• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کاربن ڈائی آکسائیڈ سے لیکر بریگزٹ تک

تحریر:کرسٹوفربوکر

ہمارے زمانے کے زیادہ پریشان کن صورتحال میں سے ایک آج کے بعض انتہائی سنجیدہ مسائل پر عمومی طورپر جس اندازمیں بحث کی جاتی اور اس کی بارے میں رپورٹس دی جاتی ہیں ؛اوران مسائل کے پس پردہ جو سچائی پر مبنی قصہ ہے،جسے اکثروبیشتر منظر سے ہٹانے کے لئے زمین میں گاڑھ(دفن کر) دیا جاتا ہے،کے بیچ ایک بڑھتا ہوا خلیج پایا جاتا ہے۔ یہاں میں دو معروف مثالیں تازہ کرتاچلوں۔

اس ضمن میں پہلی مثال جس سے تشویش لاحق ہوتا ہے ،وہ ہماراسابقہ دوست کاربن ڈائی آکسائیڈ(زہریلی گیس)ہے۔شاید یہ حیرت انگیز طورپر عجیب لگتا ہے کہ ہمیں آج کل جو بتایا جارہا ہے کہ یہ شراب خانے،شراب کشید کرنے والے کارخانے اورغذائی صنعت کو کاربن ڈائی آکسائیڈ کی قلت کا سامنا کرنا پڑرہا ہے جو اپنے کام کے لئے اس پر انحصارکرتی ہے،جیساکہ وہ اپنے مشروبات(شراب)میں زیادہ سے زیادہ بلبلے (جوش)پیدا کرنا چاہتے ہیں۔اس حوالے سے زیادہ ترعمومی طورپر ہمیں یہ تصویر دکھائی جاتی ہے کہ کاربن ڈائی آکسائیڈایک ہلاکت خیر آلودگی پھیلانے والی گیس ہے جس سے ہمیں چھٹکارا حاصل کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ ہمارے سیارے(زمین)کے مستقبل کے لئے خطرات کا باعث بنتا ہے۔

( 2017ء میں اپنی (زہریلی گیسوں کے)اخراج میں کمی کے برعکس،یورپی یونین اور باقی ماندہ دنیا ،چین اور بھارت کی سرکردگی میں،ان کے کاربن ڈائی آکسائیڈ کی پیداورمیں اضافہ کرتی آرہی ہے،جیساکہ شاید پیرس معاہدہ کبھی ہوا ہی نہیں تھا۔)

صدرٹرمپ پیرس معاہدے سے امریکا کے اخراج کے حوالے سے فیصلہ کرنے کے لئے اس معاہدے کو بدنام کررہے ہیں،جس کی وجہ سے پوری دنیا نے اس بات پرقیاس کرتے ہوئے اتفاق کیا تھا کہ وہ اپنے ’’کاربن اخراج‘‘میں غیرمعمولی طورپر کمی لائیں گے۔لیکن برٹش پیٹرولیم(بی پی)کی عالمی توانائی سے متعلق تازہ ترین اعدادوشماروالی نظرثانی رپورٹ میں حقیقی کہانی کا انکشاف کیا گیا ہے۔2017ء میں اپنی (زہریلی گیسوں کے)اخراج میں کمی کے برعکس،یورپی یونین اور باقی ماندہ دنیا ،چین اور بھارت کی سرکردگی میں،ان کے کاربن ڈائی آکسائیڈ کی پیداورمیں اضافہ کرتی آرہی ہے،جیساکہ شاید پیرس معاہدہ کبھی ہوا ہی نہیں تھا۔

ایک ایسا ملک جس نے نمایاں طورپر اپنے کاربن اخراج میں کمی کی ہے وہ بذات خود امریکا ہے،اس کی یہ کارکردگی کوئلے سے سستے ترشیل گیس پر مسلسل منتقلی کی مرہون منت ہے۔یہ بالکل بجا طورپر درست ہے کیونکہ جناب ٹرمپ نے یہ جان لیا کہ چین،بھارت اور دیگرممالکاپنے ملکوں میں زہریلی گیسوں کے اخراج میں کمی کاارادہ نہیں رکھتے تھے،یہی وجہ ہے کہ صدرٹرمپ نے پیرس معاہدے کو صرف ایک خالی خولی ،نام نہادپارسائی کا ناٹک قراردیتے ہوئے مستردکردیا۔بالاخر،اس طرح،صدرٹرمپ نے،پوری گلوبل وارمنگ کی خوفناک کہانی پر مبنی دھوکہ وفریب کا بھانڈاپھوڑدیا،اور یہ تازہ ترین اعدادوشمار صرف اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ وہ(ٹرمپ) اپنے بیان میں کس قدر سچے تھے۔ لیکن کیا آپ نے یہ ایسی رپورٹ کہیں اوردیکھی ہے؟

