• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاسی رسہ کشی اور تنازعات کا ایک طویل دور آخر کار مکمل ہوگیا؛ اِنتشار، شوروغل اور دھما چوکڑیوں کا طویل سلسلہ اختتام کو پہنچا، الزام تراشیوں اور مقدمے سازیوں کے معاملات بھی اَب ایک کروٹ بیٹھ گئے ہیں اور دیرینہ محاذ آرائیاں، اشتعال انگیز جلسے جلوس اور اختلافی و احتجاجی بیانات بھی فی الحال حالتِ قرار میں آگئے ہیں۔ گزشتہ روز ملک کے گیارہویں عام (جماعتی) انتخابات بالاآخر انجام پذیر ہوئے۔ گویا آج، یعنی جمعرات26 جولائی، 2018، کا سورج ملک بھر میں گزشتہ چار پانچ برسوں پر محیط مستقل بے چینیوں کے دور کے بعد قوم کے لئے امید کے نئے امکانات کے ساتھ طلوع ہوا ہے۔
ستم یہ کہ امکانات اور مواقع کم و بیش ہر نئے دور کی شروعات ہوتے ہوتے، اس مجبور اور بے بس قوم کو بارہا اور بے سبب بڑی بڑی اِنفرادی اور اجتماعی قربانیاں دینا پڑتی ہیں۔ اس تناظر میں، اِس بار بھی کوئی مثبت تبدیلی دیکھنے میں نہیں آئی، انتخابی مہمات کے دوران دہشت گردی ، تشدد اور جبر سے متعلق خبریں سننے کو ملتی ہی رہیں جہاں تک دہشت گردی کا معاملہ ہے، اگر چند لمحوں کے لئے باہر جاکر آسمان کی جانب دِل کی نگاہ سے آج کے چڑھتے ہوئے سورج پر نگاہ ڈالی جائے تو اس کی روشن اور سنہری کرنوں میں ہارون بلور، اکرام اللہ گنڈا پور، میر سراج خان رئیسانی اور اِن کے ساتھ جام شہادت نوش کرنے والے دیگر محب وطن پاکستانیوں کے لہو کی سرخی بھی دکھائی دیتی ہے۔ اُمید بے شک ہرحال میں مقدم ہے لیکن آج کے آسمان پر اِس سرخی کے ساتھ ساتھ گزرے ہوئے اُن تمام ماہ و سال کے دوران ملک بھر میں پھیلے رہنے والی گھٹن اِک غبار کی صورت میں آہستہ آہستہ زمین پر گرتی ہوئی دیکھی یا محسوس کی جاسکتی ہے۔ سیاسی عدم استحکام کی اِس 70سالہ مایوس کن تاریخ کے تناظر میں اگرچہ ابھی اس غبار کے مستقل طور پر بیٹھ جانے کا امکان ذرا کم ہی ہے لیکن قدرت کا نظام ہے کہ مصائب کے بدترین ایام میں بھی فرد اور اقوام اپنے مستقبل کے بارے اچھا ہی سوچتی ہیں۔
آج ملک بھر میں جیت اور اُمید کے جشن منائے جارہے ہیں۔ البتہ احساس اور ضمیر کے مستقل بند رہنے والے دریچوں کے اُس پار دبی دبی سی سسکیاں یہ گلہ کرتی ہوئی سنی جاسکتی ہیں کہ حقِ اظہار اور سیاسی و انتخابی مساوات اگر اپنی سرزمین پر ہی میسر نہیں تو پھر بھلا دنیا میں کہاں دستیاب ہوسکتی ہیں؟ ایک جانب ہمیں ملک چھوڑ جانے والوں سے شکایت رہتی ہے اور دوسری جانب ہم کسی کے لوٹ آنے پر بھی خوش نہیں ہوتے! بلکہ ہمیں تو عالم بے بسی میں اپنا سیاسی دفاع کرنے والوں کی زبان درازی پر بھی اعتراض رہتا ہے۔ یعنی سوال یہ بنتا ہے کہ کیا برابری کے بنیادی حق سے محروم کسی بھی شہری یا انتخابی امیدوار کے لئے ریاست کی غیرمتوازن توقعات پر پورا اترنا بھلا کیسے ممکن ہو سکتا ہے؟ ظاہر ہے کہ نہیں! البتہ وہ جیت ضرور سکتا ہے؛ بلکہ سیاسی میدان میں فیصلہ کن جیت عموماً اسی کی ہوتی ہے۔ اہل نظر تو آج بھی ’’جیت‘‘ کے اس دکھائی نہ دینے والے عمل کو جاری رہتا دیکھ سکتے ہیں!
ایک عام شہری کو اس کا بنیادی حق ادا کرنا ہمارے ہاں سیاسی ظرف اور روایات میں شامل نہیں، اس کے باجود مجبور، نادار، نہتے اور مفلس شہریوں اور اِن کے نمائندوں سے تاریخ، اِرتقا، معاشرت اور فطرت کے برخلاف محاذ بنانے والوں کی توقعات عموماً حیرت انگیز طور پر غیرمعمولی ہوا کرتی ہیں۔ عدم مساوات اور عدم تحفظ کے دبائو اورمستقل جبر کی جھنجھلاہٹ کے تحت سرزد ہوئی غلطیوں پر سنگین غداری کا گماں، امتیازی رویوں کے خلاف احتجاج اور مذمت پر علیحدگی پسند یا قوم پرست ہونے کے الزامات یا پھر قانون کا صحیح راستہ دکھانے پر جبر، حراست یا قید و بند کے واقعات گویا قرونِ وسطیٰ کے ہندوستان یا نشاہ ثانیہ سے قبل تاریک دور کے غیرمقبول یورپی معاشروں کی یاد دلاتے ہیں۔ یعنی ترجیحات کی فہرست کا سراسر غلط ہونا دراصل ملک و قوم کا بنیادی مسئلہ ہے۔
انسان، سماج کی بنیادی اکائی ہے اور ریاست سماج کی ناگزیر ضرورت! دنیا کے ہر ریاستی نظام میں کسی بھی قسم کی چھوٹی بڑی کمزوریاں اور خلل واقع ہو تے رہے ہیں لیکن دنیا کے کسی بھی قدیم و جدید نظام میں مساوات اور عدل کی عدم دستیابی سے بڑا خلل شاید اور کوئی نہیں ہو سکتا! تاریخ میں بھی زیادہ تر وہی سلطنتیں، ریاستیں اور معاشرے نسبتاً دیر تک قائم رہے جہاں اِنسان سے اِنسان کا فرق کم سے کم رہا ہے۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ مساوات کے بنیادی فلسفے کے تحت صرف معاشی فرق کے کم سے کم تر ہوجانے سے بات نہیں بنتی بلکہ شخصی و فکری آزادی، مساوی حقوق اور برداشت بھی پائیدار جمہوری معاشرے کا ناگزیر جزو ہوتے ہیں۔ بولشوویک اِنقلاب کی داستان مثال ہے!
معاشی مساوات کے موثر نفاذ کے باجود سیاسی، انتخابی و اِظہار خیال کی آزادی کی عدم دستیابی اور مستقل فکری و نظریاتی جبر، بیسویں صدی میں کم و بیش نصف دنیا تک پھیل جانے والے کمیونسٹ معاشرے کے جلد زوال کا بنیادی پیش خیمہ سمجھا جاتا ہے، ورنہ اشتراکی معاشرہ اپنے مساوات کے فلسفے کے بہتر نفاذکے تحت مغرب سے مشرق تک پھیلے قدیم رومی سماج سے بھی زیادہ طویل عمر پاسکتا تھا۔ لیکن تاریخ اور پڑوسیوں سے سبق نہ لینا ہماری قوم کا اجتماعی رویہ ہے لہٰذا ریاست کے فکری اور امتیازی خدوخال کی موجودہ صورتحال کوئی خاص حیرانی کی بات نہیں! البتہ آج کا دِن ایک بار پھر فکر اور تعمیر کے تمام ترمثبت امکانات کے ساتھ جلوہ گر ہے۔ اِس دن کے انتظار میں قوم نے ان گنت قربانیاں دی ہیں۔
سیاسی استحکام گزشتہ ادوار کے تناظر میں آج بلاشبہ ملک و قوم کی سب سے اہم ضرورت ہے۔ لہٰذا نئی حکومت کی با قاعدہ تشکیل تک نو منتخب اراکین اِسمبلی آج دنیا کی ترقی یافتہ جمہوریتوں میں سیاسی استحکام کا سبب بننے والے طویل سیاسی عمل کا سکون سے مطالعہ کرسکتے ہیں ۔شاید جمہوریت کا حقیقی فلسفہ اِس بار واقعتاً اِن کی سمجھ میں آ جائے۔
آج کے دن ہم یقینا ًبحیثیت قوم جمہوریت کے ارتقائی عمل میںچند قدم ہی سہی، لیکن آگے کی جانب بڑھے ہیں ۔ چند دانشوراِس نظام کو عموماً رد کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں لیکن سچ یہ ہے کہ حقیقی جمہوری نظام صرف انتخابات کے انعقاد، پولنگ اور ہر پانچ برس بعد نئی حکومت کی تشکیل تک محدود نہیں ہوتا! یہ ایک مکمل طریقہ معاشرت ہے اور اِس کا حقیقی اور مکمل نفاذ ہر فرد کے لئے روزگار، تعلیم اور صحت کے مساوی مواقع کے ساتھ ساتھ اظہار خیال کی آزادی اور مختلف نظریات، خیالات اور عقائد سے تعلق رکھنے والوں کے لئے برداشت کی روایات کے بغیر ممکن نہیں! لہٰذا یہ سفر اَبھی جاری ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین