• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اے نگارِ وطن تُو سلامت رہے . . .

تحریر: نرجس ملک

مہمانانِ گرامی: مریم، ندا، فاطمہ، وقاص

ملبوسات: شاہ پوش

آرایش: شہلا بائے لش بیوٹی سیلون

عکّاسی: عرفان نجمی

لے آؤٹ: نوید رشید

گرچہ ’’نئے پاکستان‘‘ کی بنیاد کے دعوے تو پچھلے 7,5 برس سے مسلسل کیے جارہے ہیں۔ اِس سوچ، عنوان کے تحت لگائے جانے والے نعرے، دہرائے جانے والے وعدے بھی بڑے خوش کُن، رنگا رنگ، خُوش آئند ہیں۔ ایسی جادو بیانی، پُرفریب، سحر آگیں باتوں کے جال، رنگین و دل نشین عہدو پیماں کہ الفاظ کی شیرینی کانوں میں اُترتےہی رس گھولنے لگتی ہے۔ آنکھیں، تصوّر کے حقیقت میں ڈھل جانے کے خیال ہی سے مُسکرانے، جگمگانے لگتی ہیں، تعبیر کی خوشی پلکیں بوجھل کیے دیتی ہے، مگر خاص طور پر الیکشن 2018ء کی تیاری و انعقاد کے دِنوں میں تو (ویسے تاحال بھی یہی حال ہے) اس نئے، پُرانے پاکستان کی بحث و تکرار کچھ اس شدّومد کے ساتھ جاری رہی کہ پاکستانی قوم باقاعدہ دو گروہوں میں بَٹی محسوس ہوئی۔ ایک گروہ وہ، جو نئے پاکستان کا داعی، کھلاڑی ہے۔ نت نئے سپنے، خواب بُن ہی نہیں رہا، دِکھا بھی رہا ہے۔ روشن خیالی، تعمیر و ترقی، تعلیم و صحت اور مساوات و اصلاحات کے بل بُوتے پر آزادی کے 70سال بعد، ایک بار پھر آزادی چاہتا ہے، اور کسی اور سے نہیں، خود پُرانے پاکستان سے۔ 

اے نگارِ وطن تُو سلامت رہے . . .

جب کہ دوسرا گروہ وہ ہے، جو پُرانے پاکستان (قائدِ اعظم اور علاّمہ اقبال کا پاکستان) اسلامی جمہوریۂ پاکستان ہی کا دعوے دار، پرستار ہے۔ اپنی سادگی و صداقت پر نازاں، اپنی اُجلی تہذیب، خالص اقدار و روایات کا امین و پاس دار۔ اپنے اصل، جَڑوں سے جُڑا ہوا، جو پاکستان کو اپنے قدموں پر کھڑا، عظیم اور باعزّت قوموں کی فہرست میں شامل تو دیکھناچاہتاہے، مگر قائداعظم ہی کے پاکستان کو۔ اور اپنے پُرانے پاکستان کی قیمت پر، کسی نئے پاکستان کی خرید و فروخت پہ ہرگز آمادہ نہیں۔

اے نگارِ وطن تُو سلامت رہے . . .

اِسی پُرانے، نئے پاکستان کی مسلسل تکرار و گردان میں بہرحال، اسلامی جمہوریہ پاکستان کی 70ویں سال گرہ (71واں یومِ آزادی) منانے کی تیاریاں آخری مراحل تک آپہنچی ہیں۔ پچھلے کئی برسوں کی طرح امسال بھی نوجوان نسل اور بچّوں کا جوش و خروش، جذبہ و جنوں دیدنی ہے۔ کوئی نئے پاکستان کا خواہاں ہو یا پُرانے پاکستان میں خوش، ایک بات تو طے ہے کہ ماہِ اگست کے آغاز ہی سے جو گھروں، عمارتوں، گاڑیوں کی چھتوں پر سبزہلالی پرچم لہراتے، برقی قُمقمے جگمگاتے، سبز و سفید جھنڈیاں لہراتی، فضائوں میں غبارے، کبوتر اُڑتے پھرتے، شمعیں، چراغ، دِیے جھلملاتے نظر آتے ہیں اور سب سے بڑھ کر چہار اطراف روح پرور مِلّی نغموں کی جو صدائیں گونجتی ہیں۔ تحریکِ پاکستان، قیامِ پاکستان اور تعمیرِ پاکستان کے سب قصّے کہانیاں، باتیں، حکایتیں دہرائی جاتی ہیں، تو یہ سب مناظر بڑے طمانیت بخش، فرحت انگیز، مسّرت آگیں معلوم ہوتے ہیں۔ یک سر پورے مُلک کی آب و ہوا جو بدلی بدلی معلوم ہوتی ہے، تو موسم کی نرمی، سختی تک بھول جاتی ہے۔ 

