• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

موت کی اٹل حقیقت نے بالآخر اٹل بہاری واجپائی کو بھی جالیا۔وہ 1939ء میں شدت پسند ہندو جماعت راشٹریہ سویم سیوک (آر ایس ایس) سنگھ کے پرچارک بن گئے اور یہ رشتہ انہوں نے عمربھر بڑی ذمہ داری سے نبھایا۔ انہوں نے تندہی سے اپنی جماعت کے شدت پسند، مسلم مخالف اور اسلام دشمن نظریات اور منافرت کا پرچار کرتے رہے جس سے بھارت کی غیر ہندو اقلیتیں خاصکر مسلمانوں کو کافی جانی اور مالی نقصان اٹھانا پڑا۔ واجپائی نے پوری زندگی اپنے خیالات اور ان کے اظہار کی وجہ سے ہونے والی قتل اور غارتگری پر کبھی بھی تاسف کا اظہار نہیں کیا۔ شدت پسند مسلم دشمن خیالات اور سوچ سے آپ کی محبت اور انسیت کا یہ عالم تھا کہ جب وہ بھارت کے وزیر اعظم بن گئے تو وہ بدستور ایسے خیالات کی ترویج اور ابلاغ میں حصہ لیتے رہے۔ انہوں نے کئی بار بڑے فخریہ انداز میں آر ایس ایس کے ساتھ اپنے تعلق کا ذکر کیا، ایک بار تو انہوں نے یہ اعتراف بھی کر ڈالا کہ وہ اب بھی اپنی پرانی تنظیم کے پرچارک ہیں۔ جب ان کے بیان سے ملک میں ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا تو انہوں نے بڑی سنجیدگی سے جھوٹ بول کر اپنے بیان کی نفی کرتے ہوئے بتایا کہ اصل میں انہوں نے اپنے آپ کو دیش کا پرچارک گردانا تھا۔

اپنی ساٹھ سالہ سیاسی زندگی میں آپ بارہ دفعہ ملکی پارلیمنٹ میں رہے جس دوران انہوں نے سینکڑوں دھواں دھار اور ہیجان آمیز تقریریں کیں۔ ان کے زور خطابت کے معترف آپ کےدشمن بھی تھے جن میں بھارت کے پہلے وزیراعظم جواہر لال نہرو بھی شامل تھے۔ ایک کٹر پنتھی ہندتوا منتظم اور شعلہ بیان مقرر ہونے کے ساتھ ساتھ واجپائی ایک مصنف اور ہندی کے اچھے شاعر بھی تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی میں ڈیڑھ درجن کتابیں شائع کیں جن میںشاعری کی دو کتابیں بھی شامل ہیں۔ ان کی کویتائوں (نظموں ) میں ہندو دیومالائی کہانیوں اور مذہبی اساطیر کا رنگ غالب ہے جن میں ہندو نشاۃ الثانیہ کی تکمیل کی خواہشات اور ہندتوادی خیالات سے محبت کا اظہار جا بہ جا نظر آتا ہے۔ یہ شاعری پچھلی نصف صدی سے زائد عرصے سے آر ایس ایس اور دیگر ہندتوا نواز شدت پسند گروپوں کی تقاریب میں پڑھی جاتی ہے جس سے لاکھوں پرچارک اور نئے حمایتیوں کو تحریک ملتی ہے۔ اپنے اسکول کے دنوں میں لکھی ہوئی ان کی مشہور نظم ’ہندو تن من، ہندو جیون‘ اسقدر مشہور ہے کہ اسے پچھلی کئی دہائیوں سے آر ایس ایس اور دیگر ہندو شدت پسند جماعتوں کے جلسوں میں بلاناغہ پڑھا جاتا ہے۔ اسطرح واجپائی جی کی اس نظم سے اب تک بلا مبالغہ کروڑوں ہندو پرچارک فیض حاصل کرچکے ہیں اور مستقبل قریب میں کرتے رہیں گے۔ اس نظم کے ابتدائی اشعار کچھ اس طرح سے ہیں:

ہندو تن من، ہندو جیون

رگ رگ ہندو میرا بھیے

میرے ویدوں کا گیان امر

میرے ویدوں کی جیوتی پرکھر

اس کونے سے اس کونے تک

کرسکتا جاگتی سوربھ میں

ہندو جیون، ہندو تن من

رگ رگ میرا ہندو پریچائی

واجپائی ہندتوا کے سب سے بڑے، مہذب اور شائستہ وکیل تھے جو انہیں اپنے سیاسی اور دھارمک قبیلے سے ممتاز کرتی تھیں۔ وہ ہنس مکھ اور ٹھہر ٹھہر کر باتیں کرتے تھے جس سے لوگ بہ آسانی آپکے گرویدہ بن جاتے تھے۔ آر ایس ایس کے چوٹی کے لیڈر اور سرکردہ نظریاتی پیشوا کے این گوونداچاریہ کے مطابق وہ ہندتوا کا ’مکھوٹا‘ تھے جو باہرکی دنیا کیلئے قابل قبول تھے اور جسکے ذریعے ہندتوادی جماعتیں اپنا اثرونفوذ بڑھانے میں کامیاب ہوگئیں۔ شائستگی اور تہذیب سے مزین ہونے کے باوجود ایک پکے ہندتوادی کے طو پرواجپائی جی نےاپنا بھرپور کردار ادا کیا اور اپنی خطابت کے وہ جوہر دکھائے جس سے ان کے اندر کا چھپا ہوا شدت پسند کھل کر سامنے آگیا۔ فروری 1983ء میں آسام میں ایک الیکشن ریلی سے بڑی جذباتی تقریر کرتے ہوئے آپ نے کہا: ’’یہاں پر غیر ملکی آگئے ہیں اور حکومت کچھ بھی نہیں کر رہی۔ اگر یہ لوگ پنجاب میں آگئے ہوتے تو لوگوں نے انہیں چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں کاٹ کر پھینک دیا ہوتا‘‘۔ ان کے خطاب سے مسلمانوں کیخلاف منافرت میں بے انتہا اضافہ ہوا جسکے فورا بعد درجن بھر گاؤں میں فسادات بھڑک اٹھے اور غیر سرکاری اعدادوشمار کیمطابق دس ہزار سے زائد مسلمان قتل کئے گئے۔ اس واقع کو نیلی قتل عام سے یاد کیا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ اس واقع کے ذمہ داروں میں ایک بھی شخص کو سزا نہیں ملی۔

1990ء کے اوائل میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے اپنے اثر و نفوز کو بڑھاوا دینے کیلئے تاریخی بابری مسجد کے انہدام اور وہاں پر رام مندر بنانے کی تحریک چلانے کا فیصلہ کیا اور جنوبی بھارت میں ہندؤوں کو لڑائی کیلئے آمادہ کرنے کی خاطر ’رتھ یاترا‘ نکالنے کا اعلان کیا۔ کئی مہینوں پر پھیلی یہ یاترا جہاں جہاں سے بھی گزری مسلمانوں کیخلاف منافرت میں اضافہ ہوگیا اور کئی جگہ مسلم کش کا باعث بن گئی۔ یہ اسی مسلسل نفرت انگیزی کا سحر تھا کہ دسمبر 1992ء کے ابتدائی دنوں میں ہی لاکھوں ہندو اتر پردیش صوبے میں واقع بابری مسجد کے مقام ایودھیا پہنچ گئے۔ 5 دسمبر کو اٹل بہاری واجپائی نے صوبے کی راجدہانی لکھنؤ میں بپھرے جذبات سے لبریز ہزاروں ہندوؤں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ’مجھے نہیں پتہ کہ کل کیا ہوگا‘مگر ساتھ ہی انھوں نے ذو معنی الفاظ کا سہارا لیتے ہوئے ’نوکیلے پتھروں‘اور ’میدان کو ہموار‘ کرنے کی باتیں کیں۔ اس کے اگلے روز ہزاروں ہندؤ کارسیوکوں نے بابری مسجد پر حملہ کرکے اسے تباہ کردیا۔ اس کےساتھ ہی مسلم کش فسادات شروع کر دیئے گئے جسمیں ہزاروں بیگناہ لوگ مارے گئے اور انکی املاک تباہ کردی گئیں۔ 2009ء میں جسٹس لبرہن کے زیر قیادت لبرہن کمیشن نے جن اڑسٹھ افراد کو بابری مسجد کے انہدام کا ذمہ دار قرار دیا ان میں واجپائی اور انکے سارے قریبی ساتھی بھی شامل تھے جنہیں کمیشن نے ’’نقلی لبرل‘‘ قرار دیا۔

بحیثیت وزیراعظم انہوں نے 2002ء میں گجرات کے مسلم کش فسادات کا کھل کر دفاع کیا اور 12اپریل 2002ء کو گوا کے دارالحکومت پاناجی میں بی جے پی کی نیشنل ایگزیکٹو سے خطاب کرتے ہوئے مسلمانوں کو ان فسادات کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے آپ نے لوگوں سے پوچھا: ’’آگ لگائی کس نے؟ آگ پھیلی کیسے؟‘‘ دوران خطاب انہوں نے ’مکھوٹا‘ اتارکر مسلمانوں پر رکیک حملے کئے اور اعلان کیا کہ’مسلمان جہاں بھی رہتے ہیں خوش اسلوبی سے نہیں رہتے۔ وہ گھل مل کر نہیں رہتے۔ وہ امن کیساتھ رہنے میں دلچسپی نہیں رکھتے‘ واجپائی نے مدارس پر حملہ کرتے ہوئے یہ غلط تاثر دینے کی کوشش بھی کی کہ وہ تشدد پھیلاتے ہیں۔ آپ نے مدارس سے مطالبہ کیا کہ وہ طلبہ کو سائنسی علوم کیساتھ ساتھ امن کیساتھ رہنے کی تلقین کریں۔ ’’تلوار کے بل پر مت (مذہب) کا پرچار نہیں کرنا چاہئے۔‘‘

1999ء میں وزیراعظم بننے سے پہلے ایک اخبار نویس نے ان سے بی جے پی کی فارن پالیسی کے حوالے سے پوچھا تو انھوں نے مختصر جواب دیدیا: پاکستان کی بمباری، پاکستان کی تباہی۔ آپ کی وفات پر سوشل میڈیا پر ایک کشمیری میر لئیق نے کیا خوب تجزیہ کیا: ’’واجپائی مودی کا شاعرانہ ورژن تھے۔‘‘

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین