• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میرے لئے اچنبھے کی بات نہیں ہے کہ جب بھی انتخابات کا موسم آتا ہے تب میرے پاس ٹکٹوں کی بھرمار ہوجاتی ہے۔ کبھی تو اسقدر ٹکٹ ملتے ہیں کہ میں سوچ بچار میں پڑ جاتا ہوں۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ اتنے ٹکٹ میں کیا کروں گا! کہاں جائوں، اور کہاں نہیں؟ میں فیصلہ نہیں کر پاتا۔ سب ٹکٹ اعلیٰ اور ایک سے بڑھ کرایک ہوتے ہیں۔ اچھے سے اچھی ایئرلائن کے بزنس کلاس میں سفر۔ پانچ چھ سات آٹھ نو دس اسٹار ہوٹلوں کے لگژری اسٹیٹس میں قیام، اور وغیرہ وغیرہ۔ امید کرتا ہوں کہ آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ وغیرہ وغیرہ سے میری مراد کیا ہے۔ اتنا جان لیجئے کہ مراد سے میری مراد، مراد علی شاہ نہیں ہے۔ جو سخی لٹیرے مجھے سفر درسفر کی اعلیٰ سہولتوں کے ٹکٹ دیتے ہیں، وہ مجھ سے امید رکھتے ہیں کہ میں ان کے حق میں فیصلہ کروں گا۔ یہاں پر مجھے وضاحت کی ضرورت محسوس ہورہی ہے۔ جج صاحبان فیصلے دیتے ہیں۔ چونکہ میں جج نہیں ہوں اس لئے میں فیصلے کرتا ہوں۔ امید کرتا ہوں کہ میری وضاحت آپ سمجھ گئے ہوں گے۔ یہاں پر ایک اور چھوٹی سی وضاحت کردوں کہ امید سے میری مراد امید علی شاہ نہیں ہے۔ میں آپ کو مخمصوں میں ڈالنا نہیں چاہتا۔ اگر آپ مراد علی شاہ کو جانتے ہیں تو پھر آپ امید علی شاہ کو اور قائم علی شاہ کو بھی جانتے ہوں گے۔ دائم علی شاہ کو بھی جانتے ہوں گے۔ غوث علی شاہ کو بھی جانتے ہوں گے۔ اور لازمی طور پر ایان علی کو بھی جانتے ہوں گے۔ ایان علی یاد ہے نا آپ کو؟ ہمارے صحافی بھائیوں نے ایان علی کو سپر ماڈل کے لقب سے نوازا تھا۔ جس کسٹم آفیسر نے ایان علی کو چار لاکھ ڈالر دبئی لے جاتے ہوئے ایئرپورٹ سے گرفتار کیا تھا، وہ اللہ کو پیارا ہوگیا تھا۔
جب کوئی طبعی موت مرتا ہے تب ہم دعا پڑھتے ہوئے کہتے ہیں، ’’جو اللہ کی مرضی‘‘۔ مگر جب کوئی شخص گولی، خنجر، کلہاڑی، چاقو، چھری سے مارا جاتا ہے تب ہم کبھی نہیں کہتے کہ ’’جو اللہ کی مرضی‘‘۔ ایان علی کو گرفتار کرنے والا کسٹم آفیسر اللہ سائیں کو پیارا نہیں ہوا تھا یعنی وہ طبعی موت نہیں مرا تھا۔ اس کے سر میں گولی لگی تھی۔ اب تو میرے صحافی بھائی ہی بتا سکتے ہیں کہ فی الحال ایان علی کہاں ہے، بلکہ سپر ماڈل ایان علی کہاں ہے اور کسٹم آفیسر کی غیرطبعی موت کی تفتیش کا کیا بنا؟ ملا ہے کوئی چشم دید گواہ؟ گواہ گم، فائل بند۔ کھیل ختم۔ پیسہ ہضم۔ وہ بڑے خوش نصیب ہوتے ہیں جو سمت کا تعین کرسکتے ہیں۔ میں سمت کا تعین نہیں کرسکتا۔ گھر سے ارادہ کرکے نکلتا ہوں عبادت گاہ جانے کا، اور جاکر بیٹھ جاتا ہوں کہیں اور۔ میری خامیوں اور کوتاہیوں کا آپ اندازہ نہیں لگا سکتے۔ آج کل سب موسموں پر ایک موسم بھاری ہے اور وہ ہے الیکشن کا موسم، آج کل انتخابات کا موسم ہے۔ اس موسم میں پھول نہیں کھلتے اس موسم میں پھل نہیں پکتے۔ اس موسم میں کھیت لہلاتے نہیں۔ اس موسم میں سورج سوا نیزے تک نیچے اتر آتا ہے۔ گرمی انتہا سے آگے نکل جاتی ہے۔ ایسے میں داد دیجئے سیاسی سمندر کو۔ کیا مجال کہ ایک دوسرے پر تہمتوں اور الزاموں کی سونامی آمڈ آئے۔ کیا مجال کہ گالیوں کی گھن گرج سنائی دے۔ سیاستدان ایک دوسرے کو سراہتے ہیں۔ ایک دوسرے کی تعریف کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کے گلے میں پھولوں کے ہار ڈالتے ہیں۔ ایک دوسرے کو گلدستے پیش کرتے ہیں۔ ایسا ہوتا ہے ہمارے یہاں انتخابات کا موسم، مہکا مہکا، تروتازہ، سہانا، ہرسو ہواوں میں خوشبو ہوتی ہے۔ اس موسم میں میرے جیسے بے سرے بھی سر میں گانے لگتے ہیں۔ ہمارے ہاں انتخابات کا موسم خوشبوئوں اور ترنموں کا موسم ہوتا ہے۔ سوا نیزے تک اترکر آئے ہوئے سورج کو ہم خاطر میں نہیں لاتے۔ ہمارے رویئے لاوے کی طرح نہیں ابلتے، ہمارے رویوں سے دودھ اور شہد کی نہریں نکلتی ہیں۔ سیاسی پارٹیاں ملک بھر سے لائق اور فائق امیدواروں کی تلاش میں نکل پڑتی ہیں۔ غیرمعمولی صلاحیتوں والے لوگوں کی کھوج لگائی جاتی ہے تاکہ ان کو پارٹی کی طرف سے ٹکٹ دے کر اسمبلی کے ایوانوں تک پہنچایا جائے۔ جس پارٹی کے زیادہ ارکان اسمبلیوں میں جاکر براجمان ہوں گے وہی پارٹی حکومت بنائے گی اور پانچ برس تک پاکستان پر راج کرے گی۔
آپ سب جانتے ہیں کہ میں بڑا ہی ہونہار اور باصلاحیت بوڑھا ہوں۔ میں جب جواں تھا تب بھی باصلاحیت تھا۔ سیاسی پارٹیاں میری صلاحیتوں سے مستفید ہونے کے لئے تب بھی میرے آگے پیچھے گھومتی تھیں اور آج بھی میرے آگے پیچھے گھومتی ہیں۔ میں کسی سے کچھ نہیں چھپاتا۔ رازداری میں مجھے زرداری دکھائی دیتا ہے۔
اس لئے میں رازداری سے کام نہیں لیتا۔ سیاستدانوں کو صاف بتا دیتا ہوں کہ میں بڑا چکرباز ہوں۔ جھوٹ موٹ کی کہانیاں گھڑتا ہوں۔ لوگوں کو سہانے سپنے دکھاتا ہوں۔ بھوکوں کو خیالی پلائو کے بجائے خیالی بریانی کھلاتا ہوں۔ بے گھر لوگوں کے لئےزمین پر ہوائی بستیاں بناتا ہوں۔ جھوٹ بولنے میں میرا نام گینیز بک آف ورلڈ ریکارڈز میں لکھا ہوا ہے۔ سفید جھوٹ کو میں نے سات رنگ دے دیئے ہیں۔ میرا جھوٹ لوگوں کو دھنک دکھائی دیتا ہے۔ میری کتھا سننے کے بعد سیاسی پارٹیوں کے لیڈر کہتے ہیں، ’’ ہمیں تجھ جیسے لوگوں کی پارٹی میں ضرورت ہے۔ صرف تجھ جیسے لوگ حکومت میں آکر، یہ ملک چلا سکتے ہیں۔ ہم تجھے ٹکٹ دیتے ہوئے فخر محسوس کرتے ہیں‘‘۔
میرے ہچکچانے پر وہ مجھے بیرون ملک جاکر اطمینان سے سوچنے کے لئے اعلیٰ ایئرلائن کے بزنس کلاس کا ٹکٹ، اعلیٰ ہوٹل میں قیام اور وغیرہ وغیرہ کی سہولت دیتے ہیں۔ اس مرتبہ میں دبئی جارہا ہوں۔ اس مرتبہ میں نے اٹل فیصلہ کرلیا ہے۔ جس پارٹی کے ٹکٹ پر میں الیکشن لڑرہا ہوں، اس پارٹی نے اگر اکثریت حاصل کرنے کے بعد حکومت بنائی تب میں واپس آئوں گا ۔ ورنہ ریٹرن ٹکٹ پھاڑ کر پھینک دوں گا ۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین