• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اگر کوئی مجھے لبرل اور سیکولر کہے تو میں بلاجھجک اقبال جرم کرلوں گا۔ یہ دوسری بات ہے کہ روشن خیالی اور انسان دوستی اور جمہوری اقدار سے اپنی وابستگی کی وضاحت میں اتنی آسانی سے نہ کرسکوں۔ خاص طور پر اس وقت جب مخاطب اپنے مذہبی عقیدے کی زرہ بکتر پہن لے اور اختلاف رائے کی آزادی کی حرمت کا اسے پاس نہ ہو۔ ویسے یہ بالکل ممکن ہے کہ نظریاتی اختلافات رکھنے والے کسی موضوع یا مسئلے پر ہم خیال ہوں اور اس ہم خیالی کو اصولوں پر سمجھوتہ نہ سمجھا جائے۔یہ تمہید شاید بہت ضروری نہیں ہے۔ چلئے سیدھے موضوع کی طرف آتے ہیں۔ میں کبھی کبھی اپنی پرانی تصویروں ، خطوط اور اخباری تراشوں میں ڈبکی لگاتا ہوں۔ کئی کھوئی ہوئی باتیں ، دوست اور لمحے یاد آجاتے ہیں تو کچھ دن پہلے میں نے اپنی گزری ہوئی زندگی کے ملبے میں ہاتھ ڈالا تو ایک پرانا خط ملا۔ بیس سال سے کچھ زیادہ عرصے پہلے کا۔ یہ خط کسی نے مجھے لکھا تھا اور اب اس کی خوبصورت تحریر کچھ مدھم ہوگئی ہے۔ خط پڑھ کر حیرت بھی ہوئی اور خوشی بھی۔ یہ خط کس کا ہے، یہ جاننے کے لئے ذرا سا توقف… پہلے اس کے چند جملے ۔ ”انگریزی کے چھپے ہوئے پیڈ پر، اردو زبان میں خط لکھ کر میں آپ کے مضمون کی تائید کرنا چاہتا ہوں۔ اگر آپ کا نام مضمون کی پیشانی پر لکھا نہ ہوتا تو میں بآسانی اپنے دوستوں، ہم مشربوں اور شاید آپ کو بھی دعوت دیتا کہ میرا مضمون ، جنگ اخبار میں ضرور پڑھیں لیکن مضامین کا سرقہ تو پرانی بات ہوگئی ہے۔ آپ نے خیالات کا سرقہ شروع کردیا ہے اور میں آپ کو آپ کی اس کامیاب کوشش پر مبارک باد پیش کرتا ہوں“۔ تو یہ تو واضح ہوگیا کہ یہ خط ”جنگ“ میں میرے ایک کالم کو پڑھ کر لکھا گیا ہے۔ 1990ء میں کچھ دنوں کے لئے میں نے جنگ میں کالم لکھے تھے۔ خط کا آغاز یوں ہوتا ہے ”ابھی، چند لمحے قبل روزنامہ جنگ میں آپ کا مضمون ”انگریزی دیواریں، دروازے“ پڑھ کر فارغ ہوا ہوں اور یہ قلم اٹھایا ہے“۔ تو اب یہ بھی آپ کو معلوم ہوگیا کہ کالم کا موضوع کیا تھا۔ پاکستان میں انگریزی کا غلبہ… اور جو بات اس میں کہی ہوگی وہ وہی ہوگی جو اس سے پہلے سے میں کہتا آرہا تھا یعنی یہ کہ انگریزی ہمارے لئے کتنی ہی ضروری کیوں نہ ہو یہ ملک کی اکثریت کے راستے میں ایک دیوار بن کر کھڑی ہے۔ اب رہ گئی یہ بات کہ خط کس کا تھا جواب میں بتاؤں کہ یہ خط سید منور حسن کا تھا جو اس وقت جماعت اسلامی کراچی کے امیر تھے اور اب اپنی جماعت کے سربراہ ہیں۔
