• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
زندگی انمول نعمت، قدر کیجیے

  زندگی کواپنے ارادے سے اور اپنے ہاتھوں ختم کرناکتناخوفناک ہے ! تشدد کی انتہائی سنگین شکل ، بھیانک احساس اور تکلیف دہ عمل۔۔۔خودکشی ہے،کیا کیفیت ہے وہ، جسے انسان خود اپنے اوپر طاری کر کے اپنے ہی ہاتھ سے اپنی جان لے لیتا ہے۔ کسی نے زہر کا پیالہ پیا تو کوئی پھندے سے لٹک گیا،کسی نے خود کو گولی ماری تو کوئی اپنی ہی لگائی آگ میں جل گیا۔۔۔تاریخ بے نام ہی نہیں، نامور لوگوں سے بھی بھری پڑی ہے جنہوں نے اپنے ہی ہاتھوں سے زندگی کا قتل کیا۔شاعر ثروت حسین نے کہا تھا۔۔۔موت کے درندے میں اک کشش تو ہے ثروت۔۔لوگ کچھ بھی کہتے ہوں خودکشی کے بارے میں۔۔۔کہا جاتا ہے کہ خودکشی انتہائی بزدلانہ فعل ہے مگر کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اپنی جان لینا خاصامشکل کام ہے اور یہ بہادر ہی کر سکتے ہیں۔ذہنی بیماری (خودکشی ) کی ایک بڑی وجہ ڈپریشن ہے جس میں انسان خود کو بے بس اور بے یار و مددگار سمجھنے لگتا ہے ۔اسے محسوس ہوتا ہے کہ اب بہتری کی کوئی امید باقی نہیں رہی، تو مایوسی میں وہ اپنی زندگی ختم کرلیتا ہے۔جاپان میں خودکشی کو ایک مقدس اور بہادرانہ فعل سمجھا جاتا ہے اور لوگ ذرا ذرا سی بات پرہتک عزت، کاروبار میںنقصان اور عشق میں ناکامی پر اپنی جان ضائع کردیتے ہیں۔آخر کیا اسباب ہیں کہ انسان جینے کے ہاتھوں تنگ آکر ایسا کرلیتا ہے اور کون سے محرکات اْسے ایسا کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں کہ وہ غیرفطرتی طریقے سے موت کوگلے لگادیتا ہے۔ اس انتہائی قدم سے کیسے بچنا ممکن ہے۔؟اسی تناظر میں یہ رپورٹ پیش خدمت ہے۔

خودکشیوں کی تعداد ، تلخ اعدادوشمار

سالانہ دس لاکھ،ہر 40 سیکنڈ میں ایک خودکشی ،عالمی ادارہ صحت

عالمی ادارہ صحت کے اندازے کے مطابق ہر سال تقریبًا دس لاکھ افراد خودکشی کر لیتے ہیں، یوں ہر 40 سیکنڈ میں ایک انسان اپنی زندگی کا خاتمہ اپنے ہاتھوں سے کر رہاہے۔ ہر تین سیکنڈ بعد ایک شخص خودکشی کی ناکام کوشش کرتا ہے، خودکشی کے ہر کیس میں کم سے کم 20 بار جان لینے کی ناکام کوشش کی جاتی ہے جب کہ خودکشی کی کوشش میں ہر چالیس افراد میں سے ایک کی موت ہو جاتی ہے ۔دنیا بھر میں خودکشی سے اموات کی تعداد جنگوں اور قتل کی مجمو عی ہلاکتوں سے زیادہ ہے۔ دنیا میں ہلاکت کی تیرہویں بڑی وجہ خودکشی کو قرار دیا جاتا ہے۔ جنوب مشرقی ایشیا میں نوعمر(ٹین ایجز ) میں موت کی پہلی وجہ خودکشی بن چکی ہے،یہاں ہر چھ میں سے ایک لڑکی خودکشی کرتی ہے۔ جنوب مشرقی ایشیا میںدس لاکھ کی آبادی میں 25 افراد جب کہ افریقا میںدس لاکھ میں نو افراد خودکشی کرتے ہیں۔دنیا بھر میں خودکشی کرنے والوں میں سے ایک تہائی کا تعلق کم آمدن والے طبقے سے ہے۔

ترقی یافتہ ممالک میں جنوبی کوریا خودکشیوں میں سرفہرست،جاپان میں خودکشی وقار کی علامت، ٹیکنالوجی نے حالات بدتر بنا دیے

ترقی یافتہ ممالک میں خودکشی کی بلند ترین شرح کے حوالے سے سرفہرست جنوبی کوریا ہے۔ تاہم جاپان میںخودکشی کی شرح برطانیہ کے مقابلے میں تین گنا زیادہ ہے۔جاپان میں اوسطاً یومیہ 58 افراد خودکشی کی کوشش کرتے ہیں ۔ یہاں خود کشی کئی صدیوں سے معاشرتی وقار کے ساتھ نتھی کی جاتی رہی، تاہم اب اس رویے میں مسلسل کمی دیکھی جا رہی ہے۔جاپان میں خودکشی کو ’ہارکیری یاSeppuku کا نام دیا جاتا ہے۔ قدیمی عسکری رویے کے مطابق کسی بھی ناکامی کی صورت میں خودکشی سے مرنا وقار کی ایک علامت ہے۔ جاپان میں1998 سے لے کر 2011 کے درمیان ہر سال30 ہزار سے زائد افراد نے خودکشی کا ارتکاب کیا تھا۔تاہم گزشتہ آٹھ برسوں سے خودکشی میں کمی کا سلسلہ جاری ہے۔ ماہر نفسیات کے مطابق جاپان میں خودکشی کی بڑی وجہ ڈپریشن اور تنہائی ہے۔جاپانی معاشرہ اصولوں میں جکڑا ہے۔ نوجوانوں کو ایک چھوٹے سے ڈبے میں بند ہونے کے لیے قائل کیا جاتا ہے۔ ان کے پاس اپنے جذبات کے اظہار کا کوئی راستہ نہیں ہے۔اگر وہ اپنے باس کی جانب سے دباؤ کا شکار محسوس کریں یا ڈپریشن کا شکار ہو جائیں تو کئی افراد مرنے کو ہی واحد راستہ سمجھتے ہیں۔ ٹیکنالوجی نے حالات مزید بدتر بنا دیے ہیں۔ ایک سروے کے مطابق 25 سے 29 سال کے درمیان 20 فیصد مردوں کو جنسی تعلقات قائم کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ۔ جاپان میںدماغی مرض کو تاحا ل ممنوعہ سمجھا جاتا ہے۔ ڈپریشن کے بارے میں شعور بہت کم ہے جو ان علامات کا شکار ہیں وہ اس پربات کرنے سے بھی ڈرتے ہیں۔ ماہرین نفسیات کا فقدان ہے۔ مریض کی کونسلنگ نہیں کی جاتی۔

بھارت : سالانہ اوسطاًایک لاکھ35ہزارافراد کی خودکشی،60ہزار کسان اپنی جان لے چکے

بھارت میں خودکشی کے حوالے سے اعدادوشمار مختلف ہیں، تاہم اوسطاًایک لاکھ35ہزارافرادسالانہ خودکشی کرتے ہیں۔جریدے لانسٹ کے مطابق 2010میں ایک لاکھ87 ہزارافراد نے اپنی جان اپنے ہاتھوں سے ختم کی جب کہ اسی سال کے سرکاری اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ ایک لاکھ34ہزار6 سوافراد نے خودکشی کی۔ عالمی ادارئہ صحت کی2012کی رپورٹ کے مطابق بھارت میں خودکشی کا تناسب ایک لاکھ مردوں میں25عشاریہ8 جب کہ خواتین میں ایک لاکھ میں16عشاریہ4 ہے۔1987سے2007کے عرصے کے دوران خودکشی کے واقعات میں اضافہ ہوا ۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے مطابق 2011 میں 135585، 2012 میں135445 ، 2013میں 134799، 2014میں 131661، 2015 میں 133623لوگوں نے خودکشی کی۔ برطانوی اخبار گارجین کے مطابق بھارت میں گزشتہ تین دہائیوں میں60ہزار کسانوں نے خودکشی کی۔ یاد رہے کہ بھارت دماغی صحت کے شعبے میں بنگلہ دیش سے بھی کم خرچ کرتا ہے۔

