• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وہ پیر کا دن تھا اور موسم قدرے گرم۔ میں پروفیسر شبیر احمد خاں کی معیت میں رازی ہال کے پہلو میں خوبصورت چمن زاروں سے گزرتا ہوا کمیٹی روم میں داخل ہوا، تو وہ طلبہ اور اساتذہ سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ پروفیسر ڈاکٹر عنبرین جاوید اور ڈاکٹر رخسانہ افتخار پہلے سے موجود تھیں جو سنٹر فار ساؤتھ ایشین اسٹڈیز اور پاکستان اسٹڈی سنٹر کی سربراہ ہیں جن کے اشتراک سے لاہور کے تھنک ٹینک ’پائنا‘ نے قومی سیمینار کا اہتمام کیا تھا۔ اس کا عنوان تھا ’قابلِ اعتماد انتخابی عمل کے تقاضے‘۔ عنوان میں بڑی کشش تھی۔
پائنا کے سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے راقم الحروف نے مذاکرے کی غرض و غایت بیان کرتے ہوئے کہا کہ 2018ء کے انتخابات کے حوالے سے اچھی خبریں بھی ہیں اور کچھ تشویش ناک بھی۔ خوش قسمتی سے تمام ادارے شفاف اور منصفانہ انتخابات کا عہد کر چکے ہیں، جبکہ سابق چیف جسٹس ناصر الملک کا بطور نگران وزیراعظم تقرر عمل میں آیا ہے جن کو اس کمیشن کی سربراہی کا اعزاز حاصل ہے جس نے 2013ء کے انتخابات میں دھاندلیوں کے الزامات کی تحقیقات کے بعد انتخابی عمل میں بے ضابطگیوں کی نشان دہی کی تھی۔ امید ہے کہ وہ انتخابی عمل کو ان بے قاعدگیوں سے پاک صاف رکھنے کی پوری کوشش کریں گے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ پے در پے اَنہونے واقعات شفاف انتخابی عمل پر سوالات اُٹھا رہے ہیں۔ بعض سیاسی جماعتیں شکوہ سنج ہیں کہ ان کے امیدواروں پر وفاداریاں تبدیل کرنے اور آزاد حیثیت سے انتخابات لڑنے پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔ انتخابی مہم کے دوران نفرت اور تشدد کے مناظر دیکھنے میں آ رہے ہیں۔ ان حالات میں ہمیں سیاسی جماعتوں سے اپیل کرنی چاہیے کہ وہ انتخابات کو زندگی اور موت کا مسئلہ بنانے کے بجائے ان کے ذریعے صحت مند مسابقت کی عمدہ مثال قائم کریں۔ ہم عدلیہ اور نیب سے یہ مطالبہ کر سکتے ہیں کہ انتخابی عمل مکمل ہونے تک مقدمات کی سماعت، ان کے فیصلے اور گرفتاریاں مؤخر کر دی جائیں۔ ہمیں وہ طریقے بھی تجویز کرنے چاہئیں جن سے ووٹر جوق در جوق باہر نکلیں اور فصلی بٹیروں کو مسترد کرتے ہوئے روشن مستقبل تعمیر کرنے والوں کو ووٹ دیں۔
پلڈاٹ کے چیف ایگزیکٹو جناب احمد بلال محبوب نے اپنے کلیدی خطاب میں کہا کہ 2018ء کے انتخابات میں ’شفاف ترین انتخابات‘ کا اعزاز حاصل کرنے کا پوٹینشل موجود ہے۔ انتخابی قوانین، ووٹروں کی فہرستیں اور الیکشن کمیشن کے اختیارات پہلے کے مقابلے میں حددرجہ بہتر ہیں۔ الیکشن کمیشن نے ان 39بے قاعدگیوں کے سدِباب پر برسوں کام کیا ہے جن کی جسٹس ناصرالملک نے نشان دہی کی تھی، مگر انتخابی عمل ایک وسیع تر سیاسی عمل ہے جو ایک مثبت سمت کا تقاضا کرتا ہے۔ ہمیں امید رکھنی چاہیے کہ تمام ادارے انتخابی عمل کو قابلِ اعتماد بنانے میں اپنا کردار اَدا کریں گے۔2013ء میں فوج پولنگ اسٹیشنوں سے فاصلے پر رکھی گئی تھی حالانکہ اس وقت دہشت گردی زوروں پر تھی۔ میرے خیال میں وہی پالیسی بہتر تھی۔
جمہوریت کے لیے قربانیاں دینے والے اے این پی کے سخت جان لیڈر جناب احسان وائیں نے کہا کہ جب تسلسل سے یہ تاثر مل رہا ہو کہ عوام کی مقبول ترین سیاسی جماعت کو دیوار کے ساتھ لگایا جا رہا ہے، تو انتخابی عمل پر کون اعتبار کرے گا؟ میں پوری ذمہ داری سے کہتا ہوں کہ ہمارے قابلِ احترام چیف جسٹس بعض ایسے کام سرانجام دے رہے ہیں جو ان کے منصب سے فروتر ہیں۔ امیدواروں پر دباؤ ڈالنے پر احتجاج بلاول زرداری، اسفند یار ولی، آفتاب شیرپاؤ، آصف زرداری اور نوازشریف کر رہے ہیں۔ سینئر تجزیہ نگار جناب قیوم نظامی کی رائے میں انتخابی عمل کے بجائے اس انتخابی نظام کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے جس میں غریب شہری حصہ نہیں لے سکتا اور نوجوانوں کو آگے بڑھنے کا موقع نہیں ملتا۔ بریگیڈیئر (ر) ریاض احمد طور کے خیال میں فوج پولنگ اسٹیشنوں پر تعینات نہیں کی جانی چاہیے، اگرچہ وہ ملکی سلامتی کی ضامن ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر شفیق جالندھری نے بھی فوج کی عظیم خدمات کو خراجِ تحسین پیش کیا۔ قانون دان ظہیر احمد میر نے تجویز دی کہ الیکشن کمیشن جدید ترین ذرائعِ ابلاغ سے ایک ایک ووٹر تک یہ پیغام پہنچا سکتا ہے کہ اسے ووٹ کاسٹ کرتے وقت کن کن باتوں کا خیال رکھنا ہو گا۔ ڈاکٹر امان اللہ ملک اس امر پر زور دے رہے تھے کہ اہلِ دانش کو بڑی جرأت اور دانائی سے ان عناصر کے خلاف کھڑا ہو جانا چاہیے جو انتخابی عمل کو مشکوک بنا رہے ہیں۔ دینی اسکالر پروفیسر سعد صدیقی کی رائے میں ووٹ کا ذمہ دارانہ استعمال قومی کے علاوہ دینی فریضہ بھی ہے جس سے مشاورت کا عمل مستحکم ہوتا ہے۔ عالمی سیاست کا ادراک رکھنے والے مسلم لیگ نون کے میڈیا کوآرڈی نیٹر جناب محمد مہدی نے کہا کہ پوری دنیا ہمارے انتخابات پر نظریں جمائے ہوئے ہے اور ایک جماعت کو نشانہ بنانے کی وجہ سے چینی سفیر نے اعلان کر دیا ہے کہ سی پیک پر سرمایہ کاری روک دی گئی ہے۔ وقت کا اہم ترین تقاضا ہے کہ تمام قومی ادارے اپنی حدود میں رہیں۔ اینکر پرسنز جناب سجاد میر اور جناب رؤف طاہر کی بھی یہی رائے تھی جبکہ ڈاکٹر حسین پراچہ اسے نیک فال قرار دے رہے تھے کہ لٹیروں کا پہلی بار احتساب ہو رہا ہے۔
تاریخی شعور کے حامل جناب ایس ایم ظفر نے کہا کہ بروقت اور شفاف انتخابات جمہوریت کی فتح اور آمرانہ ذہنیت کی شکست ہوں گے۔ خامیوں کے باوجود سیاسی جماعتوں کو انتخابی نتائج تسلیم کر کے آگے بڑھنا چاہیے۔ امریکہ میں قانون اور عدلیہ کے ذریعے الگور کا مینڈیٹ چرایا گیا تھا، مگر اس نے جمہوری استحکام کی خاطر اپنی شکست قبول کر لی تھی۔ فاضل مقرر نے تجویز دی کہ الیکشن کمیشن کو جلد سے جلد آل پارٹیز کانفرنس بلا کر ضابطۂ اخلاق تشکیل دینا چاہیے تاکہ انتخابی مہم میں نفرت اور تشدد کی روک تھام کی جا سکے۔ اُن کی نظر میں آزاد امیدواروں کو جیپ کا انتخابی نشان الاٹ کرنا غلط فیصلہ ہےجسے فوری طور پر منسوخ کیا جانا چاہیے۔ لاہور ہائی کورٹ کے اس فیصلے کی تعریف کی جس میں جناب احسن اقبال کے مقدمے کا فیصلہ 5ستمبر تک مؤخر کر دیا گیا ہے، یہی حکمتِ عملی اعلیٰ عدلیہ اور نیب کو اختیار کرنی چاہیے، کیونکہ انتخابی عمل کے دوران فیصلے سیاسی جماعت کو دیوار سے لگانے کے مترادف قرار دیئے جائیں گے۔ قابلِ اعتماد انتخابی عمل کی سند عوام دیں گے جبکہ غیر ملکی مبصرین یا الیکشن کمیشن کے اعلان پر کوئی بھی یقین نہیں کرے گا۔
جسٹس (ر) فقیر محمد کھوکھر نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ 2013ء کے انتخابات میں آرمی چیف جنرل کیانی نے خفیہ ایجنسیوں کو کڑی تنبیہ کی تھی کہ اگر انتخابی عمل میں خلل ڈالنے کی کوئی شکایت آئی تو سخت ایکشن لیا جائے گا، چنانچہ وہ انتخابات نسبتاً شفاف تھے۔ اس کے برعکس 1970ء کے انتخابات میں بدترین دھاندلی ہوئی جن میں عوامی لیگ نے طاقت کے ذریعے تمام پولنگ اسٹیشنوں پر قبضہ کر لیا تھا۔ الیکشن کمیشن کو تمام صوبوں کے چیف سیکرٹری اور آئی جی پولیس کا اجلاس طلب کر کے انہیں واضح ہدایات دی جائیں کہ امیدواروں کو تحفظ فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ تمام سیاسی جماعتوں کو ہر قیمت پر یکساں مواقع فراہم کریں۔ اگر اس بار انتخابی نتائج کے خلاف کوئی تحریک اُٹھی، تو ملک کو سخت نقصان پہنچ سکتاہے۔ ٹی وی چینلز پر ایسے پروگرام دکھائے جائیں جن سے ووٹروں میں اپنا ووٹ کاسٹ کرنے کا طاقتور جذبہ بیدار ہو، کیونکہ نوجوانوں کی انتخابی عمل میں بھرپور شرکت قابلِ اعتماد انتخابی عمل کی ضمانت دے سکتی ہے۔
سیمینار کی سفارشات پر عمل درآمد شروع ہو گیا ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین