• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عالم گیر حِدت اور انسان کا مستقبل

صادقہ خان

دنیا کے مختلف خِطّوں کی طرح اس برس یورپ اور امریکابھی شدید گرمی کی لہر کی لپیٹ میں ہیں اور گذشتہ ماہ گرمی کی شدید لہر کے باعث مشرقی کینیڈا میں 70 سے زائد اموات ریکارڈ کی گئیں اور اگلے چند ماہ میں کینیڈا سمیت یورپ کے بیشتر علاقوں میں اس طرح کی شدید گرمی کی مزید نئی لہریں متوقع ہیں ۔ اس تیزی سے بڑھتے ہوئے ہولناک درجۂ حرارت نے عام افراد سے لے کر سائنسدانوں تک کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ اگر یہ درجۂ حرارت اسی طرح بڑھتا رہا تو حالیہ ماہ میں گرمی سے ہونے والی اموات کی شرح میںبے پناہ اضافہ ہو جائے گااور ایک اندازے کے مطابق اس صدی کے اواخر تک یہ 2 ہزار فی صد تک بھی بڑھ سکتاہے۔

کسی بھی علاقے میں اچانک یا متواتر درجۂ حرارت میں اضافے سے سب سے پہلےموسمیاتی تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں ۔ مثلا ًبار شو ں کی قلت یا حد سے زیادہ بارشیں جو عموماً اچانک اور بے موسم ہوتی ہیں اور بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان کا سبب بھی بنتی ہیں ۔ اس کے علاوہ دنیا کے بیشتر خطوں میں گلو بل وارمنگ کی بدولت طویل المدت خشک سالی اب ایک معمول بنتی جا رہی ہے ،کیوں کہ درجۂ حرارت بڑھنے سے عمل ِ تبخیر بڑھتا ہے ،جس کی وجہ سے سب سے پہلے اس علاقے کے آبی ذخائر خشک ہونا شروع ہوجاتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان سمیت دنیا بھر کی جھیلوں ، نہر وں اور دریا ؤںمیں پانی کی سطح میں گزشتہ ایک دہائی کے دوران نمایاں کمی ہوئی ہے اور کئی نایاب جھیلیں اور نہریں تباہی کے آخری دہانے پر ہیں ۔

اب اگر کسی علاقےمیں پینے کے صاف پانی کی قلت ہو تو وہاں کے باشندے اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے ان ذرائع کو استعمال کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں ،جن کا پانی گندا ،جراثیم زدہ اور صحت کے لیے نقصان دہ ہے ۔ پاکستان میں سندھ، پنجاب اور بلوچستان کے زیادہ تر دیہی علاقوں میں بارشوں کی کمی کی وجہ سے لوگ جوہڑ ، تالابوں یا کنوؤں سے پانی حاصل کرتے ہیں جن کا پانی صاف نہیں ہوتا اور یوں وبائی امراض پھوٹنے سے اموات کی شرح اکثر اوقات خطرناک حد تک بھی پہنچ جاتی ہے۔وبائی امراض کے بعد گلوبل وارمنگ اور موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث پیدا ہونے والا ایک اور بڑا مسئلہ اسموگ ہے یہ اصطلاح دراصل اسموک ( دھواں ) اور اور فوگ ( دھند ) کو ملا کر تخلیق کی گئی ہے ۔ 

دنیا بھر میں اکیسویں صدی کے اوائل سے موسم ِ سرما اور گرما میں شدید اسموگ نوٹ کی جارہی ہے ۔ یہ بات قابل ِ ذکرہے کہ ا سموگ شدید حبس یا دھند کے باعث اس وقت پیدا ہوتا ہے جب فضا میں موجود دھواں ، گرد و غبار اور آلودگی پیدا کرنے والی گیسیں جیسے سلفر آکسائیڈ، نائٹروجن آکسائیڈ اور زون ایک دوسرے کےساتھ مل کر ایسی فضائی آلودگی پیدا کرتے ہیں ،جس کی وجہ سے محض چند میٹر کے فاصلے پر دیکھنا بھی ممکن نہیں رہتا۔ اس سے سانس اور دمے کے امراض ، آنکھوں میں سوزش ، سر درد اور چکر آنے کی شکایات عام ہیں اور اگر کسی علاقے میں لمبے عرصے تک گہرے اسموگ کی چادر چھائی رہے تو اس سے وہاں بڑے پیمانے پر موسمیاتی تبدیلیاں بھی رونما ہوتی ہیں ۔ بھارت و پاکستان سمیت دنیا کے مختلف ممالک کے خطوں میں اسموگ سے ٹریفک حادثات اور دیگر امراض کے باعث بڑی تعداد میں اموات ہو چکی ہیں ۔

کینیڈا سے تعلق رکھنے والی سائنسدانوں کی ایک ٹیم نے 1984 سے 2016 تک دنیا بھر میں گلوبل وارمنگ اور موسمیاتی تبدیلیوں سے ہو نے والی اموات کا ایک ڈیٹا بیس تیار کیا ہے ،جس میں ہر برس ایک مخصوص خطے میں درجۂ حرارت میں اضا فے اور اس کے سبب ہو نے والی اموات کا ریکارڈ شامل کیا گیا ہے ۔اس تحقیق کے مطابق دنیا بھر میں بیسویں صدی کی نسبت اکیسویں صدی میں نہ صرف درجۂ حرارت تیزی سے بڑھا ہے بلکہ اس کے باعث ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں سے شرح ِ اموات میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ۔

متعدد امریکی ریا ستو ں سمیت سمندروں کے نزدیک واقع دیگر علاقوں میں ہر برس موسم گرما میں سمندری طوفان اب معمول بن گئے ہیں اور بیشتر علاقے جولائی سے ستمبر تک ان طوفانوں کی زد میں رہنے کے باعث بالکل بھی محفوظ نہیں رہے ۔ علاوہ ازیں امریکی ر یاستوں میں ہر برس موسم ِ گرما میں آ نے والے ٹورناڈو یا گرد و غبار کے طوفان بھی بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان کا سبب بنتے جارہےہیں ، یہ اس حوالے سے بھی زیادہ خطرناک ہوتے ہیں کہ سمندری طو فانوں کی طرح عموماً ان کی پہلے سے پیش گوئی کرنا ممکن نہیں ہوتی اور یہ اچا نک ہی نمودار ہو کر پورے علاقے کو تباہ وبرباد کردیتے ہیں ۔

کینیڈین ماہرین کی تحقیق کے مطابق یور پ اور امر یکا کی ریاستوں میں ہونے والا یہ جانی نقصان 2080 تک تیس گنا بڑھ چکا ہوگا ،جب کہ دنیا کے دیگر خطے جیسے برا ز یل ، فلیپائن اور اطراف کے ممالک میںیہ شرح 10 سے 20 فی صد ہی بڑھے گی، کیوں کہ ابھی تک یہ علاقے شدید مو سمیاتی تبدیلیوں اور بلند درجۂ حرارت کی زد میں نہیں آ ئے ہیں ۔ جب کہ آسٹریلیا میں اموات 4 فی صد تک بڑ ھنے کا امکان ہے۔ واضح رہے کہ یہ خطے سائنسی ترقی اور ٹیکنالو جی میں ایشیائی و افریقی ممالک سے کہیں آگے ہیں اور یہاں کی حکومتوں کا سارا زور جانی نقصان کو روکنے پر ہو تاہے، جب کہ ایشیائی ممالک میں محض مون سون کی شدیدبارشوں اور سیلاب سے ہی ہزاروں کی تعداد میں لوگ مر جاتے ہیں ۔ جن میں سیلاب کے بعد پھوٹنے والی وبائی امراض بنیادی کردار ادا کرتے ہیں ۔ دنیا بھر کے میدانی علاقوں میں آباد تقریباً 4 سو ملین افراد نے اس برس شدید ترین موسم ِ گرما کا سامنا کیا ہے اور گرمی کی ہر نئی لہر کے ساتھ اموات کی خبریں آئے روز میڈیا کا مرکز بن رہی ہیں، مگر ان تمام نقصانات کے باوجود ہم ابھی تک مستقبل میں 2018 والی صورتحال سے بچنے کے لیے مناسب اقدامات و حفاظتی تدابیر کرنے سے قاصر ہیں ۔

وقت کی ضرورت یہ ہے کہ بڑھتے ہوئے درجۂ حرارت اور موسمیا تی تبدلیوں پر قابو پانے کے لیے پیرس ایکٹ کے مطابق اپنی، اپنی فضائی حدود میں گرین ہاؤس گیسوں میں کمی کے لیے فوری طور پراقدامات کریں ۔ اگرچہ یہ مضر ِ صحت آلودہ گیسیں ہماری فضا میں کچھ اس طرح سے سرائیت کرچکی ہیں کہ ان پر چند برسوں میں قابو پانا کسی صورت بھی ممکن نہیں ہے ،اس کے لیے ایک مکمل پلاننگ ،فریم ورک اور طویل الدت پالیسیز کی ضرورت ہے، جس میں مقا می افراد کو بھی حصہ لینا ہوگا اور ایسے طرز ِ زندگی کو ترجیح دینی ہوگی، جس سے درجۂ حرارت بڑھنے کے بجائے کم ہو، پانی دیکھ بھال کے استعمال کیا جائے اور بارشوں کی قلت کے باعث اپنی ضروریات کو محدود کیا جائے، تاکہ مستقبل میں پانی کے کسی المیے سے بچا جا سکے۔ 

جنگلات کو بے دریغ کاٹ کر ہم نے اپنے ایک ایسے قدرتی دوست کو کھو دیا ہے جو ناصرف بڑھتے درجۂ حرارت اور آلودگی کو رو کنے کا سبب بنتے تھے بلکہ سیلاب اور دیگر قدرتی آفات میں بھی انسان کی حفاظت کا ضامن بنتے رہے ہیں ۔ لہذا ٰاب مشترکہ جدوجہد سے اپنے علاقوں میں شجر کاری کی مہم شروع کرنا ہوں گی، جس سے یقیناًمقامی بلنددرجۂ حرارت میں نمایاں کمی واقع ہوگی۔گلوبل وارمنگ کے لیےموثر پالیسیز بنا نا بے شک سائنسدانوں اور مقامی حکومتوں کا کام ہے، مگر جب تک ہر شخص انفرادی طور پر ان کوششوں میں حصہ نہیں لے گا رواں سال پڑنے والی شدید گرمی آکر ہمیں جھلساتی رہے گی اور یقیناً مستقبل میں شر ح اموات اس برس سے کہیں زیادہ ہوگی۔

تازہ ترین
تازہ ترین