّب کیے۔ اب جگہ جگہ انقلاب کی باتیں ہونے لگیں۔ یہ علامت برطانوی سامراج کے لیے سخت خطرناک تھی، چناں چہ اس نے ہندوستان پر اپنا تسلّط برقرار رکھنے کے لیے ہر قسم کے ہتھکنڈوں سے کام لینا شروع کر دیا۔

1918 ء میں ہندوستان کے مزدور طبقے میں بے چینی انتہا کو پہنچ گئی اور جگہ جگہ ہڑتالیں ہونے لگیں۔ ملوں اور کارخانوں میں کام کرنے والے سڑکوں پر نکل آئے۔ 1919ء کا زمانہ تھا کہ جب جلیانوالہ باغ کا سانحہ ہوا۔ ہر باشعور ہندوستانی نے اُس سانحے کی کسک اپنے دِل میں محسوس کی، جس میں جنرل ڈائر کی نہتّے ہندوستانی عوام پر کی جانے والی وحشیانہ فائرنگ سے سیکڑوں لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ جنرل ڈائر کے وحشیانہ پن کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اُس نے غیر مسلّح مقامی افراد پر گولیوں کے 1600سے زاید راؤنڈز چلائے۔ شاعرِ انقلاب، جوشؔ ملیح آبادی نے اُس بربریت کے خلاف ایک زور دار نظم بھی کہی تھی، جس نے لوگوں کے احساسات میں ہل چل مچا دی تھی۔ نوعُمر سجّاد ظہیر بھی اُس واقعے سے بے حد متاثر ہوئے۔ گویا واقعات کا ایک تسلسل تھا، جس نے نو عُمر سجّاد ظہیر کو قبل از وقت ہی سیاسی اور سماجی شعور سے آگہی دِلا دی تھی۔1921ء میں سجّاد ظہیر کو اپنے گھر میں سکونت پزیر رشتے کے ایک ماموں ’’جھنگری ماموں‘‘ سے دِلی لگاؤ پیدا ہوا۔ اس لگاؤ کی وجہ جھنگری ماموں کی دِل چسپ آزاد شخصیت تھی۔ 

جھنگری ماموں اخبارات و رسائل اور ناولز کے شوقین تھے۔ سو، اُن کے پاس ناولز کا ڈھیر لگا رہتا تھا۔ اس کے علاوہ سیر سپاٹے کے بھی بے حد شوقین تھے اور شام کو لکھنٔو کے مشہور بازاروں میں گشت معمول تھا۔ اسی کے ساتھ خاصے دِل پھینک بھی واقع ہوئے تھے۔ سجّاد ظہیر اپنے جھنگری ماموں کی عدم موجودگی میں اُن کے ناولوں سے خوب خوب فیض یاب ہوتے۔ یہی وہ وقت تھا کہ جب نوجوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی سجّاد ظہیر میں ادب سے دِل چسپی کا رُجحان پروان چڑھا۔ زندگی کے ابتدائی برسوں ہی میں صاحبِ ثروت، سجّاد ظہیر شاید اس وجہ سے طبقاتی تقسیم کے خلاف ہو گئے تھے کہ انہوں نے اپنے گھر میں ملازمین کی عُسرتوں اور حسرتوں کا قریب سے مشاہدہ کیا تھا۔ مذہب سے یوں بیگانہ ہوئے کہ اپنے دینی استاد کی شخصیت کا کوئی خاطر خواہ اثر قبول نہ کر سکے اور جھنگری ماموں نے ادب سے دِل چسپی کو بڑھاوا دیا۔ یہ اُن کی اوائلِ زندگی کے وہ تین کردار تھے، جنہوں نے زندگی کی اگلی منزلوں میں انہیں کسی واضح حکمتِ عملی کی طرف مسلسل متوجّہ کیے رکھا۔ گورنمنٹ جوبلی ہائی اسکول، لکھنٔو سے 1921ء میں میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ ’’تحریکِ عدم تعاون‘‘ اور ’’تحریکِ خلافت‘‘ کا شور و ہنگامہ سجّاد ظہیر کے لیے سوچنے، سمجھنے اور سیکھنے کا ایک بھرپور عمل تھا۔ قابل اور نام وَر باپ، سیّد وزیر حسن کی وساطت سے ’’وزیر منزل‘‘ عہد کے سربر آوردہ سیاست دانوں، ادیبوں، شاعروں اور دانش وَروں کی آماج گاہ بنی رہتی تھی۔ وقت کی دو بڑی سیاسی جماعتیں یعنی کانگریس اور آل انڈیا مسلم لیگ اپنی اپنی حکمتِ عملیوں کے تحت انگریزوں کو ہندوستان سے بے دخل کرنے کی کوششوں میں مصروف تھیں۔ سر وزیر حسن کا جھکاؤ کانگریس کی طرف زیادہ تھا، چناں چہ کانگریسی رہنماؤں کی آمد و رفت مسلم لیگی رہنماؤں کے مقابلے میں زیادہ تھی۔ 