اے نگارِ وطن تُو سلامت رہے . . .

اگست میں مارچ (موسمِ بہار) کا سا احساس ہونے لگتا ہے۔ ہر سُو سبز و سفید رنگ کے ریلے، لہریں بہریں آنکھوں ہی کو طراوت نہیں بخشتیں، روح تک شانت کردیتی ہیں۔ کہیں پڑھا، ’’مجھے کبھی اپنے اِس ترقی پزیر، فرسودہ معاشرے، گندے، ٹوٹی پھوٹی سڑکوں والے مُلک کا شہری ہونے پر شرمندگی نہیں ہوئی۔ شاید اِس وجہ سے کہ مَیں نے کبھی اِس کے مسائل میں اضافہ نہیں کیا۔ میں نے ہمیشہ اِسے اپنے پاس موجود بہترین شے ہی دینے کی کوشش کی اور اِس بات کوہر کوئی نہیں سمجھ سکتا۔‘‘ پھر یہ پڑھا، ’’آج اگر آپ سے آپ کا گھر چھین لیا جائے اور پھر آپ لڑجھگڑ کر، خون کے نذرانے دے کر اس گھر کو واپس لیں، تو پھر آپ کو اپنا یہ ٹوٹا پھوٹا، گیا گزرا گھر بھی کسی جنّت سے کم نہیں لگے گا۔ آپ کسی کو اپنی دیوار پر ہاتھ نہیں رکھنے دیں گے، کُجا کہ اندر گھس آنے دیں۔‘‘ دونوں اقتباسات پڑھ کے یوں لگا، جیسے اپنے دل کی بات، کسی اور کی زبان سے سُن لی ہو۔ بہ خدا، ہم جو ہنوز ’’پُرانے پاکستان‘‘ ہی کے شیدائی ہیں، ہم نے بھی جب سے ہوش سنبھالا ہے، اِس پاک دھرتی کو اپنا ’’بہترین‘‘ ہی دینے کی کوشش کی۔ اپنے تئیں ہر ممکن سعی کی کہ خود کو اور اپنے اطراف کو جس قدر صاف و شفّاف رکھ سکتے ہیں، ضرور رکھیں۔ 

اے نگارِ وطن تُو سلامت رہے . . .

ہمیں بھی اِس کی سیلن زدہ چھت،ٹوٹے پھوٹے فرش، پلستر اُکھڑی دیواروں، بوسیدہ کِواڑوں، ٹوٹے شیشوں والی کھڑکیوں، روشن دانوں کو دیکھ کر کبھی کوئی ندامت و شرمندگی محسوس نہیں ہوتی (ہاں، مرمّت کی خواہش رکھتے، سنوار کی دُعا ضرور کرتے ہیں) کہ بہرحال جو بھی کچھ ہے ’’گھر تو آخر اپنا ہے‘‘۔ اسی طرح ’’میرے وطن‘‘ کے عنوان سے ایک نظم بھی پڑھی، جو بہت حد تک اپنے ہی دل کی آواز معلوم ہوئی کہ ؎ تِری طلب، تِری خوشبو، تِرا نمو بولے.....مِرے وطن، مِری رگ رگ میں صرف تُوبولے.....نفس نفس میں، مِرے سانس کی گواہی دے.....تِرے بدن میں مِرا دل، مِرا لہو بولے.....صدا کی لہریں، ہم اِک دوسرے کے گرد بُنیں.....مَیں قریہ قریہ پکاروں، تُو کُو بہ کُو بولے.....مَیں حرف حرف سجالوں صحیفٔہ دل پر.....تُوبرگ برگ سرِ شاخِ آرزو بولے.....وہ دن بھی آئے لکھوں، شش جہت میں تِرا نام.....تِرا عَلم، تِری سج دھن بھی چار سُو بولے.....وہ دن بھی آئے کہ مہکے تِرا گلاب شباب.....چمن چمن تِرا طرزِ رنگ و بُو بولے.....وہ دن بھی آئے کہ تیرا لکھا امَر ٹھہرے.....جو تُو کہے تو وہ دنیا بھی کُو بہ کُو بولے.....نشانِ حُرمت و تقدیس تیرے نام سے ہے.....کوئی بھی بولنا چاہے، تو باوضو بولے.....مِرے وطن سرِ مِنار نور تابہ ابد..... تُوچاند بن کر اندھیرے کے رُو بہ رُو بولے.....خموش کیوں ہے، یہ مسکن قلندروں کا میاں.....کوئی تو وجد میں آئے، کوئی تو ہُو بولے۔