ایران:یومیہ تیرہ افراد کی خودکشی،ایوان شہر دنیا میں سرفہرست، بچوں میں خودکشی عام

ایران میں یومیہ تیرہ افراد خودکشی کرتے ہیں، اگست 2014 کی رپورٹ کے مطابق ایران میں خودکشی کے واقعات میں 13 فیصد اضافہ ہوا ۔یو ں ایران میں ایک لاکھ افراد کی آبادی میں چھ افراد کی خودکشی کا تناسب ہے۔ ایران میںخودکشی کے لیے کرم کش ادویات بڑے پیمانے پر استعمال کی جاتی ہیں۔چھ سال میں کرم کش ادویات سے 2000 افراد نے خود کشی کی ۔

ایرانی شہر’’ ایوان ‘‘خودکشی کے وسیع رجحان کے سبب دنیا بھر میں مشہور ہے،یہ کرد شہرایران کے مغربی صوبے عیلام میں واقع ہے ، خود کشی کے واقعات کے لحاظ سے ایران اور دنیا بھر میں اس شہر کو سرفہرست رکھا گیا ۔جہاں خود کشی کرنے والے افراد کی تعداد شہر کی ایک تہائی آبادی کے برابر ہے۔یہاںخودکشی کے پیچھے غربت ، بے روزگاری اور تشدد اہم عوامل ہیں۔

ایران میں بچوں کی خودکشی کا رجحان بھی تشویش حد تک پہنچ چکا ہے۔ ایران میں بچوں میں خودکشی کی بڑھتی ہوئی تعداد کی وجوہات میںتشدد، دباؤ، تعلیم میں جبر، زبردستی شادی، اعلانیہ پھانسیوں کے مناظر، دولت کی غیر منصفانہ تقسیم شامل ہیں۔

پاکستان : سالانہ پندرہ ہزارخودکشیاں،تقریباً تین لاکھ افراد خودکشی کی طرف مائل

پاکستان میںخودکشی کے حوالے سے کوئی مستند اعدادوشمار نہیں اور نہ ہی عالمی ادارہ صحت کے ساتھ پاکستان خودکشی کے اعداد وشمار کا تبادلہ کرتاہے۔اس موضوع پریہاں تحقیق نہ ہونے کے برابر ہے۔غیر سرکاری ادارے جن اعدادو شمار کا حوالہ دیتے ہیں وہ میڈیا میں رپورٹ ہوئے واقعات کی بنیاد ہیں جب کہ اصل اعدادوشمار اس سے کہیں زیادہ ہیں کیونکہ خودکشی کے بہت سے واقعات بدنامی اور دیگر وجوہ کی بنا پر منظر عام پر نہیں آتے۔خودکشی سے بچاؤ کی عالمی تنظیم کے پہلے پاکستانی اور ایشیائی صدر پروفیسر مراد موسیٰ خان کے ایک بیان کے مطابق پاکستان میں ہر سال پندرہ ہزار افراد اپنی زندگی کا خاتمہ اپنے ہاتھوں سے کرلیتے ہیں اور تقریباً ایک لاکھ تیس ہزار سے تین لاکھ افراد خودکشی کی طرف مائل ہونے کے خطرات سے دوچار ہیں۔وکلا کی کمیٹی برائے انسانی حقوق کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں2006 کے پہلے نو ماہ میںبھوک، غربت، گھریلو جھگڑوں اور مایوسی کی بنا پر پانچ ہزار آٹھ سو افراد نے خود کشی کی۔ یوں ملک میں ہر روز اوسطاً اکیس سے زیادہ لوگوں نے مختلف وجوہ کی بنا پر اپنی زندگی ختم کی۔2007کی ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستانی خواتین میں خود کشی کی شرح میں کافی اضافہ ہوگیا ہے جن میں نوجوان لڑکیوں کی تعداد زیادہ ہے۔ ایدھی فاؤنڈیشن کی 2009کی رپورٹ کے مطابق2007کے مقابلے میں 2008 میں پاکستان میں خودکشیوں کے واقعات میں پچاس فیصد اضافہ ہوا ، 2008میں صرف کراچی میں 380جب کہ اندرون سندھ میں377افرادنے خود کشی کرکے اپنی جانوں کاخاتمہ کیا جب کہ ملک بھر میں 2568 خود کشیاں ہوئیں۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ خود کشیوں کا رحجان اس قدر بڑھ گیا کہ پولیس کو بتائے یا مقدمہ درج کرائے بغیر لاشوں کو دفنا دیا جاتا ہے۔ انسانی حقوق کمیشن کی 2009کی رپورٹ کے مطابق ایک مہینے میں138افراد نے اپنی زندگی کا خودخاتمہ کیا،خود کشی کرنے والوں میں خواتین کی ایک بڑی تعداد تھی۔ 2010میںوفاقی وزیر برائے انسانی حقوق نے قومی اسمبلی کو بتایا کہ2009میںلگ بھگ دوسو افراد نے بھوک، افلاس، سماجی انصافی اور دیگر ایسے مسائل سے دوچار ہوکر خودکشی کی۔ اکتوبر 2011 میں کہا گیا 1600 افراد حالات سے مایوس ہو کر خودکشی کرچکے ہیں جبکہ خودکشی کی ناکام کوشش کرنے والے 800 افراد اس کے علاوہ ہیں۔ ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان نے2011میں کہا کہ پاکستان میں ہر ماہ لگ بھگ 130 مرد وخواتین خودکشی کر تے ہیں جب کہ اتنی ہی تعداد میں لوگ ہر مہینے خودکشی کی کوشش تو کرتے ہیں لیکن اْن کی جان کو بچا لیا جاتا ہے۔

فوج ، ہر ماہ دو اسرائیلی،یومیہ 22امریکی ، نوسال میں1022بھارتی، ایک سال میں21برطانوی فوجیوں کی خودکشی

ماضی میں میدان جنگ میں شکست کے بعد دشمن کے ہاتھوں گرفتار ہونے اور ذلت آمیز سلوک سے بچنے کیلئے فوجیموت کو گلے لگا لیتے تھے۔دنیا بھر میں جاسوسی کیلئے اہلکاروں کو خاص قسم کے زہربھرے کیپسول یا گولیاں فراہم کی جاتی ہیں کہ دشمن کے ہتھے چڑھنے کی صورت میں نگل لیں۔تاہم حالیہ دور میں دنیا بھر میںفوج میں خودکشی کے رجحان میں اضافہ دیکھنے میں آیاجن کے دیگر اسباب ہیں۔

اسرائیلی فوج میں ایک عشرے میں 240 خودکشیاں سامنے آئیں، فوج کے اعدادوشمار کہتے ہیں کہ سالانہ 24 اور ہر ماہ دو فوجی خود کو موت کے گھاٹ اتار رہے ہیں۔2016میں فوجیوں کی ہلاکت میں زیادہ تعداد خودکشیوں کی تھی۔2017میں16فوجیوں نے خودکشی کی۔ 2005ء میں خودکشی کے سرکاری سطح پر36 واقعات رجسٹرڈ کیے گئے۔ 2006ء میں 28، 2007ء میں 18، 2008ء میں 22، 2009ء میں 21، 2010ء میں 27 اور 2011ء میں 27 فوجیوں نے خودکشی کی۔ خودکشی کے اسباب میں ناقص تربیت، کم عمری شامل ہیں لیکن ان واقعات کا محرک فلسطینی مزاحمت کاروں کا نفسیاتی خوف بتایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیلی فوج میں بڑی تعداد میں ماہرین نفسیات ہیں۔

امریکی فوج میں اوسطاً یومیہ بائیس فوجی خودکشی کرتے ہیں ،ان فوجیوں میں سے دو تہائی وہ ہیں جن کی عمر پچاس سال سے زیادہ ہے۔یہ تحقیق 1999 سے 2010 تک کی ہے۔2015میں265فوجیوں نے اپنی جان خود لی۔ مجموعی طور پر امریکہ میں دو ہزار سات سے دو ہزار دس کے دوران خودکشی کرنے والوں کی شرح میں گیارہ فیصد کا اضافہ ہوا ۔ خودکشیوں کے رجحان میں اضافہ 2006ء سے جاری ہے ، 2009ء میں ریکارڈ تین سو دس فوجیوں نے اپنے ہاتھوں اپنی زندگیوں کا خاتمہ کیا تھا۔

زندگی انمول نعمت، قدر کیجیے

بی بی سی کے مطابق2012میں 21 برطانوی فوجیوں نے خودکشیاں کیں جبکہ 29 سابق برطانوی فوجیوں نے بھی خود کو ہلاک کیا۔رپورٹ میں کہا گیا کہ افغانستان میں دو ہزار بارہ کے دوران خودکشی کرنے والے برطانوی فوجیوں کی تعداد طالبان سے لڑائی میں مرنے والے برطانوی فوجیوں کی تعداد سے زیادہ تھی۔برطانوی فوجیوں میں ذہنی بیماری کی شرح دو عشاریہ نو فیصد ہے جو عام لوگوں سے کم ہے۔ وزارتِ دفاع کے اعداد و شمار کے مطابق افغانستان میں تعینات رہنے والے برطانوی فوجیوں میں ذہنی بیماریاں دگنی سے بھی زیادہ ہو گئی۔فوجیوں کے اہلِ خانہ کا الزام ہے کہ مسائل کے شکار فوجیوں کو مناسب مدد اور حمایت فراہم نہیں کی گئی۔

بھارتی فوج میں 2009 سے اب تک 9 برسوں میں ایک ہزار 22 بھارتی فوجیوں نے خودکشی کی۔ 2014 سے 2017کے درمیان 425جبکہ2009سے2013کے درمیان597 فوجیوں نے اپنے آپ کو مارڈالا۔گزشتہ چار برسوں میں آرمی میں نو افسران اور326جوانوں جبکہ فضائیہ میں پانچ افسران اور67ائیرمینوں نے خودکشی کی۔اس عرصے میں بحریہ میں دو افسران اور 16سیلرز نے اپنی زندگی کا خاتمہ کیا۔ بھارتی اخبار کے مطابق بھارت میں ہرسال 1600 فوجی جوان جنگ کا حصہ بنے بغیر ہلاک ہو جاتے ہیں۔

طلبا میں خودکشی،امریکا میں تین گنا،برطانیہ میں 56 فیصداضافہ،بھارت میں ہر گھنٹے میں طالبعلم کی خودکشی

دنیا بھر میں طلبا کی خودکشی کے واقعات منظر عام پر آتے رہتے ہیں۔امریکا میں1950کے بعد سے طلبا میں خودکشی کی شرح میں تین گنا اضافہ ہو ا، جہاں خودکشی کالج کے طلبا میں موت کی دوسری بڑی وجہ ہے۔ 2007 سے2015کے دوران پندرہ سے انیس سال کی امریکی طالبات میں خودکشی کی شرح چالیس سال بعد سب سے زیادہ دیکھی گئی۔ اسی عرصے میں طلبا کی خودکشی کی شرح تیس فی صدزیادہ تھی۔برطانیہ میں 2007سے2016کے دوران دس برسوں میں طلبا میں خودکشی کے واقعات میں56فی صد اضافہ ہوا۔ بھارت میں ہر ایک گھنٹے میں ایک طالب علم اپنی زندگی کا خاتمہ کردیتاہے۔نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کی رپورٹ کے مطابق بھارت میں ہر روز بیس سے زائد طلبہ خودکشی کر لیتے ہیں ،گویا تقریباً ہر ایک گھنٹے میں ایک طالب علم اپنی زندگی کا چراغ گل کر رہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق 2015ء میں صوبہ مہاراشٹر میں 1230اور تامل ناڈو میں 955 طلبہ نے خودکشی کی۔تجزیہ کاروں کے مطابق اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔

حسن کی دیوی ملکہ مصر قلوپطرہ سمیت خودکشی کرنے والی اہم اور مشہور شخصیات

بے پناہ حسن اور پرقار شخصیت کی حامل ملکہ مصر قلوپطرہ کے قصے کہانیاں ہر زبان میں موجود ہیں ۔ قلوپطرہ نے اپنی زندگی کا خاتمہ خود اپنے ہاتھوںسے کیا تھا۔کہاجاتا ہے کہ ان کی موت خود کو سانپ کے ڈسوانے سے ہو ئی ،تاہم کچھ کا خیال ہے کہ انہوں نے زہر کھاکرزندگی کاخاتمہ کیا۔قلوپطرہ کا زمانہ 51 قبل مسیح سے 30 قبل مسیح کاہے جب مصر پرآخری فرعون حکمران تھا ۔ مورخین کہتے ہیں کہ قلوپطرہ نے شہنشاہ روم آگسٹس کے ہاتھوں اپنے شوہر جنرل انتھونی کی شکست اور خودکشی کے بعد، خود کو آگسٹس سے بچانے کے لیے خود کشی کا فیصلہ کیا۔ اگر ماضی پر نظر ڈالی جائے تو قلوپطرہ ہی نہیں،دنیا بھر میں کئی اہم اور مشہور شخصیات نے اپنی زندگی کا خاتمہ اپنے ہی ہاتھو ں سے کیا جس کی طویل فہرست ہے۔جنوبی کوریا کے نویں صدر رو مو ہیون نے 2009میںچٹان سے گر ا کر خودکشی کی۔برازیلی صدر پبلیوس وارگاس نے1954میں،چلی کے صدر سالواڈور الینڈ نے1973میں،صدر جوسے مینوئیل نے1891میں،ہنگری کے وزیراعظم پل تلیکی نے1941میں اورفرانسیسی وزیراعظم پیرے بیرگووے نے1993میں خو دکوگولی مار کرجان دی۔جاپانی وزیر اعظم فومیمار کونوئے نے1945میں زہر کھا زندگی کا خاتمہ کیا۔برطانوی شاہی خاندان کے ایڈنبرگ کے شہزادے الفریڈ، جرمن بادشاہ کے بیٹے پرنس جواکیھم، آسٹریا کے ولی عہد روڈلف کی موت خودکشی سے ہوئی۔دنیا بھر میںدرجنوں اداکاروں،گلوکاروں،کھلاڑیوں،شاعروں اور معروف شخصیات نے خودکشی سے زندگی کا خاتمہ کیا۔

خودکشی پر تحقیقات،مطالعے

خودکشی کا رجحان کس میں زیادہ۔۔۔مرد یاخواتین؟

دنیا میں مرد خواتین کے مقابلے میں تین گنا زیادہ خودکشی کرتے ہیں۔ تحقیق کے مطابق عمر میں اضافے کے ساتھ مردوں میں خودکشی کی شرح بڑھ جاتی ہے لیکن عورتوں میں پچیس برس کی عمر کے بعد خود کشی کا رجحان تقریباً ختم ہو جاتا ہے۔ خواتین کے مقابلے میں مرد اور سیاہ فام کے مقابلے میں سفید فام لوگ زیادہ تعداد میں خودکشی کرتے ہیں۔ 2012کی رپورٹ کے مطابق مغربی ممالک میں مردوں کی خودکشی میںہلاکتیں خواتین سے چار گنا زیادہ تھیں جب کہ چین میں خواتین کی خودکشی کے واقعات زیادہ ہیں۔عام طور پر 70 برس سے زائد عمر کے افراد میں اپنی جان لینے کی خواہش کا رجحان زیادہ ہے۔تاہم کچھ ممالک میں نوجوانوں میں یہ شرح زیادہ ہے۔ دنیا بھر میں 15 سے 29 سال کے نوجوانوںکی موت کی دوسری بڑی وجہ ٹریفک حادثات کے بعد خودکشی ہے۔ تاہم اسی عمر کی لڑکیوں میں موت کی بنیادی وجہ خودکشی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق 1999اور 2012ء کے عرصے میں ادھیڑ عمر امریکیوں میں خودکشی کے رجحان کی شرح میں کافی اضافہ دیکھا گیا، جس کا باعث معاشی انحطاط تھا۔ اسی عرصے میں 35سے 64برس کے امریکیوں میں خودکشی کی شرح میں 28فی صد کا اضافہ ہوا۔ پچاس برس کی عمر سے زائدامریکی افراد میں خودکشی کا رجحان دوگنا تھا ۔بین الاقوامی جریدے کے مطابق بھارت میں پندرہ سے انتیس برس کی عمر کے نوجوانوں میں خودکشی کی شرح دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔

موسم اور خودکشی میں رشتہ

ایک دلچسپ تحقیق میں کہا گیا کہ خودکشی کا موسموں کی تبدیلی کے ساتھ گہرا رشتہ ہے،دیگر موسموںکے مقابلے موسم بہار میں خودکشیوں کی تعداد میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ماہر نفسیات کاکہنا تھا کہ موسمِ بہار میں خودکشیوں کی شرح20 سے 60 فیصد تک بڑھ سکتی ہیں ۔ ا مریکا میں1999سے2014 کے دوران موسم بہار میں خودکشیوں میں24فی صد اضافہ دیکھا گیا۔انیسویں صدی کے آغاز میں بھی اس طرح کی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ موسمِ بہار میں خودکشی کرنے والوں کی تعداد بڑھ جاتی ہے۔دوسری طرف سویڈن کے ماہر نفسیات ڈاکٹر فوٹس پاپاڈوپولس نے 1200 خودکشیوں اور موسمی حالات کا جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ خودکشیوں کی تعداد اور مریض کے دھوپ میں گزارے گھنٹوں کی تعداد میں مماثلت ہے۔ کوئی شخص دھوپ میں جتنا زیادہ وقت گزارتا ہے اس میں خودکشی کے امکان بڑھ جاتے ہیں،محققین اس کی وجہ دماغ میں پائے جانے والے’سیروٹونن‘ نامی نیرو ٹرانزمٹر بتاتے ہیں کہ جتنا وقت کوئی شخص دھوپ میں گزارتا ہے اس کے خون میں اتنی زیادہ سیروٹونن پیدا ہوتی ہے۔ اسی لیے اس کی اوسطً مقدار موسمِ گرما میں زیادہ ہوتی ہے۔ اس حوالے سے اور بھی تھیوریاں موجود ہیں جیساکہ بہار میں پولن کے اضافے کی وجہ سے دماغی کیمسٹری تبدیل ہوجاتی ہے اور خودکشی کے رجحان میں اضافہ ہو جاتا ہے۔

والدین سے خودکشی کا رجحان بچوں میں پانچ گنا زیادہ

والدین سے خودکشی کا رجحان بچوں میں منتقل ہوتا ہے ،خودکشی کرنے یا کوشش کرنے والے لوگوں کی اولاد میںخودکشی کی طرف رجحان دیگر افراد کی نسبت پانچ گنا زیادہ ہے۔ تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ ایسے افراد کے بچوں میں خودکشی کا رجحان زیادہ پایا گیا، جنہوں نے اپنی زندگی کے کسی مقام پر خودکشی کی کوشش کی ۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ خاندان میں کسی نے خود کشی کی ہو یا خود کشی کرنے کی کوشش کی ہو تو یہ رجحان اس خاندان کی آئندہ نسلوں میں بھی منتقل ہوتا ہے۔ماضی کے مطالعے یہ بتاتے ہیںکہ جن خاندانوں میں پہلے سے کسی نے خود کشی کی ہو تو اس خاندان میں مزید خودکشی کی شرح بڑھ جاتی ہے۔ ان مطالعوں میں موڈ میں تبدیلیوں کی فیملی ہسٹری کو ایک بڑی وجہ قرار دیا گیا تھا۔

خودکشی کرنے والوں کے دماغ میں کیمیائی تبدیلی

ماہرین کا کہناہے کہ خودکشی کرنے والے افراد کے دماغ کیمیائی اعتبار سے عام افراد سے مختلف شکل اختیار کرجاتے ہیں۔ ایسے افراد کے دماغ کے اندر معاملات کو اختتام دینے کے حوالے سے خلیے معمول سے زیادہ کام کرتے ہیں۔ کینیڈین ماہرین حیاتیات نے بیس مردہ افراد کے دماغوں کا مطالعہ کیا ۔ ان مردہ افراد میںدس ایسے تھے جو انتہائی مایوس تھے اور اْنہوں نے خودکْشی پر اپنی زندگی خاتمہ کیا جب کہ دوسرے دس افراد کی موت اچانک ہارٹ اٹیک سے ہوئی تھی۔ مطالعے سے پتہ چلا کہ خودکْشی کرنے والے افرادکے ڈی این اے میں کیمیائی تبدیلی کے آثار تھے اور یہ بالکل ویسے ہی تھے جیسے خلیوں کی افزائش میں ہوتا ہے۔ اِس کیمیائی عمل کو میتھائلیشن Methylation قرار دیا گیا ۔ قدرتی موت یا اچانک حرکت قلب بند سے مرنے والے افراد کے مقابلے میں خودکشی کرنے والوں میں یہ عمل دس فی صد زیادہ پایا گیا۔ اس عمل سے خودکشی کرنے والے افراد کے اندر کئی جینیاتی مادے کام کرنا بند کر دیتے ہیں۔ عموماً دماغی خلیوں میں تقسیم کا عمل پیدا نہیں ہوتا لیکن خودکشی کا رجحان جن افراد میں ہو تا ہے اْن کے جینوم میں شکست و ریخت کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ میتھائلیشن کی ایک وجہ مسلسل ڈیپریشن میں رہنے سے بھی ہے۔

محض ایک بٹن دبا کر چند لمحوں میں اپنی زندگی کا خاتمہ کرنے والی مشین ۔۔۔سارکو

ہالینڈ کے شہر ایمسٹرڈم میں ایک ایسی مشین کی نمائش کی گئی جس کے ذریعے کوئی بھی انسان محض ایک بٹن دبا کر خود کشی کر سکتا ہے۔ مشین کا نام سارکو ہے، جو انگریزی کے لفظsarcophagus کا مخفف ہے جس کا مطلب تابوت ہے۔ تھری ڈی پرنٹنگ کی مدد سے تیار مشین کے ساتھ تابوت کو بوقت ضرورت علیحدہ کیا جا سکتا ہے۔ مشین کے اسٹینڈ پر نائٹروجن گیس کا سلنڈر نصب ہے ۔خود کشی کا فیصلہ کر لینے والا کوئی بھی شخص اندر بیٹھ کر محض ایک بٹن دبا کر چند ہی لمحوں میں اپنی زندگی کا خاتمہ کر سکتا ہے۔

تمام مذاہب میں خود کشی حرام،زمانہ قدیم میں خودکشی کرنے والوں کے ساتھ براسلوک 

اسلام اور دیگر مذاہب میں خود کشی حرام ہے۔ عیسائیت میں خودکشی گنا ہ ہے۔ ہندو مذہب میں خودکشی قتل جتنا بڑاجرم ہے، یہودی مذہب میں زندگی کی قدر وقیمت انتہائی اہم ہے ،ان کے ہاںخودکشی خدا کی نعمتوں کو جھٹلانے کے مترادف ہے۔

اسلام میں خودکشی کا مرتکب اللہ تعالیٰ کا نافرمان اور جہنمی ہے۔قرآن مجید میں ارشاد ہے’’اور اپنے ہی ہاتھوں خود کو ہلاکت میں نہ ڈالو، اور صاحبانِ اِحسان بنو، بے شک اللہ اِحسان والوں سے محبت فرماتا ہے ‘‘۔حدیث نبویﷺ ہے’’تمہارے جسم کا بھی تم پر حق ہے اور تمہاری آنکھوں کا تم پر حق ہے۔ ــ‘‘

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرمﷺنے فرمایا: جس شخص نے خود کو پہاڑ سے گرا کر ہلاک کیا تو وہ دوزخ میں جائے گا، ہمیشہ اس میں گرتا رہے گا اور ہمیشہ ہمیشہ وہیں رہے گا۔ اور جس شخص نے زہر کھا کر اپنے آپ کو ختم کیا تو وہ زہر دوزخ میں بھی اس کے ہاتھ میں ہوگا جسے وہ دوزخ میں کھاتا ہوگا اور ہمیشہ ہمیشہ وہیں رہے گا۔ اور جس شخص نے اپنے آپ کو لوہے کے ہتھیار سے قتل کیا تو وہ ہتھیار اس کے ہاتھ میں ہوگا جسے وہ دوزخ کی آگ میں ہمیشہ اپنے پیٹ میں مارتا رہے گا اور ہمیشہ ہمیشہ وہیں رہے گا۔‘‘

’’حضرت ثابت بن ضحاک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرمﷺنے فرمایا: جس شخص نے کسی بھی چیز کے ساتھ خود کشی کی تو وہ جہنم کی آگ میں (ہمیشہ) اسی چیز کے ساتھ عذاب دیا جاتا رہے گا۔‘‘

مصر کی قدیم یونیورسٹی جامعہ الازہر نے 2011میںفتویٰ جاری کیاتھا کہ اسلام کسی بھی مقصد کے لیے خودکْشی کی اجازت نہیں دیتا، شریعت میں اس بات کی ہر گز اجازت نہیں کہ انسان اپنے غم و غْصے کے اظہار کے لیے اپنے جسم کو روح سے علیحدہ کر دے۔

قدیم ایتھنز میں خودکشی کرنے والے شخص کی عام افراد کی طرح تدفین نہیں کی جاتی تھی،انہیں شہر کے مضافات میں بغیر کتبے کے دفن کیا جاتا تھا۔1670 میں لوئس XIV نے ایک فوجداری آرڈیننس جاری کیا جس کے تحت خودکشی سے مرنے والے کی لاش کو گلیوں میں گھسیٹا جائے پھر اسے گندگی کے ڈھیر پر پھینک دیا جائے اور اس کی جائیداد بھی ضبط کرلی جائے۔ برطانوی قانون کے تحت 1882 تک خودکشی کرنے والے کی دن کی روشنی میں تدفین کی اجازت تھی مگر اس کی جائیداد ضبط کرلی جاتی تھی۔ اگست 2015 میں راجستھان ہائی کورٹ نے جین مت میں موجود رضاکارانہ طور پر فاقہ کشی کے ذریعے موت کو گلے لگانے کی رسم سنتھرا کو306 اور 309 کی دفعات کے تحت قابل سزا قرار دیا جس سے بھارت میں تنازع پیدا ہوگیا تھا ۔

کیااقدام خودکشی جرم ہے؟ مختلف ممالک کے قوانین کیا کہتے ہیں؟

خودکشی یا اقدام خودکشی کو جرم قرار دینے کاقانون دنیا میں صرف چند ممالک میں رہ گیا ہے۔شمالی امریکہ اور یورپ نے کئی دہائیوں پہلے اس سے چھٹکارا حاصل کرلیا۔اس وقت کسی بھی یورپی ملک میں خودکشی عملاً جرم نہیں۔زیادہ تراسلامی ممالک میں خودکشی یااقدام خودکشی قابل سزا جرم ہے۔ دنیا میں صرف چند ممالک میں خودکشی جرم ہے جن میں پاکستان، بنگلادیش، ملائیشیا ،سنگاپور اور دیگر شامل ہیں۔ امریکا میں بھی خودکشی جرم نہیں، تاہم خودکشی میں مدد فراہم کرنا جرم ہے۔ کینیڈین شہری جو خودکشی کی کوشش کرچکے ہوں، انہیں امریکا میں داخل ہونے کی اجازت نہیں۔برطانیہ میں انگلش لا کے تحت اپنی زندگی کا خاتمہ قتل تصور کیا جاتا ہے۔ خود کشی ایکٹ 1961 کے تحت انگلینڈ اور ویلز میں خود کشی کی حوصلہ افزائی یا اس میں مدد کرنا بھی جرم ہے اور ایسے شخص کو 14 برس تک قید کی سزا ہو سکتی ہے۔شمالی آئرلینڈ میں تقریباً انگلینڈ اور ویلز جیسا قانون موجود ہے لیکن اسکاٹ لینڈ میں ایسا قانون موجود نہیں یہاں خودکشی میں مدد کرنے والے شخص کے خلاف انسانی قتل کے قوانین کے تحت کارروائی ہو سکتی ہے۔

پاکستان:اقدام خودکشی پر سزا کی بجائے متاثرہ شخص کا علاج کروایا جائے، ریاست کو جیسا سلوک کرنا چاہیے،سینیٹ میں بیان

پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 325 کے تحت خودکشی یا اقدام خودکشی جرم ہے جس پر ایک سال جیل، جرمانہ یا دونوں کی سزائیں لاگو ہیں۔کرمنل لاء ترمیمی بل 2017 پیش کرتے ہوئے سینیٹ کو بتایا گیا کہ پاکستان پینل کوڈ سے خودکشی کی کوشش کرنے پر سزا کی شق کو ختم کیا جائے۔سینیٹ کو بتایا گیا کہ خودکشی کی کوشش انتہائی مایوسی کی حالت میں کی جاتی ہے اور یہ ایک بیماری ہے۔ خودکشی کی کوشش کرنے والے کو سزا کی بجائے اسکا علاج کروایا جانا چاہیے اور ریاست کو ایسے شخص کے ساتھ ماں جیسا سلوک اختیار کرنا چاہیے۔ ریاست ڈپریشن اور نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا افراد کو تحفظ دے۔ خود کشی کی شق کو ختم کرنے کے پیچھے جو اغراض و مقاصدتھے وہ یہ کہ خودکشی کی کوشش کو جرم قرار دینا ایک بڑی وجہ ہے اور اس ہی وجہ سے لوگ نفسیاتی مسائل کے لیے مدد نہیں طلب کرتے ۔ سینیٹ نے اس موضوع پر اسلامی نظریاتی کونسل سے مشاورت کا کہا جس کے جواب میںکونسل نے کہا کہ مذہب میں خودکشی کرنے والے افراد کی قسمت کے حوالے سے کوئی احکامات نہیں ۔

بھارت :زندگی سے ہارے شخص کو ہمدردی، مشورہ اور مناسب علاج کی ضرورت ہے، اس کی جگہ جیل نہیں

بھارت میںتعزیرات ہند کی دفعہ 309 میںناکام خودکشی کی کوشش اور کوئی ایسا عمل جس سے اسے تقویت ملے، قابل سزاجرم تھا جس کی ایک سال تک کی سزا یا جرمانہ یا دونوں ہو سکتے تھے ،تاہم اقدام خودکشی اب جرم نہیں رہا ۔ سپریم کورٹ نے 1994 میں جرم کے زمرے سے خود کشی کو نکال دیا تھا لیکن دو سال بعد پھر اس قانون کو بحال کر دیا گیا۔ حکومت نے خودکشی کو جرائم کے زمرے سے ہٹانے کیلئے ایک قانونی کمیشن تشکیل دیا جس نے اپنی سفارشات میں کہا کہ ایسے شخص کو سزا دینا مناسب نہیں جو خاندانی ان بن، یا کسی اور وجہ سے اپنی زندگی ختم کرنے کا فیصلہ کر لیتا ہے۔ زندگی سے ہارے ایسے شخص کو ہمدردی، مشورہ اور مناسب علاج کی ضرورت ہے۔ اس کی جگہ جیل نہیں ۔ خود کشی کے متعلق دفعہ 309 دہری سزا کا سبب ہے۔جو شخص خود کشی کی کوشش میں عذاب اور ذلت جھیل چکا ہے، اسے قانون کے ذریعے سزا دینا مناسب نہیں ۔ 2013میں حکومت نے دفعہ 309کو غیر موثر کرنے کیلئے راجیہ سبھا میں’’مینٹل ہیلتھ کیئر بل ‘‘پیش کیا جس کی اگست2016میں راجیہ سبھا اور مارچ2017میں لوک سبھا نے منظوری دی،اس کی رو سے اقدام خودکشی کرنے والے پر دفعہ309لاگو نہیں ہوگی۔

جرمنی ؛ انتہائی بیمار اور لاعلاج مریضوں کو مخصوص حالات کے تحت قانونی خودکشی کی اجازت

جرمنی میں قانونی خودکشی کی اجازت ہے، انتہائی بیمار اور لاعلاج مریضوں کو مخصوص حالات کے تحت ایسے مواد تک رسائی دی جا سکتی ہے، جس سے ان کی آسان اور بے درد موت واقع ہو سکے ۔یہ اجازت جرمن کی وفاقی عدالت نے دی۔ عدالت نے قانونی خودکْشی کے لیے انتہائی سخت شرائط رکھیں۔ یہ فیصلہ جرمن آئین کی شق نمبر دو میں موجود ہر شہری کے ذاتی حقوق کو مد نظر رکھتے ہوئے سنایا گیا تھا۔ اس طرح اپنی زندگی خود ختم کرنے کا اختیار صرف ان شدید اور لاعلاج مریضوں کو ہوگا جو آزادانہ فیصلے لینے اور خود سوچنے سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہوں گے۔ اس فیصلے سے قبل جرمنی میں قانونی طور پر اس طرح کی خودکْشی کی اجازت نہیں تھی۔

اٹلی : مریض کو علاج سے انکار کا حق ،چرچ نے قانون کی مخالفت کردی

اطالوی حکومت نے2017میں چرچ کی مخالفت کے باوجود ایک قانون کی منظوری دی جو مریضوںکو اجازت دیتا ہے کہ وہ زندگی میں اضافہ کرنے والے علاج سے انکار کر سکتے ہیں۔یہ قانون مریض کو نہ صرف علاج بلکہ خوراک اور پانی سے بھی انکار کا حق دیتا ہے۔چرچ نے اقدام خودکشی میں معاونت قرار دیتے ہوئے اس قانون کی مذمت کی ۔یہ قانون برطانیہ اورا سپین جیسے کئی بڑے یورپی ملکوں میں رائج ہے۔

سوئٹرزلینڈ میں 1914سے خود کشی کرنے میں مدد دینے کی اجازت

سوئٹرزلینڈ میں1914 سے خود کشی کرنے میں مدد دینے کی اجازت ہے ،تاہم معاونت فراہم کرنے والا ڈاکٹرنہ ہو اور اس کا خود کشی کرنے میں مدد دینے سے کوئی فائدہ وابستہ نہ ہو۔2006میں199غیر ملکیوں نے سوئٹزلینڈ آ کر خود کشی کی تھی لیکن یہ تعداد 2010میں97رہ گئی ،ان میں زیادہ تر جرمنی، برطانیہ اور فرانس کے شہری شامل ہیں۔ 1998سے2009 تک ایسی خودکشیوں کی تعداد میں سات گنا اضافہ ہوا تھا۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2009 میں تین سو جب کہ1998میں صرف34 مرنے والے ایسے تھے جنہوں نے اپنی زندگیوں کو کسی کی مدد سے ختم کیا۔کینسر کی بیماری ایسی نصف سے زیادہ ہلاکتوں کا موجب بنی۔ کسی کی مدد سے خودکشی کی اجازت امریکی ریاستوں اوریگن اور واشنگٹن میں بھی ہے۔

برطانیہ: انسانی جان کے خاتمے سے متعلق کوئی قانون بھی قابل قبول نہیں

برطانوی دارالعوم نے ستمبر 2015 میں ایک ایسے مجوزہ قانون کو بھاری اکثریت سے رد کردیا جس میں لاعلاج بیماری میں مبتلا کسی بھی بالغ شخص کو اپنی زندگی کے خاتمے سے متعلق فیصلہ کرنے کا حق مل سکتا تھا۔برطانوی دارالعوام نے بیس برسوں بعد اس موضوع پر بحث کی تھی۔ مجوزہ قانون کی حمایت کرنے والوں کا موقف تھا کہ معاشرے کے رویے بدل چکے اور انگلینڈ میں ایسے قانون کی ضرورت ہے جو بالغ افراد کو وقار کے ساتھ زندگی ختم کرنے کا اختیار دے۔مخالفین کا موقف تھا کہ انسانی جان کے خاتمے کے حق سے متعلق کوئی قانون بھی قابل قبول نہیں ۔ اس قانون میں معاشرے کے کمزور افراد کے لیے تحفظ موجود نہیں ، قانون ساز یہاں معاشرے کے کمزور افراد کی حفاظت کے لیے ہیں نہ کہ ان کی ہلاکت کے قانون بنانے کے لیے۔دارالعوام میں پارٹی کی وابستگی سے بالا تر ہو کراس قانون پر رائے شماری کرائی گئی جس میں 330 ممبران نے اس کے خلاف جبکہ 118 ممبران نے حق میں ووٹ ڈالا۔اس مجوزہ قانون میں تجویز کیا گیا تھا کہ انگلینڈ اور ویلز میں لاعلاج بیماری میں مبتلا بالغ افراد کو طبی نگرانی میں اپنی جان کو ختم کرنے کا حق ملنا چاہیے۔

زندگی انمول نعمت، قدر کیجیے

احساس محرومی، مایوسی اور ڈپریشن۔۔۔خودکشی کے بڑے عوامل

احساس محرومی، مایوسی اور ڈپریشن کی بڑھتی ہوئی ذہنی کیفیات خودکشی کی جانب مائل کرتی ہیں۔آگے بڑھنے کی دوڑ میں زندگی الجھنوں کا شکارہ ہو کررہ گئی۔ مقروض ہونا، رشتوں میں تلخی اور بیماریاں خودکشی کے بڑے اسباب ہیں۔خودکشی کا سبب بننے والے سماجی مسائل میں خاندانی جھگڑے ، حقوق کی پامالی ، بدامنی ، ظلم و تشدد ، قتل و غارت گری ،فتنہ فساد ،حکومتی اداروں میں عوام کے ساتھ ناروا رویہ ، جہیز اور بے جا مطالبات ، ناخوشگوار شادیاں ، تعلیمی دباؤ اوروالدین کی بے جا سختیاں ہیں ، لوگ دل برداشتہ ہوکر اپنی جان اپنے ہی ہاتھوں ختم کرلیتے ہیں۔ خودکشی کا سبب بننے والا دوسرا عامل اقتصادی مسائل ہیں جن میں غربت و افلاس،بے روزگاری ، فصلوں کی تباہی،کاروبار میں نقصان اور ملازمت کے حصول میں ناکامی ہیں۔ نفسیاتی مسائل بھی خودکشی کی بڑی وجہ ہیں ۔ خاندانی نظام کی تنزلی ، بدلتے رویے، ہوس زر، سبقت لے جانے کی آرزو اور باہمی تعاون کے فقدان سے نفسیاتی الجھنیں بڑھ گئی ہیں۔ڈپریشن اوراسٹریس کے علاوہ جدید ٹیکنالوجی اورترقی کی برق رفتاری نے بھی لوگوں کو نفسیاتی مسائل سے دوچار کردیا ہے ۔ ڈپریشن کی ایک اہم وجہ اسمارٹ فون اور انٹر نیٹ کا بے جا استعمال بھی ہے۔ امریکی تحقیق کے مطابق اسمارٹ فون پر زیادہ وقت گذارنے سے خودکشی کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ گیم ’ بلیو ویل ‘ نے بھی نو عمر افراد کوخودکشی کی طرف مائل کیا ۔

پاکستان میں خودکشی کے عوامل ۔۔۔ صحت ،تعلیم،ٹرانسپورٹ اورانصاف کی سہولیات تک عدم رسائی ،بے روزگاری،مہنگائی

پاکستان میں خودکشی کی طرف مائل کرنے والے جن عوامل کا دخل ہے ان میں صحت ،تعلیم،ٹرانسپورٹ اورانصاف کی سہولیات تک عدم رسائی ،بے روزگاری،مہنگائی اور ناقص امن وامان ہیں ، یہ عوامل شدید ڈیپریشن اور دیگر دماغی امراض کا باعث بن رہے ہیں اور لوگوں میں خودکشی کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جدید سماجی ڈھانچے کی بدولت لوگوں پر دباؤ میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ لیکن، معاشرے نے اس دباؤ کو ختم یا کم کرنے کے لیے مدد کا کوئی نظام نہیں بنایا۔سماجی طور پر کوئی مدد دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے لوگ خودکشی جیسا قدم اٹھاتے ہیں۔ خواتین میں خودکشی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ شادی کا فیصلہ کرتے ہوئے لڑکے اور لڑکی کی ذہنی اور تعلیمی مطابقت کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ والدین اندھا دھند رشتے طے کر دیتے ہیں، کیونکہ انہیں اچھا رشتہ ہاتھ سے نکلنے کا خوف ہوتا ہے۔لیکن، بعد کے حالات میں جب لڑکی اور لڑکے کو پتہ چلتا ہے کہ ان کی اپنے ساتھی کے ساتھ ذہنی مطابقت نہیں،تو وہ مایوس ہو کر انتہائی قدم اٹھا لیتے ہیں۔ میاں بیوی کے سماجی پس منظر، تعلیم، عمر اور سوچ میں فرق نہ صرف عورتوں بلکہ مردوں کو بھی خودکشی پر مائل کردینے والے عوامل ہیں۔

خودکشی کا ارادہ ۔ ۔ ۔ علامتیں

خود کشی کی کوشش یا ارادہ کرنے والے میں درج ذیل علامات پائی جاتی ہیں:۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ خودکشی کرنے کا خطرہ اس وقت 50 فی صد زیادہ ہو جاتا ہے جب کوئی ذہنی دباؤ میں مبتلا شخص لاپروائی سے ڈرائیونگ کرے یا پھر متعدد لوگوں سے جنسی تعلق رکھے یاعصبی اضطراب کا شکار ہو ۔ڈپریشن کے مریضوں میں خودکشی کی کوششوں سے قبل اس قسم کی علامات اکثر پائی جاتی ہیں۔ دیگر علامات میں کسی کو زخمی کرنا یا قتل کرنے کی دھمکی دینا،خود کو نقصان پہچانے کے متعلق بات کرنا یا اس مقصد کیلئے آلہ تلاش کرنا،معمول سے ہٹ کر اپنے آپ کو مارنے کے متعلق سوچنا،گفتگو کرنایا تحریر کرنا،مایوسی کا شکار ہونا یاحالات میں جکڑا ہو ا محسوس کرنا ،ہر وقت غصے میں رہنا یابہت زیادہ غصے کاا ظہار کرنا،انتقام یا بدلہ لینے کے متعلق بات کرنا،غیر ضروری اور خطرناک کاموں میں مشغول ہونا،تمباکو نوشی،اور شراب کا بے جا استعمال کرنا،خود کو خاندان،رشتہ داروں،دوستوں اور معاشرے سے الگ تھلگ کرلینا، بہت زیادہ سونا یا نیند کا بالکل نہ آنا،موڈ میں بار بار تبدیلی اور ڈیپریشن کا شکار ہونا اورخود کو بے کار محسوس کرنے یا زندگی کو بے مقصد سمجھنا شامل ہیں۔

خودکشی کی بڑی وجہ۔۔۔ ڈپریشن۔۔۔ 35 کروڑ سے زائد افراد شکار

ماہرین کہتے ہیں کہ خودکشی کی طرف مائل ہونے میں متعددعوامل کارفرما ہوسکتے ہیں جن کے بارے میں ابھی مکمل آگہی نہیں۔تاہم خود کشی یااقدام خود کشی میں ڈیپریشن یا خراب موڈ کا عمل دخل سب سے زیادہ ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے اندازے کے مطابق دنیا بھر میں 35 کروڑ سے زائد افراد ڈپریشن کا شکار ہیں۔ ان میں وہ شامل نہیں جن پر کبھی کبھار اداسی یا ناامیدی کا غلبہ ہوتا ہے۔ ان اعدادوشمارمیں وہ لوگ شامل ہیں جن پر اداسی دو ہفتے یا اس سے بھی زائد عرصے تک طاری رہتی ہے ۔

ہر پانچ میں سے ایک حاملہ خاتون بھی زچگی سے قبل ڈپریشن کا سامنا کرتی ہے۔ ڈیپریشن کے وجوہات میں زندگی میں مثبت اور منفی تبدیلی مثلاََ کسی پیارے کی اچانک موت یا ترقی ، بڑی بیماریاں ، مثلاََ دل کا دورہ یا کینسر ، نشہ ،سیلف میڈیکیشن ، خاندانی دباؤ شامل ہیں ۔ ڈپریشن محض جذباتی کیفیت نہیں بلکہ باقاعدہ بیماری ہے جو دنیا کے تمام خطوں میں موجود ہے اورتمام ممالک اس سے یکساں متاثر ہیں ،اس بیماری کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیںتاہم یہ حقیقت ہے کہ زیادہ تر لوگ ڈپریشن کو عارضی کیفیت سمجھ کر اہمیت نہیں دیتے۔

پاکستان کی20فی صد آبادی دماغی امراض کا شکار، دو کروڑ بچے بھی شامل

دنیا بھر کی طرح پاکستان میں نفسیاتی دبائو اور ذہنی امراض کا شکار افراد میں اضافہ ہورہا ہے ۔پاکستان کی20فی صد آبادی یعنی پانچ کروڑ افراد دماغی امراض کا شکار ہیںجن میں سے دو کروڑ بچے بھی شامل ہیں۔عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میں1825بستروں پر مشتمل کل پانچ مینٹل ہسپتال ہیں۔

پاکستان میں لاکھوں لوگوں کے لیے صرف ایک ماہرنفسیات، تعداد صرف۔۔۔400

ایک صحت مند معاشرے کے لیے ماہر ِ نفسیات کی اہمیت سے کس حد تک پاکستانی معاشرہ بے خبری میں ہے،اس کا اندازہ یوں لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستا ن میں تربیت یافتہ ماہرین دماغی امراض یا ماہرین نفسیات کی تعداد 380سے400کے درمیان ہے یعنی لاکھوں لوگوں کے لیے صرف ایک ماہرنفسیات جو انتہائی کم ہے ،خطے کے دیگر ممالک سے بھی کم ہے۔اس کے ساتھ اس طرح کے اداروں کی شدید کمی ہے۔ پاکستان سائیکاٹرسٹ سوسائٹی کا جنرل سیکرٹری کے ایک بیان کے مطابق پاکستان میں نفسیاتی ماہر بننے کے لیے اداروں کی بہت زیادہ کمی ہے۔

بر وقت تشخیص سے علاج ممکن

بے چینی اورڈپریشن میں فرق یہ کہ بے چینی کا تعلق مستقبل میں وقوع پذیر کسی واقعے کے خدشے سے ہے ، ڈپریشن کا تعلق ماضی کی کسی یاد سے ہوتا ہے۔چنانچہ خودکشی کا تعلق ہمیشہ ماضی سے یعنی ڈپریشن سے ہوتا ہے۔ اگر مریض کی بروقت نشاندہی کی جائے تو علاج کے ذریعے ان کو خودکشی سے بچایا جاسکتا ہے۔خودکشی میں مختلف اقسام کی ذہنی خرابیوں ( multi dimensional disorders ) کا بیک وقت عمل دخل ہوتا ہے ۔ ڈپریشن، انگزائٹی، پرسنالٹی ڈس آرڈر، شیزو فرینیا، بائی پولرڈس آرڈر جیسی ذہنی ونفسیاتی بیماریاں اپنی جان لینے پر آمادہ کرتی ہیں ، ماہرین نفسیاتی امراض کا کہنا ہے کہ بر وقت تشخیص سے ان سب کا علاج ممکن ہے۔بروقت تشخیص کیسے ممکن ہے تو ظاہر ہے کہ خودکشی کا تعلق سوچ سے ہے اور دنیا کا کوئی آلہ کسی کی سوچ کا سو فیصد درست اندازہ نہیں لگا سکتا ہے جب تک وہ خود اظہار نہ کرے، اور اس کی نشاندہی اس کے عزیز واقارب ، دوست و احباب ،کلاس فیلوز، ہمسائے،ٹیچر، ڈاکٹر، مذہبی رہنما وغیرہ کر سکتے ہیں۔

خودکشی کے رجحان میں کمی اور حوصلہ شکنی کیلئے ضروری اقدامات

عالمی ادارئہ صحت خودکشی کے واقعات میں 2020 ء تک دس فیصد کمی لانا چاہتا ہے لیکن اس کے دائرے عمل میں صرف 28ممالک ہیں،سال 2020ء میں دل کی بیماری کے بعد ڈپریشن دنیا میں دوسری بڑی بیماری ہوگی۔ خودکشی جیسے منفی رجحان کو ختم یا کم کرنے کیلئے مثبت سوچ کو فروغ دے کر، بنیادی شعور پیدا کر کے اور ڈپریشن کے متاثرین کو ذرا سا سہارا د یکر ہزاروں لوگوں کو بچایا جاسکتا ہے۔ خودکشی کے رجحان میں کمی یا اس کی حوصلہ شکنی کیلئے ان قدامات کی ضرورت ہے:۔

٭ خودکشی کے بارے میں لوگوں کوآگاہی دی جائے، انہیں علم ہونا چاہئے کہ خودکشی کے متعلق سوچنے والوں کے ساتھ کس طرح پیش آیا جائے۔

٭طویل مدتی اور جامع پالیسی کی ضرورت ہے، جس کو سرکار مرتب کرے اور اس پر رقم بھی خرچ کرے۔ فن لینڈ دنیا کا پہلا ملک ہے جہاں خودکشیوں کو روکنے کی حکمت عملی اپنائی گئی ہے اور ایک دہائی کے عرصے میں اْن کے اعداد و شمار میں 30 فیصد تک کمی آئی ۔

٭ان لوگوں کی مدد کے لیے اقدامات کیے جائیںجنھوں نے ماضی میں خودکشی کی کوشش کی کیونکہ ان میں خودکشی کرنے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔

٭خودکشی کے بارے ا سکولوں کی سطح پر تعلیم ہونی چاہیے کیونکہ اپنی جان لینے کا خطرہ زیادہ نوجوانوں میںہوتا ہے۔

٭خودکشیوں کی حوصلہ شکنی کے لیے معاشی ناہمواریوں کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ ضروری ہے کہ امیر اورغریب کے درمیان فرق کو کم کرنے کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں۔

٭خودکشیو ں کی روک تھام کے لیے لوگوں کو روزگار فراہم کیا جانا ضروری ہے، صاحب حیثیت افراد اپنے اردگرد ایسے لوگوں پر نظر رکھیں اور اْن کی مدد کریں جو کسی مشکل کا شکار ہیں۔

٭آتشی اسلحے اور زیریلے کیمیائی مواد تک رسائی کو کم کیا جائے ۔

پاکستان میںدماغی صحت کے حوالے سے قومی سطح پر حکمت عملی بنانے کی ضرورت

پاکستان میں خودکشی کے حوالے سے ابھی تک ایسی کوئی تحقیق نہیں کی جاسکی جس کی بنیادپر اس مسئلے کے تدارک کے لیے حکمت عملی نہیں بنائی جاسکے۔ضروری ہے کہ حکومت اس معاملے پر سنجیدگی سے غور کر کے اس بات کا تعین کرے کہ اتنی بڑی تعداد میں خودکشیوں کی وجوہات کیا ہیں۔

دماغی امراض یا نفسیاتی مراکز کے قیام میں اضافہ کیا جائے۔

قومی سطح پردماغی صحت کے حوالے سے حکمت عملی بنائی جائے جس میں سرکاری، نجی،دماغی امراض کے ماہرین اور غیر سرکاری تنظیموں کی شرکت لازمی ہو۔

فیملی ڈاکٹر وں،لیڈی ہیلتھ ورکروں اور کمیونٹی کے افراد کی تربیت کی جائے تاکہ وہ دماغی امراض کی تشخیص اور ایسے افراد کی مناسب دیکھ بھال کرسکیں۔ وہ ایسے افراد میں خودکشی کی علامات سے نمٹنے میں مدد دیں۔

حکومت دماغی صحت کے سیکٹر میں سرمایہ کاری کرے اور خودکشی سے بچاؤ کی حکمت عملی ترتیب دے۔

بچوں کو ڈپریشن کے ان عوامل سے بچانا ضروری

ڈپریشن کی وجہ سے بچوں اور نوعمر افراد میں خودکشی کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بچوں کو ڈپریشن سے بچانے کے لیے ان عوامل کا معلوم ہونا ضروری ہے جو بچوں میں ڈپریشن کی وجہ بنتے ہیں۔جرمن خبر رساں ادارے کی ایک رپورٹ کے مطابق:۔

٭۔موجودہ طرز زندگی میں اسکولوں، کھیل کود کے میدانوں اور زندگی کے دیگر شعبوں میں بچوں پر یہ مسلسل دباؤ رہتا ہے کہ وہ بہتر سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کریں۔ گھر واپس آ کر بھی انہیں ڈھیروں ہوم ورک کرنا ہوتا ہے۔ یہ سب چیزیں بچوں پر جسمانی اور ذہنی دباؤ کا باعث بنتی ہیں۔

٭۔ کسی بھی خاندان میں والدین کے درمیان مسلسل ہونے والے جھگڑوں یا طلاق کا بچوں پر انتہائی بْرا اثر پڑتا ہے۔ امریکی تحقیق کے مطابق ٹوٹے خاندانوں کے بچوں کو ڈپریشن کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔

٭۔بچوں کی جسمانی نشو ونما میں کھیل کود کا کردار بہت اہم ہوتا ہے۔بچوں میں ذہنی بیماریوں کے ماہرین کہتے ہیں کہ کم کھیل کود سے بچوں میں مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت میں کمی آتی ہے۔

٭۔امریکی طبی جریدے کے مطابق وہ بچے جو دن میں پانچ گھنٹے سے زیادہ کمپیوٹر اسکرین کے سامنے بیٹھ کر کھیلتے ہیں یا ٹیبلٹ اور اسمارٹ فون استعمال کرتے ہیں، ان کے ڈپریشن کا شکار ہونے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔

٭۔بچے بازار سے ملنے والی میٹھی چیزوں کے عاشق ہوتے ہیں، مثلاً ٹافیاں، کیک، مٹھائیاں، اور کاربونیٹڈ ڈرنکس وغیرہ۔ ان میں چینی کازیادہ استعمال ہوتا ہے۔ محققین کے مطابق چینی کی زیادہ مقدار ڈپریشن کا باعث بن سکتی ہے اور یہ دماغ کی نشوونما سے متعلق ہارمونز کو بھی متاثر کرتی ہے۔

٭۔ہمارا ماحول بری طرح آلودہ ہے۔ مثلاًفصلوں میں استعمال ہونے والی کیمیائی ادویات، صفائی کے لیے استعمال ہونے والا مواد، کھانے پینے کی اشیاء میں ملاوٹ اور گاڑیوں سے خارج ہونے والا دھواں اور آلودگی ہمارے جسم کو متاثر کر رہے ہیں۔ یہ زہریلے عناصر بچوں میں بھی بے چینی اور ڈپریشن جیسے مسائل بڑھا رہے ہیں۔

ٹی وی پروگرامز نفسیات پر پڑنے والے منفی اثرات کو مدنظر رکھ کر ترتیب دیے جائیں

ماہرین نفسیات کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص مذاق میں بھی کہتا ہے کہ میں خودکشی کر بیٹھوں گا، تو اس کے خودکشی کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ کسی بھی قسم کی شدت پسندی خودکشی کے ارتکاب کا سبب بن سکتی ہے۔ خودکشی کرنے والوں میں زیادہ تر نوجوان ہوتے ہیں، جن میں کم عمری کے باعث شدت پر مبنی جذبات زیادہ ہوتے ہیں۔ اس عمر میں صحیح یا غلط کی پہچان نہیں ہوتی اور وہ انتہائی عمل کر گزرتے ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ ذرائع ابلاغ میںپروگرام خودکشی جیسے منفی رویے کو فروغ دیتے ہیں۔ ٹی وی پروگرامز انسانی نفسیات پر پڑنے والے منفی اثرات کو مدنظر رکھ کر ترتیب نہیں دیے جارہے ، اس کیلئے کوڈ آف کنڈیکٹ وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اکثر فلموں میں ’مارو یا مرجاؤ‘ کے مناظر پیش کئے جاتے ہیں، جس سے زندگی پر منفی اثرات مرتب ہو تے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ سنسنی سے بھر پور میڈیا کوریج غیر محفوظ افراد کو خودکشی کے جانب راغب کرسکتی ہے اس کو ’سماجی وبا‘کانام دیاجاتاہے۔ خودکشی کے رجحان میں اضافے کی ایک وجہ نقالی بھی ہے۔خودکشی کے فعل کی نقالی کو ’ورتھر ایفیکٹ‘ کا نام دیا گیا جومشہور جرمن ادیب و شاعر گوئٹے کے ناول سے لیا گیا۔آسٹریلیا کے ذہنی امراض کے ادارے نے خودکشی کے واقعات کی میڈیا کوریج پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھاکہ اس سے خودکشی کے رویے کو تقویت حاصل ہو سکتی ہے۔ ذہنی و نفسیاتی امراض کے ماہرین کا اتفاق ہے کہ عام انسانوں میں نقالی کارویہ پایا جاتا ہے اور میڈیا کوریج سے خودکشی کی نقل کرنے کا نقصان دہ ر جحان جنم لے سکتا ہے۔

خودکشی سے بچاؤ کا عالمی دن

بین الاقوامی سطح پر خودکشی سے بچاؤ کا شعور اجاگر کرنے، سماجی، معاشی اور ذہنی صحت کے مسائل پرقابو پانے کیلئے ہر سال دنیا بھر میں 10 ستمبر کو ’خودکشی سے بچاؤ کا عالمی دن ’منایا جاتا ہے۔ خودکشی سے بچاؤ کی عالمی تنظیم یہ دن عالمی ادارہ صحت اور دماغی صحت کی عالمی فیڈریشن کے تعاون سے مناتی ہے۔ عالمی ادارے کے اعدادوشمار کہتے ہیں کہ ہر سال تقریباً دس لاکھ افراد خودکشی کرتے ہیں جو ایک لمحہ فکر ہے۔ 2004میںہونے والی خودکشیوںکے بعد یہ اندازہ لگایا گیا کہ2020تک دنیا بھر میں سالانہ خودکشیوں کی تعداد پندرہ لاکھ تک جا پہنچے گی۔ اقوام متحدہ کی طرف سے پہلی مرتبہ خودکشی سے بچاؤ کی پالیسی کی منظوری 1990میں دی گئی ۔ خودکشی سے بچاؤ کا عالمی دن پہلی باردس ستمبر 2003 کو قرار دیا گیا ، 2011میں 40ممالک میں اس دن کو سرکاری سطح پر منایا گیا۔اسی طرح ذہنی بیماریوں اور دبائو کے بارے میں موجود غلط فہمیوں کے تدارک اور ان کے بارے میں عوام میں آگاہی پھیلانے کی غرض سے ہر سال 10 اکتوبر کو ذہنی صحت کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔

حرف آخر

زندگی اللہ تعالی کی طرف سے عطا کردہ ایک نایاب اور انمول تحفہ ہے یہ نعمت ایک بار ہی ملتی ہے جس کی قدر کرنی چاہیے۔قران میں واضح ہے کہ’’تم خوداپنے نفس کو ہلاکت میں نہ ڈالو‘‘۔

تازہ ترین