• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جنگ نیوز

لاہورکا’شاہی حمام‘ جسے وزیر خان حمام بھی کہا جاتا ہے، مغلیہ حکومت کے گورنر علم الدین انصاری (جو وزیر خان کے نام سے جانے جاتے ہیں) نے 1635ء میں عام لوگوں اور مسافروں کے لیے تعمیر کروایاتھا۔پاکستان کے تاریخی شہر لاہور میں مغل دور کے شاہی حماموں میں باقی رہنے والا یہ آخری حمام ہے۔

لاہور کا دلی گیٹ مغل سلطنت کے دور میں لاہور کے اہم ترین دروازوں میں سے ایک تھاجس کی بڑی وجہ دارالحکومت دہلی سے اس راستے سے آنے والے سرکاری و غیر سرکاری مہمان تھے۔ لاہور کی مشرقی سمت دلی دروازے سے کوتوالی تک ڈیڑھ کلومیٹر لمبی سڑک بادشاہوں کا راستہ ہونے کی وجہ سے شاہی گزر گاہ بھی کہلاتی تھی۔دلی دروازہ سے داخل ہوتے ہی چند قدم کے فاصلے پرشاہی حمام واقع ہے۔ طویل عرصے تک یہ حمام مسافروں اور شہر کے باسیوں کے استعمال میں رہا، قریب ہی ایک سرائے بھی بنائی گئی تھی جس کے آثار اب نہیں ملتے۔

برصغیر میںاپنی نوعیت کی یہ واحد عمارت شاہ جہانی فن تعمیر،جو فارسی اور ترک ڈیزائن کی آمیزش یا اشتراک کی ایک شاندار مثال ہے۔ ایک ہزارسے زائد مربع میٹر احاطہ پر قائم یہ ایک منزلہ عمارت 21کمروںاور غسل کے لیے گرم اور ٹھنڈےآٹھ آٹھ تالابوں پر مشتمل ہے۔ چھتوں اور دیواروں کی چھت پرپھولوں کی شاندار کی پینٹنگز بنائی گئی ہیں۔ حمام میں روشنی کا واحد ذریعہ روشن دان تھے۔ پرتعیش مساج کے لیے خصوصی کمرے تھے جبکہ زنانہ کے لیے خواتین عملہ موجود تھااور کہا جاتا ہے کہ ان کے لیے دن بھی مخصوص تھا۔

مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد لاہورشہر کی بگڑتی بدلتی تاریخ میں شاہی حمام گم ہو کےرہ گیاتھا۔ برطانوی دور میں اس پر چونا پھیر دیا گیا۔ بعد میں میونسپل کارپوریشن نے اسےاپنی تحویل میں لے کر اسے بچوں کے لیے پرائمری اسکول، بچیوں کے لیے دستکاری سینٹر، ڈسپنسری اور دیگر دفاترکے طور پر استعمال کیا۔

1955ء میں شاہی حمام کو ایک ثقافتی اثاثہ کے طور پر تسلیم کیا گیا۔ 1991ء میں دیواروں پر کیے گئے چونے کو مہارت سے ہٹایا گیا تو ان پر بنے نقش ونگار سامنے آ گئے۔ نومبر 2013ءمیں جب اس کی بحالی کے کام کا آغاز ہوا تو ایک تاریخی عمارت کا ڈھانچہ تو موجود تھا لیکن کسی طرح بھی یہاں حمام کے آثار دکھائی نہیں دیتے تھے بلکہ اس عمارت کو دیکھ کر ایک عجیب حسرت اور مایوسی کا احساس ہوتا تھا جیسے یہ تاریخ کا کوئی فراموش باب ہو۔تاہم پانچ سال قبل شاہی حمام کی بحالی کے منصوبے کا آغاز سینکڑوں سال کی غفلت کے مداوے کی ایک کوشش تھی۔

واضح رہے کہ شاہی حمام کی بحالی کے لیے ساڑھے چھ کروڑ کی رقم ناروے حکومت کی جانب سے دی گئی تھی۔مغلیہ دور کی دیواریں منہدم ہوئے تو صدیاں بیت چکی ہیں،تاہم شاہی حمام کے اردگرد نئی دیوار تعمیر کی گئی ہے تاکہ اسے محفوظ رکھا جاسکے۔

جب حمام کی کھدائی کی گئی تو چینی مٹی اور مٹی کے نوادرات، بھٹیوں کا جال، پانی کی پیچیدہ گزر گاہیں، گرمی سے محفوظ کرتی اینٹیں، چھوٹے چھوٹے ستونوں پر مشتمل حرارت اور بھاپ کا نظام، ٹھنڈے پانی کے فوارےاور مساج کے لیے جگہیں دریافت ہوئیں۔ شاہی حمام میں پانی کی نکاسی کے لیے 20 فٹ گہرا گڑھا کھودا گیا تو17 فٹ گہرائی پرایک سوراخ سے پورے حمام کو پانی فراہم کیا جاتا تھا۔ پانی کو تین انگیٹھیوں پر گرم کیا جاتا تھا اور پانی گرم کرنے کے بعد بھاپ کو ضائع نہیں ہونے دیتے تھے۔ چمنی عمارت کی دوسری جانب تھی۔ بھاپ کو سرنگوں کے ذریعے عمارت کے نیچے سے گزارا جاتا تھا جس سے حمام ہروقت گرم رہتا۔ ٹھنڈا اور گرم پانی ایک ہی ٹینک سے لیا جاتا تھا اور تمام کمروں کا نکاس بھی ایک ہی پائپ کے ذریعے کیا جاتا تھا۔پانچ کمرے بھاپ غسل (Steam Bath)کے لیے مخصوص تھے۔ حرارت کا نظام سکھ عہد میں تباہ ہواجس کی بحالی میں برطانوی حکمرانوں نے کوئی دلچسپی نہیں لی بلکہ اسے رہائشی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا۔اس شاہی حمام میں مکمل رازداری برقرار رکھنے کا اہتمام تھا۔شاہی حمام کی بحالی اورعمارت کےتحفظ کے لیے کیے گئے ہر اقدام سے اس کے بطور حمام استعمال، اس میں پانی کی بہم رسانی اور اس کے کمروں کے فرش کے تمام آثار گم ہو کر رہ گئے۔

یونیسکو ایوارڈ آف میرٹ 2016ء میں شاہی حمام ایورڈ حاصل کرنے والی تاریخی عمارتوں میں شامل کیا گیا تھا۔اس سال کُل 6 ممالک کو ایوارڈ آف میرٹ دیا گیا تھا۔اس سے قبل 2014ء میں گلی سورجن سنگھ دہلی گیٹ کو بھی یہ ایوارڈ دیا گیا تھا۔

عمارت کی حالت اب ایسی ہے کہ حمام کو نہانے کے لیے تو دوبارہ استعمال نہیں کیا جاسکتا، تاہم سیاحت کے فروغٖ اور تاریخ میں دلچسپی لینے والوں کے لیے اسے کھول دیا گیا ہے۔شاہی حمام کو دیکھنے ہر ماہ تقریباً10سے 25 ہزارلوگ آتے ہیں جن میں غیر ملکی سیاح، محققین، میڈیا، یونیورسٹی، کالج اوراسکول کے وفود کے ساتھ مقامی افراد کی بہت بڑی تعداد شامل ہے۔

تازہ ترین