اس کالم کے ابتدائی جملوں میں جو کچھ میں نے کہا ہے اس کا مقصد صرف یہ اعتراف ہے کہ گو سیاسی اور نظریاتی محاذ پر میں جناب منور حسن سے اختلاف کروں گا اور کسی حد تک شدید اختلاف لیکن انگریزی کے راج سے ہمارا معاشرہ جن تضادات سے دوچار ہے، ان سے نبرد آزما ہونے کی ضرورت پر مجھے ان سے اتفاق ہے۔ اب سوچنے کی بات محض یہ ہے کہ ہم کیا کرسکتے ہیں۔ میں ایک صحافی ہوں۔ اپنی بات کہنے کی کوشش کرتا رہتا ہوں بیشتر انگریزی زبان میں کیونکہ اردو میں کچھ کہنے کا موقع اب ملا ہے۔ ہاں مذہبی جماعتوں اور طبقوں کا بھی ایک دبدبہ ہے اور کئی باتیں کہنے سے ڈر لگتا ہے۔ خدا کرے جمہوری روایات اور فکر کی آزادی کو اتنا فروغ حاصل ہو کہ ہم خوف کے اس شکنجے سے آزاد ہوسکیں۔ جیسا کہ میں نے کہا، یہ خط بائیس سال سے پہلے کا ہے۔ اس پر منور حسن صاحب نے اپنے دستخط کے ساتھ 16مئی 90ء کی تاریخ لکھی ہے۔ وہ کالم میرے پاس نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا وہی کالم آج بھی برمحل ہوگا۔ میرے خیال میں نہیں۔ سیاست داں مستقل ایک ہی بات یا بیان دہرا کر کام چلاتے رہتے ہیں لیکن بائیس سالوں میں صورت حال کافی تبدیل ہوئی ہے۔ ایک طرف تو اب تعلیم کی اہمیت کا شور بہت بڑھ گیا ہے۔ ایک اہم پیشرفت یہ ہے کہ اٹھارہویں ترمیم کی ایک مشق کے ذریعے، پانچ سے سولہ سال کے بچوں کے لئے لازمی اور مفت تعلیم کی ذمہ داری ریاست نے قبول کرلی ہے۔ اس پر کب اور کیسے عمل ہوگا، یہ مت سوچئے کیونکہ سوچنے سے ذہنی صحت پر اثر پڑسکتا ہے۔ زمینی حقائق جو تصویر بناتے ہیں وہ دھندلی بھی ہے اور تاریک بھی۔ سرکاری یا پیلے اسکولوں میں گرد اڑ رہی ہے۔ ہر گلی میں کسی نہ کسی پرائیویٹ انگلش میڈیم اسکول کی دکان کھلی ہے۔ کچھ ادارے انتہائی مہنگی اور ایک خاص طبقے کی مانگ پوری کرنے کے لئے اچھی تعلیم مہیا کرنے کے قابل ہوئے ہیں۔ کالجوں اور یونیورسٹیوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ یہ سب ہے اور اجتماعی ذہن پہلے سے زیادہ ناکارہ ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ اردو زبان و ادب کی پسپائی پر کوئی آنسو بہانے کو بھی تیار نہیں اور وہی انگریزی… تو کئی دہائیوں سے قائم انگلش میڈیم تعلیمی اداروں کی کاوشوں کے باوجود، انگریزی کا معیار گر گیا ہے مثلاً کتنے سرکاری افسر آپ کو ایسے ملیں گے جو اچھی اور صحیح انگریزی بول اور لکھ سکتے ہیں؟ میں اکثر یہ کہتا ہوں کہ ہم بے زبان ہوتے جارہے ہیں۔ خوفناک بات یہ ہے کہ ہماری اجتماعی تخلیقی صلاحیتیں ماند پڑگئی ہیں۔ کہیں کہیں جو آب و تاب دکھائی دیتی ہے تو وہ اس لئے کہ اتنی بڑی آبادی میں ایک بہت ، بہت چھوٹا طبقہ یا تو انگریزی میں پیدا ہوتا ہے یا انگریزی میں اس کی پرورش ہوتی ہے۔ یہ بات کہ ابتدائی تعلیم مادری زبان میں ضروری ہے، سب مانتے ہیں۔ اس بات پر بھی شاید کوئی اختلاف نہ ہو کہ اردو ہمارے ماحول کی زبان ہے اور ہمارا علمی اظہار ہے۔ اب کیونکہ انگریزی وہ دروازہ ہے جس سے گزرے بغیر عزت و احترام اور ترقی و خوشحالی کا میدان نہیں کھلتا تو تمام والدین اپنے بچوں کو انگریزی پڑھانا چاہتے ہیں۔ میں اسے ایک مذاق سمجھتا ہوں کہ پرائمری میں بھی انگریزی کو لازمی قرار دے دیا جائے۔ نہ تو استاد ہیں اور نہ ہی شاگرد ایسے ماحول میں جی رہے ہیں کہ وہ آسانی سے انگریزی سیکھ سکیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ انگریزی ان کے لئے دروازہ نہیں، دیوار بن جاتی ہے۔
میں یہ مانتا ہوں کہ اردو ، انگریزی کا ذریعہ تعلیم کا اور علاقائی زبانوں کا مسئلہ اب بہت گمبھیر ہوگیا ہے اور ہم شروع ہی سے اہم فیصلوں کو ٹالتے رہے ہیں۔ اس جان لیوا تذبذب کا خمیازہ ہم بھگت رہے ہیں اور اگر اب بھی حکمراں طبقہ زبان اور تعلیم کے مسئلے کو حکمت اور دانائی اور جرأت سے حل کرنے کی کوشش نہیں کرے گا تو خدا نہ کرے، کچھ بھی باقی نہ بچے گا۔یہ تصور یقینا دہشت ناک ہے لیکن میں یہ اس لئے کہہ رہا ہوں کہ پاکستان کی موجودہ صورت حال میں، جو ویسے ہی عدم برداشت اور انتہا پسندی کے عذاب میں مبتلا ہے، غریبوں اور مقتدر طبقوں میں عدم مساوات کے نتائج مہلک ثابت ہوسکتے ہیں۔ انگریزی ، اونچے طبقے کے لئے ایک ہتھیار ہے جسے وہ اپنے مفاد کے لئے استعمال کررہا ہے۔ عام لوگوں کے لئے یہ دروازہ بند ہے۔ یہ کیسی ناانصافی ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ تعلیم ہی وہ واحد راستہ ہے جس پر چل کر افتادگان خاک اپنی ذلت اور اپنی مفلسی سے چھٹکارا حاصل کرسکتے ہیں۔ تعلیم ہی تمام انسانوں کے برابر ہونے کا جواز فراہم کرتی ہے۔ انگریزی ایک اہم زبان ہے اس میں موجود علم کا خزانہ بے پایاں ہے۔ یہ ایک ثانوی یا دوسری زبان کی حیثیت سے لازمی سمجھی جاسکتی ہے لیکن دوسری زبان تو تب ہوگی جب کوئی پہلی زبان بھی ہو۔ میں نے اس موضوع پر بہت اپنا دل دکھایا ہے۔ بہت سے ملکوں میں ان سوالوں کے جواب تلاش کئے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے ملکوں کی، جن کی آبادی کراچی کے ایک دو محلوں کے برابر ہو، اپنی الگ زبان ہوتی ہے اور وہ اقوام عالم کی صف میں سر اٹھا کر کھڑے ہوتے ہیں۔ بھارت کی مثال دی جاتی ہے لیکن وہاں علم اور تخلیق کی آبیاری، علاقائی زبانوں کی توانائی سے کی جاتی ہے۔ ویسے یہ میں مانتا ہوں کہ زبان کا مسئلہ ہمارے لئے زیادہ پیچیدہ ہے لیکن اس کو اس طرح حل ہونا چاہئے کہ غریب اور محروم عوام کی حق تلفی نہ ہو۔ انگریزی کو پورے تعلیمی نظام پر مسلط کرکے ہم عوام کی ذہنی صلاحیتوں کو بیدار نہیں کرسکتے۔ مجھے نہیں معلوم کہ ہمارے منور حسن تعلیم سے منسلک ان پیچیدہ معاملات میں کہاں کہاں میرے ہم خیال رہیں گے اور کس نکتے پر کب اختلاف ہوگا۔ ملالہ کا ذکر اس وقت شاید مناسب نہ ہو لیکن ہم اس بات پر تو اتفاق کرتے ہیں کہ انگریزی صرف دروازہ نہیں، دیوار بھی ہے۔ میں ایک اور استعارہ بھی استعمال کرتا ہوں۔ یہ کہ انگریزی ہمارے سر کا تاج بھی ہے اور ہمارے پاؤں کی زنجیر بھی… اور تاج میں کتنے ہی ہیرے جڑے ہوں، پاؤں کی زنجیر ہمیں چلنے نہیں دے گی۔
تازہ ترین