• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خصوصی سروے رپورٹ: منور راجپوت(کراچی)، روبینہ شاہین(اسلام آباد)

پاکستان تحریکِ انصاف2018 ء کے انتخابات میں سب سے بڑی جماعت کے طور پر سامنے آئی۔ گو کہ اس جیت کے کئی عوامل ہیں، تاہم اس میں کوئی شک نہیں کہ عوام کی ایک بڑی تعداد نے تبدیلی اور’’ نئے پاکستان‘‘ کے نعرے ہی سے متاثر ہو کر پی ٹی آئی کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ عمران خان کا’’ نئے پاکستان‘‘ کا تصوّر قانون کی بالادستی، بلا امتیاز احتساب، عوام کے معیارِ زندگی میں بہتری اور آزاد خارجہ پالیسی جیسے نکات پر مشتمل ہے۔ وہ عوامی اجتماعات اور میڈیا سے گفتگو میں اپنے اس نعرے کی جو تشریح کرتے رہے ہیں، اُس کے مطابق،’’ نئے پاکستان‘‘ میں پولیس ہر طرح کی سیاسی مداخلت سے پاک ہوگی۔ پیسا، میگا پراجیکٹس کی بجائے عوام پر خرچ کیا جائے گا، خاص طور پر حکومتی وسائل، غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی فلاح و بہبود پر خرچ ہوں گے۔ نیز، نئے پاکستان میں صحت اور تعلیم پر بھرپور فوکس رکھا جائے گا۔ پھر یہ بھی کہ حکومتی امور میں شفّافیت لائی جائے گی۔ بلاشبہ، یہ نعرہ نہ صرف یہ کہ انتہائی پُرکشش ہے، بلکہ قوم کے دِل کی بھی آواز ہے۔ تاہم، جہاں پی ٹی آئی کے حامی’’ نئے پاکستان‘‘ کے لیے پُرجوش ہیں، وہیں اس حوالے سے مختلف آرا رکھنے والوں کی بھی کمی نہیں۔ توقّعات، امکانات اور خدشات کے سائے تَلے ایک ایسی حکومت کا آغاز ہو رہا ہے، جس سے قوم بہت سی اُمیدیں وابستہ کیے ہوئے ہے۔ اگر دیکھا جائے، تو آج کا سب سے بڑا سیاسی سوال یہی ہے کہ’’ کیسا ہوگا نیا پاکستان؟ کیا عمران خان اپنے وعدوں، دعوؤں پر حقیقی معنوں میں عمل درآمد کر پائیں گے؟ اور یہ کہ اس جدوجہد میں اُنھیں کِن مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے؟ ہم نے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے نمایاں افراد کے سامنے بھی یہ سوالات رکھے۔ اُنھوں نے جو جواب دئیے، وہ’’ جنگ‘‘ کے باذوق قارئین کی نذر ہیں۔

ڈاکٹر عبدالقدیر خان (ایٹمی سائنسدان)

اللہ سے دعا ہے کہ ملک میں آنے والی نئی قیادت پاکستان کے لیے جو بھی کرکے بہتری کی راہ نکلے جب بھی کوئی نئی قیادت آتی ہےتو بڑے بڑے دعوے کیے جاتے ہیں۔ لیکن پھر اقتدار ملتے ہی وہ لوٹ مار کے چکر میں لگ جاتے ہیں۔ نئے پاکستان کا خواب دکھاتے ہوئے عمران خان نے جووعدے عوام سے کیے ہیں اللہ کرے وہ پورے بھی کرے۔ ملک ترقی کی راہوں پر گامزن ہو اور عوام کی زندگی میں خوشحالی آئے ۔ ملک کو تحفظ دینے کے لیے ہماری فوج ہر محاز پر قربانیاں دے رہی ہے ہم سب کو چاہیے کہ اپنے فرائض پوری ایمانداری سے اداکریں ہمارے معاشرے کو رشوت اور سفارش نے مفلوج بنادیاہے اور ملک کی ترقی میں یہ دونوں رکاوٹ کاباعث بنتی ہیں۔ دفاعی لحاظ سے ہمارا ملک دنیا کے ممالک سے کہیں آگے اور مضبوط ہے۔

ڈاکٹر پیرزادہ قاسم( شاعر، سابق وائس چانسلر، جامعہ کراچی)

پاکستان کی صُورتِ حال کسی بھی طور تسلّی بخش نہیں ہے۔ ہماری خارجہ، معاشی اور تعلیمی پالیسز ناکارہ ہو چکی ہیں۔ اب پہلی بار ایسا محسوس ہوا کہ قوم نے خود کو بدلنے کا سوچا ہے اور اس کا عملی مظاہرہ انتخابات میں کیا گیا۔ قوم نے ایسے لوگوں کو منتخب کرنے کا فیصلہ کیا، جو پُرانی ڈگر سے ہٹ کر ایک’’ نئے پاکستان‘‘ کے لیے کام کرنے پر آمادہ ہوں اور اس مقصد میں اُنھیں کسی حد تک کام یابی بھی حاصل ہوئی۔ اصل بات یہ ہے کہ ہمیں اپنے اداروں کی تنظیمِ نو کرنا پڑے گی۔ مثال کے طور پر تعلیم ہی کو لے لیں، ہماری بنیادی اور اعلیٰ تعلیم، دونوں ہی تباہی کے دھانے پر پہنچ چُکی ہیں۔ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ ہم جی ڈی پی کا محض 1.6 تعلیم پر خرچ کر رہے ہیں، جب کہ کم ازکم چار فی صد خرچ کرنا چاہیے۔ اسی طرح ہیلتھ کئیر کو لے لیں۔ اس شعبے میں تو مجموعی قومی آمدنی کا صرف ایک فی صد خرچ ہو رہا ہے۔ نئی حکومت کو ان سب چیزوں کو سامنے رکھتے ہوئے انقلابی نوعیت کے فیصلے کرنے ہوں گے۔ اگر عمران خان یہ ساری چیزیں نئے نظام میں انسٹال کر پائے، جسے’’ نیا پاکستان‘‘ کہا جارہا ہے، تو میرا خیال ہے کہ اس سے کم ازکم ہماری سمّت تو درست ہو ہی جائے گی۔

افتخار عارف (معروف شاعر اور دانش ور )

یہ انتہاہی خوشی کا موقع ہے کہ انتقال اقتدار انتخابات کے ذریعے ہو رہا ہے۔ محمد نواز شریف کے بعد جمہوری عمل کو آگے بڑھاتے ہوئے عمران خان وزیراعظم کی حیثیت سے حلف اٹھا رہے ہیں۔ عمران خان مسلسل اپنی انتخابی مہم کے دوران کہا کرتے تھے کہ انہوں نے بچپن میں ایک خواب دیکھ تھا کہ میں بڑا ہو کر پاکستان کو قائد اعظم والا پاکستان بنائوں گا۔ قائد اعظم نے پاکستان بنانے کے بعد اصول اور نظریہ پاکستان واضح کر دیا تھا کہ کیسا پاکستان ہو گا فوج اور سول کس طرح کام کریں گے مسلم، سکھ، ہندو سب کو یکساں حقوق ملیں گے ایجوکیشن سوشل ویلفیئر انصاف سب کے لئے سستا اور سہل ہو گا وہ بھی پاکستان کو جدید اسلامی فلاحی مملکت بنانا چاہتے تھے اپنی انتخابی مہم کے دوران عمران خان بھی ایسا ہی پاکستان بنانے کی باتیں کرتے رہے ہیں دیکھنا یہ ہے کہ آنے والے دنوں میں کیا وہ ان تمام باتوں کو عملی صورت دیں گے ان کے شروع کے 100دنوں کے ایجنڈا پر بھی عمل درآمد ہو سکے گا کہ نہیں۔ ہمیں اچھے دنوں کی امید رکھنی چاہیئے انشا اللہ وہ ان باتوں پر عمل بھی کرے گا ۔

انور مقصود(لکھاری، ڈراما نگار)

ہماری تو پاکستان کے بارے میں وہی سوچ ہے، جو قائدِ اعظم اور علّامہ اقبال کی تھی۔گزشتہ 71 برسوں میں ہر آنے والا دن، ہمارے لیے جانے والے دن سے بُرا ہی آیا۔ ہم ہر بار یہی سوچتے ہیں کہ شاید کچھ تبدیل ہو جائے، مگر ہمارے ہاں تعلیم ہی نہیں ہے، تو لوگ ہمیشہ روایتی چہروں ہی کو ووٹ دیتے آئے ہیں، جو برسوں سے اسمبلیوں میں براجمان ہیں اور اپنی من مانیاں کرتے ہیں۔ لیکن اس بار لوگ تنگ آگئے، تو اُنھوں نے کچھ ووٹ نئے لوگوں کو بھی دیے، اس امید کے ساتھ کہ شاید کچھ فرق پڑ جائے۔ سچّی بات یہ ہے کہ مجھے ابھی بھی کچھ عجیب سا لگ رہا ہے، اس لیے کچھ کہہ نہیں سکتا۔ شاید کوئی ایمان دار سربراہ آجائے، ہم لوگ بُرے نہیں ہیں، عوام بُرے نہیں ہیں، ہماری قسمت خراب ہے کہ ہمیں قائد کے بعد کوئی ایمان دار سربراہ نہیں ملا۔ اچھی بات یہ ہے کہ عمران خان نے اسٹینڈ لیا کہ کرپشن ختم ہونی ہے اور اُس پر اکیلا ڈٹا رہا، اسی وجہ سے ایک روشنی تو نظر آئی ہے، مگر حالات بہت مشکل ہیں۔ معیشت، تعلیم، صحت، روزگار، مہنگائی اور اسی طرح کے کئی اور پیچیدہ، حل طلب مسائل ہیں، گویا اِک قیامت ٹوٹی ہوئی ہے۔ دیکھیں، اب وہ قوم کو ان مسائل کے انبار سے کیسے نکالتے ہیں، مگر اس کے لیے صرف حکومت کو نہیں، سب کو مل کر کام کرنا پڑے گا۔

