10ستمبر2007ء کا خوشگوار دن تھا۔ جلاوطن وزیراعظم نواز شریف دل میں ہزاروں خواہشیں لئے آمریت زدہ دیس میں واپسی کے لئے پا بہ رکاب تھے۔ رفقائے کار، مصاحبین اور غیر ملکی احباب شدید خطرات سے آگاہ کر رہے تھے۔ پاکستان سے دور رہنے کی تلقین کررہے تھے ۔ ہفت کالمسٹ خوف و ہراس کے زہریلے سانپ چھوڑ رہے تھے مگر نواز شریف کا ارادہ مصمم تھا اور وہ متزلزل نہ ہوئے، دباؤ میں نہ آئے، دھمکیوں کو ٹھوکر پررکھا اور سوئے منزل رواں ہوئے۔ کاروانِ جمہوریت کا قائد اپنے جانثار اور وفادار ساتھیوں کے ہمراہ آمریت کے قلعہ کو فتح کرنے نکلا، جرأت رندانہ کا بے مثال مظاہرہ کیا۔
اسلام آباد میں دو سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے ان کے استقبال کا عہد کیا اور اےئرپورٹ پرآنے کا عندیہ بھی دیا۔ واپسی کے حق میں اخباری بیانات بھی داغ دےئے۔ کارکنوں کو حکم دیا” چلو چلو اسلام آباد چلو“ محسوس ہو رہا تھا کہ دونوں جماعتوں کے ہزاروں جوشیلے کارکنان اپنے قائدین کے حکم پر لبیک کہیں گے اورطاغوتی قوت کی رعونت خاک میں ملا دیں گے۔ مسلم لیگ(ن) کے کارکنوں کے ہمراہ نواز شریف کو جنرل مشرف کے مسلح حواریوں کے نرغے سے نکال لیں گے۔ جب جہاز کے پہیے اسلام آباد اےئرپورٹ کے رن وے سے ٹکرائے تو حیران کن طور پر دونوں امدادی اور اتحادی جماعتوں کے قائدین وکارکنان غائب تھے، دور دور تک ان کا نام ونشان موجود نہ تھا۔ صرف مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور ورکررز موجود تھے۔ ملک بھر سے آئے ہوئے یہ افراد شدید تشدد کا نشانہ بنے۔ آنسو گیس اور لاٹھی چارج کا بے تحاشہ استعمال ہوا، سیکڑوں گرفتار ہوئے اورجیلیں بھر دی گئیں۔ چادر اور چار دیواری کاتقدس پامال کیا گیا،گھروں میں بچوں اور عورتوں کو بھی ہراساں کیاگیا۔آمریت نے جمہوریت کی شمع کوگُل کردیا۔ نوازشریف کو بزورِ بندوق واپس جدہ روانہ کردیا گیا۔ امیدیں مایوسی میں بدل گئیں، عوام حیران وششدر رہ گئے۔ مگر دلوں میں آمریت کو دفن کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ جس کا اظہار18فروری2008ء کے الیکشن میں واضح طور پر ہوا۔ دھاندلی اورخوف کے باوجود عوام نے شیر پرمہر لگائی اور مسلم لیگ (ن) کو کامیاب کیا۔
سوال یہ ہے کہ اتحادی رہنما اور ان کے ساتھی کہاں چلے گئے۔ نواز شریف کو کیوں اسلام آباد کے کربلا میں تنہا چھوڑ گئے۔ قصہ ذرا دلچسپ ہے، حقائق خوفناک بھی ہیں۔ ان دو سیاسی پارٹیوں میں سے ایک کے قائد جو ملکی اور غیر ملکی مالی امداد اور فنڈز جمع کرنے کے ماہر ہیں اور اب تک اپنے ایک پروجیکٹ کے لئے اربوں روپے کے فنڈز اکٹھے کرچکے ہیں ۔موصوف8ستمبر2007ء کو دبئی میں موجود تھے۔ وہ اپنے فائیو اسٹار ہوٹل سے بذریعہ فون(telethon) اسپتال کے نام پر چندہ اکٹھا کررہے تھے۔9ستمبر2007ء کو بھی وہ دبئی کی رنگینیوں میں گم رہے۔ اسی رات انڈین فلمی ستاروں کے ہمراہ(gola dinner) میں وہ پپو سائیں کے ڈھول کی تھاپ پر محظوظ ہوتے رہے، داد دیتے رہے۔ اسی دوران فنڈز اکٹھے ہوتے رہے۔ اسی محفل میں نواز شریف کی وطن واپسی بھی زیر بحث تھی، جو اگلے روز10ستمبر2007ء کو اسلام آباد واپس آنے والے تھے۔مخبر چڑیا نے بتایا ہے کہ ”چندہ ماسٹر“ نے اس محفل میں اس بات پر ناگواری کا اظہار کیا اور کہا یہ وقت بھی آنا تھا کہ ان جیسی شخصیت کو نواز شریف کے استقبال کے لئے جانا پڑے گا(سبحان اللہ) اور پھر نہایت وثوق سے چند حاضرین وسامعین کو مطلع کیا کہ نواز شریف واپس تو آرہے ہیں مگر جنرل مشرف انہیں اگلے جہاز پر ہی جدہ واپس روانہ کردیں گے۔ان کا یہ دعویٰ درست ثابت ہوا ان کی جنرل مشرف سے دوستی کی قلعی بھی کھل گئی۔
10ستمبر2007ء کے دن نواز شریف تمام خدشات اور خطرات کو نظر انداز کرکے وطن واپس آگئے مگر اتحادی رہنما کہیں راستوں میں ہی گم ہوگئے۔ چڑیا پھر بتاتی ہے کہ ”چندہ ماسٹر“ دبئی سے لندن کے سفر پر روانہ ہوگئے اورسیاست میں اقدار کے امام کو ”مشرفی کربلا“ میں جبرواستبداد کامقابلہ کرنے کے لئے تن تنہا چھوڑ گئے۔ تاریخ دہرائی گئی ۔ موصوف نے ”کوفی کردار“ کا مظاہرہ کیا اور عین وقت پر دغا دے دیا۔ پھرجنرل مشرف نے جوظلم نوازشریف پر روا رکھا وہ تاریخ کا حصہ بن گیا ہے۔
دلچسپ اورگھناؤنی کہانی یہ ہے کہ نوازشریف کی دوبارہ جلاوطنی کے چند روز بعد ایک معروف ٹی وی اینکر نے اس رہنما سے پوچھا کہ وہ10ستمبر2007ء کو کہاں تھے۔ وعدہ کے باوجود اسلام آباد میں موجود نہ تھے۔ جواب یہ تھا کہ میرے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ نوازرشریف کو یوں زبردستی واپس جدہ روانہ کیا جائے گا کیونکہ سپریم کورٹ کا واضح حکم تھا کہ نوازشریف کو واپس آنے سے نہ روکا جائے۔ اسی لئے وہ ان کی امداد کے لیے وہاں نہ آئے۔ ایسی منافقت اورجھوٹ کسی لیڈر کے شایانِ شان نہیں۔ قوموں کی بداعمالیوں کی سزا ایسی لیڈر شپ کی صورت میں یہی ملتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان قائدین کے دل صاف نہ تھے اور وہ جانتے تھے کہ نواز شریف کی موجودگی میں نابالغ سیاسی رہنماؤں کی دکان نہیں سجے گی، سیاست ناکام ہوگی۔ اسی لئے اس دن اور آج بھی وہ نوازشریف کی وطن واپسی پر ناخوش ہیں وہ نواز شریف کو میدان سیاست میں کامیاب دیکھ کر حسدوبغض میں مبتلا ہیں ان کے دل چھوٹے ہیں اور وہ نواز شریف پر الزامات کی بوچھاڑ کر رہے ہیں، یہی عناصر ان کی ناکامی کا سبب بن رہے ہیں۔
آج شہباز شریف لاہور میں ریپیڈ بس سروس(RBS) کا عظیم الشان منصوبہ کم ترین مدت میں مکمل کرنے کے لئے دن رات کوشاں ہیں۔ یہ عام آدمی کو سفری سہولت کی فراہمی کے لئے ایک کاوش وکوشش ہے۔ پہلی بار عام آدمی کو آسائشوں اور حقوق کی فراہمی میں شریک کیا گیا۔ اس موقع پر وہی لیڈر اس منصوبے پر دُھول ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں ۔ ایسے ہی عاقبت نا اندیش افراد نے نوازشریف کے عظیم الشان منصوبے موٹروے پر تنقید کے نشتر برسائے تھے۔ الزامات اور بیانات تراشے تھے، پیالی میں طوفان اٹھائے تھے۔
مگر آج وہ سب موٹروے پر سفر کرتے ہیں اور کسی اور سڑک یاشاہراہ پر جانا پسند ہی نہیں فرماتے۔ موٹروے ملک کی بہترین شاہراہ ہے اور دنیا بھر میں ہماری شناخت کا باعث بھی ہے ۔بالکل اسی طرح ریپیڈ بس سروس(RBS) کا منصوبہ لاہور کے عوام کو بہترین سفری سہولتیں فراہم کرے گا۔ اسی کے لئے دن رات کام جاری وساری ہے۔ تبدیلی کا دعویٰ کرنے والے مختلف حیلوں بیانوں سے عوام کو بہکانے کی ناکام کوشش کررہے ہیں مگر ان کا یہ بے سُرا ساز اُس وقت ہمیشہ کے لئے خاموش ہو جائے گا جب دسمبر2012ء میں یہ منصوبہ بفضل تعالیٰ کامیابی سے ہمکنار ہوگا اور عوام اپنی آنکھوں سے دنیا کا جدید ترین نظام لاہور کی سڑکوں پر چلتا دیکھیں گے۔
عوام کا مال عوام کے لیے، عوام کے وسائل عوام کے لئے۔یہی نعرہ ہے وزیراعلیٰ شہباز شریف کا۔