• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گل وخا ر _… سیمسن جاوید
الیکشن میں صرف دودن باقی رہ گئے ہیں ۔اس الیکشن میں کچھ زیادہ ہی گہما گہمی رہی ۔ ایک دوسرے کو حدفِ تنقید بنانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی گئی۔دوسری طرف مسلم لیگ ن کی اعلیٰ قیادت اور اہم لیڈرز کی تاحیات نا اہلی اور نیب کی طرف سے سزا اور قید و بند، کئی اہم لیڈروں کو مقدمات کا سامنا کرنا پڑا اور وہ الیکشن میں حصہ نہیں لے سکتے۔ کرپٹ،یوٹرن کے شہنشاہ اور چور جیسے القابات کا استعمال بے دھڑک ہوا۔پارٹی وفا داریاں اپنی جگہ مگرکچھ ووٹرز اب بھی ایسے ہیں جو اپنے پسند کے امیدوار کے نشان پر مہر لگانے سے پہلے ایک بار پھر سوچنے پر مجبور ہو جائیں گے اور اپنے ضمیر کی آوازکو سنیں گے۔پارٹی اختلافات کی وجہ سے پارٹی چھوڑنے کا عمل بھی زوروں پر رہا۔اس الیکشن میں عوام اور ملک کی ترقی کے لئے پارٹیوں کی طرف سے منشور پر بات کم اور الزامات کی سیاست زیادہ ہوئی اور اخلاقیات کی تمام حدیں پار کرلی گئیں۔ طاقت کا سرچشمہ عوام ہے، عوام کسے عزت دیتے ہیں اورکسے ذلت ،یہ 25 جولائی کو آشکار ہو جائے گا ۔ صاف و شفاف الیکشن کروانے کے لئے فوج کو طلب کر لیا گیا ہے۔ دوسری طرف مذہبی اقلیتوں کو ووٹ کے ذریعے اپنے نمائندے چننے کا حق نہیں دیا گیا ۔مسیحیوں کی بہت سی سیاسی جماعتوں نے الیکشن کا بائیکاٹ کر رکھا ہے مگر فائدہ تو اس وقت ہوتا جب تمام مسیحی یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے الیکشن کا مکمل بائیکاٹ کرتے۔ شاید وہ اپنے ووٹ کی قدر و قیمت سے آشنا نہیں اور امیدوار کو اپنے ووٹ کی اہمیت کا احساس دلانے میں ناکام ہیں۔ اگر ووٹرز اپنے ووٹ کی اور مسلم امیدوار اپنے ووٹرز اور اپنی طاقت کو جانتے ہوتے تو مذہبی اقلیتیں آج مشکلات کا سامنا نہ کر رہی ہوتیں ۔جوں جوں ہمارے معاشرے میں تعصب اور مذہبی انتہا پسندی میں اضافہ ہوتا چلا گیا، اس کا نقصان مذہبی اقلیتوں کو ہی ہوا۔ اس وقت بشپ جان جوزف نے اپنے خدشات کا برملااظہار کیا تھا اور اس کے لئے باقاعدہ مہم بھی چلائی گئی تھی۔مگر کسی حکومت یا سیاسی جماعت نے اس قانون کے مضر اثرات کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی ۔مولوی حضرات تو اسے مذہبی فریضہ سمجھ کر ہمیشہ اس قانون کی حمایت کرتے ہیں۔ اس الیکشن میں مذہبی کالعدم اور مذہبی سیاسی پارٹیاں محاذ بنا کر حصہ لے رہی ہیں۔گو کہ ان کے کامیاب ہونے کے چانسز نہیں مگر طالبان نواز جماعتیں ضروری سرگرم عمل ہیں ۔ یوحنا آباد میں ووٹرز کی تعداد تقریباً 45 ہزار ہے اور اس میں دویونین کونسلیں ہیں۔ اس کے باوجود آج اس کی حالت بدتر بنا دی گئی ہے۔انہیں بے یارو مدد گار چھوڑ دیا گیا ہے۔وہ اپنے دفاع کی جنگ لڑ رہے ہیں۔یوحنا آباد جوحلقہ این اے 129میں آتا ہے یہ سابق وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف کا حلقہ ہے۔یہاں کُل رجسٹرڈ ووٹ دو لاکھ 67 ہزار 70 ہیں۔2013 کے الیکشن میں یہاں سابق وزیر اعلیٰ شہباز شریف کامیاب ہوئے تھے۔ 15 مارچ 2015 میں یوحنا آباد میں دو خودکش دھماکے ہوئے جس میں 17افراد ہلاک اور70 سے زائد زخمی ہو گئے تھے۔احتجاج کے دوران 2 مشتبہ اشخاص کو زندہ جلا دیا گیاتھا۔اتنابڑا سانحہ ہو جانے کے باوجود شہباز شریف نے یوحنا آباد کو یکسر نظرانداز کردیا اور وہاں کے لوگوں کی بالکل خبر نہیں لی کہ وہ کن مشکلات کا شکار ہیں،چند لوگوں کے جرم کی سزا پورے یوحناد آباد کے لوگوں کو دینا سراسر نا انصافی ہے۔یوحنا آباد کے مسیحی کثیر تعداد میں ووٹرز ہونے کے باوجود یکجہتی نہ ہونے کی وجہ سے الیکشن میں کھڑے امیدواروں سے اپنے جیل میں بند عزیز و اقارب کے لئے کچھ بھی نہ منوا سکے۔یہ سچ ہے کہ قصوروار کو سزا ملنی چاہئے مگر ساری مسیحی قوم کو سزا دینا کہاں کا انصاف ہے ۔یہی اگر کسی اور حلقے میں ہوا ہوتا تو یہ مقدمہ کب کا حل ہو چکا ہوتا،بہت سے بے گناہ ابھی تک جیل میں سڑ نہ رہے ہوتے۔لاہور جہاں 14قومی اور 30صوبائی نشستیں ہیں اوریہاں مسیحیوں کے دو لاکھ 75 ہزار ووٹرز ہیں،مگر ان 2 لاکھ 75 ہزار ووٹرز نے اپنی قدر وقیمت کا احساس کسی بھی سیاسی پارٹی کو نہیں دلایا۔اگر یہ الیکشن کا بائیکاٹ کرتے ہیں یا یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کسی ایک سیاسی پارٹی کو ووٹ دیں جو ان کی مشکلات میں ان کی مدد کر سکتی ہے تو یہ ان کے اور ان کی کمیونٹی کے لئے فائدہ مند ہوگا۔
تازہ ترین