ایک بارپھر،یورپی یونین سے نکلنے کے بل (مسودہ قانون)پر ویسٹ منسٹر(لندن )میں نہ ختم ہونے والے بڑے پیمانے پر غیر متعلقہ جھوٹے ناٹک پر کئی ماہ کی بھرپور توجہ صرف کرنے کے بعداب جاکر صرف یہ معلوم ہوا ہے کہ اصل کہانی تو اب سنجیدگی کے ساتھ منظر عام پرآنا شروع ہوئی ہے۔یہی وہ طریقہ ہے کہ بہت ساری برطانوی صنعتیں بالاخر ان مضر اثرات سے متعلق بیدارہونے شروع ہوگئی ہیں جو گزشتہ سال جنوری میں تھریسا مے(برطانوی وزیراعظم)کے فیصلے سے پیدا ہوئے،کہ ہمیں خود کو یورپ کی سنگل مارکیٹ سے مسلسل جڑے رہنے والے رکن کے طورپر الگ کردینا چاہئے۔

سی بی آئی کے صدرکی جانب سے سخت ترین پیغام آیا،جو انتباہ کررہا تھا کہ’’یہاں برطانیہ میں صنعت سازی کے شعبے ہیں،جنہیں معدوم ہونے کا خطرہ لاحق ہے۔‘‘اگرچہ انہوں نے خاص طورپر ممکنہ حدتک تباہ کن نتائج کے حوالے ہماری موٹرانڈسٹری کی نشاندہی کی،انہوں نے ’’برطانیہ کی دواسازی اورمالیاتی کمپنیوں کی جانب سے کروڑوں کی سرمایہ کاری‘‘کا بھی ذکر کیا،کہ انہیں دوبارہ براعظم یورپ میں متبادل حصے کے طورپر اپنے آپریشنز(کاروباری سرگرمیوں)کے لئے یورپی یونین کے ساتھ لین دین جاری رکھنے کی اجازت دی جائے۔

انہوں نے کہا کہ ایسا کوئی طریقہ نہیں ہے،وہ لوگ جو باقی دنیا کے ساتھ تجارتی معاہدوں کے مشتاقانہ تصوررکھتے ہیں،اس نقصان کا ازالہ کرسکتے ہیں جو ’’داخلی مارکیٹ‘‘کو چھوڑنے کے ہمارے فیصلے سے پہلے ہی ہوچکا ہے۔

اس کے بعدایئربس(طیارہ سازادارہ)کی جانب سے یہ اعلان کہ اسے برطانیہ کو چھوڑنا پڑسکتا ہے،جس کی وجہ سے براہ راست14ہزارملازمتیں اورممکنہ طورپرایک لاکھ مزید افرادکے بے روزگارہونے کا نقصان ہوسکتا ہے۔اس اعلان کے نتیجے میں ہماری پوری ہوابازی کی صنعت کی جانب سے مائیکل برنئیرکوحالیہ خط لکھا گیا ہے،کیونکہ یہ اس حقیقت کو آشکار کرتا ہے کہ صرف یورپ ہی اس کے تقریباًتمام امورکی انجام دہی کا قانونی طورپرمجاز ہے۔ اس نظام سے باہر نکلنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم نہ صرف طیارہ سازی کی اپنی صلاحیت کھونے بلکہ بین الاقوامی ٹریفک کے لئے اپنے ہوائی اڈوں تک کوبھی کھلا رکھنے کا خطرہ مول رہے ہیں۔

فریٹ ٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن کی گزشتہ ہفتے کی کانفرنس کو بھی موجودہ برطانوی حکومت کی جانب سے الجھا دینے والی ناقص منصوبہ بندی اور معلومات کے بارے میں آگا ہ کیا گیا ،اوراس موقع پر ہماری سمندرپار(برطانیہ اور یورپ کے درمیان )تجارت پرمنڈلانے والے خطرے سے متعلق تباہ کن انتباہ بھی سنی گئی ہے۔نئے سرحدی کنٹرول نظام کی وجہ سے پیدا شدہ نقصاندہ تاخیرکینٹ(کاؤنٹی) کو لاری پارک میں تبدیل نہیں کرسکتا لیکن اس تمام ترتجارت کی راہ میں رکاوٹ ڈال سکتا ہے۔

ہم میں سے بعض کو اس بارے میں انتباہ کیا جاچکا ہے کہ کس طرح یہ سب کچھ اوراس سے بھی زیادہ ناگزیر ہوجائے گا جب سے محترمہ تھریسا مے(برطانوی وزیراعظم)نے یہ اہم لیکن منفی اثرات والے فیصلہ کیا ہے کہ ہمیں نہ صرف یورپی یونین بلکہ اس وسیع تر یورپی اقتصادی علاقے کوبھی چھوڑدینا چاہئے۔ یہ واحد طورپر اس بات کو یقینی بنانے میں مددگار ہوسکتا ہے کہ ہماری سب سے بڑی واحدبرآمدی مارکیٹ تک مسلسل’’بلاروک ٹوک‘‘رسائی حاصل ہوجس کے بارے میں وہ(تھریسامے)اکثرعمومی طورپر بات کرتی ہیں۔

اب (بوقت تحریر)یورپین کونسل کے انعقاد میں جب پانچ دن باقی ہیں،جس میں ہم فرض کرتے ہیں کہ ہماری واپسی کے شرائط پر اتفاق ہوجائے گا۔اس حوالے سے کیا کچھ وقوع پذیر ہونے والا ہے یہ سب ہمارا اپنا اانتخاب یعنی فیصلہ ہے،اورہمیں لازمی طورپر صرف اس کے ظاہر ہونے والے نتائج کو دیکھنا چاہئے ۔

تازہ ترین