فتح محمد ملک (ماہر تعلیم تاریخ دان ، محقق)

نیا پاکستان بنانے کا عزم تو ذوالفقار علی بھٹو بھی قوم کے سامنے لائے تھے۔آج عمران خان نےبھی نوجوانوں کی امنگوں کی ترجمانی کرتے ہوئے نئے پاکستان کی نوید سنارکھی ہے۔ ہوناتویہ چاہیے کہ حقیقی پاکستان کا تصور دیاجائے وہ پاکستان جس کا خواب علامہ اقبال اور قائداعظم نے مل کر دیکھا اور اس خواب کی تکمیل کے لیے دن رات ان تھک محنت کی۔ انکے نظریات کے مطابق حقیقی پاکستان بنانے کے لیے پہلاقدم یہ ہے کہ پاکستان میں  جاگیردارانہ نظام کو ختم کیاجائے۔ سرداری وڈیراسسٹم ختم ہوگا تو عوام کو ان کے بنیادی انسانی حقوق ملیں گے۔ قائداعظم نے پاکستان کے قیام کے بعد سب سے پہلے خطاب میں بھی کہاتھا کہ نسل، رنگ اور لسانی تعصب کے تصورات کو ختم کیاجائے گا۔ انہوں نے پاکستان بننے کے بعد سب سے پہلے زراعت کی طرف توجہ دی اور زرعی اصلاحات کی کمیٹی بنائی۔انہوں نے کہا تھا کہ جاگیردارانہ نظام ختم کرکے سب کو مساوی حقوق دیئے جائیں گے۔

کشورناہید (ادیب، دانشور،شاعرہ)

14اگست دوہری اہمیت کا حامل ہے۔ جشن آزادی کی خوشی کے ساتھ ساتھ ہم نئے پاکستان کے بننے اور پھلنے پھولنے کے بھی دعا گو ہیں۔ ہماری اللہ سے دعا ہے کہ نئے پاکستان میں بھیک مانگتے بچے نظرنہ آئیں۔ اور غربت کی ماری مائوں کو اپنے بچوں کو جھوٹے دلاسے دے کر خالی پیٹ نہ سلانا پڑے۔ چھوٹے چھوٹے بچوں کے چہروں پر خوشحالی نظرآئے اور وہ بہتر مستقبل کی طرف گامزن نظرآئیں۔ نئی قیادت کے ساتھ ہماری نوجوان نسل اور خواتین خاص طور پر نشانہ بشانہ نظرآتی ہیں۔ خدا کرے نوجوانوں اور خواتین کی ان سے وابستہ توقعات بھی پوری ہوں۔ تعلیم اور معاش ہر ایک کی رسائی ہو۔ نئی قیادت میں ایسے لوگ ہیں جو اللہ والے ہیں جنہیں خوف خدا ہے وہ یقیناً انسانیت کی بھلائی کے لیے کام کرینگے۔ رعونت بھرے مزاج کے لوگوں کا غرورخاک میں ملاہے۔ خدا کرے ہمارے ملک کے لیے ترقی اور خوشحالی کی راہیں کھل جائیں۔ ہمیں پوری توقع ہے کہ جلد ہم پاکستان کو بدلتاہوا اور بہترپاکستان کی شکل میں  دیکھیں گے۔

غازی صلاح الدّین ( صحافی، کالم نگار)

اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ عمران خان ایک کرشمہ ساز شخص ہیں اور قوم نے اُن پر اعتماد کا اظہار کیا ہے، تاہم اس حقیقت سے بھی آنکھیں بند نہیں کی جاسکتیں کہ کسی مُلک یا معاشرے میں تبدیلی لانا آسان نہیں۔ یہ جان جوکھم کا کام ہے۔ اس لیے مَیں سمجھتا ہوں کہ عمران خان کو اپنے جذباتی ورکرز اور پُرامید عوام کو صاف طور پر بتا دینا چاہیے کہ اُنھیں تبدیلی کے لیے طویل انتظار کرنا پڑ سکتا ہے۔ دوسری جنگِ عظیم میں چرچل برطانیہ کے وزیرِ اعظم بنے، تو اُنھوں نے ایسا ہی کیا تھا۔ اُنھوں نے لمبے چوڑے وعدے کرنے کی بجائے قوم کو واضح طور پر مشکلات سے آگاہ کردیا تھا۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ’’ نئے پاکستان‘‘ کا خواب اُس وقت تک شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکتا، جب تک عوام کو بھی اُن کی ذمّے داریوں کی ادائی کے لیے تیار نہ کیا جائے، سو اس حوالے سے ایسے پروگرامز ترتیب دینا ضروری ہیں، جن کے ذریعے عوام بھی نئے پاکستان کی تعمیر میں اپنا حصّہ ڈال سکیں۔ پھر یہ بھی ازحد ضروری ہے کہ نئی حکومت اپنی ترجیحات کو قائدِ اعظم، محمّد علی جناح کی 11 اگست کی تقریر کی روشنی میں طے کرے، کیوں کہ اسی بنیاد پر تعمیر ہونے والا پاکستان ہی، قائدِ اعظم کا پاکستان ہوگا۔

مہتاب اکبر راشدی( میزبان، صحافی، سیاست دان)

ہم نے جمہوریت کے نام پر مسلسل تماشے ہی دیکھے ہیں۔ ہمارے ہاں جمہوریت کا پھل یا ثمر کبھی بھی ووٹرز کو نہیں ملا، ہاں جو جمہوریت کے نام پر ووٹ لے کر اسمبلیوں میں پہنچے، اُن کے دن، رات ضرور بدل گئے۔ وہ پہلے بھی طاقت وَر تھے، لیکن ہمارے نظام نے اُنھیں مزید طاقت وَر بنا دیا۔ ہم جانتے ہیں کہ جمہوریت کی اصل رُوح یا تشریح یہ تو نہیں ہے۔ اب یہ جو’’ نئے پاکستان‘‘ کا نعرہ ہے، آپ اسے تبدیلی کی جانب سفر کی علامت سمجھ لیجیے۔ اس حوالے سے کسی قسم کے خدشات تو نہیں ہونے چاہئیں، البتہ صبر کی بہت ضرورت ہے۔ عوام نے بڑے بڑے بُت گرادیے اور ابھی مزید بُتوں کو گرائے جانے کی ضرورت ہے، لیکن یہ سب مرحلہ وار ہی ہوگا۔ عمران خان کو اس ضمن میں بہت سخت فیصلے کرنے پڑیں گے۔ ایک آزمائش اُن کے لیے ہے اور ایک قوم کے لیے۔ چلیں، قوم تو پہلے ہی آزمائشوں میں گِھری ہوئی ہے، اس لیے اسے تو کوئی مسئلہ نہیں ہوگا، لیکن اصل آزمائش صاحبانِ اقتدار ہی کی ہوگی، کیوں کہ اُنھیں نامقبول فیصلے کرنا پڑیں گے۔ بہرحال، قوم کو جذباتی ہونے کی بجائے اس طرح کے فیصلے برداشت کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔

انور مسعود ( معروف شاعر اور علمی و ادبی شخصیت)

نیاپاکستان وہ ہونا چاہیے جس کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا اور اس کی تعبیر کے لیے قائداعظم محمد علی جناح نے دن رات ان تھک محنت کی اس ملک میں زیادہ ترقیادت ایسی آئی جو محض لیڈربن کر سامنے آئی آج اس ملک کو قائداعظم جیسے مخلص انسان کی ضرورت ہے جو اپنی ذات کی نفی کرکے محض اس ملک کی خوشحالی اور ترقی کی طرف توجہ دے۔ مجھے طلوع سحر کے آثار نظرآرہے ہیں۔جو ہماری قوم کو روشن مستقبل کی راہ دکھائے گی۔ عمران خان سے ہمیں بہت توقعات ہیں اگر اس نے یہ کہا کہ وہ ملک میں مدینہ منورہ کی طرز پر حکومت بنائے گا تو یقیناً پاکستان میں اسلامی نظام قائم ہوگا۔عمران خان پاکستان کو اس راستے پر لے آئے ہیں جوکہ اس ملک کی اصل منزل کی طرف جاتا ہے۔ مَیں کوئی سیاسی آدمی تو ہوں نہیں، تاہم ایک شہری کی حیثیت سے سمجھتا ہوں کہ قوم کو عمران خان سے بہت سی توقّعات ہیں۔ اُنھوں نے انتخابی مہم اور انتخابات کے بعد عوام سے خطاب میں جو باتیں کیں، وہ ہر شہری کے دل کی آواز ہے۔ ہمیں امید ہے کہ وہ سادگی اختیار کرنے اور ہر سطح پر کرپشن کے خاتمے کا وعدہ پورا کریں گے۔ میرا خیال ہے کہ اربوں ڈالر پر مشتمل دولت کو، جو پاکستان سے لُوٹ کر بیرونِ مُلک چُھپائی گئی ہے، واپس لانا ضروری ہے اور یہ نئی حکومت کے لیے بھی ایک بڑا امتحان ہوگا، تاہم ہمیں اچھی امید ہی رکھنی چاہیے اور عمران خان کو کام کرنے کا موقع ملنا چاہیے۔

رحیم اللہ یوسف زئی( سینئر صحافی و تجزیہ کار)

میرا تعلق خیبرپختون خوا سے ہے اور وہاں پانچ برس تحریکِ انصاف کی حکومت رہی ہے۔ یہاں بھی تبدیلی، نئے پاکستان اور نیا خیبر پختون خوا کی بات کی گئی تھی۔ اس حوالے سے بتایا گیا کہ وہ نظام بدلنا چاہتے ہیں، عوام کو سہولتیں دی جائیں گی اور کرپشن ختم کر دی جائے گی۔ ان اہداف کو حاصل کرنے کے لیے اُنھوں نے کوشش کی، لیکن ظاہر ہے کہ جو وعدے کیے گئے، وہ سب پورے نہیں ہوئے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے، تو پورے مُلک کو بدلنا تو اس سے بھی بڑا چیلنج ہوگا۔ پھر یہ کہ ہر صوبے میں اُن کی حکومت بھی نہیں بن پا رہی اور پنجاب میں تو اپوزیشن بہت مضبوط ہوگی۔ سو، پورے مُلک کو بدلنا یا نیا پاکستان بنانا خاصا مشکل ہوگا۔ دوسری بات یہ ہے کہ اُنھوں نے ایک سو دنوں میں جو کام کرنے کے وعدے کیے ہیں، ان کے لیے بھی بہت زیادہ وسائل درکار ہیں اور اس کے لیے سیاسی استحکام بھی چاہیے، جو بہ ظاہر نظر نہیں آرہا۔

بلقیس ایدھی( سماجی کارکن)

ہم تو گزشتہ ستّر برسوں سے یہی سُنتے آ رہے ہیں کہ بس مُلک بدلنے والا ہے، لیکن ایسا کبھی ہوا نہیں۔ البتہ اب کی بار لوگوں نے بڑی امید اور جذبے کے ساتھ عمران خان کو ووٹ دیے ہیں، اللہ کرے وہ اپنے وعدوں کو پورا کر پائیں۔ نیز، اگر کوئی اچھا کام کرتا ہے، تو ہمیں اُس کا ساتھ دینا چاہیے۔ ایدھی صاحب مُلک کے مستقبل کے حوالے سے بہت پُرامید تھے اور ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ’’ بلقیس! تم دیکھ لینا، پاکستان ایک دن ویلفئیر اسٹیٹ بنے گا‘‘، انتقال سے کچھ روز قبل بھی اُنھوں نے یہی بات کی۔ بہرحال، نئی حکومت کو تعلیم کے میدان میں بہت زیادہ کام کرنا چاہیے اور پھر نوجوانوں کی بے روزگاری بھی ایک سنگین مسئلہ ہے۔ غریب بہت بُری حالت میں ہیں، مَیں تو سارا دن غربت کی کہانیاں سُنتی ہوں، اس لیے حکومت کو ایسے اقدامات کرنا ہوں گے، جس سے لوگوں کی زندگی بدلے۔ لاکھوں لوگوں کو پیٹ بَھرنے کے لیے روٹی نہیں ملتی، تو علاج معالجے کے لیے بھی عوام مارے مارے پِھرتے ہیں، ان بے چاروں کا کوئی پُرسانِ حال نہیں۔ عمران خان سے امیدیں تو بہت ہیں، باقی وقت بتائے گا۔

پروفیسر سحر انصاری ( شاعر، ادیب، دانش وَر)

پچھلے ستّر، اکہتّر برسوں میں سے آدھی سے زیادہ مدّت تو آمریت کی نذر ہو گئی اور جمہوریت بھی آئی، تو ادھوری، لنگڑی لولی۔ قائدِ اعظم کے بعد مُلکی سیاسی منظر نامے پر سردار، وڈیرے اور پیر وغیرہ ہی چھائے رہے۔ مُلک میں ہمیشہ موروثی سیاست ہی رہی۔ تاہم اب یہ تبدیلی آئی ہے کہ عوام نے کئی حلقوں سے روایتی سیاست دانوں کو مسترد کرکے نئے چہروں کو ایوان میں بھیجا ہے۔ عوامی رُجحان میں یہ ایک مثبت تبدیلی ہے۔ امید تو ہے کہ ایک نیا شخص سامنے آیا ہے، جس کی خدمات واضح ہیں۔ اس نے اپنی پارٹی کو اس مقام تک لانے میں 22 برس صَرف کیے۔ نیز، اُس نے قوم کو ترقّی و خوش حالی کا ایک قابلِ عمل وژن دیا ہے۔ عمران خان کی جانب سے سادگی اختیار کرنے کا اعلان اور پروٹوکول نہ لینے کا فیصلہ بھی عوام کے جذبات کی ترجمانی ہے۔ نیز، وہ معیشت، تعلیم اور صحت پر بات کر رہے ہیں اور ان ہی تین چیزوں سے قومیں ترقّی کرتی ہیں۔ حکومت کے ابتدائی ایک سو دن بہت اہم ہیں اگر اُنھوں نے ان ایک سو دنوں میں کچھ کر دِکھایا، تو یقیناً اُن کے پاؤں جم جائیں گے اور جڑیں مضبوط ہو جائیں گی۔’’ نیا پاکستان‘‘، جیسا کہ یہ لوگ کہہ رہے ہیں، ہوسکتا ہے کہ واقعی اپنے ماضی سے الگ ہوکر ترقّی کی دوڑ میں شامل جائے۔

مولانا ولی رازی( عالمِ دین، سیرت نگار)

پاکستان میں ابتدائی چند برسوں کے بعد سے قیادت کا بحران رہا ہے۔ بدقسمتی سے ہماری سیاسی قیادت، ذاتی اغراض اور مفادات ہی میں کھوئی رہی ہے۔ 1970 ء کے بعد اب پہلا موقع آیا ہے کہ ایک ایسی قیادت سامنے آئی ہے، جس سے چہرے بدلے ہیں، وگرنہ تو اقتدار کی رسّہ کشی پی پی پی اور نون لیگ ہی کے درمیان جاری رہی۔ عمران خان نے سادگی کی بات کی ہے اور بلاتفریق احتساب کی بھی بات کر رہے ہیں۔ الیکشن کے بعد پہلی تقریر میں بھی اُنھوں نے اپنے اسی مؤقف کو دہرایا، اس لیے اُن سے بہت سی امیدیں وابستہ ہیں۔ البتہ، ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ مُلک اس وقت تک نہیں بدلے گا، جب تک قوم بھی خود کو نہیں بدلے گی۔

شکیل عادل زادہ( ادیب و دانش وَر)

’’نئے پاکستان‘‘ کا نعرہ تو ایک علامتی نعرہ ہے۔ شاید اس سے مُراد یہ ہے کہ پاکستان میں ناانصافیوں، بدعنوانیوں اور ظلم وستم کے جو منحوس سائے ہر طرف پھیلے ہوئے ہیں، اُنھیں ختم کرکے ایک روشن پاکستان بنانا ہے۔ اللہ کرے ایسا ہوجائے، کیوں کہ سبھی لوگ ایسا چاہتے ہیں۔ تاہم، میرے خیال میں نئی حکومت کے لیے سب سے بڑا مسئلہ معاشی ہوگا۔ کہا جارہا ہے کہ پاکستان معاشی طور پر انتہائی ابتر حالت میں ہے، لہٰذا اس شعبے میں اَن تھک محنت کرنا پڑے گی۔ دراصل، معیشت ہی ہر طرح کی ترقّی کی بنیاد ہے۔ اسی سے تعلیم ہے، تو اسی سے امن وسکون وابستہ ہے۔ سماجی و معاشرتی ترقّی بھی مستحکم معیشت کے بغیر بے معنی ہے۔ ساری چیزیں تہذیب، ادب آداب، امن وسُکون وغیرہ معیشت ہی سے مشروط ہے۔ معیشت بہتر کردیں، باقی چیزیں خود بہ خود ٹھیک ہو جائیں گی۔

خوش بخت شجاعت ( میزبان، سیاستدان، ماہرِ تعلیم)

پاکستان تو وہی ہے، جو قائدِ اعظم، محمّد علی جناح نے ہمارے ہاتھوں میں دیا تھا، نہ نیا، نہ پُرانا۔ ماں تو ایک ہی ہوتی ہے، جو نئی ہوتی ہے، نہ پرانی۔ اپنا مُلک اور زمین بھی ایک ماں ہی کی طرح ہے۔ ہاں ماں بیمار ہو جائے، تو اُس کا دوا دارو کرنے کی کوشش ضرور کی جاتی ہے، پریشان حال ہو، تو پریشانی دُور کی جاتی ہے، اسی طرح مُلک اور سرزمین جب پریشان ہو، اس پر کوئی افتاد آن پڑی ہو، تو قوم اکٹھی ہو جاتی ہے۔ پاکستان میں بھی بہت سی خرابیاں پیدا ہو گئی ہیں۔ لوگوں نے اس سرزمین کے ساتھ غدّاری کی، سازشیں کیں، اپنی دھرتی ماں کو وہ محبّت اور عزّت نہیں دی، جو بہ حیثیت پاکستانی اسے دینی چاہیے تھی۔ تاہم، مجھے لگتا ہے کہ قوم اب حقیقت آشنا ہوچکی ہے اور اُس نے سازشی ٹولوں، مُلک کے غدّاروں اور کرپٹ مافیا کے خلاف کھڑے ہونے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ صُورتِ حال خاصی حوصلہ افزا ہے، تاہم قوم کو مزید متحد ہونا پڑے گا، کیوں کہ کرپشن اور دیگر برائیوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا کوئی سہل کام نہیں۔

ڈاکٹر عطا ء الرحمٰن ( ماہرِ تعلیم)

اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ معیشت ہے، مگر اس ضمن میں قابلِ غور بات یہ ہے کہ دنیا بھر میں علم کی بنیاد پر معیشتیں ترقّی کر رہی ہیں، لہٰذا، ہمیں بھی نالج بیسڈ معیشت کے لیے اپنے تعلیمی نظام میں انقلابی تبدیلیاں لانی ہوں گی۔ بدقسمتی سے ہم پرائمری سے اعلیٰ تعلیم تک، کوئی بہت اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر پارہے، ہمارے ادارے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، جنھیں پاؤں پر کھڑا کرنے کے لیے بڑے فیصلے کرنا ہوں گے۔ مَیں نے بہ طور چئیرمین ایچ ای سی، وفاقی کابینہ کو پاکستان کی ترقّی کا ایک روڈ میپ دیا تھا۔ ساڑھے تین سو سے زاید صفحات پر مشتمل اس دستاویز میں تمام بنیادی مسائل کا زمینی حقائق کی روشنی میں حل پیش کرنے کی کوشش کی گئی تھی، تاہم پی پی پی اور مسلم لیگ نون کی بعد میں آنے والی حکومتوں کی پالیسز کچھ اور رہیں اور اس دستاویز سے فائدہ نہیں اٹھایا گیا۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ عمران خان تعلیم پر بہت زیادہ فوکس رکھتے ہیں۔ اگر وہ اس حوالے سے اپنے اعلانات اور وعدوں کو پورا کر پائے، تو یقیناً ہمارے سامنے ایک نیا پاکستان ہی ہوگا۔

ٹی ۔ایس۔ بھٹی ( معروف اوورسیز پاکستانی)

پاکستان میں آنے والی ہر نئی حکومت نے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے توقعات اور امیدیں رکھی ہیں اور اُن کی یہ اُمیدیں خاصی حد تک پوری بھی ہوئیں لیکن یہ افسوس کی بات ہے کہ جو توقعات اوورسیز پاکستانیز نے حکومتوں کے ساتھ رکھیں وہ پوری نہیں ہوئیں۔ اب نئے پاکستان میں ہماری یہ اُمیدیں پوری ہوں گی۔ عمران خان کی شکل میں ہمیں اس بات پر خاصا یقین ہے۔ اوورسیز پاکستانی یہ چاہتے ہیں کہ نئے پاکستان میں پارلیمانی ایوانوں میں ہماری نمائندگی موجود ہو ،سمندر پار پاکستانیوں کی سرمایہ کاری کے لیے بہتر پالیسیاں اور قوانین بنائے جائیں اور پہلے سے موجود قوانین میں بہتری لا کر ان پر عمل کرے تو وہ یقینی طور پر بیرونی ملکوں کے پاکستانیوں کی ملک میں سرمایہ کاری اس کے معاشی استحکام میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ طارق شریف بھٹی کا کہنا تھا کہ اگر نئے پاکستان کو ہماری ضرورت پڑی تو ہم دَامے ،دِرمے،سُخنے حکومت کے شانہ بشانہ ہوں گے۔ اوورسیز پاکستانیوں کو عمران خان کے نئے پاکستان میں انصاف ، اعتماد ، تحفظ کی ضرورت ہے ۔ اگر ہمیں یہ سب کچھ مل جاتا ہے تو ہم اپنی صلاحیتیں اور توانائیاں بیرون ملک کی بجائے نئے پاکستان میں برؤئے لائیں گے۔

ثاقبہ رحیم الدین (ممتاز علمی ادبی شخصیت)

کیسا ہو گا نیا پاکستان نہایت سنجیدہ عنوان ہے۔ نیا پاکستان ایسا ہونا چاہیئے جو واقعی نئے اور بہتر انداز میں سامنے آئے، پاکستانیوں نے پچھلے لگ بھگ چالیس پینتالیس سال محض چند ترقیاتی کاموں کے علاوہ ملک میں کوئی خاص ترقی نہیں دیکھی اور مشکل زندگی گزارنے پر مجبور ہیں پاکستانی قوم مالی و معاشی بدحال ، تعلیمی مشکلات، صحت کا گزرتا ہو معیار، روزگار کے فقدان کا شکار ہے اس کے علاوہ بھی ہم تاریک راہوں سے گزر رہے ہیں نئے پاکستان کو ایک آزاد، ترقی پسند، خوشحال، انصاف کا سرچشمہ، علم وادب میں بسا ہوا اور مہذب ہونا چاہیئے ان تمام احسن اقدامات کے لئے وقت چاہیئے تبدیلی آتے آتے ہی آئے گی۔

جمال شاہ (ڈائریکٹر پی این سی اے اسلام آباد)

خداکرے نیاپاکستان ایسا ہو جہاں تمام نظام شفاف طریقے سے چلیں۔ کسی شخص کو بھی پردوں کے پیچھے چھپنے کی ضرورت نہ پڑے ہماری نئی قیادت شفافیت پر عمل کرے اور اپنے آپ کو عوام کی فلاح و بہبود کے لیے وقف کرے۔ ان کے کردار اور گفتار یکتا ہوں گے خود ٹھیک ہونگےتو ملک کا نظام بھی بہترانداز میں چلائیں گے۔ اسی طرح ملک کے اندرموجود ادارے ایک دوسرے پراثرانداز نہ ہوں بلکہ اپنی اپنی حدود میں رہ کر کام کریں تو ہمارا ملک حقیقت میں ایک نیا پاکستان بن کرسامنے آئے گا جس میں عوام خوشحال زندگی گزارسکتے ہیں۔

امجد اسلام امجد( شاعر، ادیب، کالم نگار)

مَیں عموماً سیاسی موضوعات پر گفتگو سے گریز ہی کرتا ہوں، تاہم اگر کوئی مُلک میں مثبت تبدیلی لانا چاہتا ہے، تو ہمیں اُسے خوش آمدید کہنا چاہیے، البتہ یہ ضرور ذہن نشین رہے کہ باقی لوگ بھی اتنے ہی محبِ وطن ہیں، جتنے کہ’’ نیا پاکستان‘‘ کا نعرہ لگانے والے۔

نورالہٰدی شاہ ( ڈراما نگار)

مَیں سمجھتی ہوں کہ قوم نے بڑی مدّت کے بعد کوئی اچھا فیصلہ کیا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہمارا مُلکی نظام کھوکھلا ہو چکا ہے اور یہ معمولی مرمّت یا لیپا پوتی سے درست نہیں ہوگا، بلکہ اس کے لیے بنیادی نوعیت کے بولڈ فیصلے کرنا پڑیں گے۔ قوم نے عمران خان پر اعتماد کیا ہے اور اُنھیں امید ہے کہ وہ اُن کے دیرینہ مسائل حل کریں گے۔ اچھی بات یہ ہے کہ عمران خان عوامی مسائل کے حل کے لیے پُرعزم ہیں اور اُن کے سادگی وغیرہ سے متعلق ابتدائی اقدامات نے بھی خاصی پزیرائی حاصل کی ہے۔سو، مجھے امید ہے کہ وہ اپنے اعلان کے مطابق، ایک ایسا پاکستان بنانے کی جدوجہد ضرور کریں گے، جہاں انسان کو انسان ہی سمجھا جائے گا۔

فاروق قیصر ( معروف ٹی وی فنکار اور رائٹر )

ہماری تو خواہش ہے کہ اس مرتبہ قوم سے کئے گئے وعدے پورے کرنے ہونگے۔ یہ حکمرانوں کے لئے آخری چانس ہے۔ بہت بار ایسا ہو چکا ہے کہ قیادت کئے گئے وعدوں پر عوام نےان کا ساتھ دیا مگر نتیجہ کچھ بھی نہ نکلا عوام کی زندگی بہتر بنانے کی طرف توجہ دینے کی بجائے حکمران اپنی جیبیں بھرتے رہے۔ ہمیں پوری امید ہے کہ اس بار لوگوں کے مسائل حل ہونگے انہیں صاف پانی ملے گا ۔انہیں ان کی بنیادی ضروریات میسر آئیں گی۔ 14اگست کے دن ہمیں عہدکرنا ہوگا کہ آنے والے سال میں جو 14 اگست آئے تو ہمیں خوشحالی اور معیشت تبدیل نظر آئے۔ نئے پاکستان جھلک اس 14اگست میں نظر آنی چاہئے ۔

ڈاکٹر انعام الحق جاوید (منیجنگ ڈائریکٹر نیشنل بک فائونڈیشن)

میرے خیال میں نئے پاکستان کا تصور وہ ہونا چاہیئے جہاں لوگوں کو ان کے جائز حقوق آسانی سے ملیں ہر آدمی خوشحال زندگی گزارے ہمیں زیادہ بڑے لمبے چوڑے منصوبوں کی ضرورت نہیں ابھی تو عوام کو صاف پانی بجلی صحت اور تعلیم جیسی سہولیات بھی پوری طرح سے نہیں مل رہی۔ کسی بھی ریاست کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ اس ملک میں رہنے والے افرادکو تحفظ فراہم کیا جائے اور معاشرے سے رشوت، سفارش جیسی خرافات پر قابو پانے کے لئے قوانین پرعمل درآمد کروایا جائے۔ فوری سستا انصاف ہر ایک کی پہنچ تک ہونا چاہیئے ۔

کنول نصیر (معروف ٹی وی انائونسر )

ہم کفایت شعاری سے زندگی گزاریں تو تمام لوگوں کو بنیادی ضروریات کی فراہمی ممکن بنائی جا سکتی ہے ۔ہمارے ملک میںایک خاص طبقہ تو خوشحال زندگی گزارتا ہے مگر عام عوام زندگی کی بنیادی سہولتوں سے بھی محروم ہیں۔ فاطمہ جناح جو کہ قائد اعظم کی بہن تھیں۔ ایک گورنر جنرل کی بہن ہونے کی حیثیت میں بھی انہوں نے ہمیشہ کفایت شعاری کا دامن تھامے رکھا۔ یہ ملک ہمارے اسلاف کی قربانیوں کا نتیجہ ہے آج ہمیں اپنے بچوں کو یہ قربانیاں بتانی ہونگی۔ ہمیں انہیں بتانا ہوگا کہ کس طرح ہمارے مسلمان بھائی بہنوں کے خون آلود لاشوں سے بھری ریل گاڑیاں آتیں تھیں۔ خون کی ندیاں بہہ گئیں تب جا کر ہمیں یہ آزاد ملک نصیب ہوا۔ اب اس کو بہتر پاکستان خود بنانا ہے ہمیں اپنے وطن کو تابناک اور شاندار بنانا ہوگا یہی نیا پاکستان ہوگا ۔

تازہ ترین