• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ملکی و بیرونی ماہرین معاشیات اور بین الاقوامی اقتصادی اداروں نے بشمول آئی ایم ایف کے ملک میں جاری اقتصادی ابتری اور بیرونی قرضوں کی ادائیگی سمیت معاشی ترقی کی سست روی، معدومی کا شکار ملکی و بیرونی سرمایہ کاری، تیزی سے کم ہو تے ہوئے زرمبادلہ کے ذخائر اور پاکستان میں دوہندسی افراط زر کی واپسی کے ممکنات پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے جب کہ ہر کوئی معیشت کی خرابی صحت پر تشویش کا شکار ہے۔ حکومت اور اس کی معاشی ٹیم مسلسل حقیقت کو تسلم کرنے سے انکاری ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ریاست ملکی معیشت کی ذمہ داری سے بری الذمہ ہوچکی ہے۔ میں نے اپنے ایک سابقہ کالم میں پانچ نکات پر مبنی ایک ایجنڈا دیا تھا جس میں ملک کو تباہ کن معاشی بحران سے بچانے کے لئے آئی ایم ایف سے رابطے کا وقت اور تزویراتی طریق کار تجویز کیا تھا۔ ایجنڈے میں پہلی تجویز تھی کہ جیسا کہ حکومت آنے والے انتخابات کی تیاری کر رہی ہے اس لئے اسے معیشت کے اس بحران کو ابتدا ہی میں حل کرلینا چاہئے۔ دوم پاکستان کو فوری طور پر ایک راہ عمل تیار کرنی ہے اور ایک حکمت عملی ترتیب دینا ہوگی تاکہ نہ صرف قرضوں کی ادائیگیوں کے بحران سے بچا جا سکے بلکہ طرز حکمرانی میں بہتری سمیت معاشی رفتار کی بحالی اور دیرینہ ساختیاتی اصلاحات عمل میں لائی جا سکیں۔ ملک کے اندر اور باہر مرتب کردہ راہ عمل کی الیکٹرونک و پرنٹ میڈیا پر تشہیر ایجنڈے کا تیسرا نکتہ تھا۔ وزیراعظم اور صدر مملکت کا آئی ایم ایف اور دیگر بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے متعین کردہ معاشی راہ عمل کے ہمراہ اعلیٰ سطح پر رابطے کا قیام ایجنڈے کا چوتھا جز تھا ۔ آئی ایم ایف سے مالی معاونت کے حصول کے لئے صدر مملکت اور وزیراعظم کا پاکستان کے قریبی دوست ممالک سے اعلیٰ ترین سطح پر رابطے قائم کرنا میرے تحریر کردہ ایجنڈے کی پانچویں تجویز تھی۔ بجائے اس کے کہ حکومت سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اصلاحاتی ایجنڈا تیار کر کے آئی ایم ایف سے رابطہ کرتی اس نے اپنے پلان بی کا اعلان کردیا جس میں قرضے کی ادائیگیوں کے بحران سے نبردآزما ہونے کے لئے مختلف ذرائع سے فنڈ کے حصول کا عندیہ دیا گیا۔ اس تمام کاوش کا مقصد آئی ایم ایف کو قرض کی ادائیگی کے لئے خاطر خواہ ڈالر جمع کرنا ہیں۔ حکومت کو اسلامی ترقیاتی بنک سے قلیل مدتی قرض کی مد میں چند ملین ڈالر ملنے کی توقع ہے تاکہ ملکی معیشت کا پہیہ چلانے کے لئے خام تیل خریدا جا سکے۔ سعودی عرب سے متوقع طور پر ملنے والی چند ملین ڈالر کی امداد سے کھاد خریدی جائے گی جب کہ چند کروڑ ڈالر امریکی اتحادی سپورٹ فنڈ کی مد میں بھی دستیاب ہوسکتے ہیں۔ کیا یہ واقعتاً اصلاحاتی حکمت عملی کا نعم البدل ہوسکتا ہے؟ کیا یہ معیشت کے ساختیاتی عوارض کے سدباب کے لئے حکومت کی سنجیدہ کوشش ہے؟ کیا18کروڑ آبادی والا ملک اس طرح چلایا جاتا ہے؟ کیا قرض کے ایک چیک سے دوسرے چیک کے درمیان سفر زندگی طے کرنا اس قوم کی قسمت میں لکھ دیا گیا ہے؟ اس ملک کو اس مقام تک لانے والا کون ہے جہاں یہ ہر روز اپنے گزارے کے لئے چند دستیاب ذرائع سے بھیک مانگنے پر مجبور ہے؟ یہ صورت حال وطن عزیز اور اس کے عوام کی توہین کے سوا کچھ نہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حکومت اور اس کی معاشی ٹیم انتخابات تک گزارہ کرنے کی تدبیر کر رہی ہے اور معاشی مسائل نگراں حکومت اور اس کے بعد آنے والی حکومت کے سپرد کرنے کی خواہاں ہے جس میں ناکامی یقینی ہے۔ انتخابات میں ہر حال میں کامیابی حکومتی حکمت عملی کا سب سے بڑا ہدف ہے، چاہے اس کے لئے اسے معیشت کی ہی قربانی کیو ں نہ دینی پڑے اور یہ حقیقت اس طرح واضح ہے کہ پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام کے نام پر حکومت وسائل کی بندر بانٹ کر رہی ہے۔ اس امر نے انگریزی زبان میں شائع ہونے والے معیشت سے متعلق ایک روزنامے کو اپنے19/اکتوبر کے اداریئے میں حکومت کے خلاف غیر معمولی طور پر سخت الفاظ استعمال کرنے پر مجبور کیا۔ اداریئے کے مطابق ’درج بالا اعداد و شمار اور واقعات کی رو سے حکومتی ترقیاتی اخراجات انتہائی افسوسناک اور موقع پرستی پر مبنی ہیں اور اگر یہ روش برقرار رہی تو وفاق کی جانب سے مالی سال برائے2013ء میں پبلک سیکٹر ڈویلولپمنٹ پروگرام کی مد میں مختص کی جانے والی رقم پہلے تین کوارٹرز میں ہی خرچ ہوجائے گی اور آخری سہ ماہی کے لئے کچھ بھی نہیں بچے گا۔ قومی خزانے یا ٹیکس کی رقم کے اتنے بے دریغ استحصال سے زیادہ مکروہ بھلا اور کیا ہو سکتا ہے، لیکن پروا کسے ہے! یہاں تک کے اسٹیٹ بنک آف پاکستان نے بھی ملک کے بینکاری نظام میں اربوں روپے داخل کر کے کمرشل بینکوں کو نمو فراہم کرنے کی کوشش کی تاکہ یہ بنک حکومت کے مسلسل بڑھتے ہوئے بجٹ خسارے سے نمٹنے کے لئے اسے قرض فراہم کر سکیں۔ حکومتی قرضوں میں سہولت فراہم کرنے کے لئے اسٹیٹ بنک نے معیشت کے تمام اصولوں کے بر خلاف ڈسکاوٴنٹ ریٹ میں کمی کر دی، نہ صرف یہ امر اقتصادی نظم کی کھلی نفی ہے بلکہ یہ احتسابی عمل کی عدم موجودگی کا بھی غماز ہے۔ پاکستانی قوم اس وقت ایک مشکل دوراہے پر کھڑی ہے۔ ہم پچھلے5سالوں میں اپنی سمت کھو بیٹھے ہیں۔ کٹھن صورت حال میں حکومتی خود غرضی کا یہ رویہ افسوسناک ہے کہ وہ اچھے یا برے طریقے سے بس قرض لے کر اپنے دور اقتدارکے آخر تک کسی نہ کسی طرح گزارا کرنا چاہتی ہے۔ معاشی بدحالی اب حکومت کا مسئلہ نہیں رہا بلکہ اب یہ ریاست کا، قومی سلامتی کا اور 18کروڑ عوام کا مسئلہ بن چکا ہے۔ ملک کی موجودہ صورت حال اور ابھرتے ہوئے ادائیگیوں کے توازن کے بحران کو مد نظر رکھتے ہوئے پاکستان کے پاس آئی ایم ایف سے فوری مدد طلب کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں بچا۔ یہ ممکن نظر نہیں آتا کہ آئی ایم ایف وطن عزیز کے معاشی بحران سے نمٹنے کے لئے خود سے کوئی پروگرام ترتیب دے اور نہ ہی ایسا کوئی اقدام نگراں حکومت کے دور میں متوقع ہے۔ اس کے بر خلاف آئی ایم ایف انتخابات کے بعد نئی حکومت کے اقتدار سنبھالنے کا انتظار کرے گا لیکن جب تک ملک میں انتخابات ہوں گے اور نئی حکومت اقتدار کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے گی اس وقت تک وطن عزیز قرض کی ادائیگیوں کے بحران کے وسط تک پہنچ چکا ہوگا۔ کیا پاکستان کو معاشی بحران کے سنگین ہونے کا انتظار کرنا چاہئے یا پھر آئی ایم ایف سے مدد کے لئے رجوع کرنا چاہئے؟ دوراندیشی اور عقل مندی کا تقاضہ یہ ہے کہ اس بحران سے بچنے کے لئے پاکستان کو درج بالا پانچ نکاتی ایجنڈا سامنے رکھ کر آئی ایم ایف سے معاونت کی استدعا کرنی چاہئے۔ پاکستان کو ’چیک در چیک‘ ریاست کے معاشی معاملات چلانے کے بجائے اپنے داخلی معاملات کی اصلاح کرنا ہوگی جس کے لئے حکومت کو بھی ملکی معیشت کو بچانے کے لئے اپنی ذاتی بقا کے ایجنڈے کو ایک طرف رکھ کر ملک کی معیشت کے تحفظ کا انتظام کرنا ہو گا قبل یہ کہ معاشی عارضہ ناقابل علاج ہو جائے۔
تازہ ترین