• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انتخابات جو جمہوری جسد میں روح کی حیثیت رکھتے ہیں، ان کے انعقاد میں بمشکل 26دن رہ گئے ہیں، مگر ابھی تک ان کے بروقت ہونے پر شکوک وشبہات کا مختلف پیراؤں میں اظہار کیا جا رہا ہے۔ اس کی بڑی وجہ پے در پے اَنہونے واقعات کا ظہور اور نیب کی طرف سے ایسے اعلانات اور اقدامات ہیں جو ماحول کو مکدر کئے دیتے ہیں۔ ملک دشمن قوتیں جو سول ملٹری تعلقات میں دراڑیں ڈالنا چاہتی ہیں، وہ افواہیں پھیلا رہی ہیں کہ اپنی پسندیدہ جماعت کو انتخابی کامیابیوں سے ہمکنار کرنے کے لئے ہر طرح کے حربے استعمال ہو رہے ہیں، چنانچہ غیرپسندیدہ جماعتوں کے اندر ٹوٹ پھوٹ جاری ہے۔ بدھ کے روز ہونے والی کورکمانڈر کانفرنس میں جمہوریت کے ساتھ مکمل وابستگی کا حوصلہ افزا اعلان کرنے کے ساتھ ساتھ شفاف انتخابات کے لیے ہرممکن تعاون کا یقین دلایا گیا ہے۔ اسی طرح پاکستان کے چیف جسٹس جناب ثاقب نثار نے وہ تمام رکاوٹیں دور کر دی ہیں جو مختلف غیر جمہوری عناصر انتخابات میں خلل ڈالنے کے لیے عدالتوں میں رِٹ پٹیشن دائر کرنے کی صورت میں کھڑی کر رہے تھے۔
ان قابلِ قدر جذبات کے باوجود کچھ ایسے واقعات ظہور پذیر ہوئے ہیں جو ذہنوں میں تسلسل کے ساتھ سوالات اُٹھا رہے ہیں۔ اگر کوئی منصوبہ نہیں تھا، تو ایک ’’کمزور دلیل‘‘ پر وزیراعظم نوازشریف کو نااہل کیوں قرار دیا گیا اور جماعت کے صدر کی حیثیت سے انہوں نے سینیٹ کے انتخابات کے لیے جن امیدواروں کو ٹکٹ جاری کیے تھے، ان سے پارٹی نشان کیوں چھین لیا گیا۔ سینیٹ کی ایک ایک نشست کی بولی کن کے اشارے پر کروڑوں تک پہنچی اور انتہائی داغدار اور شرمناک طریقے سے ایک غیر معروف شخص کو سینیٹ کا چیئرمین بنا دیا گیا جسے گاہے گاہے صدرِ مملکت کے فرائض بھی سرانجام دینا ہوتے ہیں۔ اس ’’پُراسرار‘‘ مشق کا بڑا مقصد پاکستان مسلم لیگ نون کو سینیٹ کی چیئرمین شپ سے محروم کرنا تھا جو سینیٹ میں سب سے بڑی جماعت بن چکی تھی۔ اب تاثر یہ قائم ہو رہا ہے کہ احتساب کے ذریعے انتخابات پر اثرانداز ہونے کا عمل جاری ہے۔ یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ بیک وقت شفاف انتخابات اور کڑے احتساب کے تقاضے پورے نہیں کیے جا سکتے۔ پھر اس واقعے نے ایک دنیا کو حیرت زدہ کر دیا اور اس پر اکانومسٹ اور نیویارک ٹائمز میں طرح طرح کے تبصرے ہو رہے ہیں کہ مسلم لیگ نون نے جونہی چوہدری نثار علی خاں کے مقابلے میں انجینئر قمرالاسلام کو ٹکٹ دیا، تو نیب نے اسے اگلے روز حراست میں لے لیا۔ یہ اقدام اس قدر غیر متوقع اور سفاکانہ تھا کہ خود چوہدری نثار علی خاں کو اس کی مذمت کرنا پڑی اور سیاسی تجزیہ نگاروں کو یہ کہنا پڑا کہ اس طرح کے واقعے سے انتخابات مشکوک ہو جائیں گے جس کا پاکستان کو بہت نقصان پہنچے گا۔ انتخابی عمل پر اعتماد پیدا کرنے کے لیے الیکشن کمیشن کو فوری طور پر حکم جاری کرنا چاہیے کہ احتساب کا عمل دو ماہ کے لیے روک دیا جائے تاکہ پُرامن انتقالِ اقتدار کا عمل شفاف طور پر مکمل ہو سکے۔ اسی طرح اعلیٰ عدالتوں کو بھی مقدمات کی سماعت اور توہینِ عدالت کے مقدمات کے فیصلے وقتی طور پر معطل کر دینے چاہئیں۔
اس وقت جملہ اداروں کی یہ سرتوڑ کوشش ہونی چاہیے کہ کسی بھی سیاسی جماعت کو انتخابی عمل کے حوالے سے کوئی شکایت پیدا ہو نہ اسے یہ خوف لاحق رہے کہ اس کی کامیابی مختلف حربوں سے ناکامی میں تبدیل کر دی جائے گی۔ الیکشن کمیشن اور نگران حکومتوں کی یہ اوّلین ذمہ داری ہے کہ وہ تمام سیاسی جماعتوں کو یکساں مواقع فراہم کریں۔ مختلف سیاسی شخصیتوں کی نااہلی کے حوالے سے مختلف نوعیت کے عدالتی فیصلے سامنے آئے ہیں۔ اس پر فاضل جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا یہ اختلافی فیصلہ بڑی اہمیت کا حامل ہے کہ سپریم کورٹ کے تمام جج صاحبان پورے غور و خوض کے بعد ازخود نوٹس کے حدود و قیود اور اصولوں کا تعین کریں۔ ان دنوں ہمارے قابلِ احترام چیف جسٹس بڑی فیاضی سے ازخود نوٹس لے رہے اور عوام کے بنیادی حقوق کے لیے غیر معمولی طور پر سرگرم ہیں۔ ان کے احکام سے عوام کو ریلیف ملا ہے اور دیرینہ مسائل حل ہونے کی اُمید بھی پیدا ہوئی ہے، مگر دائرۂ کار بہت زیادہ پھیل جانے سے بعض فیصلے اور اعلانات متنازع بن گئے ہیں۔ مثلاً ایک ایسے وقت میں جب سیاسی شخصیتیں انتخابات کے میدان میں اترنے والی ہیں، ایئر مارشل اصغر خاں کا بائیس سالہ پرانا مقدمہ کھولنے کی کیا ضرورت تھی؟ رقوم وصول کرنے والی فہرست میں میرا نام بھی شامل ہے کہ مجھے ڈھائی لاکھ روپے دیے گئے تھے۔ یہ حلف نامہ سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ر) اسددرانی نے اس وقت دیا جب وہ فرانس میں پاکستان کے سفیر تھے۔ ان سے اس حلف نامے پر ایف آئی اے کے ڈائریکٹر رحمٰن ملک نے دستخط کرائے تھے۔ خبر شائع ہوتے ہی میں نے اس الزام کی تردید کر دی تھی۔ دونوں اصحاب کی کریڈیبلٹی ایک دنیا پر عیاں ہے اور اُن کے مشکوک حلف نامے کے سوا رقوم کی ادائیگی کا اُن کے پاس کوئی ثبوت ہی نہیں۔ چودہ کروڑ کی رقم جناب یونس حبیب نے فراہم کی تھی۔ انہوں نے اے آر وائی کے اینکر پرسن جناب کاشف عباسی کو انٹرویو دیتے ہوئے دوٹوک انداز میں کہا کہ میں نے الطاف حسن قریشی کو کوئی رقم ادا نہیں کی۔ میرے معزز وکیل جناب احسان وائیں نے یہ حقائق سپریم کورٹ کے سامنے پیش کر دیے اور کہا کہ ایک ایسے صحافی کی کردار کشی ہو رہی ہے جس نے تقریباً ساٹھ سالہ صحافتی زندگی صاف ستھری گزاری ہے۔ جج صاحبان نے عالی ظرفی کا مظاہرہ کیا۔ یہاں کہنا یہ مقصود ہے کہ میرے علاوہ چوٹی کے سیاست دان اس کیس کے حوالے سے خاصے کرب سے گزر رَہے ہیں۔
25جولائی بہت قریب آ پہنچی ہے۔ جناب عمران خاں جو پروٹوکول کے ساتھ عمرہ کر کے آئے ہیں اور فصلی بٹیروں نے اُن پر یلغار کر دی ہے، انہیں پورا یقین ہے کہ آئندہ وہی پاکستان کے وزیراعظم ہوں گے۔ شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخابات میں وہ عوام سے حکمرانی کا مینڈیٹ لینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، تو جمہوریت کے دلدادہ لوگ اس کا خیرمقدم کریں گے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ تحریک ِانصاف میں جو داخلی کشمکش جاری ہے، اس میں اسد عمر جناب عمران خاں کے لیے مسائل پیدا کر سکتے ہیں۔ 25جولائی کی پیشگی جھلک آپ ہمارے گردوپیش رونما ہونے والے حیرت انگیز واقعات میں دیکھ سکتے ہیں۔ ملائشیا میں تقریباً بیس برس بعد جناب مہاتیر محمد 25مئی کو برسرِاقتدار آئے ہیں جن کو ناسازگار حالات میں سیاست سے کنارہ کش ہونا پڑا تھا۔ وہ ملائشیا کے حقیقی معمار سمجھے جاتے ہیں۔ دوسرا چشم کشا واقعہ ترکی میں ظہور پذیر ہوا۔ پندرہ سال تک برسرِاقتدار رَہنے والے طیب اردوان نے25جون کو منعقد ہونے والے صدارتی انتخاب میں 52فی صد ووٹ لے کر زبردست کامیابی حاصل کی جس پر اُن کے مخالفین کرپشن اور آمرانہ حکمرانی کے الزام لگاتے رہے کہ انہوں نے اور اُن کے بیٹے نے ہر طرف لوٹ مار کا بازار گرم کر رکھا تھا۔ اردوان کے خلاف 2016ء میں فوج نے بغاوت بھی کی تھی جسے عوام نے ناکام بنا دیا تھا۔ پاکستان کے عوام کی اکثریت بھی یہی سمجھتی ہے کہ آج نواز شریف بھی طیب اردوان جیسے حالات سے گزر رَہے ہیں اور باشعور ووٹر اسی جماعت کو انتخابی کامیابی سے ہمکنار کریں گے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین