• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

برصغیر میں ہمیشہ سے میوزک بڑا باکمال بناہے ۔اچھے گانے والے،اچھے لکھنے والے،اچھی دھنیں ترتیب دینے والے اور ماہر سازندے توہوتے ہی ہیں لیکن اچھے میوزک کی پہچان رکھنے والے سریلے کان بھی ہونے چاہیں، تب جاکے میوزک کا مکمل پیکج بن پاتا ہے۔میرا ایک اچھا دوست اس حوالے سے بڑا باکمال ہے کہ اگر میں اسے میوزک کی مکمل ڈکشنری کہوں تو یہ غلط نہ ہوگا۔ خاص طورپر پاک وہند میں گلو کا رو ں،موسیقا رو ں اور گانوں کے حوالے سے اس کی معلومات بہت زیادہ ہیں۔ابھی گلوکار یا گلوکارہ نے گانے کے بول منہ سے نکالے نہیں ہوتے بلکہ دھن کا ہی آغاز ہوتا ہے تو وہ گانے کے بول اس کی فلم اور جس پر یہ گاناپکچرائز ہوا ہوتاہے اس فنکارکا نام سب بتادیتا ہے۔گزشتہ روز ہم دونوں بیٹھے میوزک پرگفتگو کررہےتھے اور میں اسے پوچھ رہا تھا کہ آپ کو میوزک کے بارے میں یہ سب کچھ کیسے معلوم ہے یہ یاد رہے کہ میرے یہ دوست زندگی کی چھ دہائیاں عبورکرچکے ہیں ۔جواب میں انہوںنے ایک قہقہہ لگاتے ہوئے کہاکہ تمہیں یہ بات معلوم نہیں کہ میں نے اپنے لڑکپن، جوانی اور فورٹی جسے ناـٹی ایج بھی کہتے ہیں میں ڈیڑھ سو کے قریب عشق کیے ہیں۔ اور ماضی کا یہ گانا بالکل درست اورحقیقت پر مبنی ہے کہ’’ جو بھی پیار کرے گا وہ گانا گائے گا، دیوانہ سیکڑوں میں پہچانا جائے گا‘‘محبت پیار کرنے والا یا عاشق جو دیوانگی کی حدوں کو چھونے لگتا ہے۔وہ گانا سنتا بھی ہے ۔گانا گاتا بھی ہے اوراپنی دیوانگی کی وجہ سے پہچانا بھی جاتا ہے اوراسے ہر کوئی کہہ رہا ہوتاہے کہ ’’بھئی خیریت تو ہے‘‘ میری عا شق مزاج طبیعت نے مجھے میوزک کے بہت قریب کردیا ہے۔ میں نے فلمیں بھی بہت دیکھی ہیں،میوزک بھی بہت سنا ہے اور گانے یاد کرکے گنگنائے بھی بہت ہیں ،لیکن گانوں کی جان پہچان اس لیے بھی زیادہ ہے کہ جب بھی کوئی گانادیکھتایا سنتاتو اپنی عاشقانہ طبیعت کی وجہ سے یوں لگتا جیسے یہ گانا سو فیصد مجھ پر فٹ آتا ہے بلکہ میرے جوآجکل حالات چل رہے ہیں گانا اس کے عین مطابق ہے۔ انہوںنے بتایا کہ مجھے اپنے لڑکپن کا یہ گانا بہت اچھا لگتا تھا جوماضی کی مشہور فلم مغل اعظم کا ہے کہ’’پیار کیا تو ڈرنا کیا‘‘ گانا تو مجھے بہت پسند تھا لیکن حالات اس کے بالکل برعکس تھے۔ پیار،محبت اور عشق تو کرتے لیکن اس بات سے بہت ڈرتے اور خوف کھاتےتھے کہ اگر گھر والوں کو یا لڑکی کے گھروالوں کو ذرا سا بھی شک ہوگیا تو وہ درگت بنے گی کہ کسی کو منہ دکھانےکے قابل نہیں ہونگے ۔اس لیے زیا دہ تر عشق ون سا ئیڈ ڈ ہی ہو تے تھے ۔ کہنے لگے کہ گذ شتہ روز حکومتی ٹی وی نے ایک مقامی ہوٹل میں محفل موسیقی رکھی ۔ جس کے مہمان خصوصی علی ظفر تھے ،لیکن یہ علی ظفر ’’طیفہ ان ٹر بل ‘‘ وا لے نہیں بلکہ نگراں حکومت کے اطلاعات کے جو وزارت قانون وانصاف کے بھی وزیر ہیں، یہ وہ وا لے وزیرتھے۔ قانون کی باریکیاں جاننے کے ساتھ ساتھ ایسا کون وزیر ہوگا جو ان سے زیادہ میوزک کو سمجھتا ہو اس لیے جہاں حاضرین نے لاہورسے آئی ہوئی گلوکارہ کی آواز اورگائیکی کو انجوائے کیا وہاں وزیر صاحب کے چہرے کی رونق زیر لب مسکراہٹ بتارہی تھی کہ وہ بھی ان گانوں کو بہت انجوائے کررہے ہیں بلکہ کسی کسی موقع پر تو ان کے ہونٹوں کی جنبش یہ بتاتی کہ وہ بھی ساتھ ساتھ گنگنارہے ہیں اور مجھے پہلی بار ایسا معلوم ہوا کہ یہ گانے میری زندگی اور حالات کی بجائے ان وزیر صاحب سے زیا دہ مطابقت رکھتے ہیں ۔اسی لیے وز یر صا حب کی ان گانوں کو زیادہ انجوائے کرکے گنگنانے کی شاید ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے۔ سرکاری ٹی وی جو اپنے ہر وزیر کے آگے ایسے بچھ بچھ جاتاہے جیسے پہلے روز سے ان کے وزیر یہی ہوں اور تاقیامت یہی وزیر ہونگے۔اس لیے وزیرصاحب کی آمد پر جو پہلاگانا گایاگیا ۔وہ کچھ یوں تھا کہ


تمہی ہو محبوب میرے، میں کیوں نہ تمہیں پیار کروں


تمہیں تو میری دنیا ہو، میں کیوں نہ اقرارکروں


لیکن اگلا گانا جو لگتا تھا کہ وزیر صاحب کی طرف سے ان کے استقبالیہ گانے کا جواب تھا۔ وہ کچھ یو ں تھا کہ ،


اکھ لڑی بدو بدی۔ موقعہ ملے کدی کدی


کل نہیں کسی نے ویکھی،مزہ لیے اج دا۔


پلک جھپکتے گز ر جا نے والے تین مہینو ں میں عقل مند وہی ہے جو یہ سمجھ جا ئے کہ ’’ کل نہیں کسی نے ویکھی ،مزہ لیے اج دا۔ کیو نکہ مو قع ملے کد ی کدی۔


twitter:@am_nawazish

تازہ ترین