اﷲ تعالی نے سورہ مائدہ میں ارشاد فرمایا کہ ’’جو کام نیکی اور خدا ترسی کے ہیں ان میں سب سے تعاون کرو اور جو گناہ اور زیادتی کے کام ہیں ان میں کسی سے تعاون نہ کرو اﷲ سے ڈرو، اس کی سزا بہت سخت ہے‘‘۔
جناب عمران خان اور ان کی کابینہ نے حلف اٹھا کر ذمہ داریاں ادا کرنا شروع کر دی ہیں۔ انتخابی مہم اور کامیابی کے بعد خان صاحب نے ملکی نظام کو ریاست مدینہ کی طرز پر چلانے کا عندیہ دیا ہے۔سو دن کے انقلابی پروگرام کا اعلان اور لوٹی دولت واپس لانے کیساتھ ساتھ بلا تمیز احتساب کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔ سو دن تک تنقید کے بجائے خان صاحب کو کئے گئے اعلانات پر عمل کا موقع دیا جانا چاہیے، البتہ نظام کار کو درست سمت گامزن کرنے کے لئے انہیں صائب مشورے دئیے جا سکتے ہیں۔
بات ریاست مدینہ کی گئی ہے اسلئے ہم یہاں جناب سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے خلافت سنبھالنے کے بعد کے خطاب اور جناب سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کی اپنے بیٹے کو کی گئی وصیت جناب عمران خان کی راہنمائی کے لئے پیش کرینگے۔ سیدنا عمر ؓنے اپنے خطاب میں کہا کہ’’لوگو! وحی کا سلسلہ تو منقطع ہو چکاہے۔اب ہم تمہارے ساتھ جو بھی معاملہ کرینگے وہ تمہارے ظاہری حالات و اعمال کے مطابق ہوگا۔ظاہراً جس نے خیر و بھلائی کا رویہ اپنایا ہماری طرف سے اسے امن وامان کی ضمانت ہے۔باطنی حالت اور چھپے ہوئے راز کی ٹوہ ہم نہیں لگائیں گے۔یہ معاملہ بندے اور اﷲ کے درمیان ہے اور اﷲ باطن کے مطابق اور نیتوں کے لحاظ سے بندوں سے حساب لے گا۔اسی طرح جس شخص سے شر اور فساد ظاہر ہوا، ہم اس کیخلاف قانونی کارروائی کرینگے۔ اگر وہ کہتا بھی رہے کہ دل اور نیت سے اس کا ارادہ فتنہ و فتور کا نہ تھا تو ہم اس کے ظاہری عمل کے مقابلے میں اسکے اس دعوے کو قبول نہ کرینگے۔‘‘
سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے بیٹے کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا کہ’’اے میرے فرزند! زمانے کی گردش، دنیا کی بے وفائی اور آخرت کی نزدیکی نے مجھے ہر طرف سے غافل کر کے صرف آنے والی زندگی کے اندیشوں میں مبتلا کر دیا ہے۔ اب مجھے اپنی فکر ہے۔ تمام نشیب و فراز پیشِ نظر ہیں۔ بے نقاب حقیقت آنکھوں کے سامنے ہے۔ سچا معاملہ روبرو ہے۔ اسی لیے میں نے یہ وصیت تیرے لیے لکھی ہے،خواہ تیرے لیے زندہ رہوں یا فوت ہو جائوں کیونکہ مجھ میں تجھ میں کوئی فرق نہیں۔ تُو میری جان ہے، میری روح ہے۔ تجھ پر آفت آئے گی تو مجھ پر پہلے آئے گی۔ تیری موت میری موت ہوگی۔‘‘
فرزند! ’’دل کو موعظت سے زندہ کر، زہد سے مار، یقین سے قوت دے، حکمت سے روشن کر، موت کی یاد سے اس پر قابو پا، فانی ہونے کا اس سے اقرار لے، مصائب یاد دلا کر اسے ہوشیار بنا، زمانے کی نیرنگیوں سے اسے ڈرا، بچھڑ جانے والوں کی حکایتیں اسے سنا، گزر جانے والوں کی تباہی سے عبرت دلا، ان کی اجڑی بستیوں میں گشت کر، ان کی عمارتوں کے کھنڈر دیکھ اور دل سے سوال کر، ان لوگوں نے کیا کیا؟ کہاں چلے گئے؟ کدھر رخصت ہوگئے؟ کہاں جا کر آباد ہوگئے؟ ایسا کرنے سے تجھے معلوم ہوجائے گا کہ وہ اپنے دوست و احباب سے جدا ہوگئے، ویرانوں میں جا بسے اور تو بھی بس دیکھتے ہی دیکھتے انہی جیسا ہو جائے گا۔‘‘
فرزند!’’(میں تجھے وصیت کرتا ہوں) خدا سے خوف کر، اس کے حکم پر کاربند ہو۔ اس کے ذکر سے قلب کو آباد کر۔ اسی کی رسی کو مضبوطی سے تھام کیونکہ اس رشتے سے زیادہ مستحکم کوئی رشتہ نہیں جو تجھ میں اور تیرے خدا میں موجود ہے، بشرطیکہ تو خیال کرے۔ لہٰذا اپنی جگہ درست کر لے۔ آخرت کو دنیا کے بدلے نہ بیچ، بے عملی کی حالت میں بولنا چھوڑ دے، بے ضرورت گفتگو سے پرہیز کر، جس راہ میں بھٹک جانے کا اندیشہ ہو اس سے باز رہ، کیونکہ قدم کا روک لینا ہولناکیوں میں پھنسنے سے بہتر ہے۔
تُو نیکی کی تبلیغ کرے گا تو نیکوں میں سے ہو جائے گا۔ برائی کو اپنی زبان سے برا ثابت کر، بروں سے الگ رہ،خدا کی راہ میں جہاد کر، جیسا جہاد کرنے کاحق ہے۔ خدا کے معاملے میں ملامت کرنے والوں کی ملامت سے نہ ڈر۔ حق کے لیے مصائب کے طوفان میں کود جا۔دین میں تفقہ حاصل کر۔ مصائب کی برداشت کا عادی بن،کیونکہ برداشت کی قوت بہترین قوت ہے۔ سب کاموں میں اپنے لیے خدا کی پناہ تلاش کر، اسی طرح تو مضبوط جائے پناہ اور غیر مسخر قلعے میں پہنچ جائے گا۔اپنے خدا سے دعا کرنے میں کسی کو شریک نہ کر، کیونکہ بخشش وعطا، منع و حرمان، سب خدا ہی کے ہاتھ میں ہے۔ استخارہ زیادہ کیا کر۔ میری یہ وصیت خوب سمجھ لے۔ اس سے روگردانی نہ کرنا، وہی بات ٹھیک ہوتی ہے جو مفید ہوتی ہے۔ بے فائدہ علم بے کار ہے اور اس کی طلب ناروا‘‘۔
فرزند!’’میری عمر اتنی دراز نہیں جتنی اگلوں کی ہوا کرتی تھی، تاہم میں نے ان کی زندگی پر غور اور ان کے حالات میں تفکر کیا ہے، ان کے پیچھے بحث و جستجو میں نکلا ہوں۔ حتی کہ اب میں انہی کا ایک فرد ہو چکا ہوں بلکہ ان کے حالات سے حددرجہ واقف ہونے کی وجہ سے گویا ان کا اور ان کے بزرگوں کا ہم سن بن گیا ہوں۔اسی طرح یہاں کا شیریں و تلخ، سفید و سیاہ، سودوزیاں، سب مجھ پر کھل گیا ہے۔ اس سب میں سے میں نے تیرے لیے ہر اچھی بات چن لی ہے، ہر خوشنما چیز منتخب کرلی ہے۔ ہر بری اور غیرضروری بات تجھ سے دور رکھی ہے اور چونکہ مجھے تیرا ویسا ہی خیال ہے جیسا شفیق باپ کو بیٹے کا ہوتا ہے، اس لیے میں نے چاہا کہ یہ وصیت ایسی حالت میں ہو کہ تو ابھی کم عمر ہے، دنیا میں نووارد ہے۔ تیرا دل سلیم ہے، نفس پاک ہے۔ پہلے میں نے ارادہ کیا تھا کہ تجھے صرف کتاب اﷲ اور اس کی تفسیر اور شریعت اور اس کے احکام حلال و حرام کی تعلیم دوں گا، پھر خوف ہوا، مبادا تجھے بھی اسی طرح شکوک و شبہات گھیر لیں گے جس طرح لوگوں کو نفس پرستی کی وجہ سے گھیر چکے ہیں لہٰذا میں نے یہ وصیت ضروری سمجھی۔ یہ تجھ پر شاق ہو سکتی ہے مگر میں نے اسے پسند کرلیا اور گوارا نہ کیا کہ ایسی راہ میں تجھے تنہا چھوڑ دوں جس میں ہلاکت کا اندیشہ ہے۔ امید ہے خدا میری وصیت کے ذریعے تجھے ہدایت دے گا اور سیدھی راہ کی طرف تیری رہنمائی کرے گا ۔‘‘