اس کے علاوہ بھی مختلف مقامات پر سیّد وزیر حسن کا آنا جانا لگا رہتا تھا اور اکثر مقامات پر سجّاد ظہیر کو بھی جانے آنے کا موقع ملتا۔ گویا انہی سیاسی ہنگامہ خیزیوں کے بیچوں بیچ سجّاد ظہیر نے میٹرک کے بعد انٹرکے لیے کالج میں داخلہ لیا۔ اب زندگی کا رنگ ڈھنگ کچھ اور ہو گیا۔ دوستوں کا حلقہ وسیع تر ہو چلا۔ ہندوستان کی آزادی کی لڑائی بیسویں صدی کے تیسرے عشرے میں داخل ہونے لگی تھی اور ہندوستانی سیاست ایک فیصلہ کُن موڑ پر آ چُکی تھی۔ قائد اعظم محمد علی جناح، مہاتما گاندھی، علّامہ اقبالؔ، جوشؔ ملیح آبادی، رابندر ناتھ ٹیگور، سروجنی نائیڈو اور دیگر سیاسی قائدین، شاعر و ادیب سب کے سب وقت کی آواز میں اپنی آواز شامل کر رہے تھے۔ حُریّت پسند اپنے اپنے محاذوں پر بے خوفی اور بے جگری سے انگریزوں کو اپنی زمین سے نکالنے اور اپنی اپنی قوم کو سنبھالنے میں مگن تھے۔ منزل ایک مگر، راستے جُدا تھے۔ مقصد ایک مگر، حکمتِ عملی میں فرق تھا۔

سجّاد ظہیر نے کرسچین کالج، لکھنئو سے 1924ء میں انٹر میڈیٹ کیا۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ جب اُن کا حلقۂ احباب وُسعت اختیار کرنے لگا۔ سیاسی، مذہبی، ادبی اور سماجی مباحث زندگی کا لازمی حصّہ بن چُکے تھے اور کچھ کر گزرنے کا جذبہ دِل میں سرایت کرتا جا رہا تھا۔ اب سجّاد ظہیر تھے اور قوم پرستانہ خیالات تھے۔ وہ تھے اور سماج کے امتیازات ۔ وہ تھے اور روایت سے بغاوت کے احساسات۔ دِل و دماغ میں سماج کے کُچلے ہوئے افراد کے لیے کچھ کر گزرنے کی لہر تھی اور اپنی زندگی کا عیش و آرام زہر معلوم ہونے لگا تھا۔ کھدّر سارے دلدّر دُور کرنے کی دوا معلوم ہونے لگا۔ لہٰذا، اُسے پوری طرح اپنا لیا۔ گوشت سے کُلیّتاً اجتناب برتنا شروع کر دیا۔ چرخہ کاتنا روحانی سکون سے آشنا کرنے لگا۔ اُسی زمانے میں اودھ کے کسانوں نے زمین داروں کو لگان دینے سے انکار کر دیا۔ کسانوں کے بڑے بڑے اجتماعات ہونے لگے۔ حکمتِ عملی مرتّب کی جانے لگی۔ سجّاد ظہیر کو کسانوں کی اُس باغیانہ جرأت سے یک گونہ مسرّت حاصل ہوئی۔ اب وہ کانگریس کے اثر سے باہر نکل کر مزدوروں کی تحریک میں دِل چسپی لینے لگے۔ 

ترقی پسند تحریک اور سید سجاد ظہیر
اپنے ہم دَم و دیرینہ ، فیض احمد فیض کے ساتھ

کمیونسٹ پارٹی نظرِ انتخاب ٹھہری اور انگریزی و رُوسی ادب سے لگاؤ اور زیادہ بڑھ گیا۔1926ء میں لکھنٔو یونی ورسٹی سے بی اے کا امتحان پاس کیا۔ اُس کے اگلے ہی برس یعنی 1927 ء میں لندن بھیج دیے گئے، جہاں اوکسفرڈ یونی ورسٹی سے بار ایٹ لا کی سند حاصل کی۔ گرچہ باپ کی خواہش تھی کہ وہ آئی سی ایس یعنی انڈین سول سروس کے امتحان میں بیٹھیں۔ برطانیہ پہنچنے سے پہلے وہ تین چار دن کے لیے پیرس میں قیام پزیر رہے اور وہاں کی تہذیب کو بہت باریک بینی سے دیکھا اور انتہائی متاثر ہوئے۔ لندن پہنچے ہی تھے کہ بیماری نے حملہ کر دیا اور بیماری بھی تپِ دق جیسی، جس نے بستر سے لگا دیا۔ علاج کے لیے سوئٹزر لینڈ بھیجا گیا۔ کوئی لگ بھگ ایک برس وہاں علاج کے سلسلے میں مقیم رہے۔ تاہم، میسّر وقت کو غنیمت جانا اور فرانسیسی و رُوسی ادب کھنگال ڈالا۔ کمیونزم پر ڈھیروں کتابیں پڑھ ڈالیں۔

1928ء میں اوکسفرڈ واپس پلٹے اور وہاں جدید تاریخ اور معاشیات کا انتخاب کیا۔ باپ کو کہلا بھیجا کہ وہ آئی سی ایس نہیں کرنا چاہتے۔ انہوں نے ہدایت کی کہ بیرسٹری کا امتحان پاس کر لیں۔ تاہم، اُنہیں یہ تجویز بھی پسند نہ آئی، مگر تعلیم پر توجّہ مرکوز رہی۔ جو نظریات حاصل کیے، وہ کمیونزم اور اس کی تعلیمات کے تھے۔ اُس سے اگلے مرحلے میں ہندوستان کی آزادی کی تحریک کے رہنماؤں کے کردار سے متاثر ہوئے اور جب بیرونِ مُلک تعلیم کے سلسلے میں کمیونزم اور اُس سے متعلقہ کتابوں کو پڑھنے کا موقع ملا، تو اُن کی دُنیا ہی بدل گئی۔1929ء میں برطانیہ میں ہندوستانی کمیونسٹ طلبہ کا اوّلین گروپ بھی قائم کر ڈالا اور جب برطانیہ نے ’’سائمن کمیشن‘‘ کا اعلان کیا، تو اس کے خلاف جلوس کی قیادت بھی کی اور پولیس کی لاٹھیاں بھی کھائیں۔ گویا اُن کے اندر کا سیاسی، سماجی اور انقلابی انسان اُنہیں عمل پر اُکسانے اور ردّعمل کو خاطر میں نہ لانے پر مائل کرتا۔ 

1932ء میں سجّاد ظہیر نے اوکسفرڈ سے بی اے کا امتحان پاس کیا، جس کے ساتھ ہی وہ ہندوستان واپس آ گئے۔ تاہم، اُنہیں یہاں زیادہ قیام نہیں کرنا تھا، مگر اس عارضی قیام میں سجّاد ظہیر نے ’’انگارے‘‘ کے عنوان سے 9افسانوں پر مشتمل ایک کتاب مرتّب کی۔ کتاب میں خود سجّاد ظہیر کے 5افسانے، جب کہ احمد علی کے 2افسانے، رشید جہاں کا ایک افسانہ اور ایک تمثیل اور محمود الظفر کا ایک افسانہ شامل تھا۔ افسانوں کا یہ مجموعہ معاشرے میں مروجّہ بعض مسلّمہ مذہبی اُمور اور عقاید پر سوال اٹھانے کی کوشش متصوّر کیا گیا۔ لہٰذا، اس کی شدید طور پر مخالفت کی گئی۔ گویا ’’انگارے‘‘ نے ادبی محاذ پر آگ پکڑلی۔ اگر ایک طرف ’’انگارے ‘‘ کی مخالفت کا طوفان تھا، تو دوسری طرف اُس کی موافقت کا بھی کچھ نہ کچھ سامان تھا۔ پھر بھی ’’انگارے‘‘ کی حدّت اتنی بڑھی کہ حکومت کو اُسے ضبط کرنا پڑا۔

ابھی یہ ہنگامے جاری ہی تھے کہ سجّاد ظہیر نے تعلیم کا سلسلہ مزید آگے بڑھانے کے لیے ایک بار پھر برطانیہ کا سفر اختیار کیا اور اُسی اوکسفرڈ یونی ورسٹی سے ناتا جوڑا اور معاشیات میں ایم اے کی سند حاصل کر لی۔ 1935ء آتے آتے باپ کے خوابوں کو بھی یوں تعبیر دی کہ اُسی درس گاہ سے بار ایٹ لا کی سند بھی حاصل کر لی اور صحافت میں ڈپلوما بھی اپنے نام کر لیا۔ اب اُن کا شمار اُن چند ہزار ہندوستانیوں میں ہونے لگا کہ جنہوں نے اپنی تعلیم مغرب کے اعلیٰ ترین تعلیمی اداروں سے حاصل کی تھی۔ اُدھر جرمنی میں ہٹلر نے ظلم و ستم کی داستانیں رقم کر رکھی تھیں۔ ’’دُنیا پر حکومت بہ اندازِ بربریت‘‘ اُس کا عمومی طریقۂ کار تھا۔

سجّاد ظہیر نے ابھی تعلیم سے فرصت پائی ہی تھی کہ دُنیا کے تعقّل پسند ادیب، شاعر اور دانش وَر بڑی طاقتوں کی چھوٹے ممالک کو یرغمال بنانے اور قدرتی وسائل پر قبضہ کرنے کی سرمایہ دارانہ سوچ کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے۔ 1935ء میں پیرس میں بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد ہوا۔’’WORLD CONGRESS OF THE WRITERS FOR THE DEFENCE OF CULTURE ‘‘کے عنوان سے منعقد ہونے والی اس کانفرنس میں دُنیا بَھر سے چوٹی کے ادیب اور شاعر جمع ہوئے۔ میکسم گورکی، روماں رولاں، ہینری باربوس، رال فاکس اور دیگر ادبی ماہ تاب و آفتاب نے ایک منشور پر دست خط کیے، جس میں ظلم و بربریت کے خلاف اپنے قلم کا بے لاگ اور سچّا استعمال کرنے کا عہد کیا گیا اور انسانی مساوات پر مبنی نظام کی حمایت کی گئی۔ سجّاد ظہیر بھی اس کانفرنس میں موجود تھے، مگر اس سوچ کے ساتھ کہ یہی کچھ وہ اپنے مُلک ہندوستان میں بھی کریں گے، جہاں ظلم و زیادتی، استحصال، نا انصافی، جبر اور گھٹن کی فضا عام تھی۔ چناں چہ جب پیرس سے لندن آئے، تو اپنے ہم خیال دوستوں کے ساتھ مل کر ’’انجمن ترقی پسند مصنّفین‘‘ کا ڈول ڈالا۔ منشور تیار ہوا، جس کا انتہائی مختصر لُبِّ لُباب یہ تھا کہ ادب کو قدامت پرستی سے نکال کر جدید عہد کے مطابق اس طرح سے ڈھالا جائے کہ وہ عوام سے جُڑا ہوا محسوس ہو۔ دست خط کنندگان میں سجّاد ظہیر، ڈاکٹر ملک راج آنند، ڈاکٹر کے ایس بھٹ، ڈاکٹر محمد دین تاثیر(ایم ڈی تاثیر) اور ڈاکٹر ایس سنہا شامل تھے۔ 

منشور کی چند نقول ہندوستان کے ادیبوں کو بھی روانہ کی گئیں۔ منشی پریم چند نے منشور کو پڑھ کر نہ صرف سراہا، بلکہ اپنے رسالے ’’ہنس‘‘ میں انجمن کے اغراض و مقاصد کی حمایت میں اداریہ بھی تحریر کیا۔ ان سب ہنگاموں کے بیچ سجّاد ظہیر نے ناول ’’لندن کی ایک رات‘‘ بھی مکمّل کیا۔ اور اسی سال کے آخر میںوطن واپسی کا سفر اختیار کیا۔

یہاں آتے ہی الٰہ آباد ہائی کورٹ میں پریکٹس شروع کی اور ساتھ ہی انڈین نیشنل کانگریس کی رُکنیت بھی حاصل کی۔ اسی کے ساتھ وہاں کے ادیبوں اور شاعروں کو بھی متحرّک کیا اور انجمن کے اغراض و مقاصد سے آگاہ کیا۔ ڈاکٹر اعجاز حسین، احمد علی، فراقؔ گورکھ پوری اور دیگر ادب نواز افراد نے بھرپور حمایت کی اور اس طرح الٰہ آباد میں ایک حلقہ بن گیا۔ اسی سال الٰہ آباد میں ہندوستان اکیڈمی کی کانفرنس میں شرکت کے لیے جوشؔ، مولوی عبدالحق اور منشی پریم چند کا وہاں آنا ہوا۔ سجّاد ظہیر نے متذکرہ افراد سے ملاقات کی، منشور سے آگاہ کیا اور اُن کی حمایت بھی حاصل کر لی۔ اب جو منصوبہ تھا، وہ تحریک کی شکل اختیار کرنے کی طرف جانے لگا۔ اسی سال اختر حسین رائے پوری کا مضمون ’’ادب اور زندگی‘‘ رسالہ ’’اردو‘‘ کی جولائی کی اشاعت میں شایع ہوا اور اس نے ادبی اُفق پر ہل چل مچا دی۔ مضمون میں ادبی معاملات و مسائل کا جدید ذہن سے جائزہ لیتے ہوئے قدامت پسندی کی پامال وادیوں اور گھاٹیوں سے راستہ کاٹ کر چلنے کی صلاح دی گئی تھی۔ گویا یہ وہی بات تھی، جو ترقی پسند کرنا چاہتے تھے۔ 

1936ء کا سال آیا۔ اب جگہ جگہ ترقی پسند تنظیمیں قائم ہونے لگیں اور پیغام عام ہونے لگا۔ بالآخر اپریل 1936ء میں ’’انجمن ترقی پسند مصنّفین‘‘ کا پہلا جلسہ لکھنٔو میں منعقد ہوا۔ سجّاد ظہیر کو اس جلسے کے انعقاد میں کتنی محنت کرنی پڑی ہو گی، اس کا اندازہ جلسے میں شریک نامی گرامی شعراء، ادیبوں اور دانش وَروں سے لگایا جا سکتا ہے۔ صدارت اُردو کے عظیم افسانہ نگار، منشی پریم چند نے کی اور اپنا مضمون بہ طور صدارتی خطبہ پیش کیا۔ جلسے کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں ہندی، اُردو، بنگالی، پنجابی اور ہندوستان کی دیگر زبانوں کے شعراء اور ادباء بھی موجود تھے۔ سجّاد ظہیر کو انجمن کا سیکریٹری منتخب کیا گیا۔ پورے برّصغیر میں اب اس تحریک کا چرچا ہونے لگا۔ گرچہ ایسا نہیں تھا کہ اس تحریک سے پیش تر فاشزم، سرمایہ داری، ظلم اور استحصال کے خلاف آوازیں بلند نہیں ہو رہی تھیں۔ آوازیں مختلف مقامات سے بلند ہو رہی تھیں، مگر ان میں انفرادیت کی پکار تھی، اجتماعیت کی للکار نہیں ۔ سجّاد ظہیر نے تنہا آوازوں کو یک جا، ہم راز اور دَم ساز بنایا اور انہیں ایک مرکز اور طاقت عطا کی۔

ترقی پسند تحریک اور سید سجاد ظہیر
عبداللہ ملک اور دیگر کے ساتھ

اسی سلسلے کی دوسری کانفرنس دسمبر 1938ء میں کلکتے (اب کول کتہ) میں ہوئی۔1939میں ’’نیا ادب‘‘ کے عنوان سے ترقی پسند ادب کا پہلا شمارہ منظرِ عام پر آیا۔ مجازؔ، سبطِ حسن اور علی سردار جعفری مجلسِ ادارت میں شامل تھے۔ اوّلین اداریے میں ترقی پسند ادب کے اغراض و مقاصد اور منشور کے بارے میں بڑی تفصیل سے اظہارِ خیال کیا گیا۔

1940ء کا سال آیا۔ سیاسی سطح پر یہ سال برّ صغیر کے لیے خاصا ہنگامہ خیز رہا۔ مسلم لیگ، جو مسلمانوں کی سب سے بڑی جماعت بن چُکی تھی، ’’قراردادِ لاہور‘‘ کے ذریعے ایک واضح نصب العین پر گام زن ہو چلی تھی۔ اُس کے سالارِ کارواں، قائداعظم محمد علی جناح تھے۔ سجّاد ظہیر سیاسی، سماجی اور ادبی محاذ پر بہت متحرّک تھے۔ انگریزوں کے خلاف اُنہوں نے ایک بہت سخت تقریر کی، جس کی پاداش میں اُنہیں دو برس کے لیے قید و بند کی صعوبتوں کا شکار رہنا پڑا۔ رہائی کے بعد ’’قومی جنگ ‘‘ اور ’’نیا زمانہ ‘‘ کے مدیرِ اعلیٰ کے طور پر کام کرتے رہے۔ ترقی پسند کانفرنس کے تحت ’’تیسری کُل ہند کانفرنس‘‘ کا انعقاد 1942 ء کی ہنگامہ خیز فضا میں ہوا۔ دوسری عالمی جنگ کے باعث بین الاقوامی سیاسی حالات بہت نازک تھے۔ ترقی پسند شعراء اور ادیب تو پہلے ہی ظلم و بربریت اور جبر و ناانصافی کے خلاف صف آراء تھے، اس کانفرنس کا خاص پہلو مگر یہ تھا کہ اس میں وہ شعراء اور ادیب بھی شریک ہوئے، جو ’’ حلقۂ اربابِ ذوق‘‘ سے منسلک تھے، جیسا کہ ن۔ م راشد، میرا جی، قیوم نظر وغیرہ۔ 

ان ہی کے پہلو بہ پہلو ترقی پسند ادب اور ادیبوں پر تنقید بھی کی جاتی رہی۔ جعفر علی خاں، اثرؔ لکھنوی اور پروفیسر رشید احمد صدیقی نے اس ضمن میں بہت سے مضامین تحریر کیے۔1947ء برّصغیر کی گزشتہ ہزار سالہ تاریخ کا شاید سب سے ہنگامہ خیز سال تھا۔ ہندوستان تقسیم ہوا۔ پاکستان کا قیام عمل میں آیا اور تاریخ کی چند عظیم ترین ہجرتوں میں سے ایک ہجرت عمل میں آئی۔ آگ اور خون کے دریا عبور کیے گئے۔اسی سال سجّاد ظہیر کی کتاب ’’اُردو، ہندی، ہندوستانی (لسانی مسئلہ)‘‘بھی شایع ہوئی۔ تقسیمِ ہند کے بعد1948ء میں سجّاد ظہیر نے کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کی حکمتِ عملی کے تحت پاکستان کا سفر اختیار کیا اور کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے جنرل سیکریٹری منتخب ہوئے۔ تاہم، پاکستان میں اُنہیں رُوپوش رہ کر کام کرنا پڑا، یہاں تک کہ 1951ء میں اُنہیں ’’راول پنڈی سازش کیس‘‘ میں فیضؔ اور دیگر افراد کے ساتھ داخلِ زندان کیا گیا۔ چار سالہ قید و بند میں سجّاد ظہیر نے ’’ذکرِ حافظؔ‘‘ اور ’’روشنائی‘‘ تحریر کی۔ 1955ء میں رہائی ملی، تو پاکستان سے دوبارہ ہندوستان کا سفر اختیار کیا۔ اس کے بعد بھی وہ لگا تار انجمن کو فعال رکھنے کے سلسلے میں مصروف رہے۔ ’’پگھلا نیلم‘‘ کے عنوان سے 1964ء میں ایک شعری مجموعہ بھی سامنے آیا، جب کہ تراجم اس کے علاوہ تھے۔

13ستمبر 1974ءمیں الماتا، رُوس میں اُن کا انتقال ہوا۔ اُن کے دیرینہ دوست اور رفیق و ہم دم، فیض احمد فیضؔ اپنے دوست کی میّت رُوس سے لے کر دہلی پہنچے اور انہوں نے اپنے ہم دمِ دیرینہ کے لیے ایک انتہائی پُر اثر تعزیتی نظم بھی کہی۔؎ نہ اب ہم ساتھ سیرِ گُل کریں گے… نہ اب مل کر سرِ مقتل چلیں گے۔ سجّاد ظہیر کی ترقی پسند تحریک نے اُردو ادب میں ایک نئے عہد کو جنم دیا۔ ترقی پسند تحریک نے ادب کی بہت سی اصناف کو متاثرکیا۔ اُس تحریک کے نتیجے میں کتنے ہی شاعر، ادیب، رسالے، کتابیں اور تحقیقی مقالے وجود میں آئے۔یہاں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اُردو ادب کی تاریخ، سجّاد ظہیر کی ترقی پسند تحریک کے تذکرے کے بغیر ادھوری ہی سمجھی جائے گی۔

تازہ ترین