• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ ایک حقیقت ہے کہ موجودہ حکومت کے دور میں کرپشن، ٹیکس کی چوری، ٹیکسوں میں دی گئیں بے جا چھوٹ و مراعات اور دہشت گردی کی جنگ کے تیزی سے بڑھتے ہوئے نقصانات سے پیدا ہونیوالے بجٹ خسارہ کو بینکوں نے اپنے لئے نعمت غیر مترقبہ بنا لیا ہے۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ موجودہ حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد سے بینکوں نے معیشت کے فروغ کیلئے نجی شعبہ کو قرضے فراہم کرنے کا اپنا اصل کام بڑی حد تک چھوڑ کر خصوصاً بجٹ خسارے کو پورا کرنے کیلئے سودی بنیاد پر حکومت کو بڑے پیمانے پر قرضے دینا شروع کردیئے۔ اسٹیٹ بینک کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ بینکوں کی کارکردگی پر نظر رکھے اور انہیں ڈپازٹس بڑھانے کی ترغیب دے مگر اسٹیٹ بینک الٹا خود ٹریژری بل ڈسکاؤنٹ کر کے ان بینکوں کو بھی رقوم مہیا کر رہا ہے جن کے پاس حکومت کو قرضہ دینے کیلئے نقد رقم موجود ہی نہیں ہے۔ اس طرح اسٹیٹ بینک عملاً بینکوں کے ذریعے حکومت کو قرضے فراہم کر کے سود بینکوں سے وصول کر رہا ہے۔ اسلامی بینکاری کرنیوالے بینک بھی پیچھے نہیں رہے اور نجی شعبہ کو فنانسنگ کرنے کے بجائے حکومت اور حکومتی اداروں کے اجارہ سلوک میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کر رہے ہیں جہاں سودی نظام کی طرز پر نہ صرف شرح منافع پہلے سے متعین ہوتی ہے بلکہ اسلامی بینک نقصان کا خطرہ بھی مول نہیں لیتے۔ اس ضمن میں چند اعداد و شمار نذر قارئین ہیں (1)بینکوں نے2008ء میں مجموعی طور سے 1086/ارب روپے کی سرمایہ کاری کی ہوئی تھی۔2011ء میں یہ حجم بڑھ کر 3053/ارب روپے ہو گیا جو کہ 1967/ارب روپے کے اضافے کو ظاہر کرتا ہے۔ اسی مدت میں بینکوں کی جانب سے دیئے ہوئے قرضوں کا حجم 3173/ارب روپے سے بڑھ کر3341/ارب روپے ہو گیا جو کہ 168/ارب روپے کے اضافے کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ بینکوں کی توجہ سرمایہ کاری کی طرف رہی اور اسکا بڑا حصہ حکومت کی تمسکات میں لگایا گیا۔ (2)اسلامی بینکاری کے جھنڈے تلے کاروبار کرنے والے بینکوں یا سودی بینکوں کی اسلامی شاخوں نے2008ء میں صرف 40/ارب روپے کی سرمایہ کاری کی ہوئی تھی جو جون2012ء میں بڑھ کر347/ارب روپے ہو گئی یعنی307/ارب روپے کا اضافہ۔ اسی مدت میں ان بینکوں کی جانب سے کی گئی فنانسنگ (تمویل ۔ سودی قرضوں کا متبادل ) میں صرف 61/ارب روپے کا اضافہ ہوا۔
یہ امر بھی باعث تشویش ہے کہ اطلاعات کے مطابق بینکوں میں نااہلی، بدمعاملگیاں اور غلط کاریاں بڑھتی جا رہی ہیں۔ جنوری2001ء سے جون 2012ء تک نفع و نقصان میں شراکت کی بنیاد پر کھولے گئے کھاتوں پر اپنے منافع میں کھاتے داروں کو شریک نہ کر کے بینکوں نے ان کو تقریباً 1300/ارب روپے اس رقم سے کم دیئے جو 2000ء میں دی گئی حقیقی شرح منافع کے مطابق ان کا حق تھا۔ بینکوں کے غیر صحت مند قرضوں کا حجم بھی پریشان حد پر پہنچ گیا۔ یکم جنوری2009ء سے31دسمبر 2011ء کے36ماہ میں بڑے پیمانے پر قرضوں کی معافی کے باوجود غیر صحت مند قرضوں کا حجم359/ارب روپے سے بڑھ کر607/ارب روپے ہو گیا جو کہ 248/ارب روپے کے اضافے کو ظاہر کرتا ہے۔ کچھ بینک پھنسے ہوئے قرضوں کی نقد وصولی کے بجائے ان کی ری شیڈولنگ اور ادائیگی موخر کرا رہے ہیں اور ان کا کچھ حصہ معاف بھی کر رہے ہیں۔ خدشہ ہے کہ یہ قرضے آگے چل کر بڑے حجم کے ساتھ ایک مرتبہ پھر پھنسے ہوئے قرضوں کی صف میں شامل ہو کر بینکوں کیلئے مشکلات پیدا کریں گے ۔ اندازہ ہے کہ موجودہ غیر فعال قرضوں میں سے تقریباً 400/ارب روپے کے قرضے ناقابل وصول رہیں گے۔ یہ بات بھی پریشان کن ہے کہ31دسمبر 2011ء تک بینکوں سے اپنی آمدنی سے 405/ارب روپے الگ کر کے ”پرویژن “ کی مد میں رکھے ہوئے ہیں تاکہ قرضوں کو خاموشی سے معاف کر دیا جائے۔ اسٹیٹ بینک کے پاس اس بات کا یقینا اختیار ہے کہ بینکوں کو پابند کرے کہ وہ اپنے اسپریڈ (قرضوں پر لی جانے والی مارک اپ اور کھاتے داروں کو دی جانے والی شرح منافع کا فرق) کوایک مقررہ حد مثلاً 3.5فیصد سے نہ بڑھنے دیں۔ اسٹیٹ بینک کے مختلف گورنر صاحبان گزشتہ 19برسوں سے بینکوں کو کہتے رہے ہیں کہ وہ اسپریڈ کو کم کریں مگر طاقتور طبقوں کے مفادات کے تحفظ کیلئے اسٹیٹ بینک اپنے اختیارات استعمال کرنے سے اجتناب کرتا رہا ہے۔ گورنر اسٹیٹ بینک نے 2006ء میں کہا تھا کہ اسپریڈ کم کرانے کیلئے قانونی اختیارات استعمال کرنے کا ابھی وقت نہیں آیا۔
بینکوں کا نفع و نقصان میں شراکت کی بنیاد پر کھولے گئے کھاتوں پر اپنے کھاتے داروں کو منافع میں شریک نہ کرنے، بینکوں کا اسپریڈ اونچا رکھنے اور پارٹنر شپ ایکٹ سے متصادم اسٹیٹ بینک کے سرکلر 29 مورخہ 15/اپریل 2002ء کے تحت قرضے معاف کرنے کے ضمن میں ہمارا دائر کیا ہوا مقدمہ کئی برسوں سے وفاقی شرعی عدالت میں زیر التوا ہے۔اسٹیٹ بینک کے ڈپٹی گورنر نے4ستمبر2012ء کو کہا کہ پاکستان میں2002ء میں اسلامی بینکاری کا نفاذ دوبارہ کیا گیا ہے۔ یہ آغاز ماضی کے تجربہ کی روشنی میں کیا گیا ہے۔ وطن عزیز میں ”بلا سود بینکاری“ کا آغاز یکم جنوری1981ء کو ہوا تھا اور یہ نظام کم از کم 2002ء تک برقرار رہا۔ اب اسے سودی نظام قرار دے دیا گیا ہے مگر یہ بینک کھاتے داروں کو اب بھی سود کے بجائے ”منافع“ ہی دے رہے ہیں۔ اسٹیٹ بینک کی پالیسی کے تحت اب سودی اور اسلامی بینک ساتھ ساتھ کام کر رہے ہیں جو کہ غیر اسلامی ہے۔ مروجہ اسلامی نظام بینکاری کو31جید علمائے نے حرام قرار دے دیا ہے۔ سود کا مقدمہ وفاقی شرعی عدالت میں 125ماہ سے التوا میں ہے ۔ اگر عدالت عظمیٰ نے مروجہ نظام اسلامی بینکاری کو غیر اسلامی قرار دے دیا، عوام نے اسے حتمی طور پر مسترد کر دیا تو ایک سنگین صورتحال پیدا ہو جائیگی اب یہ ازحد ضروری ہے کہ سود کے مقدمہ کا حتمی فیصلہ جلد ہونا چاہئے ۔اس بات کے شواہد نظر آ رہے ہیں کہ حکومت اس بے یقینی کی کیفیت کو برقرا رکھنا چاہتی ہے۔ مروجہ اسلامی بینکاری کے ضمن میں علماء کے درمیان جو اختلافات ہیں ان کو دور کیا جانا چاہئے تاکہ اسلامی بینکاری کو شریعت کی روح کے مطابق استوار کیا جا سکے۔بینکوں میں بینکنگ کلچر کو فروغ دینا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اسٹیٹ بینک کو پابند کیا جانا چاہئے کہ وہ ہر سال ایک سرٹیفکیٹ دے کہ بینکوں کے صدر اور بورڈ کے ممبران مرکزی بینک کے مقرر کردہ معیار کے مطابق ہیں اور تقرری کے وقت اس کے اہل تھے۔ بینکوں کو اپنا کاروبار پیشہ وارانہ اصولوں کے مطابق کرنا ہو گا۔ اعلیٰ عدلیہ کو ان مقدمات کا جلد فیصلہ کرنا ہو گا جو طویل عرصہ سے زیر التوا ہیں۔ بینکوں کی جانب سے قرضوں کے بجائے سرمایہ کاری کرنے کے رجحان کو روکنے کیلئے اسٹیٹ بینک کو تمام بینکوں کو مائیکرو فنانس ، چھوٹی اور درمیانہ درجے کے کاروباری اداروں اور صنعت و تجارت وغیرہ کے مختلف شعبوں اور خواتین کو قرضے فراہم کرنے کیلئے کم سے کم اہداف سالانہ بنیاد پر دینا ہوں گے۔ اگر یہ اہداف حاصل نہ کئے جائیں تو بینکوں کی اعلیٰ انتظامیہ پر ذاتی حیثیت میں جرمانہ عائد کیا جائے۔
تازہ ترین