معزول وزیراعظم نوازشریف اور ان کی دختر مریم نے بڑا فیصلہ کیا ہے جس کی مثال پاکستان کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ احتساب عدالت کی طرف سے دی جانے والی کڑی سزا کے بعد وہ برطانیہ سے واپس آرہے ہیں تاکہ انہیں جیل میں ڈالا جائے۔ عام تاثر یہ ہے کہ سیاستدان سلاخوں کے پیچھے جانے سے بھاگتے ہیں۔ اگر نوازشریف اور مریم چاہتے تو وہ لندن میں ہی رہ سکتے تھے ۔ کچھ لوگ چاہتے تھے کہ وہ ملک سے باہر ہی رہیں اور ان کیلئے زیر سماعت مقدمات میں سہولتیں پیدا کر دی جائیں گی مگر معزول وزیراعظم نے ایک نہ سنی۔ چونکہ وہ سیاستدان ہیں اور انہیں بخوبی معلوم ہے اس موقع پر جبکہ انتخابی مہم زور وشور سے جاری ہے اور 12 روز بعد انتخابات ہونے ہیں ان کا برطانیہ میں رہنا ان کی جماعت کیلئے سیاسی ’’خودکشی‘‘ کے مترادف ہوگا اور ان کے مخالفین یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گے کہ وہ سزا کے ڈر سے بھاگ گئے ہیں۔ نوازشریف اور مریم 14 جون کو سخت بیمار بیگم کلثوم کی عیادت کیلئے لندن گئے اور اس ایک ماہ کے عرصہ کے دوران سابق خاتون اول کی صحت گرتی ہی رہی۔ اب بھی ان کی حالت انتہائی تشویشناک ہے۔ سابق وزیراعظم بار بار کہتے رہے ہیں کہ ان کی اہلیہ ایک بار بھی ہوش میں نہیں آئیں کہ وہ ان سے بات کرسکیں۔ اس عرصہ کے دوران نون لیگ کی انتخابی مہم کا وہ ٹیمپو نہیں بن سکا جو کہ نوازشریف اور مریم کے ہوتے ہوئے بنتا ہے۔ جماعت کے صدر شہبازشریف بڑی محنت کر رہے ہیں مگر ان کا اثر وہ نہیں ہے جو کہ والد اور بیٹی کے کمپین سے ہوتا ہے۔ ان کی واپسی نون لیگ کے حامیوں کیلئے بہت حوصلہ افزا ہے اور اس سے یہ پیغام یقیناً جائے گا کہ ان کے لیڈر ڈرپوک نہیں ہیں اور جیل جانے کیلئے آرہے ہیں۔ ان کی واپسی ہی نون لیگ کے الیکشن کمپین کا بہت بڑا ایونٹ ہے۔
جب وہ آج شام لاہور ایئرپورٹ پر لینڈ کریں گے تو بہت بڑی تعداد میں ان کے چاہنے والے ان کے استقبال کیلئے موجود ہوں گے۔ صاف ظاہر ہے کہ حکام ان کا رابطہ ان لوگوں سے نہیں ہونے دیں گے اور نہ ہی نوازشریف اپنے کارکنوںسے خطاب کرسکیں گے۔ تیاریاں مکمل ہیں کہ انہیں جہاز سے ہی گرفتارکرکے ہیلی کاپٹر کے ذریعے اڈیالہ جیل راولپنڈی منتقل کر دیا جائے یا ان کے طیارے کو کسی دوسرے ایئرپورٹ ڈائیورٹ کر دیا جائے۔ تاہم اس سے نوازشریف کی آمد کی وجہ سے جو سیاسی ایمپکٹ ہونا ہے وہ ہو کر رہے گا۔ چند ہزار لوگوں کا مجمع بھی بہت بڑا سیاسی اثر پیدا کرے گا۔ نوازشریف اور مریم کی پاکستان سے ایک ماہ تک غیر حاضری اور دوسرے بے شمار اقدامات جو نون لیگ کے خلاف لیے جاتے رہے ہیں اور لیے جارہے ہیںکی وجہ سے جو سیاسی نقصان انہیں ہوا ہے اس کا مداوا ان کی وطن واپسی سے بڑی حد تک ہو جائے گا۔ مصدقہ اطلاعات ہیں کہ ایک نہیں بلکہ کم از کم چار بار سابق وزیراعظم اور ان کی بیٹی کو پیغام دیا گیا کہ وہ 25 مئی کو ہونے والے انتخابات کے بعد واپس آجائیں مگر وہ اس کیلئے تیار نہ ہوئے۔ یقیناً نون لیگ کو اپنی تاریخ میں کبھی بھی اتنے مشکل ترین حالات کا سامنا نہیں ہوا جیسا کہ ابھی ہے مگر نہ صرف نوازشریف بلکہ ان کی جماعت اپنے موقف پر ڈٹی ہوئی ہے۔ یہ ایک طرح کی انہونی ہی ہے کیونکہ لیگیوں کا ریکارڈ رہا ہے کہ وہ اپنی جماعت سے بھاگتے ہوئے ذرا وقت نہیں لیتے جب انہیں تھوڑی سی بھی مشکلات کے سامنے کا ڈر ہو۔ یہ ثابت قدمی نوازشریف کیلئے بھی باعث اطمینان ہے۔ ہم چونکہ بڑے ’’بہادر اور نڈر‘‘ ہیں لہذا ہم جو جماعت ہمارے نشانے پر ہے کے خلاف کسی بھی قسم کے اقدامات سے گریز نہیں کرتے اور یہ سب کچھ عوام الناس کے نوٹس میں ہے۔ کیا ضرورت تھی کہ احتساب عدالت الیکشن سے پہلے ہی سابق وزیراعظم کے خلاف فیصلہ کرتی۔ کیا ضرورت تھی کہ لاہور ہائی کورٹ کے ایک جج یہ حکم صادر کرتے ہیں کہ نون لیگ کے امیدوار حنیف عباسی کے خلاف کئی سال سے جاری ایفیڈرین کیس کا فیصلہ 21 جولائی تک کیا جائے۔ کیا ضرورت ہے کہ عدالت عظمیٰ نون لیگیوں کے خلاف توہین عدالت یا دوسرے مقدمات کے فیصلے 25 جولائی سے قبل کرے۔ کیا ضرورت تھی کہ اس جماعت کے سینکڑوں کارکنوں کے خلاف مقدمےراولپنڈی میں کیپٹن (ر) صفدر کے جلوس میں شرکت کے الزام میں درج کئے جائیں اور ان میں سے درجنوں کو جیل میں بند کر دیا جائے تاکہ نون لیگ کے راولپنڈی سے امیدواروں کی انتخابی مہم پر برا اثر پڑے۔ چاہئے تو یہ تھا کہ یہ تمام اقدامات اورکیسوں کا فیصلہ پولنگ ڈے کے بعد ہوتا تاکہ کچھ نہ کچھ تو بھرم رہ جائے کہ نون لیگ کو ٹارگٹ نہیں کیا جارہا مگر ہم تو کچھ چھپانا ہی نہیں چاہ رہے اور ووٹروں کو واضح پیغام دے رہے ہیں کہ ہم نہیں چاہتے کہ وہ نون لیگ کی حمایت کریں۔
نوازشریف کے مخالفین خصوصاً عمران خان کی یہ دلی خواہش تھی کہ سابق وزیراعظم اور ان کی دختر لندن میں ہی رہیں تاکہ ان کیلئے انتخابی میدان کھلا رہے۔ ان کی واپسی کے اعلان کے بعد یہ سب حضرات کافی پریشان ہیں اس وجہ سے کہ نون لیگ اپنے آپ کو بڑی حد تک ریکور کر لے گی۔ نون لیگ کے خلاف تمام قسم کے حربوں کے استعمال کے باوجود اب بھی یہ عمران خان سے آگے ہے اور یہی بات مختلف الیکشن سروے بتا رہے ہیں۔ کسی نے سوائے عمران خان کے ابھی تک یہ نہیں کہا کہ پی ٹی آئی سب سے بڑی جماعت بن کر ابھرے گی۔ اگر یہ سروے واقعی سچ ثابت ہوتے ہیں تو عمران خان کیلئے یہ کسی نائٹ میئر سے کم نہیں ہوگا کیونکہ ان کی حالت اب ’’ابھی یا کبھی نہیں‘‘ والی ہے اگر وہ اتنے ونڈرفل حالت میں بھی انتخابات نہیں جیت سکتے تو پھر وہ کبھی بھی کامیابی حاصل نہیں کرسکتے کیونکہ ایسی صورتحال بار بار ان کیلئے پیدا نہیں کی جاسکتی۔ سابق وزیراعظم ایک ایسے فیصلے کی بناپر جیل جانے کیلئے واپس پاکستان آرہے ہیں جن کے بارے میں سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدریکا کہنا ہے کہ احتساب عدالت کا فیصلہ بے بنیاد ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ ججمنٹ کے پہلے141 صفحے تو مقدمے کے واقعات پر لکھ دئیے گئے ہیں اور باقی 33 صفحات فیصلہ ہے۔ یہ تو تھی رائے ایک قانون دان کی مگر جب سے فیصلہ آیا ہے ہر کوئی یہی کہہ رہا ہے کہ یہ ٹھیک نہیں اور جب اصل الزام ثابت ہی نہیں ہوا تو پھر سزا کس بات کی۔ جو بات نوازشریف کے ٹارمنٹرز کو سمجھ نہیں آرہی وہ یہ ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں جس کسی سیاستدان کو بھی کئی سال تک اس طرح نشانہ بنایا جائے تو ووٹرز کا ری ایکشن بڑا مختلف ہوتا ہے۔ اگر پولنگ ڈے پر کسی بھی طرف سے گڑبڑکی گئی تو انتہائی خوفناک رد عمل ہوسکتا ہے جس سے ملک میں بہت بڑا طوفان پیدا ہونے کا خطرہ ہے۔ ہمیں چاہئے کہ ہوش کے ناخن لیں اور ایسی صورتحال سے گریز کریں۔