اے نگارِ وطن تُو سلامت رہے . . .

سچ کہیں تو ہمارا تو یہی ماننا ہے کہ مسکن قلندروں ہی کا رہنا چاہیے کہ بہ قول اقبال ؎ نہ تخت و تاج مَیں، نَے لشکر و سپاہ میں ہے.....جو بات مردِ قلندرکی بارگاہ میں ہے۔ جدیدیت، رنگینیت، روشن خیالی، آزاد رَوی نہ ہمیں جچتی ہے اور نہ کچھ خاص راس آتی ہے۔ ایک سابقہ ’’مردِ آہن‘‘ کے دَور میں یہی لفظ ’’روشن خیالی‘‘ سیاسی ڈکشنری کا حصّہ بن کر بہت معروف ہونے کے بعد بے حد بدنام بھی ہوچکا۔ ہاں، قلندروں کے مسکن میں سکوت و جمود نہیں رہنا چاہیے۔ نعرئہ مستانہ بلند ہوتا رہے۔ ہم میں سے ہر ایک، اِسی پُرانے پاکستان میں رہتے ہوئے اگر صرف یہ عہد کرلے کہ آج سے پوری دیانت داری، ایمان داری، اخلاص و وفا اور جذبۂ ایثار و قربانی کے ساتھ اپنے وطن کی خدمت پر مامور رہے گا، تو کوئی وجہ نہیں کہ اقبال کا خواب، قائد کی تعبیر، ہمارا پیارا پاکستان، اسلامی جمہوریہ پاکستان چند برسوں میں دنیا کے نقشے پر اپنے چمکتے دمکتے، خوب روشن و رخشاں چاند تارے کے ساتھ بہت نمایاں و ممتاز نظر نہ آئے۔ ’’عیدِ آزادی‘‘ کی مناسبت سے، اس چھوٹی سی بزم کی صُورت، یہ اِک چھوٹا سا نذرانہ اِس دُعا کے ساتھ قبول کیجیے کہ ؎ اے نگارِ وطن تُو سلامت رہے، اے نگارِ وطن تُو سلامت رہے.....مانگ تیری ستاروں سے بھر دیں گےہم، تُو سلامت رہے، تُو سلامت رہے.....ہوسکی نہ تِرے رُخ پہ قرباں اگر اور کس کام آئے گی زندگی.....اپنے خوں سے بڑھاتے رہیں گے سدا، تیرے گل رنگ چہرے کی تابندگی.....جب تجھے روشنی کی ضرورت پڑی، اپنی محفل کے شمس و قمر دیں گے ہم..... تُو سلامت رہے، اے نگارِ وطن تُو سلامت رہے.....امن و انصاف کی برتری کے لیے، جنگ کرتے رہیں گے ہم اہلِ قلم.....سُرخیاں جتنی آئیں گی تاریخ میں، ہم انہیں خونِ دل سے کریں گے رقم.....اپنی رفتارِ تاب و تواں کی قسم، ذوقِ پرواز کو بال و پَر دیں گے ہم..... تُو سلامت رہے، اے نگارِ وطن تُو سلامت رہے۔

تازہ ترین
تازہ ترین